Jasarat News:
2025-11-10@21:04:57 GMT

مریکہ میں ٹک ٹاک کی قدر کم نکلی، سرمایہ کار حیران

اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT

مریکہ میں ٹک ٹاک کی قدر کم نکلی، سرمایہ کار حیران

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکا میں ٹک ٹاک کی فروخت کا معاملہ ایک بڑے تنازع میں بدل چکا ہے، کیونکہ حکومت کی جانب سے تجویز کردہ 14 ارب ڈالر کی قیمت نہ صرف سرمایہ کاروں بلکہ ماہرین کے لیے بھی حیران کن ہے۔

بلومبرگ کے مطابق یہ رقم کسی پرانی فوڈ کمپنی کے لیے تو قابلِ قبول ہو سکتی ہے، لیکن ایک مقبول ترین سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے لیے، جو روزانہ لاکھوں صارفین کو متحرک رکھتا ہے، یہ اندازہ نہایت کم ہے۔ اس کے برعکس ماضی میں ٹک ٹاک کی امریکی شاخ کی قدر 40 ارب ڈالر تک لگائی جا چکی تھی۔

امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے کہا ہے کہ ٹک ٹاک کی اصل قیمت وہی ہوگی جو خریدار ادا کرنے پر تیار ہوں گے، اور ممکنہ خریدار اوریکل کارپوریشن اور سلور لیک منیجمنٹ اس سودے کو خوش آمدید کہیں گے۔ لیکن بائیٹ ڈانس اور اس کے موجودہ سرمایہ کاروں کے لیے یہ سودہ ایک بڑے دھچکے سے کم نہیں ہوگا۔ معاشی ماہرین اسے حالیہ دہائی میں کسی بھی بڑی ٹیکنالوجی کمپنی کی سب سے کم قیمت میں فروخت قرار دے رہے ہیں، کیونکہ ٹک ٹاک نہ صرف امریکا میں مقبول ہے بلکہ وہاں سے ہر سال تقریباً 10 ارب ڈالر کی آمدنی بھی حاصل کرتا ہے۔

امریکا ٹک ٹاک کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، جہاں 17 کروڑ سے زائد صارفین اسے استعمال کرتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ماہرین 14 ارب ڈالر کی پیشکش کو “دن دہاڑے ڈکیتی” قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی یہ پالیسی محض سیاسی دباؤ اور معاشی مفادات کے تحت ہے، تاکہ بائیٹ ڈانس کو محدود کر کے امریکی سرمایہ کاروں کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ اس صورتِ حال نے عالمی سطح پر بھی سوالات کھڑے کیے ہیں کہ آیا یہ فیصلہ کاروباری اصولوں پر مبنی ہے یا محض سیاسی دشمنی کا شاخسانہ۔

تاہم، ابھی بھی کئی معاملات غیر یقینی ہیں۔ بیجنگ نے فروخت کی منظوری باضابطہ طور پر نہیں دی، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے یہ فیصلہ عجلت میں کیا ہے، بغیر اس پر چین سے تفصیلی بات کیے۔ مزید یہ کہ ٹک ٹاک کے مستقبل کے خریدار انٹرنیٹ یا کنزیومر کمپنیز نہیں بلکہ بالکل مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ اس مقبول پلیٹ فارم کو مؤثر طریقے سے چلا بھی سکیں گے یا نہیں۔ اس وقت صورتحال ایک پیچیدہ سیاسی اور معاشی رسہ کشی میں الجھی ہوئی ہے، جس کا نتیجہ آنے والے چند مہینوں میں ہی سامنے آئے گا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ٹک ٹاک کی ارب ڈالر کے لیے

پڑھیں:

ڈینگی کی وبا: سندھ ایک نئے بحران کی دہلیز پر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251111-03-6

 

