Express News:
2025-09-21@23:42:36 GMT

ہلدر ناگ

اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT

ہلدر‘ گلی میں سویا ہوا تھا‘ کوئی ڈیڑھ دو بجے کا وقت تھا ۔ ضلع بارگڑہ کا ڈپٹی کمشنر ‘ سرکاری گاڑی میں اسے ڈھونڈ رہا تھا۔پولیس کمشنر اور تمام اہلکار بھی ‘ اس غریب آدمی کی تلاش میں ہلکان تھے۔ اتفاق سے ‘بازار میں ایک ریڑھی والا‘ چنے بیچ رہا تھا۔ اہلکاروں نے پوچھا کہ ہلدر کہاں ملے گا ۔ چنے فروش کو کچھ پلے نہیں پڑا۔ اس جگہ پر سیکڑوں ہلدر ہیں۔ آپ کس ہلدر کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ سرکاری ملازموں کے لیے یہ ایک نئی مشکل تھی۔ ڈپٹی کمشنر سے پوچھا کہ جناب یہاں تو گلیوں میں اس نام کے ان گنت لوگ موجود ہیں۔

اس نے سوچ کر جواب دیا کہ ہلدر جو شاعر ہے اس کو تلاش کرنا ہے۔ سرکاری ملازمین کے پاس ایک حوالہ تھا۔ دوبارہ اس ریڑھی والے کے پاس گئے۔ پوچھا کہ ہمیں اس ہلدر کی تلاش ہے جو شاعرہے۔ جواب آیا کہ آپ اس کوی کو تلاش کر رہے ہیں، وہ تو ساتھ والی گلی میں اپنی چھوٹی سی دکان کے تھڑے پر سویا ہو گا۔ ڈپٹی کمشنرکو وائرلیس پر بتایا گیا۔ خود تھڑے پر گیا۔ وہاں ‘ کالے رنگ کا ایک ادھیڑ عمر دبلا پتلا شخص ‘ میٹھی نیند سو رہا تھا۔ اسے جگایا گیا۔ دریافت کیا کہ آپ کا نام ہی ہلدر ہے۔ جی میرا نام ہی ہلدر ناگ ہے۔ کیا آپ شاعر ہیں۔

جی جناب مقامی زبان میں کچھ لکھ ہی لیتا ہوں۔ آپ کو‘ ہندوستان کے صدر نے یاد کیا ہے۔ اور آپ کو پدماشری ایوارڈ دینے کا حکم جاری کیا ہے۔ ہلدر بھونچکا رہ گیا۔ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کے ملک کا صدر‘ اس سے ملنے کا خواہش مند ہے اور اسے قومی اعزاز سے نوازنا چاہتا ہے۔ پر یہاں سے ایک اور مسئلہ شروع ہوتا ہے۔ ہلدر‘ صرف بغیر بازوؤں کی سفید بنیان اورلنگی پہنتا تھا۔ زندگی میں کبھی جوتے نہیں پہنے تھے۔ ننگے پیر پھرتا تھا۔ بہت سمجھایا گیا کہ صدارتی تقریب میں اہم ترین لوگ موجود ہوں گے۔

آپ کا اس طرح قصر صدارت میں جانا مناسب نہیں ہے۔ مگر شاعر نے جواب دیا کہ وہ اس لباس کے سوا کچھ بھی نہیں پہنتا ‘ اوریہی اس کا اصل پہناوہ ہے۔ اگلے دن‘ صبح سرکاری جہاز آیا۔ ہلدر‘ بنیان اور لنگی میں ملبوس ننگے پیر سوار ہوا۔ دہلی لے جایا گیا۔ قصر صدارت میں ٹھہرایاگیا۔ اگلے دن‘ ہندوستان کا بڑا ایوارڈ ’’پدما شری‘‘ سے نوازا گیا۔ اس تقریب کی تصاویر جب شایع ہوئیں تو لوگ ششدر رہ گئے۔

ہندوستان کا صدر‘ ایک دھوتی بنیان میں ملبوس انسان کو‘ بہت احترام سے ایوارڈ پیش کر رہا تھا۔ اس طرح جیسے کہ یہ اس ایوارڈ کی عزت نہیں‘ بلکہ اس شخص کا احترام ہو‘ جسے یہ دیا جا رہا ہے۔ سب کے ذہن میں سوال تھا کہ یہ عجیب حلیہ والا میلا کچیلا شخص کون ہے؟ آپ کے ذہن میں بھی یہی سوال ہو گا۔ کچھ عرصہ پہلے میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔ مگر جب اس معمولی سے شخص کی شاعری پڑھی ‘ تو حیران رہ گیا۔یہ آج کا بلھے شاہ نظر آیا۔ اور ایسے لگا کہ یہ ’’رومی‘‘ کی سطح کی باتیں کر رہا ہے۔

