خانہ جنگی کے بعد شام میں پہلی مرتبہ پارلیمانی انتخابات کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دمشق میں ایک نئی تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے، جہاں برسوں تک جاری رہنے والی خانہ جنگی اور بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام میں پہلی مرتبہ باضابطہ پارلیمانی انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق ہائر کمیٹی برائے انتخابات کے مطابق عوامی اسمبلی کے انتخابات 5 اکتوبر کو ملک کے تمام اضلاع میں ایک ہی دن ہوں گے۔ یہ پیش رفت شام کے عوام کے لیے ایک غیر معمولی موڑ ہے، کیونکہ کئی دہائیوں بعد انہیں اپنے نمائندے براہِ راست منتخب کرنے کا موقع مل رہا ہے۔
انتخابی کمیٹی نے وضاحت کی ہے کہ پارلیمان کی 21 نشستوں میں سے تقریباً ایک تہائی نشستوں پر عبوری صدر احمد الشرع براہِ راست نامزدگیاں کریں گے، جبکہ باقی نشستوں پر عوامی ووٹنگ کے ذریعے فیصلے ہوں گے۔
دوسری جانب سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نظام عبوری دور میں توازن پیدا کرنے اور ریاستی اداروں کو فوری طور پر فعال رکھنے کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔
گزشتہ برس جب بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تھا تو تو ملک میں ایک نئے سیاسی دور کا آغاز ہوا۔ بشار الاسد کے ملک چھوڑنے کے بعد تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے اعلان کیا کہ شام میں پرامن انتقالِ اقتدار تک سابق وزیراعظم محمد غازی الجلالی ریاستی امور چلائیں گے۔
اس فیصلے کے نتیجے میں عبوری حکومت تشکیل دی گئی جس نے اداروں کو قائم رکھنے اور نئی انتخابی راہیں ہموار کرنے میں کردار ادا کیا۔
واضح رہے کہ شام کے عوام اس وقت ایک مشکل مگر امید افزا مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ طویل خانہ جنگی کے زخم ابھی تازہ ہیں، لاکھوں افراد بے گھر یا مہاجر کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، لیکن اس کے باوجود انتخابی اعلان نے عوام کو ایک نئی توانائی اور جمہوری مستقبل کی جھلک دکھائی ہے۔
بین الاقوامی برادری نے بھی اس پیش رفت پر گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ کئی ممالک نے شام میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کی حمایت کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ یہ مرحلہ ملک کو پائیدار امن اور سیاسی استحکام کی طرف لے جائے گا۔
ماہرین کے مطابق یہ انتخابات نہ صرف شام کے داخلی سیاسی منظرنامے کو بدلیں گے بلکہ خطے کے طاقت کے توازن پر بھی اثر ڈال سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: شام کے
پڑھیں:
صوبے میں آپریشن کی اجازت نہیں دینگے، کے پی حکومت کا امن جرگہ بلانے کا اعلان
پشاور:خیبرپختونخوا حکومت نے 12 نومبر کو امن جرگہ بلانے کا اعلان کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر واضح کیا ہے کہ صوبے میں کسی بھی عسکری کارروائی کی اجازت نہیں دیں گے، تیسری بار حکومت میں آئے ہیں جو فیصلہ ہوگا وہ بھی ہماری مرضی سے ہوگا۔
یہ اعلان اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی نے معان خصوصی اطلاعات شفیع جان، صوبائی سیکرٹری علی اصغر، جنرل سیکرٹری پشاور ریجن شیر علی،عرفان سلیم اور کامران بنگش کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔
اسپیکر اسمبلی بابر سلیم سواتی کا کہنا تھا کہ اسمبلی میں امن وامان پر دو ماہ تک تفصیلی بحث ہوئی، صوبے میں امن و امان کی صورتحال کچھ اچھی نہیں ہے سیاسی قیادت کا واضح موقف آرہا ہے کہ آپریشن نہیں ہونا چاہیے، تمام پارلیمینٹرین ایک خصوصی کمیٹی پر متفق ہوئے ہیں، اے پی سی جرگے کا فیصلہ بھی کیا گیا جو بھی ٹی او آرز بنائیں جائیں گے امن جرگے کے بعد کور کمانڈر کے ساتھ بیٹھیں گے۔
