Islam Times:
2025-10-30@15:55:48 GMT

سعودی عرب اور یو ای اے کا پیسہ کیسے بحران پیدا کر رہا ہے؟!

اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT

سعودی عرب اور یو ای اے کا پیسہ کیسے بحران پیدا کر رہا ہے؟!

اسلام ٹائمز: خلیج فارس کے عرب ممالک، خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کئی دہائیوں کے دوران عرب ممالک کو اربوں درہم، ریال و ڈالر امداد دی ہے۔ لیکن اس امداد کا زیادہ تر حصہ، حقیقی ترقی و عوام کے حالات بہتر بنانے کی بجائے، سیاسی، جماعتی، قبائلی اور سماجی شخصیات کی ذاتی وفاداریاں خریدنے یا ایک فریق کی دوسرے کے خلاف عسکری حمایت پر صرف کیا گیا۔ جیسا کہ آج ہم سوڈان میں دیکھ رہے ہیں۔ تحریر: فتانہ غلامی
  گزشتہ دہائیوں میں، خلیج فارس کے عرب ممالک نے دیگر عرب ممالک کو اربوں ڈالر امداد فراہم کی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ امداد ان ممالک کی ترقی، استحکام اور خوشحالی کا مُحرک بنتی، مگر ان وسائل کا بڑا حصہ عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی بجائے سیاسی وفاداریوں اور فوجی حمایت خریدنے پر صرف کیا گیا۔ خطے میں خلیجی ممالک کے پیسے کے اس تخریب کارانہ مصرف سے یمن، سوڈان، لیبیاء اور دیگر بحران زدہ معاشروں پر پڑنے والے اثرات تشویش ناک ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کہ خلیج فارس کے عرب ممالک، خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کئی دہائیوں کے دوران عرب ممالک کو اربوں درہم، ریال و ڈالر امداد دی۔ لیکن اس امداد کا زیادہ تر حصہ، حقیقی ترقی و عوام کے حالات بہتر بنانے کی بجائے، سیاسی، جماعتی، قبائلی اور سماجی شخصیات کی ذاتی وفاداریاں خریدنے یا ایک فریق کی دوسرے کے خلاف عسکری حمایت پر صرف کیا گیا۔ جیسا کہ آج ہم سوڈان میں دیکھ رہے ہیں، جہاں سعودی عرب، جنرل برہان کی حمایت کر رہا ہے، جبکہ متحدہ عرب امارات، حکومت مخالف باغی کمانڈر حمیدتی کی۔

یہ حمایت معاشی یا ترقیاتی نہیں بلکہ محض عسکری ہے۔ ایسے ملک میں جو قحط، غربت اور محرومیوں سے نبرد آزما ہے۔ وہاں ایسی حمایت کا نتیجہ تباہی، قتل، بیماری اور نفرت کے سوا کچھ نہیں۔ لیبیاء میں بھی یہی طرز عمل اپنایا گیا۔ امداد کے نام پر عسکری اہداف کی تکمیل کا عمل، نہ صرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بلکہ قطر کی جانب سے بھی بالکل اسی راہ و روش کے ذریعے جاری و ساری ہے۔ ثروت مند لیبیاء میں اس پالیسی کا نتیجہ سوڈان اور یمن کے سانحے سے کسی طور کم نہیں۔ اسی طرح کی مثالیں ہم نے صومالیہ سے لے کر شام، لبنان اور حتیٰ کہ مصر میں بھی دیکھیں۔ خاص طور پر بہار عرب کے بعد جب حسنی مبارک کو اقتدار سے ہٹایا گیا، قبل ازیں کہ مصر اس بحران سے نکل پاتا، ہم نے دیکھا کہ کیسے خلیجی ممالک کے پیسے، خصوصاً قطر نے تباہ کن کردار ادا کیا۔ یمن میں ان ممالک کے پیسوں کے تخریب کارانہ نتائج صاف واضح ہیں۔ وفاداریاں خریدنے اور دیگر منصوبوں کی خاطر، سعودی عرب 1960ء کی دہائی سے لے کر اب تک اربوں ڈالر یمن میں لگا چکا ہے۔

