موسم سرما کا آغاز؛ کھانسی سے نجات کے آسان اور آزمودہ گھریلو نسخے
اشاعت کی تاریخ: 5th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی فضا میں نمی اور درجہ حرارت کے فرق سے اکثر افراد کھانسی، گلے کی خراش اور سانس کی نالیوں میں جلن جیسے مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔
یہ شکایات عموماً الرجی، وائرل یا بیکٹیریل انفیکشن کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں، مگر بعض اوقات معدے کی تیزابیت یا خشک ہوا بھی اس کی بڑی وجہ بن جاتی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق کھانسی جسم کا قدرتی دفاعی عمل ہے جو گلے میں جمع ہونے والے ذرات، گرد یا بلغم کو خارج کرتا ہے، تاہم اگر یہ مسئلہ مسلسل برقرار رہے تو اس کی وجوہات کا علاج ضروری ہے۔ خوش قسمتی سے چند آسان اور آزمودہ گھریلو طریقوں سے اس مسئلے کو مؤثر انداز میں قابو کیا جاسکتا ہے۔
سب سے پہلے شہد کا استعمال صدیوں سے آزمودہ طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ شہد میں قدرتی اینٹی بیکٹیریل خصوصیات موجود ہیں جو گلے کی سوزش کم کرکے کھانسی کو قابو میں لاتی ہیں۔
طبی ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ دو چائے کے چمچ شہد کو لیموں کے عرق ملے نیم گرم پانی میں گھول کر دن میں دو بار پیا جائے۔ یہ نہ صرف گلے کو نرم کرتا ہے بلکہ سانس کی نالیوں میں جمع ذرات کو صاف کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔
اسی طرح پودینہ بھی کھانسی کے علاج میں مفید مانا جاتا ہے۔ اس میں موجود مینتھول نامی جزو گلے کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے اور سانس لینے میں آسانی پیدا کرتا ہے۔ پودینے کی چائے پینا یا اس کے بھاپ والے پانی سے سانس لینا دونوں ہی مفید ثابت ہوتے ہیں۔
ادرک کا استعمال بھی بے حد مؤثر ہے۔ جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ادرک میں ایسے مرکبات پائے جاتے ہیں جو سانس کی نالیوں کے پٹھوں کو پرسکون کرتے ہیں۔ ادرک کی چائے خاص طور پر ان لوگوں کے لیے بہترین ہے جنہیں کھانسی کے ساتھ گلے میں خراش یا بلغم کی شکایت ہو۔
ہلدی کو بھی روایتی علاج میں خاص مقام حاصل ہے۔ ہلدی میں سوزش کم کرنے والے اجزا پائے جاتے ہیں، جو کھانسی اور گلے کے درد کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ہلدی دودھ یا چائے میں شامل کرکے پینے سے کھانسی میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔ اگر اس میں تھوڑی سی سیاہ مرچ اور شہد شامل کرلی جائے تو اس کے اثرات مزید بڑھ جاتے ہیں۔
گرم مشروبات کا استعمال جیسے نیم گرم پانی یا چائے، گلے کی جلن کم کرتے ہیں اور بلغم کو پتلا کرکے خارج ہونے میں مدد دیتے ہیں۔ پانی کی وافر مقدار پینا بھی ضروری ہے کیونکہ خشک گلا کھانسی کو بڑھاتا ہے۔ دن بھر میں وقفے وقفے سے پانی پینے سے گلے کی نمی برقرار رہتی ہے اور بلغم گاڑھا نہیں ہوتا۔
اس کے ساتھ ساتھ بھاپ لینا ایک قدیم مگر مؤثر گھریلو علاج ہے۔ گرم بھاپ سانس کی نالیوں میں نمی بڑھاتی ہے، بلغم کو نرم کرتی ہے اور کھانسی کی شدت میں فوری آرام پہنچاتی ہے۔ نمک ملے نیم گرم پانی سے غرارے کرنا بھی نہایت مؤثر ہے، کیونکہ اس سے گلے کی صفائی اور خراش میں کمی آتی ہے۔
اگر فوری ریلیف درکار ہو تو مینتھول فلیور والے کف ڈراپس یا ٹافیاں بھی وقتی سکون پہنچاتی ہیں۔ یہ گلے کو نم رکھتی ہیں اور سانس کی نالیوں کو کھولنے میں مددگار ہوتی ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سانس کی نالیوں گلے کی
پڑھیں:
اتنی تعلیم کا کیا فائدہ جب ہم گھریلو ملازمین کی عزت نہ کریں: اسماء عباس
پاکستانی شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ اسماء عباس نے گھریلو ملازمین سے متعلق معاشرتی رویے پر افسوس کا اظہار کیا۔
حال ہی میں اداکارہ نے اپنے وی لاگ میں ایک قصہ سنایا جس نے انہیں نہایت مایوس کیا۔
انہوں نے بتایا کہ میں اپنی سہیلی کی گھر گئی ہوئی تھی، وہاں ان کے بچے اور ان کی ملازمہ کے بچے کھیل رہے تھے۔ سہیلی کے بچوں نے اپنا غلہ توڑا تو اس میں سے تقریباً 10 سے 15 ہزار روپے نکلے تو بچوں کے دادا نے انہیں سمجھایا کہ ان پیسوں کو ملازمہ کے بچوں کے ساتھ بانٹ لو۔
اداکارہ نے بتایا کہ کچھ دیر بعد سہیلی کے بچے روتے ہوئے اس وقت تو یہ بات آئی گئی ہوگئی لیکن بعد میں، میں نے سنا کہ بچوں کے ساتھ ہوا کیا تھا۔
انہوں نے بچوں کے درمیان ہونے والی گفتگو بتاتے ہوئے کہا کہ سہیلی کے بچے جب ملازمہ کے بچوں کے ساتھ پیسے بانٹنے گئے تو انہوں نے ملازمہ کے بچوں کو کہا کہ ’تم لوگ تو غریب ہو، یہ پیسے میرے ہیں، تم لوگوں نے اتنے پیسے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے، تمہارے باپ نے بھی اتنے پیسے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے کیونکہ تمھارے پاس یہ غلہ نہیں ہوگا‘، جس پر ملازمہ کے بچوں نے مارنے کا اشارہ کیا۔
اسماء عباس نے ان بچوں کے رویے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم اپنے بچوں کی تربیت کیسے کر رہے ہیں؟ اتنی تعلیم کا کیا فائدہ جب بچے گھریلو ملازمین کی عزت نہ کریں۔
اداکارہ نے بتایا کہ کس طرح ان کی بیٹی زارا نور اپنی بیٹی نور جہاں کو صرف ڈیڑھ سال کی عمر سے سیکھاتی ہے کہ گھر میں کام کرنے والی کو باجی کہنا ہے، ان سے اونچی آواز میں بات نہیں کرنی، جبکہ بڑا بیٹا بھی اس بات کا بہت خیال رکھتا ہے۔
انہوں نے بچوں کے رویوں پر بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس میں ان بچوں کی غلطی نہیں یہ ان کے والدین کی غلطی ہے، یہ والدین اور گھر کے بزرگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو صحیح آداب سکھائیں۔ مالی اعتبار سے اپنے سے کم لوگوں کو کمتر نہ سمجھیں یہ ملازمین ہماری زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرتے ہیں، ہماری مدد کرتے ہیں، یہ قابل احترام اور ہمارے خاندان کے افراد کی طرح ہیں۔