data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

غزہ کے جنوبی علاقے رفح میں حماس کے ساتھ جھڑپ کے دوران اسرائیلی فوج کا ایک اور اہلکار ہلاک ہوگیا، جس کے بعد اسرائیل نے غزہ بھر میں شدید فضائی بمباری کرتے ہوئے درجنوں مقامات کو نشانہ بنایا۔

عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ مارا گیا اہلکار 37 سالہ یونا ایفرائیم فیلڈباؤم تھا جو ماسٹر سارجنٹ کے عہدے پر فائز تھا،  اسرائیلی فوج کے بیان میں کہا گیا کہ فیلڈباؤم کو حماس کے ایک اسنائپر نے اُس وقت نشانہ بنایا جب وہ ایک عمارت کی کھدائی میں مصروف مشین چلا رہا تھا، جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔

بیان کے مطابق اہلکار کی ہلاکت کے بعد حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیلی فوج کی بکتر بند گاڑی پر آر پی جی راکٹوں سے حملہ کیا، تاہم بکتر میں سوار فوجی اہلکار محفوظ رہے اور علاقے سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔

اسرائیلی فوج نے الزام عائد کیا کہ حماس کا یہ حملہ غزہ میں نافذ جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس کے بعد اسرائیلی فضائیہ نے رفح سمیت غزہ کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر جوابی کارروائی کی،  ان حملوں میں مبینہ طور پر حماس کے مانیٹرنگ سیلز، اسلحہ سازی کے مراکز، راکٹ لانچنگ سائٹس اور زیر زمین سرنگوں کو نشانہ بنایا گیا۔

فوجی ترجمان کے مطابق ان فضائی حملوں میں حماس کے دو بٹالین کمانڈرز، دو نائب کمانڈرز اور 16 کمپنی کمانڈرز سمیت متعدد جنگجو شہید  ہوئے۔

غزہ کی وزارتِ صحت نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی بمباری میں 104 فلسطینی شہری شہید ہوئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جبکہ متعدد عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔

اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے فوج کو طاقتور جوابی کارروائی جاری رکھنے کی ہدایت دی، یہ کہتے ہوئے کہ حماس نے 13 اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں واپس نہ کر کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔

دوسری جانب حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈز نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے غزہ میں دو مزید اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں برآمد کی ہیں،  انہیں اسرائیلی حکام کے حوالے نہیں کیا گیا۔

خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسرائیلی فوج حماس کے

پڑھیں:

حماس کے قیام کی سالگرہ، فلسطین میں مزاحمت کی گہری جڑیں (2)

اسلام ٹائمز: 15 دسمبر 1987 کو باضابطہ طور پر حماس نے اپنا قیام نامہ جاری کیا، تاہم اس کی تشکیل کی ابتدائی چنگاریاں گزشتہ صدی کی چالیس کی دہائی سے جڑی ہوئی ہیں۔ 1948 میں فلسطین پر قبضے کے بعد پیش آنے والے واقعات، اور خصوصاً 1967 میں عرب ممالک کی شکست کے بعد کی صورتحال نے حماس کے وجود کے لیے زمین ہموار کی۔ یہ حالات دو بنیادی عوامل کا نتیجہ تھے: ایک فلسطین کے سیاسی منظرنامے میں آنے والی تبدیلیاں اور ان کے اثرات جو 1987 کے اختتام تک جاری رہے، اور دوسرا اسلامی بیداری کی تحریک اور اس کے بعد کے واقعات۔ حماس کے ظہور کی جڑیں دراصل انہی عوامل میں پیوست ہیں جنہوں نے مجموعی طور پر فلسطینی مزاحمت کو جنم دیا۔ وہ مرحلہ جب فلسطینی عوام نے صہیونیوں کی وحشیانہ جارحیت اور جرائم کے بعد یہ حقیقت جان لی کہ وہ زندگی اور موت کے سوال سے دوچار ہیں اور انہیں خود کوئی راستہ نکالنا ہوگا۔ خصوصی رپورٹ: 
(گذشتہ سے پیوستہ)