1990ء میں یمن میں داخلی اتحاد سے قبل، شمالی یمن میں ان رقوم کا محض ایک قلیل حصہ ہی حکومت کے خزانے، تعلیم، صحت، سڑکوں، بجلی اور پانی جیسے شعبوں کی ترقی پر خرچ ہوا، جبکہ اس رقم کا زیادہ تر حصہ حکومت، قبائل، فوج یا مذہبی گروہوں میں بااثر شخصیات کی جیبوں میں گیا تاکہ ریاض کے لئے ان کی وفاداری یقینی بنائی جا سکے۔ ان پیسوں کا ایک حصہ سابقہ جنوبی یمن کی حکومت کے خلاف جنگ پر بھی صرف کیا گیا۔ یمن کے داخلی اتحاد کے بعد یہ امداد جاری رہی، البتہ عوام کے لئے غیر محسوس نتائج کے بغیر۔ اگر سعودی عرب ان وسائل کو عوام کے حالات بہتر بنانے کے لئے استعمال کرتا تو آج اس کے پاس عوامی اطمینان و حمایت ہوتی اور اسے داخلی خطرات کا سامنا نہ ہوتا۔ لیکن افسوس وہی پرانے ناکارآمد طریقے جاری ہیں یعنی لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کے بجائے ذاتی وفاداریاں خریدنا۔ ہم اپنے خلیجی بھائیوں کو خیرخواہانہ نصیحت کرتے ہیں کہ وہ ان رقوم کے خرچ اور تقسیم کے طریقہ کار پر نظر ثانی کریں، خواہ وہ یمن کے لئے ہو یا دیگر ممالک کے لئے۔ یہ وسائل، جو آنے والی نسلوں کے لئے ہیں، فرسودہ وفاداریوں کو مضبوط کرنے کی بجائے داخلی ترقی پر صرف ہونے چاہئیں۔

اگر ان ممالک کے شہریوں کو یہ احساس ہو جائے کہ عرب ممالک کی امداد ان کے فائدے میں ہے، ان کی زندگیوں کو بہتر بناتی ہے، ان کے وقار کی حفاظت کرتی ہے اور ان کے معاشروں کو تفرقہ و عسکریت پسندی سے دور رکھتی ہے، تو یمن سے لے کر دیگر علاقوں تک کے یہی عرب عوام، خلیجی ممالک کے حقیقی پشت و پناہ بن جائیں گے۔ اس صورت میں، خلیجی ممالک نہ صرف شخصیات کی وفاداری، بلکہ قوموں کا احترام اور حمایت حاصل کریں گے۔ بجائے اس کے کہ وہ اُن شخصیات پر انحصار کریں جن کے پاس خیالی دشمنوں سے ڈرانے کے علاوہ کوئی فن نہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: متحدہ عرب امارات سعودی عرب اور خلیجی ممالک صرف کیا گیا بہتر بنانے عرب ممالک شخصیات کی ممالک کے کی بجائے عوام کے کے لئے

پڑھیں:

غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھ رہے ہیں، شہباز شریف: پاکستان سے معاہدہ اقتصادی تعاون بڑھانے کیلئے ہے، سعودی کابینہ

اسلام آباد+ ریاض (خبر نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم محمد شہباز شریف نے انسانی ترقی اور فلاح و بہبود کیلئے عالمی اشتراک کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ امن، خوشحالی اور ترقی ہماری ترجیح ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، علم و تجربے کو بروئے کار لانا ہوگا۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی سے نمٹنے کیلئے قرضے فراہم کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ عالمی برادری کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔ پاکستان نے بڑے چیلنجز پر قابو پا لیا۔ نوجوانوں کی بڑی آبادی کو مواقع فراہم کریں گے۔ وہ منگل کو یہاں فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹیو کانفرنس کے تحت "کیا انسانیت صحیح سمت کی طرف گامزن ہے؟"  کے موضوع پر منعقدہ اعلی سطح کے گول میز مباحثے سے خطاب کر رہے تھے۔ مباحثے میں مختلف ممالک کے رہنمائوں اور نمائندوں نے شرکت کی اور انسانیت کو درپیش بڑے مسائل کی نشاندہی کی۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے مباحثے میں اظہار خیال کرتے ہوئے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ترقی کے وژن کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی طرح وہ دنیا میں بہتری لانے کیلئے جو اقدامات کر رہے ہیں اس پر انہیں مبارکباد دیتا ہوں۔ ہم نے 78 سال میں جو غلطیاں کی ہیں ان سے سبق سیکھ کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے بہتری کیلئے بڑی تبدیلیاں اور اصلاحات کیلئے بڑے اقدامات کیے ہیں۔ مختلف شعبوں میں اصلاحات کا عمل جاری ہے۔ ایف بی آر میں اصلاحات کرکے مکمل ڈیجیٹائزڈ کر دیا گیا ہے، اس سے کرپشن میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، یہ بہت بڑا چیلنج بھی ہے اور موقع بھی، انہیں ہنر اور تربیت فراہم کرکے معاشرے کے مفید شہری بنا رہے ہیں تاکہ وہ اپنا روزگار کمانے کے قابل ہوسکیں۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ 10 ملکوں میں شامل ہے حالانکہ ہمارا ماحولیاتی بگاڑ میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔  2022ء اور رواں سال بھی قدرتی آفات کے نتیجہ میں پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ لاکھوں گھر اور لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ تعمیر نو اور بحالی کے عمل کیلئے ہمیں زیادہ فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے لیکن قرضے اس کا حل نہیں ہیں۔ مسلسل قرضوں سے ملکی معیشت کمزور پڑتی ہے۔ یہ عالمی انسانی مسئلہ ہے جس کے حل کیلئے عالمی برادری کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنا ہوگی اور آگے آنا ہوگا۔ ایک دوسرے کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون سے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کیلئے مواقع بڑھانا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اے آئی سمیت جدید ٹیکنالوجی کے حصول کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اپنے نوجوانوں اور وسائل کو ترقی کیلئے بروئے کار لائیں گے۔ زرعی شعبہ اور صنعتوں میں جدت کیلئے اے آئی سے استفادہ کر رہے ہیں۔ زرعی شعبہ کی ترقی کیلئے نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی سے روشناس کرا رہے ہیں۔ انہوں نے گلوبل نارتھ کے گلوبل سائوتھ کے ساتھ ترقی کیلئے اشتراک کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اپنے علم اور تجربات کو انسانیت کی ترقی اور بہبود کیلئے استعمال کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ زرعی شعبے کی ترقی کے لیے پاکستانی نوجوان چین سے تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے خاندان کی مثال دی جس نے 1972ء  میں اپنے تمام کاروبار اور صنعت کو سرکاری طور پر قومیائے جانے کے بعد امید کا دامن نہیں چھوڑا اور دن رات محنت سے جلد اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مضبوط ارادے اور عزم و حوصلے سے کوئی کامیابی ناممکن نہیں۔ علاوہ ازیں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے درمیان رابطے کیلئے   پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ حکومت اقتصادی اصلاحات، مالیاتی نظم و ضبط، سرمایہ کاری، ڈیجیٹل تبدیلی، برآمدات کے فروغ، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، نوجوان افرادی قوت اور  آئی ٹی کے شعبوں میں ترقی پر توجہ مرکوز  کئے ہوئے ہے۔  انہوں نے ان خیالات کا اظہار یہاں فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو  کے موقع پر عالمی اقتصادی فورم کے صدر  اور چیف ایگزیکٹو  آفیسر بورگے بغینڈے  سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ملاقات عالمی اقتصادی فورم کی قیادت کی درخواست پر ہوئی جس کا مقصد وزیراعظم کو آئندہ سال جنوری میں ڈیووس میں ہونے والے عالمی اقتصادی فورم کے سالانہ اجلاس کی باضابطہ شرکت کی  دعوت دینا تھا۔ وزیراعظم نے پاکستان اور عالمی اقتصادی فورم کے درمیان مضبوط روابط کو سراہا اور فورم کے عالمی سطح پر کاروباری اور جدت پسند نیٹ ورک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو مزید وسعت دینے میں پاکستان کی دلچسپی کا اظہار کیا۔ 2026ء  کے عالمی اقتصادی فورم کے سالانہ اجلاس کی دعوت کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ  ڈیووس میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان بھرپور نمائندگی کرے گا۔ بورگے بغینڈے نے عالمی اقتصادی فورم کے ساتھ پاکستان کے فعال کردار پر وزیر اعظم محمد شہبازشریف کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ باہمی طور پر فائدہ مند شراکت داری کو فروغ دینے کیلئے پاکستان کی جانب سے مسلسل حمایت کیلئے پر امید ہیں۔  دریں اثناء سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی زیرصدارت کابینہ کا اجلاس ہوا۔ سعودی ولی عہد نے کابینہ کو پاک سعودی عرب اقتصادی فریم ورک سے متعلق آگاہ کیا۔ سعودی کابینہ نے کہا کہ اقتصادی فریم ورک دونوں ملکوں کے تعلقات مضبوط بنانے کی کوششوں کا تسلسل ہے۔ پاکستان سے معاہدہ اقتصادی‘ سرمایہ کاری کے شعبے میں تعاون بڑھانے کیلئے ہے۔ معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے عوام کی خوشحالی‘ مشترکہ مفادات کو یقینی بنانا ہے۔ سعودی کابینہ نے اسرائیلی پارلیمنٹ کے مقبوضہ مغربی کنارے کے الحاق سے متعلق بل کی مذمت کی۔ سعودی کابینہ نے کہا کہ اسرائیل کا غیرقانونی اقدام مقبوضہ مغربی کنارے پر قبضہ مضبوط بنانے کی کوشش ہے۔ فلسطین کا دو ریاستی حل چاہتے ہیں جو 1967ء کی سرحدوں کے مطابق ہو۔ سعودی کابینہ نے تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کا خیرمقدم کیا۔
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) پاکستان اور سعودی عرب نے اقتصادی تعاون کا فریم ورک شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے جس کے تحت اقتصادی، تجارتی، سرمایہ کاری اور ترقیاتی شعبوں میں کئی سٹرٹیجک اور اعلیٰ اثرات کے حامل منصوبوں پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے توانائی، صنعت، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاحت، زراعت اور غذائی تحفظ سمیت ترجیحی شعبوں میں تعاون بڑھایا جائے گا۔ منگل کو وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم محمد شہباز شریف اور سعودی ولی عہد و وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کے مابین ملاقات کے بعد جاری مشترکہ اعلامیہ میں بتایا گیا کہ ولی عہد و وزیر اعظم سعودی عرب شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی ملاقات کے دوران سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان 27 اکتوبر 2025ء کو ریاض میں ہونے والی ملاقات کے دوران اقتصادی تعاون کا فریم ورک شروع کرنے پر اتفاق ہوا۔ یہ پیش رفت مملکت سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان تقریباً آٹھ دہائیوں پر محیط تاریخی شراکت کی مضبوطی اور دونوں ممالک کی قیادت کو متحد کرنے والے بھائی چارے و اسلامی یکجہتی کے مضبوط رشتے کی عکاسی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ فریم ورک دونوں ممالک کے مشترکہ اقتصادی مفادات پر مبنی اور ان کی تکمیل کے لیے تجارت و سرمایہ کاری کے تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے دونوں ممالک کی باہمی خواہش کا اعادہ ہے۔ فریم ورک کے تحت اقتصادی، تجارتی، سرمایہ کاری اور ترقیاتی شعبوں میں کئی سٹرٹیجک اور اعلیٰ اثرات کے حامل منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا جو دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانے، نجی شعبے کے اہم کردار کو بڑھانے اور تجارتی تبادلے کو بڑھانے میں معاون ثابت ہوں گے۔  فریم ورک کے ترجیحی شعبوں میں توانائی، صنعت، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاحت، زراعت  اور غذائی تحفظ شامل ہیں۔ اعلامیہ کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب اس وقت کئی مشترکہ اقتصادی منصوبوں  کے حوالے سے تعاون پر کام کر رہے ہیں جن میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان بجلی کی ترسیل (الیکٹریسٹی انٹرکنکشن ) کے منصوبے کے لیے مفاہمتی یادداشت  اور دونوں ممالک کے مابین توانائی کے شعبے میں تعاون کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط بھی شامل ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ فریم ورک باہمی برادرانہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے دونوں ممالک کے اقدامات کی عکاسی اور اقتصادی، تجارتی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں پائیدار شراکت داری کی تعمیر کے لیے مشترکہ وژن کی توثیق کرتا ہے۔ فریم ورک دونوں ممالک کی قیادت اور برادر عوام کی امنگوں کی ترجمانی اور باہمی مفادات کے حصول کی تکمیل کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے رہنما سعودی پاکستانی سپریم کوآرڈینیشن کونسل کے اجلاس کے انعقاد کے بھی منتظر ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اقتصادی تعاون کا فریم ورک شروع کرنے پر اتفاق
  • غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھ رہے ہیں، شہباز شریف: پاکستان سے معاہدہ اقتصادی تعاون بڑھانے کیلئے ہے، سعودی کابینہ
  • اسحاق ڈار کی سعودی، ترک ہم منصوبوں سے غزہ، دیگر امور پر گفتگو
  • پاکستان اور سعودی عرب کا اقتصادی تعاون کے فریم ورک کے آغاز پر اتفاق
  • پاکستان اور سعودی عرب میں اقتصادی تعاون کا فریم ورک شروع کرنے پر اتفاق
  • پاکستان اور سعودی عرب نے اقتصادی تعاون کے فریم ورک کا اعلان کردیا
  • پاکستان اور سعودی عرب کا بڑا قدم, اقتصادی تعاون کے نئے فریم ورک پر اتفاق
  • وزیراعظم کی سعودی ولی عہد سے ملاقات، اقتصادی تعاون فریم ورک پر تاریخی اتفاق: اعلامیہ
  • روس مغرب کی طرف سے عائد اقتصادی پابندیوں سے کیسے نمٹ رہا ہے؟ روسی وزارت خارجہ نے بتا دیا