ناگ‘ 1950میں بار گڑھ ضلع کے ایک گاؤں گینس میں پیدا ہوا۔ گاؤں صرف تین ہزار لوگوں پر مشتمل تھا۔ حد درجہ غریب لوگ مکین تھے۔ مگر ان لوگوں میں آزاد فکر کی روانی تھی۔ 1857میں اس گاؤں کے مفلس لوگوں نے‘ انگریزوں کو فنا کر کے رکھ ڈالا تھا۔ہلدر چھوٹا سا تھا کہ والد فوت ہو گئے۔ چھ برس کی عمر میں گھر کو چلانے کی ذمے داری اس پر آن پڑی ۔ مقامی حلوائی کی دکان پر‘ برتن دھونے کا کام شروع کر دیا۔ دو سال‘ برتن دھوتا رہا۔ گاؤں کے ’’مکھیا‘‘ نے جب اس کی غربت دیکھی‘ تو ترس کھا کر ایک نزدیکی ہائی اسکول میں لے گیا۔

آپ کا خیال ہو گا کہ وہ وہاں تعلیم حاصل کرنے گیا ہو گا۔ نہیں صاحب‘ اسے بڑے سرکاری اسکول میں باورچی تعینات کر دیا گیا۔ سارا دن‘ اساتذہ اور دیگر اسٹاف کے لیے کھانا بناتا ‘ برتن صاف کرتا اور پھر اپنے ذہن اور تجربے سے زندگی کے متعلق سوچتا رہتا۔ سولہ برس‘ باورچی گری کرتا رہا۔ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اسکول میں مزدوری کرنے والا شخص‘ اپنے ملک کا عظیم شاعر بنے گا۔ شدید غربت میں زندہ رہنے کے باوجود‘ مشاہدہ کی منزلیں ‘عبور کر رہا ہے۔ ناگ نے کسی سے ‘ ایک ہزار روپیہ قرض لیا، ہائی اسکول کے نزدیک ایک اسٹیشنری کی دکان کھول لی۔ ساتھ ہی ساتھ‘ ایک ریڑھی پر مصالحے والے چنے بیچنے شروع کر دیے۔ وہ ایک معمولی سی زندگی گزار رہا تھا اور آج بھی اسی حال میں ہے۔

ہلدر ناگ کے گاؤں میں ایک بہت بڑا برگد کا درخت ہے۔ وہ اس کے سائے میں بیٹھ کر ابتدائی شاعری کرتا رہا۔ مقامی زبان میں لکھتا ہے جسے سنبھل پوری کہا جاتا ہے۔ اڑیسہ میں بولی جانے والی زبان‘ بہت مشکل بولی ہے۔ مگر ہلدر ناگ کی شاعری نے اس کی مشکل زندگی کی طرح‘ ہر غیر ممکن مسئلے کو ممکن بنا دیا۔

ا بتدائی شاعری میں‘ ایک طویل نظم‘ اسی برگد کے درخت کے متعلق بھی ہے جس کے سائے نے اسے امر کر ڈالا۔ مقامی زبان میں اس کا عنوان ’’ڈھوڈو برکیچھ‘‘ یعنی برگد کا درخت تھا۔ یہ ایک مقامی میگزین کی زینت بنی۔ اس ایک نظم کے خیالات نے ہلدر کو لوگوں کے سامنے‘ عظیم شاعر کے طور پر پیش کیا۔ چنے بیچتے ہوئے ‘ ایک دن‘ ایک مداح آیا اور تعریفی جملے کہے۔ ہلدر نے جواب دیا کہ وہ زندگی کی اصل حقیقتوں اور سچائی کو لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اس کے تمام الفاظ دراصل لوگوں کے لیے ایک پیغام ہیں۔ بنیادی طور پر ہلدر کی شاعری کی اساس‘ ظلم کے خلاف جدوجہد‘ قدرت کی آفاقیت اور سماج کی دشواریوں پر مشتمل ہے۔ بی بی سی نے اس کی زندگی اور شاعری پر ایک اول درجے کی ڈاکو منٹری بھی بنائی ہے۔

