مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ بگرام پر دوبارہ قبضے کے لیے اشتعال انگیز بیانات علاقائی کشیدگی اور پیچیدگیوں میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔ روس نے بھی حالیہ مہینوں میں متعدد بار مغربی، بالخصوص امریکی، افغانستان میں فوجیوں کی واپسی کی کوششوں کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بگرام ایئر بیس پر دوبارہ قبضے کی کوشش کے بارے میں امریکی صدر کے ریمارکس کے جواب میں چین نے اس بات پر زور دیا کہ خطے میں کشیدگی کو ہوا دینے اور تصادم کی فضا پیدا کرنے جیسی سوچ کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہے اور افغانستان کے مستقبل کا تعین ملک کے عوام کو کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانوی وزیراعظم کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں بگرام ایئر بیس کو دوبارہ حاصل کرنے پر سنجیدہ لہجے میں زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ بگرام بیس چین کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے مراکز سے صرف ایک گھنٹے کی دوری پر ہے اور ہم اس اسٹریٹجک بیس کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان بیانات کے جواب میں چین نے ایک بار پھر خطے میں کشیدگی کو ہوا دینے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لن جیان نے کہا کہ چین افغانستان کی آزادی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے، افغانستان کا مستقبل اس کے عوام کے ہاتھ میں ہونا چاہیے، ہم تمام فریقین سے علاقائی امن اور استحکام کے لیے تعمیری کردار ادا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس سے قبل طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اعلان کیا تھا کہ افغان سرزمین کا ایک انچ بھی غیر ملکی فوجی موجودگی کے لیے قابل قبول نہیں ہے اور امریکہ کے ساتھ بات چیت صرف سیاسی اور اقتصادی ہوگی۔ طالبان حکومت کے وزیر خارجہ کے مشیر ذاکر جلالی نے ٹرمپ کے بیانات کے جواب میں زور دیا تھا کہ طالبان افغانستان میں کسی بھی غیر ملکی فوجی کی موجودگی کو قبول نہیں کرتے، حالانکہ وہ امریکہ کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی بات چیت کو ممکن سمجھتے ہیں۔

مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ بگرام پر دوبارہ قبضے کے لیے اشتعال انگیز بیانات علاقائی کشیدگی اور پیچیدگیوں میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔ روس نے بھی حالیہ مہینوں میں متعدد بار مغربی، بالخصوص امریکی، افغانستان میں فوجیوں کی واپسی کی کوششوں کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ بگرام ایئر بیس کسی زمانے میں افغانستان میں سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ تھا اور اگست 2021 میں امریکی افواج کے انخلاء کے بعد طالبان حکومت کے کنٹرول میں آیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد بار چین کی نگرانی اور انسداد دہشت گردی کے مراکز کے قیام سمیت تزویراتی مقاصد کے لیے اس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے بیس کو دوبارہ حاصل کرنے کی ضرورت کی بات کی ہے۔ چین نے بھی بارہا ٹرمپ کے بگرام کے بارے میں بیانات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اس کا ماننا ہے کہ افغانستان اور خطے میں کسی بھی فوجی کشیدگی سے پڑوسی ممالک کے استحکام اور سلامتی کو خطرہ ہے۔ 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: افغانستان میں خبردار کیا ہے کے بارے میں کے لیے ہے اور

پڑھیں:

امریکا اور برطانیہ کے ’جوہری معاہدے‘ میں کیا کچھ شامل ہے؟

برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اربوں پاؤنڈ مالیت کا معاہدہ کیا ہے جس کے تحت دونوں ممالک میں جدید جوہری توانائی کو فروغ دیا جائے گا۔

الجزیرہ کے مطابق یہ معاہدہ "اٹلانٹک پارٹنرشپ فار ایڈوانسڈ نیوکلیئر انرجی" کے نام سے جانا جا رہا ہے جس کا مقصد نئے ری ایکٹرز کی تعمیر کو تیز کرنا اور توانائی کے بڑے صارف شعبوں، خصوصاً مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز، کو کم کاربن اور قابلِ بھروسہ بجلی فراہم کرنا ہے۔

اس معاہدے کے تحت برطانیہ کی سب سے بڑی توانائی کمپنی ’سینٹریکا‘ کے ساتھ امریکی ادارے ایکس انرجی مل کر شمال مشرقی انگلینڈ کے شہر ہارٹلی پول میں 12 جدید ماڈیولر ری ایکٹرز تعمیر کرے گی۔