حماس کی جدوجہد کا سفر:
تاہم تحریکِ حماس، جو فلسطین کی سب سے بڑی اور معروف مزاحمتی تحریک ہے اور جس نے عظیم حماسۂ طوفانُ الاقصیٰ کو رقم کیا، فلسطینی عوام کی جدوجہد کی تاریخ میں ایک طویل پس منظر رکھتی ہے۔ آج اس تحریک کے قیام کی اڑتیسویں سالگرہ ہے، اور اسی مناسبت سے بہتر ہے کہ اس تحریک کی ابتدا سے لے کر آج تک کے ارتقائی مراحل پر ایک نظر ڈالی جائے۔ ’’حماس‘‘ دراصل ’’تحریکِ مزاحمتِ اسلامی فلسطین‘‘ کا مخفف ہے۔ یہ ایک عوامی تحریک ہے جس کا مقصد صہیونیوں اور ان کے حامیوں کے ظلم و جارحیت سے فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے ضروری حالات پیدا کرنا ہے۔ یہ انقلابی تحریک، جو عوام کی وسیع حمایت سے برخوردار ہے، اس عقیدے پر قائم ہے کہ وہ فلسطین کی آزادی تک، ندی سے سمندر تک، اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔

حماس نے 15 دسمبر 1987 کو باضابطہ طور پر اپنا قیام نامہ جاری کیا، تاہم اس کی تشکیل کی ابتدائی چنگاریاں گزشتہ صدی کی چالیس کی دہائی سے جڑی ہوئی ہیں۔ 1948 میں فلسطین پر قبضے کے بعد پیش آنے والے واقعات، اور خصوصاً 1967 میں عرب ممالک کی شکست کے بعد کی صورتحال نے حماس کے وجود کے لیے زمین ہموار کی۔ یہ حالات دو بنیادی عوامل کا نتیجہ تھے: ایک فلسطین کے سیاسی منظرنامے میں آنے والی تبدیلیاں اور ان کے اثرات جو 1987 کے اختتام تک جاری رہے، اور دوسرا اسلامی بیداری کی تحریک اور اس کے بعد کے واقعات۔ حماس کے ظہور کی جڑیں دراصل انہی عوامل میں پیوست ہیں جنہوں نے مجموعی طور پر فلسطینی مزاحمت کو جنم دیا۔ وہ مرحلہ جب فلسطینی عوام نے صہیونیوں کی وحشیانہ جارحیت اور جرائم کے بعد یہ حقیقت جان لی کہ وہ زندگی اور موت کے سوال سے دوچار ہیں اور انہیں خود کوئی راستہ نکالنا ہوگا۔

اسی طرح، فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی جانب سے بتدریج فلسطینی مقصد سے پیچھے ہٹنے اور بعد ازاں صہیونی رجیم کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرنے کے بعد ایک حقیقی مزاحمتی تحریک کی ضرورت شدید طور پر محسوس کی جانے لگی۔ مزید برآں، عرب حکومتوں کی جانب سے فلسطین کے مسئلے کو نظرانداز کیے جانے اور عرب دنیا میں صہیونیوں کے ساتھ مفاہمت کے رجحان کے فروغ کے باعث، اسلامی نقطۂ نظر پر مبنی ایک جہادی تحریک کا قیام ناگزیر ہو گیا تھا۔ اس تحریک کے ابتدائی آثار 1981 میں ظاہر ہوئے اور 1983 میں شیخ احمد یاسین کی قیادت میں مختلف جہادی گروہوں کے قیام کے ساتھ یہ رجحان مزید واضح ہو گیا۔ حماس کے فکری اور جدوجہدی تصور میں، صہیونیوں کے خلاف لڑائی محض ایک جارح رجیم کے ساتھ تصادم نہیں، بلکہ یہ ایک نئے نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد ہے جو عرب اور اسلامی دنیا کے وسائل اور دولت کو لوٹنے اور اپنی اقتصادی، سیاسی، فوجی اور فکری بالادستی قائم کرنے کے درپے ہے۔

