Daily Mumtaz:
2025-11-11@01:21:11 GMT

پاکستانی اداکارہ نے برسوں پرانا راز کھول دیا، مداح حیران

اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT

پاکستانی اداکارہ نے برسوں پرانا راز کھول دیا، مداح حیران

پاکستانی شوبز کی نامور اداکارہ انوشے عباسی نے ایک حیران کن انکشاف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان کی شادی دراصل 2019ء ہی میں ختم ہو چکی تھی۔

انوشے عباسی نے یہ انکشاف اداکارہ اُشنا شاہ کے شو میں گفتگو کے دوران کیا اور اپنی طلاق پر کھل کر بات کی۔

انوشےعباسی اور جویریہ عباسی کی فیملی سے تعلق رکھتی ہیں اور خود بھی کئی مشہور ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھا چکی ہیں۔ انہوں نے 2014ء میں اداکار عینان عارف سے شادی کی تھی اور اس وقت ان کی شادی کی تصویریں خوب وائرل ہوئی تھیں۔
تاہم اب انہوں نے بتایا ہے کہ وہ 2019ء میں ہی شوہر سے علیحدہ ہو چکی تھیں لیکن اس وقت اپنی والدہ کی شدید علالت کے باعث یہ خبر عوام سے چھپائی تھی۔

اداکارہ کا کہنا تھا کہ میں نہیں چاہتی تھی کہ لوگ میری والدہ سے ملاقات کے دوران ان کی صحت کے بجائے میری طلاق پر سوالات کریں، اس لیے میں نے اتنے بڑے فیصلے کو میڈیا سے پوشیدہ رکھا۔

انہوں نے کہا کہ والدہ کے علاوہ بھی میں نہیں چاہتی تھی کہ کوئی اس بارے میں بات کرے، اس لیے طلاق کے بارے میں کسی کو خبر نہیں ہونے دی، اس تمام عرصے کے دوران میرے زخم بھر گئے اور یہی وجہ ہے کہ اب میں عوامی سطح پر اس پر بات کر رہی ہوں۔

انوشے کے مطابق 2021ء میں والدہ کے انتقال کے بعد حالات مزید مشکل ہوگئے تھے، لیکن پوری فیملی نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا اور ایک دوسرے کا خیال رکھا۔

Post Views: 2.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

خطے پر تسلط کیلئے صیہونیوں کا صدی پرانا خاکہ

اسلام ٹائمز: 1919ء میں جو نقشہ کھینچا گیا تھا، وہ آج خطے کی خون آلود حقیقت بن چکا ہے۔ لبنان، شام، فلسطین سب اسی منصوبے کے تسلسل میں جل رہے ہیں۔ اسرائیل کی جنگیں کبھی دفاع کے لیے نہیں ہوتیں؛ وہ قبضے کے لیے ہوتی ہیں، اس خواب کی تعبیر کے لیے جو اس غاصب ریاست کے پیدا ہونے سے پہلے ہی شروع ہوا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک صدی گزر جانے کے باوجود صیہونی منصوبے کے آثار ختم نہیں ہوئے، بلکہ اس کی شکلیں اور حربے بدل کر مزید پیچیدہ ہوچکے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری خطے میں جاری اس توسیع پسندانہ پالیسی کو صرف فلسطین کا مسئلہ نہ سمجھے بلکہ اسے عالمی امن کے لیے خطرہ تسلیم کرے، کیونکہ جب تک یہ منصوبہ موجود ہے، خطے میں پائیدار امن کا قیام محال ہے۔ یعنی اسرائیل کا وجود نہ صرف فلسطین کیلئے بلکہ خطے کے تمام ممالک اور اقوام کے لئے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل، فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

