پشاور ہائیکورٹ‘ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء میں ترامیم کالعدم قرار
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250926-08-12
پشاور(آن لائن)پشاور ہائیکورٹ نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء میں کی گئیں 2022ء کی ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا۔خیبر پختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء میں ہونے والی ترامیم کے خلاف درخواستوں پر پشاور ہائیکورٹ نے فیصلہ جاری کر دیا۔ جسٹس فرح جمشید نے 18 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا۔عدالتی فیصلے میں کہا کہ درخواست گزار کے مطابق لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء میں ترامیم کرکے بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات کم کیے گئے، ترامیم سے اراضی کا کنٹرول اور ماسٹر پلاننگ اینڈ ہاؤسنگ وغیرہ سے متعلق اختیارات بھی لوکل کونسلرز سے لے لیے گئے تھے۔ فیصلے کے مطابق 2022ء میں صوبے میں بلدیاتی انتخابات ہوئے، نمائندوں نے حلف اٹھایا تو اس کے بعد حکومت نے بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم کی، ریاست کی ذمے داری ہے کہ منتخب نمائندوں کے ذریعے گورنمنٹ کو مضبوط کریں، اختیارات علامتی نہیں ہونے چاہیے۔ پشاور ہائیکورٹ نے فیصلے میں سیکشن 23A اور 25A میں 2022ء میں کی گئی ترامیم کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء میں پشاور ہائیکورٹ
پڑھیں:
پشاور ہائیکورٹ، اعظم سواتی کی توہین عدالت درخواست پر فیصلہ محفوظ
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کی فیڈریشن اتنی کمزور ہے کہ اگر کوئی باہر چلا جائے تو واپس نہیں لا سکتے؟ یہ سیاسی لوگ ہیں، کہیں نہیں جائیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی کی بیرون ملک سفر پر پابندی کے خلاف دائر توہین عدالت درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے اعظم سواتی درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں بتایا کہ عدالتی احکامات کے باوجود 13 اگست کو درخواست گزار کو بیرون ملک جانے سے روکا گیا، عدالت نے جب حکم دیا اسی شام درخواست گزار کے خلاف دو ایف آئی آرز کا پتہ چلا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کی فیڈریشن اتنی کمزور ہے کہ اگر کوئی باہر چلا جائے تو واپس نہیں لا سکتے؟ یہ سیاسی لوگ ہیں، کہیں نہیں جائیں گے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آپ ان کو گرفتار بھی نہیں کرنا چاہتے اور چھوڑتے بھی نہیں، عدالت حکم دیتی ہے مگر جب یہ جانے لگتے ہیں تو ان کو روک دیا جاتا ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت میں بتایا کہ کوہستان اسکینڈل میں ہم نے ان کا نام ای سی ایل میں شامل کیا تھا، جب عدالت کا حکم آیا تو ہم نے ہٹا دیا، عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