شہر قائد میں عوام کے محافظ خود جرائم پیشہ عناصر کے سہولت کار بن گئے
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (رپورٹ \ محمد علی فاروق) شہر قائد میں عوام کے محافظ خود جرائم پیشہ عناصر کے سہولت کار بن گئے۔ اسپیشل برانچ کی خفیہ رپورٹس نے پولیس کے اندر چھپی ایک ایسی خوفناک حقیقت کو بے نقاب کردیا ہے جس نے شہریوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان رپورٹس کے مطابق کراچی کے مختلف تھانوں میں تعینات 50سے زائد ایس ایچ اوز اور130 سے زائد افسران اور اہلکار جرائم پیشہ سرگرمیوں میں براہِ راست ملوث پائے گئے ہیں۔ ان “محافظوں” پر نہ صرف بھتا خوری، منشیات فروشوں اور گٹکا مافیا سے رقوم بٹورنے بلکہ مساج سینٹرز، جوا خانوں اور قحبہ خانوں کی سرپرستی کرنے اور زمینوں پر قبضے جیسے بھیانک جرائم کے سنگین الزامات ثابت ہوئے ہیں۔ یہ نیٹ ورک صرف شہر کے جرائم پیشہ عناصر کو تحفظ فراہم نہیں کرتا بلکہ عام شہریوں کو بھی دباؤ میں لے کر ان سے ناجائز رقوم اینٹھتا رہا ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ان میں سے کئی افسران آج بھی اپنے عہدوں پر موجود ہیں اور کچھ کے خلاف مقدمات ہونے کے باوجود نہ تو انہیں معطل کیا گیا اور نہ ہی برطرف ہوئے۔ گڈاپ اور لانڈھی تھانے کے انسپکٹرز، ایس ایچ او گڈاپ معمار انسپکٹر عبدالغفار پر رشوت، گٹکا ماوا اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ ایس ایچ او لانڈھی انسپکٹر اویس وارثی پر منشیات فروشوں اور پتھارے داروں سے بھتا لینے کے الزامات ہیں۔ ایس ایچ او شرافی گوٹھ سب انسپکٹر صدرالدین میرانی زمینوں پر قبضے اور منشیات فروشی میں ملوث رہا۔ اس پر قتل کا مقدمہ بھی درج ہے اور وہ اس وقت جیل میں قید ہے۔ ایس ایچ او عزیزآباد ایس آئی پی عامر اعظم غیر قانونی پارکنگ سے ہفتہ وار بھتا وصول کرتا رہا۔ایس ایچ او گلبرگ نادم احمد خان اورایس ایچ او جوہرآباد راشد الرحمان پر الزام ہے کہ وہ گٹکا ماوا مافیا اور منشیات فروشوں سے بھاری رقوم وصول کرتے رہے۔ایس ایچ او یوسف پلازا افتخار خانزادہ، ایس ایچ او شاہراہ نور جہاں عابد شاہ اورایس ایچ او سپر مارکیٹ راؤ ناظم بھی مختلف غیر قانونی کاروبار سے بھتا لینے میں ملوث پائے گئے۔ ایس ایچ او پریڈی شبیراحسین اورایس ایچ او آرٹلری میدان چودھری زاہد حسین پر ہوٹلوں، جوا خانوں اور پارکنگ مافیا سے بھتا لینے کے الزامات ہیں۔ ایس ایچ او کھارادر پون کمار پر انکشاف ہوا ہے کہ وہ صرف ایک تھانے سے ہی ماہانہ دو کروڑ روپے تک کا بھتا وصول کرتا رہا۔ اسی طرح ایس ایچ او بوٹ بیسن محمد ریاض‘ ایس ایچ او کلفٹن عرفان میو،ایس ایچ او ڈیفنس اسرا احمد اور ایس ایچ او درخشاں شاہد پر الزام ہے کہ وہ قحبہ خانوں، شیشہ کیفے اور شراب خانوں سے بھاری رقوم وصول کرتے رہے جبکہ سنگین جرائم کی وارداتوں کی سرپرستی، رشوت،اسمگلنگ و دیگر جرائم میں ملوث افسران و اہلکاروں میںHC M.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جرائم پیشہ عناصر اے ایس ا ئی ایس ا ئی پی ایس ایچ او ایس ایچ ا میں ملوث ایچ ایم ا ئی اے پی ایس رہا ہے
پڑھیں:
لانڈھی کا دلخراش سانحہ؛ 7 سالہ سعد علی کی المناک داستان نے دل دہلا دیے
کراچی کے علاقے لانڈھی سے پانچ روز قبل لاپتہ ہونے والے سات سالہ بچے سعد علی کی لاش بوری میں بند حالت میں ملی ہے۔ افسوسناک واقعہ اس وقت منظرِ عام پر آیا جب لانڈھی کے علاقے 36 بی کی کچرا کنڈی سے بدبو آنے پر مقامی افراد نے پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس اور چھیپا کے رضاکار موقع پر پہنچے تو بوری سے ایک کمسن بچے کی سڑتی ہوئی لاش برآمد ہوئی۔پولیس کے مطابق بچے کی شناخت سات سالہ سعد علی ولد سلمان کے نام سے ہوئی جو 18 ستمبر کو گھر کے باہر سے لاپتہ ہوا تھا۔ اس کے اغوا کا مقدمہ لانڈھی تھانے میں درج کیا گیا تھا اور بچے کی تلاش کے لیے پمفلٹ بھی تقسیم کیے گئے تھے۔پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ مقتول بچے کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی اور موت کی وجہ سر پر وزنی چیز لگنے سے ہونے والی چوٹ بتائی گئی ہے۔ پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ طارق کے مطابق بچے کے جسم سے حاصل کیے گئے مختلف نمونے کیمیکل تجزیے کے لیے بھجوا دیے گئے ہیں۔واقعے کے بعد مقتول کے گھر میں کہرام مچ گیا۔ اہلِ علاقہ کی بڑی تعداد غمزدہ خاندان کے ساتھ تعزیت کے لیے پہنچ گئی اور پولیس پر غفلت برتنے کا الزام لگاتے ہوئے شدید احتجاج کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بچے کی گمشدگی کے باوجود پانچ دن تک کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی۔علاقہ مکینوں اور متاثرہ خاندان نے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ معصوم بچے کے ساتھ درندگی کرنے والے مجرموں کو فوری طور پر گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے۔پولیس کی جانب سے تحقیقات جاری ہیں اور مقتول بچے کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ ان کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں اس لیے یہ واقعہ پوری برادری کے لیے صدمہ اور خوف کی علامت بن گیا ہے۔ بچے کی نمازِ جنازہ اور تدفین ظہر کے بعد ادا کی گئی۔