مسئلہ فلسطین کوئی اچانک پیدا ہونے والا تنازع نہیں بلکہ ایک صدی پرانی منصوبہ بندی کا تسلسل ہے۔ صیہونیوں نے فلسطین پر قبضے اور خطے پر تسلط کے لیے اپنی تحریک کا آغاز بہت پہلے کر دیا تھا۔ اگر تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو ہمیں نیپولین بونا پارٹ کے دور میں بھی یہ نظریہ نظر آتا ہے کہ یہودیوں کے لیے ایک علیحدہ وطن قائم کیا جائے۔ نیپولین اگرچہ اس خواب کو پورا نہ کرسکا، لیکن صیہونی تحریک نے برطانوی استعماری طاقتوں کے سہارے اسے حقیقت کا روپ دیا اور یوں سنہ 1948ء میں اسرائیل نامی غاصب ریاست وجود میں آگئی۔ یہ وہ لمحہ تھا، جب غرب ایشیاء کی تاریخ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔ خطے میں جنگ، قبضے، بربادی اور عدم استحکام کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ آج تک جاری ہے۔

فلسطین پر قبضے سے بہت پہلے صیہونیوں نے ایک جامع منصوبہ بندی کر لی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سنہ 1919ء میں پیرس امن کانفرنس کے دوران صیہونی رہنماؤں نے ایک نقشہ پیش کیا، جس میں اُن کی مجوزہ گریٹر اسرائیل کی سرحدیں واضح طور پر دکھائی گئی تھیں۔ یہ سرحدیں جنوب میں مصر کے صحرائے سینا سے لے کر شمال میں لبنان کے دریائے عوالی تک پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ محض ایک تصوراتی تجویز نہیں تھی بلکہ مستقبل کی جارحانہ پالیسیوں کا خاکہ تھا۔ صیہونی رہنماء جانتے تھے کہ اگر انہیں اپنے وجود کو مستحکم رکھنا ہے تو انہیں توسیع در توسیع کے عمل کو جاری رکھنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے قیام کے بعد ہونے والی تمام جنگیں چاہے وہ 1948ء، 1967ء یا 1982ء کی ہوں، دراصل اسی 1919ء کے توسیعی نقشے کے تسلسل میں شروع کی گئی تھیں۔

توسیع پسندی کی عملی شکل اس وقت سامنے آئی، جب سنہ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں، دریائے اردن کے اہم ذرائع اور شام کے آبی وسائل پر قبضہ کر لیا۔ بعد ازاں، 1978ء اور 1982ء میں اسرائیل نے لبنان پر حملے کئے اور بیروت تک پیش قدمی کی۔ ان حملوں کا مقصد محض فوجی کامیابی حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ خطے کے قدرتی وسائل، خاص طور پر پانی پر کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ جیسا کہ سنہ1919ء کے نقشوں میں دریائوں پر قبضہ کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی بھی کی گئی تھی۔ غاصب صیہونیوں کی جانب سے شروع کی جانے والی یہ جنگیں کسی دفاعی حکمتِ عملی کا حصہ نہیں تھیں بلکہ جارحانہ عزائم کا عملی اظہار تھیں، وہی عزائم جو 1919ء کے نقشے میں درج تھے۔ اسرائیل نے لبنان میں طویل قبضہ برقرار رکھا، اس کے وسائل کا استحصال کیا اور سلامتی کے نام پر دراصل زمین پر قبضہ جمایا۔

واشنگٹن اور تل ابیب کے گٹھ جوڑ سے وقت کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے توسیع پسندانہ منصوبے کو امریکی سرپرستی بھی حاصل ہوتی گئی۔ واشنگٹن اور تل ابیب نے مل کر خطے کو ازسرِنو ترتیب دینے کی حکمت عملی اپنائی۔ امریکہ نے اس خطے کے لئے نیا مشرق وسطیٰ بنانے کا جملہ استعمال کیا تو صیہونی اپنے صدی پرانے منصوبہ یعنی گریٹر اسرائیل کی تکرار کرتے رہے، لیکن دونوں کا مقصد ایک ہی تھا کہ اسرائیل کی توسیع کی جائے۔ مریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان نے کہ اسرائیل بہت چھوٹا ہے، دراصل اسی صہیونی توسیع پسندانہ سوچ کو تقویت دی۔ شامی خانہ جنگی کے دوران اسرائیل نے اپنی عسکری موجودگی کو جنوبِ شام تک بڑھایا، گولان کی پہاڑیوں پر گرفت مضبوط کی اور درعا و قنیطرہ کے قریب علاقوں میں اپنی کارروائیاں تیز کر دیں۔ دوسری جانب، امریکہ نے مشرقی شام کے تیل کے ذخائر پر کنٹرول حاصل کرکے اسرائیل کے اس منصوبے کو معاشی پشت پناہی فراہم کی۔

