تاثیرِ قرآن اور تعمیرِ کردار
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
قرآن کے اعجاز کا سب سے بڑا پہلو اس کی وہ قدرتِ تاثیر ہے جس سے یہ انسان کو اندر سے بدل کر رکھ دیتا ہے ۔ پھر یہ انسان ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کو یوں اپنے سامنے حاضر وموجود پاتا ہے کہ اپنے تمام تر امور و معاملات میں اسی کی عبادت اور اسی کی اطاعت کا دم بھرتا ہے اور تسلیم و رضا کی اس انتہائی بلندی کو پہنچ جاتا ہے جس کے بارے میں خود قرآن ہی کا بیان ہے، ترجمہ: ’’کہو میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘ (الانعام: 162)۔
مذکورہ آیت میں جس تبدیلی کا ذکر ہے قرآن انسان کے دل کے اندر اپنا نور داخل کرکے اس تبدیلی کا آغاز کرتا ہے۔ چوںکہ یہ نور اپنے اندر پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہٰذا رفتہ رفتہ بڑھتا رہتا ہے اور زندگی بھی اسی رفتار سے اس کی لَو میں چلنے لگتی ہے اور بالآخر یہ انسان ایک نئی زندگی کا آغاز کر لیتا ہے جس سے وہ پہلے آشنا ہوتا ہے نہ اس کا خوگر اور عادی!
قرآنِ کریم نے انسانی دل میں اس نور کے داخل ہونے سے قبل کی زندگی کو موت سے تعبیر کیا ہے اور بعد کی زندگی کو حیات کا نام دیا ہے، فرمایا، ترجمہ: ’’کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زند گی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو‘‘ (الانعام :122)۔
اس اعتبار سے قرآن وہ روح ہے، جو دل میں جاگزیں ہو کر دل کو زندگی سے ہمکنار کردیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ مجید کے بارے میں یہی بیان کیا ہے، فرمایا، ترجمہ: ’’اسی طرح (اے نبیؐ)! ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمھاری طرف وحی کی ہے۔ تمھیں کچھ پتا نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر اس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ‘‘ (الشوریٰ: 52)۔
جب یہ روح دل میں داخل ہوتی ہے تو دل کے تمام گوشے نورِ ایمان سے جگمگا اٹھتے ہیں۔ پھر اس روشنی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہشات اور حُبِّ دنیا کو وہاں سے نکال باہر کرتی ہے اور اس کا اثر انسان کے کردار، اس کی ترجیحات اور دلچسپیوں پر واضح دکھائی دیتا ہے کہ وہ سب بدل کر رہ جاتے ہیں۔ یہی وہ کیفیت ہے جس کو نبی اکرمؐ نے اس موقع پر واضح فرمایا تھا جب صحابہؓ نے قرآنِ مجید کی اس آیت کے بارے میں دریافت کیا تھا، ترجمہ: ’’کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے‘‘ (الزمر: 22)۔ (اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے ان باتوں سے سبق نہ لیا؟)۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جب نور دل میں داخل ہو جاتا ہے تو دل کھل جاتا ہے اور کشادہ ہو جاتا ہے‘‘۔ صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ! اس کی نشانی کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: (آخرت) کی طرف میلان اور دارِغرور (دنیا) سے کنارہ کشی اور موت کے آنے سے پہلے پہلے موت کے لیے تیاری‘‘ (اخرجہ البیہقی فی الزھد)۔
قرآنِ کریم کی تاثیر اور انسانی دلوں کو بدل ڈالنے کی قوت ناقابل بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک مثال قرآنِ کریم میں ہی بیان فرمائی ہے۔ فرمایا، ترجمہ: ’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر) غور کریں‘‘ (الحشر: 21)۔
امام قرطبیؒ کہتے ہیں کہ اگر پہاڑوں کو عقل عطا کرکے ان سے قرآن کے الفاظ میں خطاب کیا جاتا تو پہاڑ اس کے مواعظ کے سامنے یوں مطیع ہو جاتے کہ تم ان کی سختی کے باوجود انھیں اللہ کے خوف وخشیت سے روتا اور ٹوٹتا پھوٹتا دیکھتے (الجامع لاحکام القرآن)۔
قرآنِ کریم کی اس مثال میں قرآنِ حکیم کی قوتِ تاثیر پر غور و فکر کرنے کی دعوت بھی ہے تاکہ تمام انسانوں کے لیے حجت قائم ہو جائے اور اس آدمی کا دعویٰ غلط قرار پائے جو یہ کہتا ہو کہ وہ قرآن کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
جو شخص پوری دیانت داری اور طلبِ ہدایت کے ارادے سے قرآن کو کتابِ ہدایت و شفا سمجھ کر اس کی طرف آتا ہے، اس شخص پر قرآن کی عجیب تاثیر ہوتی ہے۔ اس کی شخصیت میں گہری بنیادوں پر استوار ہونے والا ایک مکمل انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔ اس کی شخصیت کی ڈھلائی اور تشکیل ایک ایسے نئے انداز سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند اور محبوب ہے۔ اس باب میں اگر کسی کو شک ہو تو وہ اُن اصحابِ رسولؐ کی زندگیوں کا مطالعہ کرے جو اسلام سے قبل جاہلیت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے، لیکن اسی حالت میں جب قرآن کی بھٹی میں داخل ہوتے ہیں تو ایسے نئے انسان بن کر باہر نکلتے ہیں جن پر ساری انسانیت کو آج تک فخر ہے۔
