Jasarat News:
2025-09-23@23:41:01 GMT

عافیہ کو لائو یا گھر جائو

اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250924-03-4

 

 

 

مظفر اعجاز

پاکستانی حکمرانوں کے بارے میں ہمارا پرانا تجزیہ ہے کہ جب یہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے حکومت سے مطالبات کرتے رہتے ہیں، لیکن جوں ہی حکومت میں آتے ہیں ان کو یا تو مسائل نظر ہی نہیں آتے یا یہ دعویٰ کرنے لگتے ہیں کہ سارے مسائل حل کردیے ہیں، اور ملک ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے دوڑ رہا ہے۔ اگرچہ یہ رویہ تو سارے ہی حکمرانوں کا ہے لیکن آج کل اتفاق سے وزیر اعظم بھی میاں شہباز شریف ہیں اور صدر بھی وہی ہیں یعنی آصف علی زرداری جن سے آج سے ٹھیک پندرہ سال قبل 2010 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف یہ مطالبہ کررہے تھے کہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سزا انسانیت کے خلاف جرم ہے، حکومت منسوخی کے لیے کردار ادا کرے، اور اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کوسزا دلوانے میں اپنے اور پرائے دونوں شامل ہیں، حسب روایت وہ اور ان کے بھائی میاں نواز شریف اقتدار میں آکر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھول گئے، یہی نہیں کہ عافیہ کی سزا کے بعد وہ ایک ہی مرتبہ اقتدار میں آئے ہیں، وہ تو صرف ساڑھے تین برس کی عمران خان حکومت کو الگ کرکے حکومت ہی میں ہیں اور پنجاب میں بھی ایساہی ہوا ہے کہ یہی پارٹی اقتدار کا تسلسل ہے۔

آج جبکہ ڈاکٹر عافیہ کی قید کو 22 برس مکمل ہوچکے ہیں اور سزا سنائے جانے کو بھی15 برس ہوچکے ہیں میاں شہباز شریف وزیر اعظم ہیں اور زرداری صاحب صدر اب انہیں مطالبہ کرنے کے بجائے عملی اقدام کرنا ہوگا، اسے اتفاق کہیں یا وزیر اعظم کا ایک اور امتحان کہ عین اسی موقع پر وہ امریکا جارہے ہیں، جب ڈاکٹر عافیہ کی سزاکو پندرہواں برس مکمل ہورہا ہے، اور ان کی صدر ٹرمپ سے ملاقات بھی ہونے والی ہے، سماجی ذرائع ابلاغ پر تو وزیر اعظم کو یاد دہانی کرائی جارہی ہے کہ اس ملاقات میں قوم کی بیٹی، جسے آپ اور آپ کے بھائی اپنی بیٹی قرار دیتے رہے ہیں، کو بھول نہ جائیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ محاورہ ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا گیا ہے، کہ: ’’کلام نرم و نازک بے اثر‘‘۔

اگر قوم کوئی نتیجہ حاصل کرنا چاہتی ہے تو میاں شہباز شریف کو نہایت گرم جوشی کے ساتھ امریکا کے لیے رخصت کرے اور واپسی میں وہ اچھی خبر لائیں تو ان کا اس سے بھی زیادہ زوردار استقبال کیا جائے، اور اگر ایک بار پھر ٹرمپ کی بارگاہ میں صم بکم عمی کی عملی تفسیر بن کر آئے تو پوری گرم جوشی کے ساتھ انہیں ایوان اقتدار سے رخصت کردیا جائے۔ یہ محض علامتی باتیں نہیں بلکہ اب پڑوس کے ممالک میں جھوٹے وعدے اور جھوٹے دعوے کرنے والوں کا تختہ پلٹا جارہا ہے، انہیں گھروں اور اقتدار سے نکالا جارہا ہے۔ تو کیا عجب کہ پاکستان میں بھی ایسا کچھ ہو جائے، کہیں صرف رجاکار (رضاکار) کہنے پر طلبہ کی تحریک رُخ بدل لیتی ہے اور کہیں سوشل میڈیا پر پابندی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے، عافیہ کا معاملہ تو بہت سنگین ہے، اس بنیاد پر تو اب تک عوام کو گھروں سے نکل کھڑا ہونا چاہیے۔ وزیر اعظم کی امریکا روانگی کے وقت ان کے ماضی کے بیانات کی نقل پر مشتمل بینرز ملک بھر میں لگادیے جائیں، ہر سڑک پر یہ نظر آنا چاہیے کہ اور یاد دلانا چاہیے کہ عافیہ کو سزا دلوانے میں اپنے اور پرائے دونوں شامل تھے۔ اور اب تو عافیہ کی رہائی میں رکاوٹ پرائے لوگوں سے زیادہ اپنے ہی بنے ہوئے ہیں۔

