Juraat:
2025-09-23@16:29:20 GMT

معاہدے کی تقدیس اور تاریخ کا سچ!

اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT

معاہدے کی تقدیس اور تاریخ کا سچ!

ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان اور سعودی عرب کے مابین معاہدے میں قومی ریاستوں کے اپنے اپنے مقاصد موجود ہیں۔ مگر اسے ایک ”مقدس” معاہدے کے طور پر پیش کرنا ایک گمراہ کن تصور ہے جس کی تصدیق نہ تاریخ سے ہوتی ہے اور نہ ہی معاہدے کے معلوم عزائم سے۔ گزشتہ تحریر میں سوال ادھورا چھوڑا تھا کہ حرمین شریفین کے تحفظ کے سرشار کردینے والے تاثر کی اس معاہدے سے کوئی نسبت ہے اور کیا سعودی عرب ، اسرائیل کو ایک دشمن ریاست سمجھتا بھی ہے یا نہیں؟ اگر اس سوال کا درست جواب تلاش کر لیا جائے تو معاہدے کا مناسب سیاق و سباق قائم کرنا دشوار نہیں رہے گا۔
سعودی عرب کے کردار کو سمجھنے کے لیے عرب دنیا اور اسرائیل کے مابین تنازعات اور جنگی تاریخ کو ٹٹولنا پڑے گا۔ یہودیوں نے یکطرفہ طور پر 14مئی 1948 ء کو اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اگلے ہی روز مصر، اردن اور عراق نے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کیا اور اپنی مشترکہ افواج فلسطین بھیج دیں۔ پہلے ہی روز بات سمجھ میں آجانی چاہئے تھی۔ایک دن کی تاریخ رکھنے والی ایک نوزائیدہ ناجائز ریاست کو بھی عرب ریاستوں کی مشترکہ افواج نابود و معدوم نہ کرسکیں۔ ابھی اسرائیل کو عالمی سطح پر پوری طرح تسلیم بھی نہ کیا گیا تھا مگر اسرائیل کی تعداد میں کم افوج نے چھ روزہ جنگ میں کامیاب مزاحمت کی۔ کیونکہ اسرائیلی افواج امریکی جدید ہتھیاروں سے لیس تھیں اور اس میں بہت سارے فوجی دوسری جنگ عظیم میںلڑنے کا تجربہ رکھتے تھے۔ واضح رہے کہ ان عرب افواج میں ایک سعودی دستہ بھی شامل تھا۔ جنگ سے قبل اقوام متحدہ نے اسرائیل کو 56 فیصد رقبہ دیا تھا مگر اس پہلی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں اسرائیلیوں کے پاس 80 فیصد رقبہ آ گیا اور انھوں نے 8لاکھ فلسطینیوں کو جلا وطن کر کے ان کی املاک پر قبضہ کر لیا۔ 1949میں پہلا عرب اسرائیل امن معاہدہ ہوا ، 11مئی 1949کو اسرائیل اقوام متحدہ کا رکن بنا دیا گیا۔ مگرعرب ریاستیں خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کو یقینی بنانے میں ناکام رہیں۔عرب دنیا عالمی سیاست کو سمجھ رہی تھی ، نہ اپنے ہاں قائم ہونے والی بادشاہتوں کے بنیادی مسئلے اور ترجیحات کا اندازہ لگا پا رہی تھی۔ اگلی دہائیوں میں اسرائیل کے بھیانک مقاصد سے وابستہ جغرافیائی اُتھل پتھل ہونے والا تمام منظرنامہ” امت مسلمہ” کے مقاصد سے ”قومی ریاست” کے اہداف میں تبدیل ہونا تھا۔یہ عمل فرانز کافکا کے ناول ڈی میٹا مورفوسس (The Metamorphosis) سے بھی زیادہ حیران کن تھا۔ مارک ٹوئن نے ایک موقع پر کہا تھا کہ
"Truth is stranger than fiction, but it is because Fiction is obliged to stick to possibilities;Truth isn’t.