قرآن نے صحابہؓ کو اس لیے بدل کر رکھ دیا تھا کہ صحابہؓ قرآن کو سمجھنے، اس کے مقصدِ نزول کو جاننے اور اس کے معنی و مفہوم کی قیمت کا ادراک کر لینے کے بعد اسی کو اپنی زندگیوں کا رہنما سمجھتے تھے۔ صرف سمجھتے ہی نہیں تھے بلکہ اس کا سو فیصد مظاہرہ کرتے تھے۔ اس معاملے میں ان کے رہنما و مقتدا اور استاذ و معلّم رسولؐ تھے اور اللہ کے رسولؐ زندگی کے ایک ایک لمحے کو قرآن کی رہنمائی میں گزار رہے تھے۔ آپؐ کی زندگی پر قرآن کا رنگ یوں چڑھا ہوا تھا کہ آپؐ چلتے پھرتے قرآن تھے۔ آپؐ کا اندازِ تلاوت اور طریقۂ قرأت یہ تھا کہ آپؐ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے۔ ایک بار تو آپؐ نے تہجد کی نماز میں یہ آیت دہراتے ساری رات گزار دی، ترجمہ: ’’اب اگر آپ انھیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں‘‘ (المائدہ : 118)۔
قرآن کی قوتِ تاثیر اس وقت مزید واضح ہوکر سامنے آتی ہے جب ہم رسولؐ کے یہ کلمات سنتے ہیں کہ: ’’مجھے سورۂ ہود اور اس جیسی دیگر سورتوں نے بوڑھا ہونے سے قبل ہی بوڑھا کر دیا ہے‘‘ (صحیح الجامع الصغیر)۔
جب اللہ کے رسولؐ پوری پوری رات ایک آیت کو دہراتے گزار دیتے ہیں اور قرآن کی تذکرۂ آخرت پر مشتمل سورتیں آپؐ کے اوپر بڑھاپا طاری کر دیتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محض قرآن کے الفاظ کی تلاوت سے یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ لازماً قرآن کے مفہوم و معنٰی کے اثرات تھے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کی حقیقی قدروقیمت اس کے معانی و مفاہیم کے اندر ہے۔
آج ہمارے ہاتھوں میں بھی وہی قرآن ہے جو صحابہ کرامؓ کے پاس تھا۔ انھیں تو اس قرآن نے ایک بے مثال گروہ بنا دیا، لیکن ہم—؟ آج ہمارے اندر ان جیسے نمونے اور کردار کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ کیا آج قرآن کی تاثیر ختم ہو گئی ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں! قرآن کی تاثیر ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ دلِ بیدار نہیں ہیں جن کے اندر یہ تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے مفر نہیں کہ قرآن کی طرف رجوع کی صورت میں ہی ہم اس پریشان کن صورتِ حال کو ختم کر سکتے ہیں۔ قرآن کو چھوڑ کر یا اس کو نظرانداز کرکے کوئی ذریعہ اور طریقہ ایسا نہیں جو امت کی اصلاح اور تبدیلی میں بنیادی کردار ادا کر سکے اور مطلوبہ نتائج فراہم کرے!
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اللہ تعالی کی زندگی قرا ن کو قرا ن کی قرا ن کے داخل ہو جاتا ہے اللہ کے ہوتی ہے ہیں کہ تھا کہ اور اس ہے اور کے لیے کی طرف
پڑھیں:
تعلیمی اداروں و اسپتالوں کی نجکاری قبول نہیں‘عنایت اللہ خان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250926-08-10
سوات (صباح نیوز)امیر جماعت اسلامی خیبرپختونخوا شمالی عنایت اللہ خان نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت سرکاری تعلیمی اداروں اوراسپتالوں کو پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کے تحت چلانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی آئینی ذمے داریوں سے راہ فرار اختیار کر رہی ہے، اس اقدام سے عوام کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھیں گے، حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمے داریوں سے بھاگنے کے بجائے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرے، امن، صحت کی سہولیات اور مفت تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہے لہٰذا حکومت اس ذمے داری سے فرار اختیار کرنے کے بجائے اسے پورا کرے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سوات پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ عنایت اللہ خان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے 1500 سے زایدا سکولوں 58زاید کالجوں کے ساتھ ساتھ 78 کے قریب چھوٹے بڑے سرکاری اسپتالوں کو آؤٹ سورس کرکے پرائیویٹ سیکٹر کے تحت چلانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اسپتالوں کو پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت دینے کی پالیسی کو کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس سے علاج معالجہ مزید مہنگا ہو جائے گا اور غریب عوام صحت جیسی بنیادی سہولت سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جماعت اسلامی تعلیم اور صحت کی نجکاری کے خلاف ہر فورم پر آواز بلند کرے گی کیونکہ عوام کو مفت تعلیم، سستی صحت اور پرامن ماحول فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمے داری ہے، عنایت اللہ خان نے صوبے میں امن وامان کی صورتحال پر بھی تشویش کااظہار کرتے ہوئے حکومت سے خیبر پختونخوا میں قیام امن کے لیے اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ سوات میں ہونے والے امن پاسون میں پیش کردہ مطالبات کی جماعت اسلامی پوری طرح حمایت کرتی ہے اور آئندہ کے لیے بھی ا س حوالے سے سوات کے عوام کے اس جائز مطالبے کی ہر فورم پر بھرپور حمایت کی جائے گی ۔