کبھی عافیہ کو ڈالر کے عوض فروخت کرکے، کبھی اسے امریکی شہری قرار دیکر، کبھی اس کی بہن ڈاکٹر فوزیہ کی جانب سے عدالت میں دی گئی درخواست کی راہ میں روڑے اٹکاکر، کبھی، بہت کچھ کرلیا کہہ کر کیس لپیٹنے کی درخواست کرکے، اور کبھی عدالتوں میں بنچ تشکیل دینے اور توڑنے کا کھیل کرکے رکاوٹ ڈالی جاتی ہے اور یہ سارے تو ’’اپنے‘‘ ہی کہلائے جاتے ہیں، پھر یہ کیوں نہ کہا جائے کہ

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

ویسے اتنی بے ہودگی اور بے غیرتی کا مظاہرہ کیا جاچکا ہے کہ ’’کمیں گاہ‘‘ کی جگہ ’’کمین گاہ‘‘ لکھنے کا دل چاہتا ہے۔ بہر حال میاں شہباز شریف کے لیے ایک اور امتحان کے ساتھ موقع بھی ہے وہ اس ایک کام کے ذریعہ اپنے بہت سے سیاسی عزائم کی تکمیل بھی کرسکتے ہیں اور اپنے سر پر اقتدار کے خاتمے کی لٹکتی تلوار کو بھی ہٹا سکتے ہیں، اور اگر عافیہ کو نہ لاسکے تو اب ان کے سر پر دوسری تلوار لٹک رہی ہے، اب ان کے سامنے ایک ہی راستہ ہے، عافیہ کو لائیں یا گھر جائیں۔

ویسے ہمارے حکمران اپنے پرانے بیانات اور اس کیس میں بار بار اپنے یوٹرن دیکھ لیں تو شاید شرمندگی کے مارے خود ہی گھر چلے جائیں، لیکن یہاں خود ہی گھر جانے کی روایت ہی نہیں ہے، ہمارے حکمران تو زبردستی مسلط کیے جاتے ہیں اور ضرورت پوری ہونے پر زبردستی اُتارے بھی جاتے ہیں، اب فیصلہ ان ہی کو کرنا ہے کہ کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں، خود فیصلہ کرلیں، قبل اس کے کہ عوام فیصلہ کریں۔

مظفر اعجاز.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میاں شہباز شریف ڈاکٹر عافیہ عافیہ کی عافیہ کو ہیں اور کے لیے

پڑھیں:

ڈونلڈ ٹرمپ کی وزیرِاعظم شہباز شریف سے ملاقات

فوٹو: جیو نیوز /اسکرین گریب

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے اختتام پر وزیرِاعظم محمد شہباز شریف اور اسحاق ڈار سے ملاقات ہوئی۔

امریکی صدر اور وزیرِاعظم کے مابین خوشگوار ماحول میں غیر رسمی گفتگو ہوئی۔

وزیراعظم شہباز شریف نے نیویارک میں عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔

دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردوان نے امریکی صدر اور مسلم ممالک کے رہنماؤں کی ملاقات کو نہایت مفید قرار دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ڈونلڈ ٹرمپ کی وزیرِاعظم شہباز شریف سے ملاقات
  • پاکستانیوں کی سعودیہ میں خدمات مثالی تعلقات و ترقی کا باعث ہیں، شہباز شریف
  • شہباز شریف اور فیلڈ مارشل کی ٹرمپ سے ملاقات طے پاگئی
  • گنی میں نئے آئین کے لیے ریفرنڈم، فوجی حکومت سے سول اقتدار کی منتقلی کی امید
  • وزیراعظم شہباز شریف یو این جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کیلئےنیویارک پہنچ گئے
  • ۔23 ستمبر یوم قتل انصاف؛ وزیر اعظم اور عدلیہ عافیہ کو انصاف دلائیں؟
  • شہباز شریف کی امریکی صدر سے ملاقات کل ہوگی
  • اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر یہ نہ سمجھیں کہ آپ عقل کل ہیں،وفاق ایسے فیصلے کرے جن سے عوام کے حالات میں بہتری آئے.شرجیل میمن
  • شہباز شریف 26 ستمبر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے