Jasarat News:
2025-11-10@23:10:08 GMT

نظام عدل —انا للہ وانا الیہ راجعون

اشاعت کی تاریخ: 11th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251111-03-5

 

احمد حسن

ملک کے نامور وکیل مخدوم علی خان نے عدالت عظمیٰ کا تعزیت نامہ لکھا ہے، عدالت عظمیٰ بہت عرصے قبل چیف جسٹس منیر کے دور سے ہی بیماریوں کا شکار رہی ہے، مختلف ادوار میں امراض بڑھتے گئے خصوصاً مارشل لا حکومتوں میں یہ اتنی نحیف ونزار ہو جاتی کہ اسے جب بٹھایا جاتا بیٹھ جاتی، جس کروٹ لٹایا جاتا ہے لیٹ جاتی، عوام پھر بھی اسے عدالت عظمیٰ ہی سمجھتے رہے، کبھی کبھی مظلوموں کو اس سے انصاف مل بھی جاتا تھا۔ جب سے پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے کا باقاعدہ اعلان ہوا ہے عدالت عظمیٰ کے جسم سے ریڑھ کی ہڈی نکال لی گئی ہے، 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد سے عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کو فالج کا عارضہ لاحق ہے لیکن یہ عدالتیں زندہ تو ہیں پھر مخدوم علی خان جیسے بڑے وکیل کو تعزیت نامہ لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اس لیے کہ ارباب حکومت اور ارباب اقتدار کو موجودہ صورتحال بھی مناسب نہیں لگ رہی، ’’اناربکم الاعلیٰ‘‘ کا نعرہ لگانے میں اب بھی رکاوٹیں آسکتی ہیں، یہ نعرہ سنتے ہی سب کو سجدے میں گر جانا چاہیے، کوئی استثنیٰ نہیں، کسی کو استثنیٰ نہیں، استثنیٰ صرف رب اعلیٰ اور رب ادنیٰ کو حاصل ہونا چاہیے لہٰذا اس مقصد کے لیے آئین میں ترمیم ضروری ہے کیونکہ بقول محترمہ زہرا نگاہ جنگلوں کا بھی قانون ہوتا ہے اور سب اس کے مطابق چلتے ہیں، ہمارے پیارے وطن پاکستان میں بھی ایک آئین ہے جو طاقتور اور اس کے سیاست دان سیاست ساتھیوں کی مرضی کے مطابق چلتا ہے، اب 27 ویں آئینی ترمیم کا حکم ہوا ہے، اس ترمیم کے ذریعے آئین میں 49 تبدیلیاں کی جا رہی ہیں، اب جانتے ہیں کہ جب کوئی خاص مقصد حاصل کرنا ہوتا ہے تو ابتدائی مسودے میں بعض ایسی ترامیم بھی شامل کر دی جاتی ہیں جو بوقت ضرورت واپس لی جا سکیں تاکہ مولانا فضل الرحمن جیسے سیاستدان کہہ سکیں کہ دیکھیں ہماری جدوجہد کی وجہ سے فلاں فلاں ترمیم نہیں کی گئی، واپس لے لی گئی اور ہم نے اسلام کو بچا لیا اسی طرح اب آصف زرداری اور بلاول زرداری کو بھی موقع دیا جا رہا ہے کہ وہ ترمیم منظور ہونے کے بعد ملک خصوصاً سندھ میں سینہ پھلا کر اعلان کر سکیں کہ دیکھو ہم نے اٹھارویں ترمیم کو نہیں چھیڑنے دیا، ہم نے صوبائی خود مختاری پر آنچ نہیں آنے دی، ہم نے قومی مالیاتی کمیشن کا فارمولا تبدیل نہیں کرنے دیا، سندھ کے وسائل پر کسی کو ڈاکا مارنے نہیں دیا۔ فوجی سربراہوں اور صدر مملکت کو تاحیات استثنیٰ ملنا ہی چاہیے کہ وہ قومی ہیرو ہوتے ہیں حالانکہ آصف زرداری قومی ہیرو تو درکنار پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے بھی ہیرو نہیں بلکہ انہوں نے بڑی کامیابی سے پیپلز پارٹی کے اصل ہیرو ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو سے بھی ان کی ہیرو شپ چھنوا دی ہے۔

 

مخدوم علی خان صاحب کا موقف ہے کہ 27 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد سپریم کورٹ اور جو کچھ رہے سپریم نہیں رہے گی، تمام اہم معاملات وفاقی آئینی عدالت دیکھے گی، تمام انتخابی تنازعات بھی اسی عدالت میں منتقل ہو جائیں گے، فیڈرل کانسٹی ٹیوشن کورٹ (ایف سی سی) عدالت عظمیٰ کے کسی فیصلے کی پابند نہیں ہوگی بلکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس ایف سی سی کے فیصلوں کی پابند ہوں گی، دیکھا جائے تو عملاً سپریم کورٹ سپریم ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ بن جائے گی، یہ خواب تو جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف بھی پورا نہیں کر سکے تھے جو اب پورا ہونے جا رہا ہے اس ترمیم کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کیا جا رہا ہے، آرمی چیف ہی چیف آف ڈیفنس فورسز یعنی تینوں مسلح افواج کے سربراہ ہوں گے، فیلڈ مارشل تاحیات وردی میں رہیں گے، وزیراعظم آرمی چیف کی سفارش پر نیشنل اسٹرٹیجک کمانڈ کے سربراہ کا تقرر کریں گے، صدر مملکت ہائی کورٹ کے کسی بھی جج کا جوڈیشل کمیشن کی سفارش پر تبادلہ کرنے کے مجاز ہوں گے ٹرانسفر سے انکار پر جج ریٹائر تصور ہوگا، 27 ویں ترمیم میں ججوں کے حلف میں تبدیلی بھی شامل ہے حلف میں آئینی عدالت کے ججوں کے لیے عدالت عظمیٰ کے بجائے وفاقی آئینی عدالت کا نام شامل کرنے کی تجویز ہے۔

 

وزیراعظم شہباز شریف نے ایکس پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ میری پارٹی کے چند سینیٹرز نے 27 ویں ترمیم میں وزیراعظم کے تاحیات استثنیٰ کی شق بھی شامل کرائی ہے وزیراعظم نے ان کے خلوص کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں نے انہیں یہ ترمیم فی الفور واپس لینے کی ہدایت کی ہے (ویسے وزیراعظم شہباز شریف سے زیادہ یہ کون جانتا ہوگا کہ اسے خلوص نہیں خوشامد کہتے ہیں) منتخب وزیر اعظم یقینا قانون اور عوام کی عدالت میں جواب دہ ہے، اسی طرح اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے بھی کسی قسم کا استثنیٰ لینے سے دو ٹوک انکار کر دیا ہے۔

 

واضح رہے کہ 27 ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں یہ تبدیلی بھی کی جا رہی ہے کہ صدر مملکت کے خلاف پوری زندگی نہ تو کوئی مقدمہ درج ہوگا اور نہ ہی انہیں گرفتار کیا جا سکے گا۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے ایوان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے 1973 کے آئین کو اس کی اصل صورت میں بحال کیا جا رہا ہے ان کی جماعت نے 1973 کے آئین کی قیمت ادا کی اور اس آئین کے تحفظ و استحکام کے لیے ہمیشہ جدوجہد کی ہے (اور اب یہ قیمت سود سمیت وصول کی جارہی ہے) پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور آئینی ماہر رضا ربانی کا 27 ویں ترمیم پر مؤقف ابھی تک سامنے نہیں آسکا ہے، جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ایک ٹی وی گفتگو میں کہا کہ 26 ویں ترمیم کے لیے 11 اراکین خریدے گئے تھے 26 ویں ترمیم کے وقت حکومت 35 نکات سے دستبردار ہو گئی تھی واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمن کی پارٹی نے 26 ویں آئینی ترمیم منظور کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

 

مسلم لیگ ق نے 27 ویں آئینی ترمیم کی حمایت اور قومی مفاہمت کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کا اعلان کر دیا ہے یاد رہے کہ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے زمانے میں ق لیگ کے مرکزی رہنما چودھری پرویز الٰہی نے جنرل پرویز مشرف کو 10 بار وردی میں صدر منتخب کرنے کا اعلان کیا تھا اور اپنے اس مؤقف کو بار بار دہرایا تھا بعد اذاں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ اور تحریک انصاف کا مرکزی صدر بنا دیا تھا، اب کیا صورتحال ہے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ سینیٹر فیصل واوڈا اس ترمیم کے حوالے سے اس قدر پرجوش ہیں کہ وہ ترمیم منظور ہونے سے قبل ہی ایوان میں مٹھائی کا ٹوکرا لے کر آگئے۔ یاد رہے کہ فیصل واوڈا خود کو پاک فوج سے بہت قریب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

 

احمد حسن.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ویں ا ئینی ترمیم پیپلز پارٹی عدالت عظمی ویں ترمیم جا رہا ہے پارٹی کے ترمیم کے کے لیے رہے کہ

پڑھیں:

27 ویں ترمیم، سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہفتہ

اسلام آباد:

پارلیمان میں پیش 27 ویں آئینی ترمیمی بل نے رواں ہفتے کو سپریم کورٹ کے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کن بنا دیا۔ مجوزہ ترمیم کے تحت سپریم کورٹ وفاقی آئینی عدالت کے ماتحت بن جائیگی، جس کے پہلے چیف جسٹس کی تقرری انتظامیہ کرے گی۔

سپریم کورٹ نئی وفاقی آئینی عدالت کے دائرہ اختیار کی پیروی کے پابندی ہو گی۔ امکان ہے کہ رواں ہفتہ ملک کی موجودہ عدالتی عظمیٰ کیلیے آخری ہو گا، مجوزہ ترمیم میں سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے نام کیساتھ بھی لفظ  پاکستان ختم کر دیا جائیگا۔ 

ذرائع کے مطابق حکومت آئینی ترمیمی بل رواں ہفتے منظور کرانے کیلئے پرعزم ہے۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا 12 نومبر کو ترکی کے دورہ پر جا رہے ہیں، ان کی غیر موجودگی میں سینئر ترین جج سید منظور علی شاہ قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھائیں گے۔

اس دوران اگر 27 ویں ترمیم منظور ہوجاتی ہے تو حکومت کسی بھی سپریم کورٹ کے جج کو قائم مقام چیف جسٹس لگا سکتی ہے۔

آج تمام نظریں سپریم کورٹ کے ججز پر ہیں کہ مجوزہ 27 ویں ترمیم کیا ردعمل  دیتے ہیں، جوکہ 27 ویں ترمیمی بل پارلیمان میں پیش ہونے کے بعد ان کا پہلا ورکنگ ڈے ہے۔

وکلاء کی نظر میں مجوزہ آئینی ترمیم پر سپریم کورٹ سے ردعمل آئے گا۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ ردعمل بطور ادارہ ہو گا، یا پھر کچھ جج اپنی آواز بلند کریں گے؟

وکلاء کی نظر میں تمام سپریم کورٹ ججز کو عدلیہ کی خودمختاری کیلئے ہم آواز ہونا چاہیے جوکہ  آئین کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک ہے۔

کم از کم چیف جسٹس آفریدی کو 27 ویں ترمیمی بل کی منظوری سے قبل فل کورٹ اجلاس طلب کرنا چاہیے۔

حکمران اتحاد کے قانونی ماہرین  اپنی قیادت کو سمجھانے سے قاصر ہیں کہ ایسی عدالت کی ساکھ کیا ہو گی جس کے سربراہ کا تقرر حکومت کرے گی۔

وفاقی آئینی عدالت میں تقرری کے امیدوار سپریم کورٹ کے ججز کو بھی  موجودہ پارلیمنٹ کی ساکھ سے متعلق سنگین شکوک وشہبات سمجھنے کی ضرورت ہے۔

نئی وفاقی آئینی عدالت کیلئے حکومت کے زیر اثر کام نہ کرنے کا تاثر ختم کرنا ایک بڑا چیلنج ہو گا۔سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے رابطے پر کہا کہ  سپریم کورٹ کے ججز کو اصولی طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا، 27ویں ترمیم کے ثمرات عوام تک پہنچیں گے، وزیر قانون
  • اپوزیشن کے ووٹ پر کی گئی ترمیم پائیدار نہیں ہوگی، بیرسٹر علی ظفر
  • اسحاق ڈار نے27ویں ترمیم کی منظوری، آئینی عدالت کے قیام کو تاریخی قرار دے دیا
  • یہ لمحہ آپ سے لیڈرشپ دکھانے کا تقاضا کرتا ہے: جسٹس منصور کا چیف جسٹس کو خط
  • 27 ویں آئینی ترمیم کی جُزوی حمایت سے لیکر یکسر مخالفت تک کون سی سیاسی جماعت کیا سوچ رہی ہے؟
  • 27 ویں ترمیم، سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہفتہ
  • ۔27 ویں ترمیم اور نظام کے فالج زدگان
  • 27ویں آئینی ترمیم: وفاقی آئینی عدالت اور ججز کے تبادلے کی نئی تجویز
  • آئینی عدالت بننی چاہئے، صوبوں کا حصہ بڑھ سکتا، کم نہیں ہو گا بلاول: سب کچھ اتفاق رائے سے کرینگے، رانا ثناء