یہ منصوبہ 15 لاکھ گھروں کو بجلی فراہم کرنے اور 2,500 ملازمتیں پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکی کمپنی ہولٹیک، فرانسیسی ادارہ ای ڈی ایف انرجی اور برطانوی سرمایہ کاری فرم ٹریٹیکس مشترکہ طور پر نوٹنگھم شائر میں چھوٹے ماڈیولر ری ایکٹرز (SMRs) سے چلنے والے ڈیٹا سینٹرز تعمیر کریں گے۔

اس منصوبے کی مالیت تقریباً 11 ارب پاؤنڈ (15 ارب ڈالر) بتائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، برطانوی رولز رائس اور امریکی بی ڈبلیو ایکس ٹی کے درمیان جاری تعاون کو بھی مزید وسعت دی جائے گی۔

برطانیہ کے پرانے جوہری پلانٹس فی الحال برطانیہ میں 8 جوہری پاور اسٹیشنز موجود ہیں جن میں سے 5 بجلی پیدا کر رہے ہیں جب کہ 3 بند ہوچکے ہیں اور ڈی کمیشننگ کے مرحلے میں ہیں۔

یہ زیادہ تر 1960 اور 1980 کی دہائی میں تعمیر ہوئے تھے اور اب اپنی مدتِ کار کے اختتامی مرحلے پر ہیں۔ موجودہ توانائی صورتحال برطانیہ اپنی بجلی کا تقریباً 15 فیصد جوہری توانائی سے حاصل کرتا ہے جو 1990 کی دہائی کے وسط میں 25 فیصد سے زائد تھی۔

خیال رہے کہ 2024 میں پہلی مرتبہ ہوا سے پیدا ہونے والی توانائی (ونڈ پاور) نے ملک کا سب سے بڑا بجلی کا ذریعہ بن کر گیس سے بجلی پیدا کرنے کے عمل کو پیچھے چھوڑ دیا تھا جو کُل بجلی کا تقریباً 30 فیصد ہے۔

امریکا کے لیے یہ معاہدہ نہ صرف امریکی جوہری ٹیکنالوجی کی برآمدات کو بڑھائے گا بلکہ برطانوی اور امریکی کمپنیوں کے درمیان تجارتی تعلقات کو بھی مضبوط کرے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پورے پروگرام سے 40 ارب پاؤنڈ (54 ارب ڈالر) کی معاشی قدر پیدا ہونے کا امکان ہے۔

دنیا بھر میں ایڈوانسڈ نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی مانگ 2050 تک تیزی سے بڑھنے کی توقع ہے۔

امریکا میں بھی جوہری توانائی کی طلب 100 گیگا واٹ سے بڑھ کر 400 گیگا واٹ تک پہنچنے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے جس کے لیے صدر ٹرمپ نے ملک کی جوہری پیداواری صلاحیت کو چار گنا کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

عالمی اوسط کے مطابق ایک جوہری ری ایکٹر کی تعمیر میں تقریباً 7 سال لگتے ہیں تاہم چین میں یہ مدت پانچ سے چھ سال ہے جبکہ جاپان نے ماضی میں کچھ ری ایکٹرز صرف تین سے چار سال میں مکمل کیے تھے۔

 

متعلقہ مضامین

  • بگرام ایئربیس چھوڑنا شرمناک، واپسی کیلئے افغانستان سے مذاکرات جاری ہیں: ٹرمپ
  • امریکا اور افغانستان میں بگرام ایئربیس پر مذاکرات کا آغاز، صدر ٹرمپ کی تصدیق
  • بگرام ائیر بیس بارے ٹرمپ کے بیان پر افغانستان کا ردعمل
  • صدر ٹرمپ طالبان سے بگرام ائیر بیس واپس کیوں لینا چاہتے ہیں؟
  • تاریخ گواہ ہے افغانستان نے اپنی سرزمین پر کبھی بیرونی افواج کو تسلیم نہیں کیا ہے.افغان وزارت خارجہ
  • امریکا بگرام ائر بیس کی واپسی کیوں چاہتا ہے؟
  • طالبان سے بگرام ایئربیس واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، صدر ٹرمپ
  • افغانستان میں بگرام ایئربیس کا کنٹرول واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، صدر ٹرمپ
  • امریکا اور برطانیہ کے ’جوہری معاہدے‘ میں کیا کچھ شامل ہے؟