لبنان مسلسل دباؤ میں ہے اور لبنان اس وقت اسرائیل کی فوجی جارحیت اور امریکی سیاسی دباؤ کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ ایک جانب اسرائیلی بمباری نے جنوبی لبنان کو مسلسل عدم استحکام میں مبتلا کر رکھا ہے، دوسری جانب واشنگٹن بیروت میں اپنے بڑے سفارت خانے کے ذریعے سیاسی دباؤ بڑھا رہا ہے۔ یہ دباؤ لبنان کو ایک ایسے انتظامی ڈھانچے کی طرف لے جا رہا ہے، جو دراصل اسرائیلی سلامتی کے ایجنڈے کے مطابق ہو۔ یہ تمام حالات اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ایک صدی پہلے بنایا گیا صہیونی منصوبہ آج بھی پوری طرح فعال ہے اور خطے کی سیاست اسی کے گرد گھوم رہی ہے۔ ایک نہ ختم ہونے والا خواب، جو صیہونی منصوبہ 1919ء میں پیرس کانفرنس میں پیش ہوا تھا، آج بھی اپنی تمام جہتوں کے ساتھ زندہ ہے۔ سرحدیں عارضی ہیں، مگر توسیع ایک مستقل عمل بن چکی ہے۔ اسرائیل کی ہر جنگ، ہر فوجی مہم دراصل اسی صدی پرانے خواب کی تکمیل کی کوشش ہے۔

1919ء میں جو نقشہ کھینچا گیا تھا، وہ آج خطے کی خون آلود حقیقت بن چکا ہے۔ لبنان، شام، فلسطین سب اسی منصوبے کے تسلسل میں جل رہے ہیں۔ اسرائیل کی جنگیں کبھی دفاع کے لیے نہیں ہوتیں؛ وہ قبضے کے لیے ہوتی ہیں، اس خواب کی تعبیر کے لیے جو اس غاصب ریاست کے پیدا ہونے سے پہلے ہی شروع ہوا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک صدی گزر جانے کے باوجود صیہونی منصوبے کے آثار ختم نہیں ہوئے، بلکہ اس کی شکلیں اور حربے بدل کر مزید پیچیدہ ہوچکے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری خطے میں جاری اس توسیع پسندانہ پالیسی کو صرف فلسطین کا مسئلہ نہ سمجھے بلکہ اسے عالمی امن کے لیے خطرہ تسلیم کرے۔کیونکہ جب تک یہ منصوبہ موجود ہے، خطے میں پائیدار امن کا قیام محال ہے۔ یعنی اسرائیل کا وجود نہ صرف فلسطین کے لئے بلکہ خطے کے تمام ممالک اور اقوام کے لئے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سحر خان صبا قمر کے حق میں بول پڑیں، سوشل میڈیا صارفین کو خبردار کردیا
  • بولی وڈ اداکارہ رینوکا شاہانے کا کاسٹنگ کاؤچ کا انکشاف
  • خطے پر تسلط کیلئے صیہونیوں کا صدی پرانا خاکہ
  • انہوں نے میری چیزیں واپس لاکر دیں‘، اداکارہ آمنہ ملک کا گھر میں جنات کی موجودگی کا انکشاف
  • نیویارک میں پاکستانی بزنس مین کا شوکت خانم کو ایک کروڑ روپے عطیہ کرنے کا اعلان، شعیب اختر اور ریما حیران رہ گئے
  • چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان کی والدہ کاانتقال
  • 27ویں آئینی ترمیم، سینیٹر دنیش کمار کا اقلیتوں کے عہدوں سے متعلق حیران کن مطالبہ
  • آمنہ ملک نے جنات سے اپنی گمشدہ چیزیں کیسے واپس منگوائیں؟ اداکارہ نے دلچسپ واقعہ سنادیا
  • صائمہ قریشی نے طلاق کے تلخ تجربے پر خاموشی توڑ دی
  • میرا بچپن اشفاق احمد کی گود میں گزرا، نائمہ خان کا انکشاف