غزہ ڈوب نہیں، ابھر رہا ہے
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
اسلام ٹائمز: دنیا کے سامنے غزہ انسانیت کا معیار بن کر ابھر رہا ہے، غزہ حریت، قربانی اور جدوجہد کا نشان بن گیا ہے۔ جو غزہ کے ساتھ ہے، انسانیت کے ساتھ ہے اور جو غزہ کا دشمن ہے، دراصل وہ انسانیت کا دشمن ہے۔ مسلسل قربانیاں انسانیت کے ضمیر پر تعزیانے بن کر پڑ رہی ہیں۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ مسلسل شہید ہوتے بچے اور بھوک سے بلکتی مخلوق خدا پر ہوتے ظلم کے ہم بھی ذمہ دار ہیں۔ مغرب کے انسان دوست بول رہے ہیں اور مسلسل بول رہے ہیں۔ امت مسلمہ کی طرف سے کھا جانے والا سکوت ہے، جیسے ہمارا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
کافی دیر سے اٹلی کے آزاد انسانوں کی وڈیوز دیکھ رہا ہوں، انسانیت پر اٹھتا بھروسہ بحال ہو رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی خطے کے تمام انسان انسانیت کے قتل عام پر خاموش ہو جائیں۔ اٹلی کے انسانوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ صرف انسانیت کی بنیاد پر اہل غزہ کے ساتھ ہیں۔ وہ صیہونی بیانیے کو مسترد کرتے ہیں۔ اٹلی کے مختلف شہروں میں ٹریڈ یونینز کی اپیل پر فلسطین کے حق میں احتجاجی مظاہرے، ہڑتالیں اور دھرنے ہوئے ہیں، تاکہ غزہ میں جاری نسل کشی کی مذمت اور اسرائیل کے خلاف سفارتی و اقتصادی پابندیوں کا مطالبہ کیا جا سکے۔ روم، میلان، ٹورین، فلورنس، نیپلز، باری اور پالرمو میں طلبہ و شہریوں نے احتجاج کیا اور جینوا و لیورنو کی بندرگاہوں پر ڈاک ورکرز نے راستے بند کیے۔ یہ احتجاج اس قدر شدید تھا کہ نوے فیصد ٹرانسپورٹر یہاں تک کہ پچاس فیصد ریلوے ملازمین بھی اس ہڑتال اور احتجاج میں شامل تھے۔
اہل غزہ کے لیے پورا اٹلی سڑکوں پر تھا، یورپی میڈیا بھی حیرانی کا اظہا کر رہا ہے کہ اس قدر لوگ کہاں سے آگئے۔؟ سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں تک اس احتجاج کا حصہ بنیں۔ ایسا نہیں کہ یہاں کی حکومت فلسطین کی حمایت میں ہے۔ وزیرِاعظم جیورجیا میلونی کی قدامت پسند حکومت ہے، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریب سمجھی جاتی ہے، انہوں نے فی الحال فلسطینی ریاست کو تسلیم نہ کرنے اور یورپی یونین کی تجویز کردہ اسرائیل پر تجارتی پابندیوں سے گریز کا اعلان کیا ہے۔ اس کے مقابل جب ہم مسلمان ممالک کا ردعمل دیکھتے ہیں تو شرمندگی ہوتی ہے۔ ہم تو پرامن احتجاج بھی نہیں کرسکے، ہمارے مقابلے میں یورپ یہاں تک کہ امریکہ کے آزادی پسند انسان بہتر ثابت ہوئے، جنہوں نے بڑی تعداد میں احتجاج کو منظم کیا اور اپنے مستقبل کو داو پر لگا دیا۔