محمد مطاہر خان

گزشتہ چند برسوں سے ڈینگی وائرس پاکستان کے مختلف صوبوں میں وقفے وقفے سے اپنے اثرات دکھاتا رہا ہے، مگر رواں سال سندھ میں اس وبا نے خطرناک حد تک شدت اختیار کر لی ہے۔ محض گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران چار مزید قیمتی جانوں کے ضیاع نے نہ صرف عوام بلکہ ماہرین ِ صحت کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس طرح رواں سال صوبے بھر میں ڈینگی سے اموات کی تعداد 25 تک پہنچ گئی ہے۔ اس صورتحال نے سندھ حکومت، محکمہ صحت، اور بلدیاتی اداروں کے لیے ایک سنگین امتحان کھڑا کر دیا ہے کہ آیا وہ اس بڑھتے ہوئے خطرے پر قابو پانے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں۔ محکمہ صحت سندھ کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں صوبے بھر میں مجموعی طور پر 5 ہزار 899 ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے 1 ہزار 192 افراد میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوئی۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ کراچی ریجن ہے جہاں 4 ہزار 371 ٹیسٹوں میں سے 641 مثبت کیسز سامنے آئے، جب کہ حیدرآباد ریجن میں بھی صورتحال تشویشناک ہے جہاں 550 مثبت کیسز رپورٹ ہوئے۔ ان اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف شہری علاقوں ہی نہیں بلکہ مضافاتی اور دیہی علاقے بھی اس وبا کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں ڈینگی کے 109 اور نجی اسپتالوں میں 100 نئے مریض داخل کیے گئے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طبی سہولتوں پر دباؤ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

 

ڈینگی دراصل ایک وائرس ہے جو ایڈیز ایجپٹائی نامی مادہ مچھر کے ذریعے پھیلتا ہے۔ یہ مچھر عام طور پر صاف پانی میں افزائش پاتا ہے، جو گھروں کے اندر یا آس پاس موجود گملوں، ٹنکیوں، ٹائروں، یا پانی کے ذخائر میں پایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق سندھ میں بارشوں کے بعد نکاسیِ آب کے ناقص نظام، کچرے کے ڈھیروں، اور غیر منظم شہری صفائی کی وجہ سے یہ مچھر تیزی سے پھیل رہا ہے۔

 

کراچی جیسے میگا سٹی میں جہاں لاکھوں افراد روزانہ نقل و حرکت کرتے ہیں، وہاں کسی بھی متعدی وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ ہفتوں میں ڈینگی کے کیسز میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس بحران کی ایک بڑی وجہ عوامی سطح پر شعور و آگاہی کا فقدان بھی ہے۔ بیش تر لوگ ڈینگی کو عام بخار سمجھ کر گھریلو علاج سے کام لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں مرض شدت اختیار کر لیتا ہے۔ بعض علاقوں میں صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات، کھلے نالوں، اور گندے پانی کے ذخائر نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ سماجی سطح پر بھی ڈینگی سے متعلق کئی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ بعض لوگ مچھر کے کاٹنے کو معمولی بات سمجھ کر احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔ نتیجتاً نہ صرف وہ خود متاثر ہوتے ہیں بلکہ اپنے اردگرد کے ماحول کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

 

محکمہ صحت سندھ کی جانب سے اگرچہ اسپرے مہمات، آگاہی پروگرامز، اور خصوصی مانیٹرنگ یونٹس قائم کیے گئے ہیں، مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ بیش تر اضلاع میں اسپرے مہم غیر منظم، وقتی، اور ناکافی ہے۔ شہریوں کی شکایات ہیں کہ کئی علاقوں میں بلدیاتی عملہ نہ تو باقاعدہ اسپرے کرتا ہے اور نہ ہی پانی کے ذخائر کی نگرانی۔ ڈینگی کے خلاف مہم میں بلدیاتی اداروں، محکمہ صحت، اور سول انتظامیہ کے درمیان رابطے کا فقدان بھی ایک بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہر ادارہ اپنی ذمے داری مکمل طور پر نبھائے تو ڈینگی کے پھیلاؤ کو بڑی حد تک روکا جا سکتا ہے۔ ماہرین ِ صحت کے مطابق ڈینگی بخار بظاہر عام بخار معلوم ہوتا ہے لیکن بعض صورتوں میں یہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے، خصوصاً جب مریض میں ڈینگی ہیمرجک فیور یا ڈینگی شاک سینڈروم کی علامات ظاہر ہوں۔ اس مرحلے میں مریض کے جسم میں خون بہنے لگتا ہے، پلیٹ لیٹس تیزی سے کم ہو جاتے ہیں اور جسمانی کمزوری کے باعث موت واقع ہو سکتی ہے۔ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ڈینگی کے ابتدائی مراحل میں بروقت تشخیص اور طبی نگرانی نہایت ضروری ہے۔ مریضوں کو خود سے کوئی دوا لینے کے بجائے فوراً کسی مستند معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔ ڈینگی سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر ہی سب سے مؤثر ہتھیار ہیں۔ گھروں اور دفاتر میں جمع پانی کو فوراً صاف کرنا، مچھروں کے اسپرے اور جالیوں کا استعمال، اور صبح و شام مچھر کے کاٹنے سے بچاؤ کے اقدامات کرنا ضروری ہیں۔ اسکولوں، مساجد، اور عوامی مقامات پر آگاہی مہمات کے ذریعے لوگوں کو تعلیم دینا وقت کی ضرورت ہے۔

