پنجاب میں سرکاری بھرتی کا نیا آرڈیننس نافذ، مستقل نوکری اور پنشن ختم
اشاعت کی تاریخ: 5th, November 2025 GMT
اب مجوزہ قانون کے مطابق محکمانہ بھرتیاں یکمشت پیکیج پر ہوں گی اور نئے کنٹریکٹ ملازمین پوری سروس کنٹریکٹ پر ہی رہیں گے، وہ پنشن یا مستقل حیثیت کے مستحق نہیں ہوں گے۔ آرڈیننس کے نفاذ کے بعد موجودہ کنٹریکٹ ملازمین کے مستقبل سے متعلق ابہام بھی سامنے آیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پنجاب حکومت نے سرکاری بھرتیوں کا طریقہ کار تبدیل کرتے ہوئے نئے آرڈیننس کے تحت ملازمین کی تقرری بنیادی تنخواہ کے سکیل کے بجائے یکمشت پیکیج پر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس نئے نظام کے تحت بھرتی ہونیوالے ملازمین پنشن کے اہل نہیں ہوں گے۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب ریگولرائزیشن آف سروس (ری پیل) آرڈیننس 2025 یکم نومبر سے نافذ کر دیا گیا ہے اور اسے پنجاب اسمبلی میں پیش بھی کر دیا گیا ہے۔ اس آرڈیننس کے ذریعے پنجاب ریگولرائزیشن آف سروس ایکٹ 2018 کو باضابطہ طور پر منسوخ کر دیا گیا ہے۔ حکومتی حکام کے مطابق اس فیصلے کے پیچھے بنیادی وجہ صوبائی خزانے پر بڑھتے ہوئے پنشن کے مالی بوجھ کو کم کرنا ہے۔
حکومت نئے سسٹم کے تحت سرکاری بھرتیوں کو مستقل سکیل کے بجائے یکمشت تنخواہ پر منتقل کر رہی ہے۔ 2018 کے قانون کے خاتمے کے بعد کنٹریکٹ ملازمین کی 4 سالہ ملازمت کے بعد مستقل ہونے کا عمل فوری طور پر روک دیا گیا ہے، تاہم آرڈیننس نے منسوخ شدہ قانون کے تحت کیے گئے تمام فیصلوں کو تحفظ دیا ہے۔ منسوخ شدہ قانون کے مطابق، کنٹریکٹ ملازمین 4 سالہ تسلی بخش کارکردگی، باقاعدہ اسامی اور مطلوبہ قابلیت کی صورت میں مستقل ہونے کے اہل تھے، جس پر باقاعدہ کمیشن سفارشات دیتا تھا۔
اب مجوزہ قانون کے مطابق محکمانہ بھرتیاں یکمشت پیکیج پر ہوں گی اور نئے کنٹریکٹ ملازمین پوری سروس کنٹریکٹ پر ہی رہیں گے، وہ پنشن یا مستقل حیثیت کے مستحق نہیں ہوں گے۔ آرڈیننس کے نفاذ کے بعد موجودہ کنٹریکٹ ملازمین کے مستقبل سے متعلق ابہام بھی سامنے آیا ہے۔ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ نیا آرڈیننس ان پر اثر انداز نہیں ہوتا، جبکہ کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اقدام ان کی مستقل ہونے کی اہلیت پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کنٹریکٹ ملازمین آرڈیننس کے دیا گیا ہے قانون کے کے مطابق کے بعد کے تحت
پڑھیں:
قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی خود مختاری یقینی بنائی جائے، جاوید قصوری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور (وقائع نگارخصوصی)امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری نے کہا ہے کہ 2025ء کے رول آف لا انڈیکس میں پاکستان کا مسلسل 130واں نمبر حکمرانوں کی بد ترین کارکردگی کا مظہر ہے۔قانون کی حکمرانی میں پاکستان، بھارت سے بھی پیچھے ہے، اسی انڈیکس میں بھارت کا نمبر 79واں ہے جبکہ پاکستان سے نیچے وینزویلا،افغانستان، سوڈان جیسے ممالک ہیں۔ عدل و انصاف اور قانون کی بالادستی صرف اس معاشرے میں قائم کی جا سکتی ہے جہاں اخلاقیات کے درجے بلند ہوں۔ اخلاقیات کے معیار پر ہی پارلیمانی نظامِ حکومت کامیابی سے چلایا جا سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں جو بھی ملک آگے بڑھے ہیں ان کے پاس اخلاقیات اور انصاف کے اوصاف تھے۔ ہم ملک میں قانون کی بالادستی قائم کرنے،فرسودہ نظام کے خاتمے، انصاف اور قانون کی بالادستی کی جنگ لڑتے رہیں گے۔ملک میں طاقتوروں کو قانون کے نیچے لے کر آنا ہو گا۔ جب تک ملک میں قانون کی بالادستی قائم نہیں ہو جاتی ملک میں بہتر جمہوریت کا تصور نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ملک میں خوش حالی آ سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جس ریاست میں قانون کی حکمرانی نہ ہو وہاں کی جمہوریت بھی مادر پدر آزاد ہو جاتی ہے۔ایسی جمہوریت جو آئین اور قانون کی پابند ہی نہ ہو وہ سیاسی اور معاشی استحکام کبھی پیدا نہیں کر سکتی۔ وہ لوگ جو منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں وہ بھی پارلیمنٹ کے اندر کھلم کھلا آئین قانون اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ جن ملکوں میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی وہاں پر ناانصافی بددیانتی، کرپشن اور مہنگائی جیسے جرائم عروج پر ہوتے ہیں۔محمد جاوید قصوری نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خودمختاری کو یقینی بنایا جائے تاکہ اثر ورسوخ کے بغیر انصاف فراہم کیا جا سکے۔بدعنوانی کے خلاف جامع پالیسی اور مؤثر احتساب کا نظام نافذ کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لئے معاشرتی امن و قانون پر توجہ مرکوز کرنا، پولیس اصلاحات، مسلح فرقہ وارانہ واقعات کی روک تھام، اور تنازعات کا جلد حل یقینی بنانا ہو گا۔حکومتی اختیارات کی حد بندی کو مضبوط کرنا، شفافیت میں اضافہ اور عوامی شراکت کو فروغ دینا چاہیے۔