ابھی امریکی صدر میڈیا ٹاک کے لیے بلڈنگ سے باہر آئے، بات شروع ہی کر رہے تھے کہ احتجاجی خواتین کے ایک گروپ نے انہیں گھیر لیا اور فری فری فلسطین کے نعروں سے جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے کا فریضہ انجام دیا۔ ابھی کل کی بات ہے، امریکی وزیر خارجہ پریس کانفرنس کرنے لگے تو آزادی پسند صحافی اور کچھ دوسرے لوگوں نے "فری فلسطین" اور "غزہ میں انسانیت کا قتل عام بند کرو" کے نعرے لگائے، چند منٹس تک پریس کانفرنس کو روکنا پڑا۔ ایک مغربی غالباً پارلیمنٹرین کی ویڈیو دیکھ رہا تھا، اسے فلسطینی پرچم پہن کر تقریر کرنے سے منع کیا گیا، وہ کپڑے تبدیل کرکے آئیں اور تربوز کے بیجوں والے سرخ کپڑے پہن لیے، جو فلسطینی مزاحمت کا نشان ہیں۔
اٹلی کی بات ہو رہی تھی تو اٹلی کی فرانسسکا البانیز جو اقوام متحدہ کی ترجمان ہیں، انہوں نے فلسطینیوں کی آواز بن کر اقوام عالم کے سامنے غزہ میں جاری نسل کشی کا پردہ چاک کیا ہے۔ ان کے تاریخی الفاظ تھے: "نسل کشی مکمل ہوچکی ہے۔” امریکی وزیر خارجہ مارک روبیو نے ان پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ واقعاً سچ بولنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس پر پابندیاں تو بنتی ہیں۔ ان کی آخری رپورٹ ایک ایسی چیخ تھی، جو خاموش نہ ہوسکی۔ اس رپورٹ میں 200 سے زائد دستاویزی ثبوت تھے، جس میں بتایا گیا کہ کس طرح گوگل، مائیکروسافٹ، لاکہیڈ، کاٹربلر اور دیگر عالمی کمپنیاں فلسطینیوں کی تباہی کے انسانیت سوز جرم میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ وہ کمپنیاں جو قابض اسرائیل کو ہتھیار دیتی ہیں، نگرانی کے نظام فراہم کرتی ہیں اور ان بلڈوزروں کا ایندھن بنتی ہیں، جو فلسطینی گھروں کو مٹی میں بدل دیتے ہیں۔
اسپین کے وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے اقوام متحدہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ایک نسل کشی ہے! سلووینیا کی صدر نے ٹرمپ، نیتن یاہو اور اقوامِ متحدہ کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تاریخ کی درست سمت میں کھڑے ہونا چاہیئے۔ ہم جرمنی میں نسل کشی نہیں روک پائے، اسی طرح روانڈا اور دیگر مقامات پر بھی نہیں روک پائے۔ ہمیں غزہ کی نسل کشی ابھی روکنی ہوگی، اسے نہ روکنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ مظالم کی تاویل اور ظالم کی وکالت پر انسان کا ضمیر ملامت کرتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک سابق امریکی ترجمان کا بیان نظر سے گذارا، اس نے اعتراف کیا کہ غزہ میں نسل کشی ہو رہی ہے، مگر جب میں اس پوسٹ پر تھا تو میں اس کا دفاع کر رہا تھا۔ یقیناً اس کے ضمیر نے ملامت کی ہوگی کہ میں کس انسانیت دشمن عمل کی وکالت کرتا رہا ہوں۔
