فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے فرانسیسی صدر کو پولیس نے روک لیا؛ پیدل سفر پر مجبور
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے جاتے ہوئے راستے میں پولیس نے روک لیا جس پر انھیں پیدل ہی جانا پڑا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ غیر معمولی واقعہ اُس وقت پیش آیا جب فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کا قافلہ اپنے ملک کے مشن دفتر کی جانب بڑھ رہا تھا۔
نیویارک پولیس نے فرانسیسی صدر سے معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ فی الحال سڑک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قافلے کے لیے حفاظتی طور پر بند کی گئی ہے۔
پولیس اہلکار نے کہا کہ سر، معاف کیجیے، ابھی سب کچھ بند ہے، صدر ٹرمپ کا موٹرکیڈ آنے ہی والا ہے۔ آپ کو کچھ دیر رکنا ہوگا۔
جس پر فرانسیسی صدر نے مزاحیہ انداز اپناتے ہوئے سڑک پر کھڑے کھڑے اپنا فون نکالا اور صدر ٹرمپ کو کال کر کے کہا کہ اندازہ لگائیں، میں سڑک پر انتظار کر رہا ہوں کیونکہ سب کچھ آپ کے لیے بند ہے۔
اس کے چند منٹ بعد ہی سڑک کو پیدل چلنے والوں کے لئے کھول دیا گیا لیکن گاڑیوں کو پھر بھی جانے نہیں دیا گیا۔
جس کی وجہ سے صدر ایمانوئل میکرون پیدل چلتے ہوئے فرانس کے سفارتی مشن کی طرف چلے گئے۔
یاد رہے کہ اس واقعے سے قبل ہی ایمانوئل میکرون نے اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
متعدد فرانسیسی میئرز کا فلسطینی پرچم لہرانے کا ارادہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 ستمبر 2025ء) اس ہفتے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے، جن میں فلسطینی پرچم اور بینرز نمایاں طور پر لہراتے نظر آئے اور حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی گئی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر فلسطین کو مزید ممالک کی جانب سے تسلیم کیے جانے کی امید ہے، جس سے ریاست فلسطین کو تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد 145 سے تجاوز کر جائے گی۔
پیرس کے مضافاتی علاقے سان ڈینس کے میئر اور مغربی فرانس کے شہر نانٹیس کیمیئر نے بھی فلسطینی پرچم لہرانے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب وزارت داخلہ نے ریاستی نمائندوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس طرح کے اقدامات کی مخالفت کریں۔
سیاق و سباقفرانس یورپ کا وہ ملک ہے جہاں سب سے بڑی یہودی اور مسلم آبادی رہتی ہے، اس لیے اس طرح کے اقدامات حساسیت کا باعث بن سکتے ہیں۔
(جاری ہے)
غزہ میں جاری جنگ اور اسرائیل- فلسطینی تنازعہ فرانس میں بھی سیاسی اور سماجی سطح پر بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ فلسطینیوں کی اُمیدفلسطینیوں نے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ کم از کم 10 مزید ممالک فلسطین کی ریاست کو تسلیم کریں گے، جس سے ان ممالک کی تعداد 145 سے زیادہ ہو جائے گی جو پہلے ہی ایسا کر چکے ہیں۔
سینٹ ڈینس (پیرس کے مضافات میں واقع شہر) کے میئر میتھیو ہانوتین نے کہا کہفلسطینی عوام سے یکجہتی کے اظہار کے طور پر سٹی ٹاؤن ہال پر فلسطینی پرچم لہرایا جائے گا۔
مغربی فرانس کے شہر نانٹیس میں بھی سٹی ہال کی عمارت پر فلسطینی پرچم لہرانے کا منصوبہ ہے، جیسا کہ خاتون میئر ژوہانا رولنڈ (سوشلسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والی سیاست دان) نے نشریاتی ادارے فرانس انفارمیشن کو بتایا، ''ان میونسپلٹیوں کے لیے جو اس علامتی اقدام کے ذریعے فرانس کی جانب سے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے میں شامل ہونا چاہتی ہیں ، میرے خیال میں یہ بالکل درست ہے۔ میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ایسا کروں گی۔‘‘ فرانسیسی وزارت داخلہ کی مخالفتدریں اثناء ریجنز میں ریاست کے نمائندے کو بھیجے گئے ایک نوٹ میں، فرانس کی وزارت داخلہ نے انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ ٹاؤن ہالز اور دیگر عوامی عمارتوں پر فلسطینی پرچم لہرانے کی مخالفت کریں، کیونکہ اس سے جاری بین الاقوامی تنازعے کو قومی سرزمین پر درآمد کرنے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔
وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا، ''پبلک سروس میں غیر جانبداری کے اصول کے تحت اس طرح کی کوئی بھی نمائش ممنوع ہے۔‘‘ مزید برآں کہا گیا کہ اگر کسی میئر نے فلسطینی پرچم لہرانے کا فیصلہ کیا تو اس معاملے کو انتظامی عدالتوں میں لے جایا جائے۔
وزیر داخلہ برونو ریٹائیلیو نے ہفتے کے روز کہا، ''ٹاؤن ہال کا اگلا حصہ کوئی بل بورڈ نہیں ہے۔ صرف تین رنگوں والا پرچم ہمارے رنگ، ہماری اقدار ہی یہاں لہرایا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ ہمارا ایک مشترکہ گھر ہے۔‘‘
ادارت: افسر اعوان/ رابعہ بگٹی