(سچائی افسانے سے زیادہ حیران کن ہوتی ہے ، کیونکہ افسانہ ممکنات تک محدود رہنے پر مجبور ہے ، مگر سچائی نہیں)۔
امت مسلمہ کے مقاصد ہر گزرتے دن اپنی حساسیت کھوتے گئے۔اسرائیل کو ناگزیر حقیقت بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ اور عرب دنیا اپنے اپنے جغرافیوں کی تنگنائے میں اپنی اپنی قومی ریاست کے تحفظ کے جبر میں مبتلا کی جاتی رہی۔ سب کچھ پُرکاری سے ہو رہا تھا۔مسلمان قومی ریاست کے جبر میں ”مسلم امہ” کے کسی مقصد کو پورا نہیں کر سکتے۔(یاد رکھیں! حرمین شریفین کے تحفظ کو بھی یقینی نہیں بنا سکتے۔ قبلہ اول بیت المقدس کے تحفظ کی تو کوئی بات ہی نہیں)۔اس کھیل میں بتدریج عرب خاندانوں کو قومی ریاستوں اور چھوٹے چھوٹے جغرافیے کے تحفظ کے جبر میں مبتلا کر دیا گیا۔ اسرائیل کے ساتھ پہلی عرب جنگ میں ایک چھوٹے دستے کی علامتی شمولیت کے بعد سعودی عرب اس دنگل سے شعوری طور پر دست کش ہو گیا۔ اس کے پیچھے ایک تاریخ، ایک ذہن اور ایک مکروہ نفسیات تھی۔ مگر یہاں یہ موضوع نہیں۔
عرب دنیا کی بعد کی تمام جنگوں کو دیکھ لیں کہیں پر بھی سعودی عرب ایک فریق کے طور پر اسرائیل کے مقابل کھڑا نہیں ہوا۔اس نے اپنے کردار کو علامتی طور پر مالی امداد تک محدود رکھا ہے۔ایک اُچَٹتی نظرڈال لیں۔ پہلی عرب اسرائیل جنگ (مئی 1948 ) کے بعد دوسرا بڑا بحران سوئز کنال پر کھڑا ہوا جو دوسری عرب اسرائیل جنگ کا محرک بنا۔ 29اکتوبر 1956کو اسرائیل نے اس جنگ کا آغاز کیا اور بیک وقت مصر کے قبضے میں غزہ اور صحرائے سینا پر حملہ کر کے اپنا تسلط جما لیا۔تیسری عرب اسرائیل جنگ اسرائیل کے نومبر 1966 میں اردن کے زیر انتظام ایک فلسطینی گاؤں السموع پر فضائی حملے سے شروع ہوئی۔ چوتھی عرب اسرائیل جنگ ،یوم کپور کی لڑائی بھی کہلاتی ہے۔ یہودی 6 اکتوبر 1973ء کو یوم کپور کا جشن منا رہے تھے تو دوپہر دو بجے مصر نے اسرائیل پر پہلا فضائی حملہ 240طیاروں کے ساتھ کیا۔ اسی کے ساتھ 2ہزارٹینک اور ایک ہزارتوپیں بھی اسرائیل کی طرف گولہ باری کرنے لگیں۔اسرائیل 1982ء سے لبنان پر مختلف حیلوں، حوالوں سے حملہ آور ہے۔ اس کے علاوہ فلسطین میں انتفاضہ کے بعد 1987سے چلی آتی غزہ جنگیں ہیںجو 2007 میں نئی جھڑپوں میں تبدیل ہوئیں،جب حماس نے غزہ کی پٹی پر اپنا اثر و رسوخ قائم کر لیاتو اسرائیل نے اسے دشمن علاقہ کہہ کر تسلیم نہیں کیا۔ یہ جھڑپیں مختلف مواقع پر جاری رہیں۔ یہاں تک کہ 7اکتوبر 2023ء کو اسرائیل حماس کی وہ جنگ شروع ہوئی جس نے عالم عرب کو بالعموم اور سعودی عرب کو بالخصوص بے نقاب کر دیا۔عرب اسرائیل تنازعات کی پوری تاریخ اُٹھائیں، سعودی عرب کی مئی 1948ء میں پہلی عرب اسرائیل جنگ میں محدود اور علامتی شرکت کے علاوہ کسی بھی دوسری جنگ میں گزشتہ 77 برسوں میں کوئی عملی شرکت نہیں ہے۔ اس دوران میں اسرائیل کے خلاف جتنے بھی محاذ گرم ہوئے سعودی عرب نے مالی، سیاسی اور سفارتی مدد تو کی مگر فوجی مداخلت یا شرکت سے شعوری گریز کیا۔ اس دوران اگر کوئی ایک واقعہ پیش کیا جا سکتا ہے تو وہ 1973 کی جنگ کے دوران ”تیل کو بطور ہتھیار”استعمال کرنے سے متعلق ہے۔ اس کے اسباب و محرکات الگ تھے، تب سعودی عرب کی قیادت بھی مختلف تھی۔ اب اسرائیل کے خلاف جنگوں میں محض مالی امداد کا معاملہ ہے تو یہ خود عالمی اداروں کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ اس کے مقاصد بہت فروعی اور خود جنگی مقاصد کے عین مطابق ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک الگ ہی موضوع ہے۔ یہاں صرف اتنا عرض ہے کہ استعمار کے طریقہ واردات کو سمجھنے سے یہ نکتہ واضح ہو جاتا ہے کہ امداد اور میزائل دونوں میں ایک خوف ناک نامیاتی رشتہ ہے، جیسے آئی ایم ایف کی چیک بک اور پینٹاگون کے کروز میزائل میں ہے۔
اس پس منظر میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان17ستمبر 2025 کو ” اسٹریٹیجک ڈیفنس پارٹنر شپ ”معاہدہ کو امت مسلمہ یا حرمین شریفین کے تحفظ کے کوئی مقدس معنی دینا فی الواقع تاریخ کی ایک غلط تعبیر ہے۔ یہ دو قومی ریاستوں کے درمیان ایک معاہدہ ہے جو اتفاق سے مسلمان بھی کہلاتی ہیں۔ مگر مسلمان ہونے کے کسی مقصد سے عملاً مربوط رہنے کی کوئی قابل ِ اعتبار تاریخ نہیں رکھتی۔ ان کے درمیان اگر کوئی مشترک نکتہ ہے تو یہ دونوں ہی ریاستیں ابتدا سے ہی امریکا کے زیر اثر ہیں۔ دونوں ہی ایک دوسرے سے زیادہ امریکا پر انحصار کرتی ہیں۔اب یہ ایک مضحک صورت ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب دونوں خطے میں امریکا کی زیر قیادت سکیورٹی سے متعلق مضبوط شراکت دار ہیں۔ یہ امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے آپریشنل دائرہ کار میں بھی سب سے اہم ممالک میں شامل ہیں، مگر ان دونوں ممالک کے معاہدے کو اسرائیل کے خلاف سمجھا جائے یا اس کی کوئی مشرق وسطیٰ میں ایسی تعبیر نکالی جائے جو ”امت مسلمہ” کے مقدس اور حقیقی مقاصد سے جڑی ہوئی ہو۔ اس لیے کہ جہاں پاکستان اور سعودی عرب سیکورٹی امور میں امریکا کے مضبوط شراکت دار ہیں، وہیں اسرائیل کا سب سے بڑا محافظ امریکا ہی ہے۔ یوں بالواسطہ طور پر اسرائیل اور سعودی عرب دونوں ہی امریکی ضمانتوں میں ہیں۔دوحہ سربراہی کانفرنس کا اعلامیہ ایک مرتبہ پھر پڑھ لیں۔ عالم اسلام کے فالج زدہ حکمرانوں نے اس اعلامیے میں بھی امریکا کا شکریہ ادا کیا ہے۔
اس کے باوجود یہ صورت حال پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کو کم اہم نہیں بناتی۔اس سے خطے میں نئے امکانات پیدا ضرور ہوئے ہیں۔ مگر اس معاہدے کو اس کے درست سیاق و سباق میں سمجھنا ضروری ہے۔ بس یہی ہماری مودبانہ گزارش ہے۔
٭٭٭