دنیا کے سامنے غزہ انسانیت کا معیار بن کر ابھر رہا ہے، غزہ حریت، قربانی اور جدوجہد کا نشان بن گیا ہے۔ جو غزہ کے ساتھ ہے، انسانیت کے ساتھ ہے اور جو غزہ کا دشمن ہے، دراصل وہ انسانیت کا دشمن ہے۔ مسلسل قربانیاں انسانیت کے ضمیر پر تعزیانے بن کر پڑ رہی ہیں۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ مسلسل شہید ہوتے بچے اور بھوک سے بلکتی مخلوق خدا پر ہوتے ظلم کے ہم بھی ذمہ دار ہیں۔ مغرب کے انسان دوست بول رہے ہیں اور مسلسل بول رہے ہیں۔ امت مسلمہ کی طرف سے کھا جانے والا سکوت ہے، جیسے ہمارا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ یہ لکھ رہا تھا تو قرآن مجید کی یہ آیت مجیدہ بار بار ذہن میں آنے لگی ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: "فَإِن تَوَلَّوْا فَقَدْ أَبْلَغْتُكُم مَّا أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَيْكُمْ ۚ وَيَسْتَخْلِفُ رَبِّي قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّونَهُ شَيْئًا ۚ إِنَّ رَبِّي عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ"(سورہ ھود ۵۷) "اگر تم روگردانی کرو گے تو جو پیغام میرے ہاتھ تمہاری طرف بھیجا گیا ہے، وہ میں نے تمہیں پہنچا دیا ہے اور میرا پروردگار تمہاری جگہ اور لوگوں کو لابسائے گا اور تم خدا کا کچھ بھی نقصان نہیں کرسکتے۔ میرا پروردگار تو ہر چیز پر نگہبان ہے۔"
مجھے لگتا ہے کہ جو پیغام اللہ کے نبیﷺ ہمیں دے کر گئے تھے، ہم یقیناً اس سے روگردانی کرچکے ہیں اور اب ہماری جگہ دوسری اقوام کو بسائے جانے کا عمل جاری ہے۔ کچھ دوست پریشانی کے عالم میں بتاتے ہیں کہ غزہ گیا، غزہ ڈوب گیا، اب غزہ تاریخ میں رہ جائے گا۔ نہیں، نہیں دوستو، ایسا بالکل نہیں ہے۔ غزہ ڈوب نہیں، غزہ ابھر رہا ہے۔ غزہ کا خون آفتاب کی طرح چمکے گا۔ ایک وقت آئے گا، ملکوں کے پرچم غزہ کے قتل عام میں شریک ہونے پر سرنگوں ہوں گے اور وہ ممالک شرمندگی کا اظہار کریں گے، جو اس قتل عام میں کسی بھی طرح سے شریک رہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ابھر رہا ہے بول رہے ہیں انسانیت کے انسانیت کا کے ساتھ ہے کا دشمن ہے کے انسان کے سامنے قتل عام ہیں اور نہیں ہے کہ غزہ غزہ کے ہیں کہ
پڑھیں:
مریم نواز بہت بدل گئی ہیں
مریم نواز کو جاننے کے کئی طریقے ہیں۔ آپ ان کو نواز شریف کی بیٹی کی حیثیت سے بھی جانتے ہیں۔ یہ اس خاندان کی فرد ہیں جہاں والد وزیر اعظم، چچا وزیر اعلیٰ اکثر دیکھے گئے۔ پورے ملک کی سیاسی قیادت ان کے گھر عموماً آتی رہی۔ دنیا بھر کےسربراہان مملکت کے ان کے خاندان سے رابطے رہے۔ کتنے ہی وزرا اعظم خود چل کر ان کے گھر آئے۔ کتنے غیر ملکی وفود سے بچپن میں ہی ان کی ملاقات رہی۔ کتنی ہی سیاسی تحریکوں نے ان کے گھر سے جنم لیا۔ کتنے ہی سیاسی مدوجزر انہوں نے بچپن میں دیکھ لیے ۔