کوشش کیجیے کہ آپ اسے دیکھیں۔ تاکہ اندازہ فرما سکیں کہ زبان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اصل جوہر‘ تو وہ پیغام ہے جو شاعر‘ اپنے الفاظ کو ترتیب کر کے لوگوں کو پہنچاتا ہے۔ 2020میں اس کی تمام شاعری مشہور مترجم ‘ دنیش کمار‘ مالی نے ہندی زبان میں ترجمہ کی۔ اس طرح‘ وہ تمام ملک میں پڑھا جانے لگا۔ عظیم شاعر‘ گلزار نے‘ ایک مختصر فلم میں آٹھ منٹ تک ہلدر کی شاعری کا ہندی ترجمہ پڑھا جو پورے ملک میں مشہور ہو گیا۔ گلزار نے ہلدر کو اپنی جیب سے پچاس ہزار روپیہ بطور انعام بھی بھجوائے۔ سنبھل پور یونیورسٹی نے ہلدر کی تمام شاعری کو ایک کتاب کی شکل دے ڈالی ہے، اب وہ ان کے تعلیمی نصاب کا حصہ ہے۔

اس عوامی شاعر کی شاعری‘ اندراگاندھی اوپن یونیورسٹی نے بھی ایم اے کے طلباء اور طالبات کے نصاب میں شامل کر دی ہے۔ اڑیسہ کی صوبائی حکومت نے ہلدر کے نام پر ‘ اس کے گاؤں میں سنبھل پوری زبان پر ایک تحقیقی سینٹر بھی قائم کر دیا ہے۔ ہلدر ناگ آج ایک بین الاقوامی سطح کی شخصیت ہے۔ مگر وہ اسی طرح‘ چھوٹی سی دکان پر پینسلیں بیچتا ہے اور ریڑھی پر چنے فروخت کرتا ہے۔ اس کا لباس 2025میں بھی بغیر بازوؤں کی سفید بنیان اور لنگی ہے۔ شہرت نے اس کو کسی طرح بھی نہیں بگاڑا۔

رومی‘ تیرھویں صدی کا شاعر تھا۔ اس کی شاعری کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ’’چراغ مختلف ہوتے ہیں‘ مگر ان کی روشنی بالکل ایک جیسی ہوتی ہے‘‘۔ اب ذرا ہلدر ناگ کی شاعری کا ترجمہ پڑھیے۔’’ہزاروں چراغ جلتے ہیں۔ ان کو گنا بھی جا سکتا ہے مگر ان سے نکلنے والی روشنی ایک جیسی ہی ہے‘‘۔ ترجمہ صرف مفہوم بیان کر سکتا ہے کیونکہ میری نظر میں شاعری کا بالکل شعروں کے حساب سے ترجمہ کرنا ناممکن ہے۔

دراصل ‘ انسانی دماغ حد درجہ خوبصورت اور لازوال چیز ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انسانی فکر اور سوچ‘ زبان‘ مقام‘ خطے اور لہجے سے بلند تر ہے۔ انسانی محرومیاں بھی تقریباً یکساں ہی ہیں۔ جبر‘ ریاستی ظلم‘ ناانصافی ‘ معاشرتی مجبوریاں ‘ اور اس جیسے تمام عوامل ‘ ہر خطے میں سوچنے اور لکھنے والے انسان کے لیے مہمیز کا کام کرتے ہیں۔ اور وہ ‘ ایک ہی مفہوم کی نثر اور شاعری کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی یہی معاملہ ہے۔ تخلیقی اعتبار سے یہاں اردو زبان میں زیادہ لکھا گیا ہے۔ مگر بلوچی‘پنجابی‘ براہوی ‘ سندھی‘ پشتو زبان میں لکھنے والے لوگوں نے بھی حق ادا کیا ہے۔ تخلیق کار ‘ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو۔ فلمیں بناتا ہو‘ ڈرامہ نگاری کرتا ہو‘ اداکار ہو‘ نغمہ گو ہو‘ کہانیاں لکھتا ہو‘ بلکہ یوں کہیے کہ کچھ بھی تخلیق کرتا ہو۔ وہ تمام منفرد مگر تقریباً ایک جیسی فکر کے مالک ہوتے ہیں۔ ان میں ‘ لازم ‘ فرق بھی ہے۔

ہونا بھی چاہیے مگر سوچنے والا‘ بہر حال‘ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ اس کے لیے سرحدیں بے معنی ہیں۔ حکمران اس کے لیے صرف بے مقصد سے نام ہوتے ہیں۔ اگر وہ اصل فکر رکھتے ہیں تو ان کے لیے‘ دولت اور جاہ وحشم بھی بے اثر ہوتے ہیں۔ یہی لوگ‘ کسی بھی ملک یا معاشرے کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں۔ یہ کسی بھی ملک کی آبرو کی مانند ہوتے ہیں۔ انسانی سوچ اتنی عظیم شے ہے کہ آپ لاکھ ظلم کریں مگر یہ ہر مصیبت کو عبور کر جاتی ہے۔ ہلدر ناگ نے ثابت کیا ہے کہ غربت ‘ تعلیم کا نہ ہونا‘ وسائل کا محدود تر وجود‘ سب کچھ انسان کے ذہن کو مسخر نہیں کر سکتے ۔ ہمارے ملک میں آپ کو اگر نئی فکر کے افراد ملیں‘ تو ان کی توقیر کیجیے۔ ہمارا اصل اثاثہ یہی خاص لوگ ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی شاعری شاعری کا ہوتے ہیں ہلدر ناگ بھی نہیں ہلدر کی رہا تھا میں بھی نے ہلدر ملک میں تھا کہ کے لیے کیا ہے