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: عرب اسرائیل جنگ اسرائیل کے خلاف کو اسرائیل قومی ریاست اسرائیل کو کے تحفظ کے پہلی عرب عرب دنیا

پڑھیں:

دیگراسلامی ممالک بھی دفاعی معاہدے میں شامل ہوجائیں ‘ رانا تنویرحسین

شرقپور شریف /مریدکی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 ستمبر2025ء) وفاقی وزیر نیشنل فوڈ اینڈ سکیورٹی رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی معاہدے میںہم چاہتے ہیں دیگر دیگر اسلامی ممالک بھی شامل ہوں اور جس اسلامی ملک پر صیہونی یا یہودی حملہ کرنے کی کوشش کریں تو اس کا ملکر دفاع کیا جائے ۔انہوں نے اپنے ڈیرے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ اسے کھلی چھٹی مل گئی جس اسلامی ملک پر چاہے جس وقت چاہے حملہ کردے اس نے قطر سمیت کتنے اسلامی ممالک پر حملے کئے سعودی عرب تک پہنچ گیااب ایسا نہیں ہوگا ،پاکستان سعودی عرب کا ہر طرح نہ صرف دفاع کرے گا بلکہ اسکی آزادی سالمیت خود مختاری پر کوئی حرف نہیں آنے دے گا ،اسرائیل کو سعودی عرب کے دفاع میں پاکستان کا سامنا کرنا پڑے گا اسکی بدمعاشی کو پاکستان نہیں مانتا ۔

(جاری ہے)

رانا تنویر حسین نے کہا کہ جو اسلامی ملک اس معاہدہ کا حصہ بننا چاہے گا اسے خوش آمدید کہا جائے گا ،پاکستان کی خواہش ہے دیگر اسلامی ممالک بھی اس معاہدہ میں شامل ہوجائیں اور ملکر ایک دوسرے کا دفاع مضبوط یہاں تک کرلیں کہ کسی صیہونی یا یہودی ملک کو اسلامی ملک پر حملہ کی جرآت نہ ہوسکے ۔انہوں نے کہا حکومت چینی کے معاملے پر درست حکمت عملی پر ہے شوگر ملز ایسوسی ایشن جن خدشات کا اظہار کررہی ہے درست نہ ہیں شوگر مافیا مناپلی کرکے چینی مہنگی کردیتی ہے جس سے عوام پریشان اور حکومت بدنام ہوتی ہے ،حکومت چینی کا کبھی کوئی بحران پیدا نہیں ہونے دے گی۔

متعلقہ مضامین

  • استعمار اور ایٹم بم کی تاریخ
  • پی ٹی آئی نے پاک سعودی معاہدے کی مخالف نہیں کی، بیرسٹر گوہر
  • دیگراسلامی ممالک بھی دفاعی معاہدے میں شامل ہوجائیں ‘ رانا تنویرحسین
  • خطے کی نئی کروٹ
  • پاکستان سے معاہدہ سعودیہ کی ایٹمی ڈھال ہے، عالمی میڈیا کی رپورٹ
  • معاہدہ اور رومانوی دنیا!
  • سعودی عرب میں ہماری افواج کی تعداد بڑھے گی، معاہدہ معرکہ حق کی فتح کا مرہون منت: خواجہ آصف
  • پاک سعودی معاہدہ معرکہ حق کی مرہون منت ہے، معاشی ثمرات بھی سامنے آئیں گے، خواجہ آصف
  • نئی عالمی صف بندیاں