مریم نواز کو جاننے کا ایک طریقہ یہ ہے آپ مریم نواز کو ان کے دادا کے حوالے سے جانیں جو پاکستان کے سب سے بڑے انڈسٹریلسٹ تھے۔ جن کے کاروبار کا شمار نہیں تھا۔ اتفاق ایسا نام تھا جس پر سب متفق تھے۔ لاہور اتفاق فیکٹری کی سرحد سے شروع ہوتا تھا۔ اس مریم نواز کا بچپن ناز و نعم میں گزرا تھا۔ یہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئیں۔ ان کی زندگی میں عسرت و غربت کی کوئی جھلک نہیں تھی۔ ان کی زندگی میں پیسے کی فروانی تھی۔ دولت کی ریل پیل تھی۔
مریم نواز کو جاننے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ انہیں ان کے بچپن سے پہچانیں۔ مریم نواز کبھی سیاست میں آنے میں دلچسپی نہیں رکھتی تھیں۔ ان کے والد، والدہ، چچا اور کزن نے جو مشکلات سہیں اس کے بعد ان کی کوئی دلچسپی اس مضمون میں نہیں رہ گئی تھی۔ وہ ایک عام خاتون کی طرح زندگی گزارنا چاہتی تھیں۔ گھر بار، بچے سنبھالنا چاہتی تھیں۔ سیاست میں ان کی دلچسپی اپنے والد تک تھی، اور یہ انکے لیے کافی تھا ۔ والد ہی ان کی سوچ کا محور تھے
مریم نواز کو جاننے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ ان کو جیل میں ملتے۔ جہاں سے مریم نواز کی زندگی میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ جیل کے دنوں میں اگر آپ کی ان سے ملاقات ہوئی ہو تو آپ جان سکتے ہیں کہ اس وقت انہیں جیل کی تکالیف پریشان نہیں کرتی تھیں۔ وہ بڑے استقلال کے ساتھ ظلم و ستم کا مقابلہ کرتی تھیں۔ عمران خان کے دور میں ان کے باتھ روم میں کیمرے لگوا دیے گئے۔ ان سے جانماز چھین لی گئی۔ ان کے کمرے میں رات کو 12 بجے کے قریب جب وہ شب خوابی کے لباس میں ہوتیں تو نیب کے 15-15 اہلکار داخل ہو کر موبائل پر وڈیوز بنانے لگتے۔ اور سب سے زیادہ اذیت ناک بات کہ جب مریم نواز کی والدہ بیگم کلثوم نواز بستر مرگ پر تھیں۔ ان سے بات نہیں کروائی گئی۔ آنے والے سانحے کی سب کو خبر تھی۔ اس موقع پر جیل سپرٹینڈینٹ سے کس طرح ایک بیٹی نے درخوست کی ہو گی یہ ہر بیٹی والا سمجھ سکتا ہے۔ لیکن بات نہیں کروائی گئی۔ ماں دنیا سے چلی گئی قلق دل میں رہ گیا۔ آخری مرتبہ آواز سننے کی حسرت عمر بھر کے لیے رہ گئی۔
مریم نواز کو آپ جاننا چاہیں تو انہیں اس دور کے حوالے سے جان سکتے ہیں جب عمران خان اور ان کے حواریوں نے ان پر اور ان کے خاندان پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے۔ جب نواز شریف جیل میں تھے اور پارٹی خاموش ہو کر کسی سانحے کا انتطار کر رہی تھی۔ کوٹ لکھپت جیل کے باہر 200 لوگ بھی احتجاج کے لیے جمع نہیں ہوتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نواز شریف کے پلیٹلٹس کم ہونے کی خبریں ٹی وی اسکرینوں پر چل رہی تھیں۔ کوئی عمران خان کے ظلم کے خلاف کچھ کہنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھی اس جرم میں برابر کی شریک تھی۔ اس وقت ہم نے مریم نواز کا ایک اور روپ دیکھا۔ وہ لڑکی جو سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی، کسی شیرنی کی طرح اپنے باپ کی زندگی کے لیے ٹوئٹر پر دھاڑتی تھی۔ جو کچھ بس میں تھا اس زمانے میں مریم نواز نے کیا۔ نواز شریف کی اس وقت جان بچانے کا سہرا صرف اور صرف مریم نواز کو جاتا ہے۔ اس وقت نہ وہ نازوں میں پلی لڑکی رہیں نہ سیاست سے منفور رہیں۔ ان کی زندگی کا مطمحِ نظر صرف نواز شریف ہو گئے تھے۔ اسے نہ گرفتاری کا ڈر تھا نہ دورِ عمران کے جبر کا خوف۔ انہوں نے اس زمانے میں تن تنہا اپنے باپ کی زندگی کی جنگ لڑی۔
مریم نواز کو جاننے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ ان کو سیاست دان کی حیثیت سے جانیں۔ مسلم لیگ ن کے پاس اب مریم نواز کے سوا کچھ زیادہ نہیں بچا۔ ہر الیکشن کمپین ان کو کرنا پڑتی ہے۔ ہر جرأت مندانہ اقدام کے لیے نگاہیں ان پر پڑتی ہیں۔ جب مریم نواز وزیر اعلیٰ بنیں تو کچھ خدشات لوگ کے ذہنوں میں تھے۔ لوگوں کو لگتا تھا ناز و نعم میں پلی یہ خاتون اپوزیشن میں تو احتجاج کر سکتی ہے مگر صوبہ نہیں چلا سکتی۔ شروع میں اعتراضات بڑھے ۔ لوگوں نے ان کے قیمتی ملبوسات میچنگ پرس اور جوتوں پر جملے کسے۔ جس طرح وہ عوام میں گھل مل جانے سے اجتناب کرتی تھیں اس پر باتیں کیں۔ لیکن پھر کچھ ایسا ہوا کہ مریم نواز بدل گی۔
گزشتہ چند دنوں سے مریم نواز وہ نہیں رہیں جو وہ پہلے تھیں۔ نہ اب وہ زرق برق لباس زیب تن کرتی ہیں، نہ عوام سے دور رہتی ہیں نہ منتخب نمائندوں سے خائف رہتی ہیں۔ سیلاب کے دنوں میں مریم نواز نے وہ کر دکھایا جس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔ اب لوگ اس مریم نواز کو جانتے ہیں جو مصیبت زدگان کی مدد کو ہر لمحہ تیار رہتی ہے۔ اب لوگ انہیں اس مریم نواز کے حوالےسے جانتے ہیں جو مشکل میں پھنسے لوگوں کو گلے لگاتی ہے۔ اب ان کی پہچان ہے کہ وہ سیلاب زدگان کے ساتھ چٹائی پر بیٹھ کر کھانا کھاتی ہے۔ ننگ دھڑنگ بچوں کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتی ہے۔ اب نہ ان کا لباس زرق برق ہے نہ اپنی امارت کا کوئی احساس۔ سر پر معمولی سی چادر لیے، بنا کسی پروٹوکول کے عوام کی خدمت میں جتی مریم نواز اب بدل گئی ہیں۔ اب اس کو پرٹوکول کی کوئی پرواْ نہیں، اسے صرف پنجاب کے عوام کی فکر ہے۔ مریم نواز اپنی ساری ٹیم کو مصیبت زدگان کی خدمت پر مامور رکھتی ہے۔ اب وہ پورے پنجاب میں ہر جگہ لوگوں کی خدمت کرنے کو پہنچتی ہے۔ یہ وہ مریم نواز نہیں ہے جس کی پرورش ناز و نعم میں ہوئی۔ جس کے منہ میں سونے کا چمچہ اور تن پر زرق برق لباس تھا۔ یہ وہ مریم نواز ہے جو عوام کی خادم ہے۔ پنجاب کی محافظ ہے۔ اب اس کا ایک ایسا نیا روپ سامنے آیا ہے جس میں وہ نواز شریف کی بیٹی تو ہے مگر بیگم کلثوم نواز کے سب وصف لے کر عوام کی خدمت کررہی ہے۔ اب وہ اپنی ذات، خاندان، عیش و عشرت سے ماورا ہو گئی ہے۔ یقین مانیے مریم نواز اب بہت بدل گئی ہے۔ مریم نواز چند دنوں میں ہی بہت بدل گئی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