پڑھیں:

آرٹس کونسل میں اجمل سراج کی یاد میں پہلی برسی کے موقع پر تقریب

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (اسٹاف رپورٹر)آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام نامور شاعر اجمل سراج کی یاد میں ان کی پہلی برسی کے موقع پر تقریب کا انعقاد حسینہ معین ہال میں کیا گیا ، تقریب میں اجمل سراج کی زندگی اور خد مات پر مبنی شوریل پیش کی گئی ،اس موقع پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ ، پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر ضیاالحسن,جاوید صبا ، خالد معین ،افضال احمد سید ،سید محسن ، کامران نفیس ، شاہد رسام ، علاوالدین خانزادہ ، عقیل عباس جعفری ، سیمان نویس نے اظہا ر خیال کیا ،تقریب کی نظامت کے فرائض اجمل سراج کے بیٹے عبدالرحمان مومن نے انجام دئیے ، اجمل سراج کو یاد کرتے ہوئے صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہاکہ میرا تعلق اجمل سے ان کے شعر سے بنا ،اجمل بہادر اور استقامت رکھنے والے دوست تھے ، اجمل ہمارا یار ہے آج ہم اس کو یاد کرنے بیٹھے ہیں، اجمل کا وجود آج بھی ہمارے درمیان محسوس ہوتا ہے کہ اب دروازہ کھلے گا اور اجمل اندر آجائے گا ۔ان کی یادیں ہمیشہ ہمارے دلوںکو زندہ رکھیں گی، ہم کچھ چیزوں میں بے اختیارہیں وہ اللہ کہ ہاتھ میں ہے وہی سب کر سکتے ہیں ، پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ اجمل سراج اپنی زندگی میں ہی ایک مقبول اور دلعزیز شاعر بن گئے تھے ،وہ ایک دوست دار انسان تھے، اجمل کی ہمت اور جوش آخری مشاعرے میں بھی ویسے ہی تھی جیسے پہلی مشاعرہ میں تھی، میں احمد شاہ صاحب سے درخواست کروںگا کہ اجمل کے تمام شائع اور غیر شائع شدہ کلام کو یکجا کر کے ان کی کلیات کو شائع کیا جائے ،ضیاالحسن نے اجمل سراج کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ میرا کراچی سے تعلق اجمل کے توسط سے قائم ہوا ،وہ شاعری میں اعلی ذوق رکھنے والے انسان تھے ، شاعری ان کی رگوں میں بسی ہوئی تھی ، ان کے لئے شعر کہنا اور لوگوں سے محبت کرنا ایک اہم کام تھا ، شاہد رسام نے کہا کہ میں نے اور اجمل نے زندگی کا ایک عمدہ زمانہ ساتھ گزارا ہمارے نظریات بلکل مختلف تھے لیکن اس کے باوجود ہماری دوستی میں کبھی کوئی دراڑنہیں آئی ،ان کا تاریخ سے گہرا لگاوتھا ،ان کا مزاج صوفیانہ تھااور ان کی شاعری کا کینوس بہت وسیع تھا ،جاوید صبا نے کہا کہ اجمل سراج کو الفاظ کی پہچان کا ہنر حاصل تھا ، وہ بھر پورزندگی گزارنے والے اور قائدے کے ساتھ اردو لکھتے تھے ،اجمل ایک اہم شاعر کانام ہے ان کی محبتیں اور کام زندہ ہے ، خالد معین نے کہا کہ اجمل کی وفات ناقابل یقین تھی ، جیسے ہی انہوں نے اپنی شاعری اور شخصیت کو نمایاں کیا وہ ہر دل میں جگہ بناتے چلے گئے ، اجمل کی شاعری میں دوستوں کے حوالے سے پیار ، محبت اور احترام ہے ،علاوالدین خانزادہ نے کہا کہ ہم اجمل کے چاہنے والے ہیں ، اجمل نے اپنی پوری زندگی شان سے گزاری جس پر زندگی کو فخر ہے ۔

 

متعلقہ مضامین

  • آرٹس کونسل میں اجمل سراج کی یاد میں پہلی برسی کے موقع پر تقریب