انہوں نے کہا پارلیمانی سیکورٹی کمیٹی ٹی او آرز تشکیل دے کر وزیر اعلی کو پیش کرے گی، امن جرگے میں تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائندہ افراد کے علاوہ سیاسی شخصیات کو بھی مدعو کیا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں طویل عرصے سے دہشت گردی کے خلاف آپریشنز ہورہے ہیں، صوبے میں ایک لاکھ 23 ہزار پولیس جبکہ وزیرستان میں دو ڈویژن فوج بھی ہے اور ہماری فوج کا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا وسیع تجربہ ہے ہم سوچتے ہیں کہ آخر آپریشنز میں ہمارے لوگ کیوں متاثر ہورہے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے دل بھی اس صورتحال پر دُکھتے ہیں یہ بھی اس صوبے کے باشندے ہیں تمام سیاسی جماعتیں ہمارے ساتھ شامل ہیں امن جرگہ میں تمام سیاسی قیادت کی رائے کا احترام کیا جائے گا کسی سیاسی شخصیت کے منہ پر ٹیپ نہیں لگائی جاسکتی ہے سب کے سامنے صورتحال رکھیں گے تب ہی وفاقی حکومت کوئی فیصلہ کرسکے گی، ہم چاہتے ہیں کہ اداروں اور لوگوں کے مابین فاصلے کم ہوں۔
وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات شفیع جان کا پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج امن و امان کی صورتحال ہے، گورنر کے پی کو بھی کمیٹی میں شرکت کی دعوت دی تھی، 12 نومبر کو امن جرگہ میں تمام سیاسی قیادت کو دعوت دی جائے گی، ٹی او آرز میں تمام سیاسی قیادت کی تجاویز شامل کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا بند کمروں میں فیصلے نہیں ہونے چاہیے جن لوگوں نے کئی سال شہادتیں دیکھی ہیں ان کو علاقے کے فیصلوں میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا 26 ویں آئینی ترمیم پر جو فلم چلی ہے وہ دوبارہ چلے گی صوبے میں کسی بھی عسکری کارروائی کی اجازت نہیں دیں گے ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ فیلڈ مارشل نے یہاں کی سیاسی لیڈرشپ کو کیوں نہیں بلایا؟ پوست کی کاشت کا الزام ہے بلوچستان جسے ٹیلیگراف کی رپورٹ میں پوست کا منبع قرار دیا گیا، ڈی جی آئی ایس پی آر سے سادہ سا سوال ہے کہ بلوچستان میں کس کی حکومت ہے؟ روز اول سے مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں۔
صوبائی جنرل سیکریٹری پی ٹی آئی علی اصغر نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، چیئرمین کا قبائلی علاقوں کے حوالے سے واضح موقف تھا کہ آپریشن نہیں ہونا چاہیے اس لیے امن جرگہ میں سب سول سوسائٹی، وکلاء برادری، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے مشران کوبلا رہے ہیں کیوں کہ اس صوبے کے یہ سارے لوگ متاثر ہوئے ہیں ہماری پارٹی کا بھی موقف ہے کہ آپریشن نہیں ہونا چاہیے ان علاقوں سے لوگوں کو بیدخلی کا سامنا ہوتا ہے، خیبرپختونخوا کے حالات تمام ملک میں پھیل رہے ہیں۔
جنرل سیکرٹری پشاور ریجن شیر علی کا کہنا تھا ہمارا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، جتنے بھی آپریشنز ہوئے کوئی فائدہ نہیں ہوا اب کم از کم جو فیصلہ ہو وہ خیبرپختونخوا کے عوام کے حق میں ہونا چاہیے ہم اجتماعی وزڈم کے تحت اقدامات کی بات کرتے ہیں۔
سابق صوبائی وزیر کامران بنگش نے کہا خیبرپختونخوا حکومت کا اعزاز ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چل رہی ہے ورنہ فارم 47 والے کس طرح اور جماعتوں کو دبا رہے ہیں سب کے سامنے ہے، خیبرپختونخوا حکومت دریا دلی کا مظاہرہ کررہی ہے، تمام سیاسی جماعتوں کے اکابرین اپنے رائے امن جرگہ میں ضرور شامل کریں۔