اس تحریک کے نزدیک صہیونی رجیم کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ فلسطین کی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے، جہاد اور مزاحمت کے جذبے کو زندہ رکھا جائے، سازشوں اور مفاہمتی منصوبوں کا مقابلہ کیا جائے اور فلسطینی سرزمین کے مزید حصوں کی جدائی کو روکا جائے، یہاں تک کہ پورے عرب اور اسلامی عالم میں ایک مضبوط سیاسی اور مزاحمتی ارادہ پیدا ہو جائے جو صہیونیوں کو نکال باہر کرنے کا باعث بن سکے۔ تحریکِ حماس کے بانی شیخ احمد یاسین، غزہ کی اسلامی مجلس کے سربراہ تھے جنہوں نے فلسطین کے اسلامی کارکنوں کے ایک گروہ کے ساتھ مل کر سنہ 1987 میں غزہ کی پٹی میں تحریکِ حماس کی بنیاد رکھی۔ شیخ احمد یاسین کو صہیونی دشمن نے متعدد بار گرفتار کیا اور عمر قید کی سزا سنائی، تاہم اکتوبر 1997 میں قیدیوں کے تبادلے کے ایک معاہدے کے تحت انہیں رہائی ملی۔

شیخ احمد یاسین نے اپنی پوری زندگی صہیونی قبضے کے خلاف دلیرانہ جدوجہد میں گزاری، یہاں تک کہ بالآخر 22 مارچ 2004 کو صہیونی رجیم نے انہیں شہید کر دیا۔ وہ غزہ شہر میں فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد مسجد سے اپنے گھر کی جانب جا رہے تھے کہ قابض فوج کے ہیلی کاپٹروں نے انہیں نشانہ بنایا اور وہ جامِ شہادت نوش کر گئے۔ 

پتھروں کی انتفاضہ سے شمشیر القدس اور حماسۂ طوفانُ الاقصیٰ تک:
تحریکِ حماس ہمیشہ فلسطینی عوامی جدوجہد اور مزاحمت کی قیادت کرتی رہی ہے، اور دیگر مزاحمتی گروہ بھی اس تحریک کے شانہ بشانہ قابض دشمن کے خلاف برسرِپیکار رہے ہیں۔ قیام کے بعد سے حماس نے دشمن کے ساتھ متعدد معرکوں میں حصہ لیا ہے، جن میں حالیہ برسوں کی جنگیں سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ ان معرکوں میں ایک تاریخی جنگ „شمشیرِ قدس“ بھی شامل ہے جو 10 مئی 2021 کو شروع ہوئی۔ اس وقت غزہ میں حماس کی قیادت میں فلسطینی مزاحمت نے بیت المقدس اور مسجدِ اقصیٰ کے دفاع کے لیے صہیونی جارحیت کے خلاف جنگ کا آغاز کیا۔ یہ معرکہ، جس نے فلسطینی–صہیونی تصادم کی تاریخ میں نئی مساوات قائم کیں، 11 دن تک جاری رہا اور بالآخر صہیونی رجیم کو جنگ بندی کی درخواست کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

یہ معرکہ فلسطین میں ایک بالکل نئی صورتِ حال لے آیا، اور وہ تھی مزاحمت کی پیشگی حملے کی حکمتِ عملی۔ اس سے قبل صہیونی رجیم اس بات کی عادی ہو چکی تھی کہ جنگ کا آغاز وہ خود کرتی ہے اور فلسطینی مزاحمت محض دفاع پر اکتفا کرتی ہے، لیکن اس معرکے میں صہیونیوں کو یہ حقیقت سمجھ آ گئی کہ اب وہ مزاحمت کے حملوں سے محفوظ نہیں رہے۔ یہی امر صہیونی رجیم کے خلاف ایک شدید بازدارندگی کا باعث بنا، جو جیسا کہ ذکر کیا گیا، آج بھی برقرار ہے اور صہیونی حکمران اس پر قابو پانے کے لیے تاحال ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ اسی بنیاد پر بہت سے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ شمشیرِ قدس ہی اس عظیم حماسۂ طوفانُ الاقصیٰ کی بنیاد بنا، جو ڈھائی سال بعد 7 اکتوبر 2023 کو وقوع پذیر ہوا۔ یہ حملہ نہ صرف صہیونی رجیم کے جعلی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ گیا بلکہ پوری دنیا کو چونکا دیا، اور اس کے اثرات و نتائج آج تک جاری ہیں۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ فلسطینی مزاحمت نے صہیونی دشمن کے مقابلے میں اس نئی حکمتِ عملی پر عمل درآمد کے لیے برسوں پہلے سے تیاری شروع کر دی تھی۔ اپنی عسکری صلاحیتوں اور جنگی آمادگی میں اضافہ، نیز نئی فوجی جہتوں میں داخل ہونا، جیسے ڈرون جنگ اور الیکٹرانک وارفیئر، جو ہائبرڈ جنگ میں مزاحمت کی صلاحیت کا مظہر ہیں، اس حکمتِ عملی کا حصہ تھے۔ صہیونی رجیم، جو امریکہ اور مغرب کی پشت پناہی سے جدید ترین عسکری اور انٹیلیجنس آلات سے لیس ہے، حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کو روکنے میں ناکام رہی، اور اس طرح فلسطینی مجاہدین کو اپنے حملہ آور منصوبے کو انتہائی مؤثر انداز میں عملی جامہ پہنانے کا موقع ملا۔ یہاں تک کہ خود صہیونی فوج کے جرنیلوں نے بھی آپریشن طوفانُ الاقصیٰ کو تاریخ کا بہترین کمانڈو حملہ قرار دیا۔

حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے محصور غزہ کی پٹی میں انتہائی محدود وسائل کے ساتھ دو سال سے زائد عرصے تک اُس فوج کے خلاف جنگ لڑی جو دنیا کی سب سے بڑی طاقتوں کی بھرپور حمایت سے لیس ہے، اور اس طرح اسرائیل کو ایک طویل اور تھکا دینے والی جنگ میں الجھا دیا۔ اس تناظر میں صہیونی مصنف یائیر اسولین لکھتا ہے: حتیٰ کہ اگر ہم پورے مشرقِ وسطیٰ پر بھی قبضہ کر لیں، تب بھی غزہ کے خلاف جنگ میں فتح حاصل نہیں کر سکتے۔ یوں حماس اور مجموعی طور پر فلسطینی مزاحمت، گزشتہ دہائیوں کے دوران ایک نہایت کٹھن اور نشیب و فراز سے بھرپور راستہ طے کرنے اور بے شمار پیچیدہ چیلنجز کا سامنا کرنے کے باوجود، آج تک دنیا کی بڑی طاقتوں کی سرپرستی میں چلنے والی سب سے وحشی قتل گاہ مشین کے مقابل ڈٹی ہوئی ہے۔ ایمان کی قوت اور مضبوط ارادے کے سہارے وہ اب بھی اپنی سرزمین کی آزادی اور عالمی سطح پر فلسطینی کاز کے منصفانہ مقام کے استحکام کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔

ختم شد

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں 14فلسطینی شہید۔اسرائیل نے 19 یہودی بستیوں کو قانونی حیثیت دیدی
  • حماس کے قیام کی سالگرہ، فلسطین میں مزاحمت کی گہری جڑیں (2)
  • بلوچستان،ایک سال میں707دہشت گرد ہلاک، 202اہلکار شہید ہوئے، حمزہ شفقات
  • 2025 میں بلوچستان میں 78 ہزار آپریشنز میں 707 دہشتگرد ہلاک ہوئے، حمزہ شفقات
  • آسٹریلیا کے بونڈی بیچ پر یہودی تہوار کے دوران فائرنگ، 10 افراد ہلاک
  • غزہ سٹی:اسرائیل کا گاڑی پر فضائی حملہ،حماس کے اہم ترین کمانڈر سعد عدسا 2 ساتھیوں سمیت شہید
  • اسرائیلی فضائی حملے میں شہادت پانے والے بہادر اور جری حماس کمانڈر رعد سعد کون ہیں؟
  • اسرائیل: کار پر فضائی حملے میں حماس کے اہم کمانڈر دو ساتھیوں سمیت شہید
  • اسرائیلی فوج کی غزہ سٹی میں کارروائی، حماس کے اہم کمانڈر کو شہید کرنے کا دعویٰ
  • اسرائیل نے حماس کے اہم کمانڈر کو نشانہ بنایا، فضائی حملے میں 3 فلسطینی شہید