 

رواں ماہ سندھ بھر میں ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد تقریباً 4 ہزار 940 تک پہنچ چکی ہے، جبکہ سال 2025ء کے دوران مجموعی کیسز کی تعداد 10 ہزار 502 ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار محض اعداد نہیں بلکہ ایک خطرے کی گھنٹی ہیں جو واضح کرتی ہے کہ اگر بروقت اور مربوط اقدامات نہ کیے گئے تو یہ وبا آئندہ ہفتوں میں مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔ ڈینگی کی موجودہ لہر صرف ایک صحت عامہ کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک انتظامی، ماحولیاتی اور سماجی چیلنج بھی ہے۔ سندھ میں ناقص شہری منصوبہ بندی، غیر متوازن آبادیاتی دباؤ، اور موسمیاتی تبدیلیوں نے اس بحران کو جنم دیا ہے۔ ماہرین ِ ماحولیات کے مطابق درجہ حرارت میں اضافے اور بارشوں کے غیر متوقع پیٹرن نے مچھر کی افزائش کے لیے موزوں حالات پیدا کیے ہیں۔ اگر حکومت نے اس مسئلے کو صرف وقتی اسپرے مہم تک محدود رکھا تو مسئلہ برقرار رہے گا۔ مستقل بنیادوں پر صفائی کے نظام میں بہتری، نکاسی آب کے ڈھانچے کی بحالی، اور عوامی سطح پر بیداری کے پروگرام ضروری ہیں۔ سندھ میں ڈینگی کی بڑھتی ہوئی تباہ کاری اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہمیں وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے فوری اور مربوط حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ یہ صرف محکمہ صحت یا حکومت کی ہی ذمے داری نہیں، بلکہ ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ صاف پانی کے ذخائر کو ڈھانپنا، مچھروں کے افزائشی مقامات ختم کرنا، اور آگاہی پھیلانا ہم سب کی اجتماعی ذمے داری ہے۔ ڈینگی کے خلاف جنگ دراصل شعور اور نظم و ضبط کی جنگ ہے۔ اگر ہم اجتماعی طور پر احتیاطی اقدامات اپنائیں تو سندھ ایک بار پھر صحت و زندگی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر، یہ خاموش قاتل آنے والے دنوں میں مزید قیمتی جانیں نگل سکتا ہے۔

 

(یہ کالم مصدقہ اعداد و شمار، ماہرین ِ صحت کی آراء، اور محکمہ صحت سندھ کی تازہ ترین رپورٹس کی روشنی میں تحریر کیا گیا ہے۔)

محمد مطاہر خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • موسمیاتی تبدیلیوں کیخلاف سالانہ ایک کھرب ڈالر درکار
  • ڈینگی کی وبا: سندھ ایک نئے بحران کی دہلیز پر
  • ڈاکٹر نبیہا کے شوہر حارث کھوکھر کون ہیں؟ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے
  • ایران کیخلاف پابندیاں ناکام، دشمن حیران و سرگرداں
  • موسمیاتی تبدیلیاں، سالانہ1 کھرب ڈالر کی ضرورت ہوگی، ایشیائی ترقیاتی بینک
  • میٹا سے متعلق بڑا انکشاف: جعلی اشتہارات سے سالانہ 16 ارب ڈالر کی حیران کن کمائی
  • 27ویں آئینی ترمیم، سینیٹر دنیش کمار کا اقلیتوں کے عہدوں سے متعلق حیران کن مطالبہ
  • ڈاکٹر نبیہا علی خان کا نکاح ,تقریب میں سادگی مگر کروڑوں کے زیورات نے سب کو حیران کر دیا
  • ترسیلات زر بڑھنے کے ساتھ تجارتی خسارے میں بھی اضافہ،  ماہرین کا انتباہ
  • ترسیلات میں اضافہ اور بڑھتا تجارتی خسارہ، ماہرین نے معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی