Islam Times:
2025-12-14@19:33:40 GMT

سعودی عرب اور یو ای اے کا پیسہ کیسے بحران پیدا کر رہا ہے؟!

اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT

سعودی عرب اور یو ای اے کا پیسہ کیسے بحران پیدا کر رہا ہے؟!

اسلام ٹائمز: خلیج فارس کے عرب ممالک، خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کئی دہائیوں کے دوران عرب ممالک کو اربوں درہم، ریال و ڈالر امداد دی ہے۔ لیکن اس امداد کا زیادہ تر حصہ، حقیقی ترقی و عوام کے حالات بہتر بنانے کی بجائے، سیاسی، جماعتی، قبائلی اور سماجی شخصیات کی ذاتی وفاداریاں خریدنے یا ایک فریق کی دوسرے کے خلاف عسکری حمایت پر صرف کیا گیا۔ جیسا کہ آج ہم سوڈان میں دیکھ رہے ہیں۔ تحریر: فتانہ غلامی
  گزشتہ دہائیوں میں، خلیج فارس کے عرب ممالک نے دیگر عرب ممالک کو اربوں ڈالر امداد فراہم کی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ امداد ان ممالک کی ترقی، استحکام اور خوشحالی کا مُحرک بنتی، مگر ان وسائل کا بڑا حصہ عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی بجائے سیاسی وفاداریوں اور فوجی حمایت خریدنے پر صرف کیا گیا۔ خطے میں خلیجی ممالک کے پیسے کے اس تخریب کارانہ مصرف سے یمن، سوڈان، لیبیاء اور دیگر بحران زدہ معاشروں پر پڑنے والے اثرات تشویش ناک ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کہ خلیج فارس کے عرب ممالک، خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کئی دہائیوں کے دوران عرب ممالک کو اربوں درہم، ریال و ڈالر امداد دی۔ لیکن اس امداد کا زیادہ تر حصہ، حقیقی ترقی و عوام کے حالات بہتر بنانے کی بجائے، سیاسی، جماعتی، قبائلی اور سماجی شخصیات کی ذاتی وفاداریاں خریدنے یا ایک فریق کی دوسرے کے خلاف عسکری حمایت پر صرف کیا گیا۔ جیسا کہ آج ہم سوڈان میں دیکھ رہے ہیں، جہاں سعودی عرب، جنرل برہان کی حمایت کر رہا ہے، جبکہ متحدہ عرب امارات، حکومت مخالف باغی کمانڈر حمیدتی کی۔

یہ حمایت معاشی یا ترقیاتی نہیں بلکہ محض عسکری ہے۔ ایسے ملک میں جو قحط، غربت اور محرومیوں سے نبرد آزما ہے۔ وہاں ایسی حمایت کا نتیجہ تباہی، قتل، بیماری اور نفرت کے سوا کچھ نہیں۔ لیبیاء میں بھی یہی طرز عمل اپنایا گیا۔ امداد کے نام پر عسکری اہداف کی تکمیل کا عمل، نہ صرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بلکہ قطر کی جانب سے بھی بالکل اسی راہ و روش کے ذریعے جاری و ساری ہے۔ ثروت مند لیبیاء میں اس پالیسی کا نتیجہ سوڈان اور یمن کے سانحے سے کسی طور کم نہیں۔ اسی طرح کی مثالیں ہم نے صومالیہ سے لے کر شام، لبنان اور حتیٰ کہ مصر میں بھی دیکھیں۔ خاص طور پر بہار عرب کے بعد جب حسنی مبارک کو اقتدار سے ہٹایا گیا، قبل ازیں کہ مصر اس بحران سے نکل پاتا، ہم نے دیکھا کہ کیسے خلیجی ممالک کے پیسے، خصوصاً قطر نے تباہ کن کردار ادا کیا۔ یمن میں ان ممالک کے پیسوں کے تخریب کارانہ نتائج صاف واضح ہیں۔ وفاداریاں خریدنے اور دیگر منصوبوں کی خاطر، سعودی عرب 1960ء کی دہائی سے لے کر اب تک اربوں ڈالر یمن میں لگا چکا ہے۔

1990ء میں یمن میں داخلی اتحاد سے قبل، شمالی یمن میں ان رقوم کا محض ایک قلیل حصہ ہی حکومت کے خزانے، تعلیم، صحت، سڑکوں، بجلی اور پانی جیسے شعبوں کی ترقی پر خرچ ہوا، جبکہ اس رقم کا زیادہ تر حصہ حکومت، قبائل، فوج یا مذہبی گروہوں میں بااثر شخصیات کی جیبوں میں گیا تاکہ ریاض کے لئے ان کی وفاداری یقینی بنائی جا سکے۔ ان پیسوں کا ایک حصہ سابقہ جنوبی یمن کی حکومت کے خلاف جنگ پر بھی صرف کیا گیا۔ یمن کے داخلی اتحاد کے بعد یہ امداد جاری رہی، البتہ عوام کے لئے غیر محسوس نتائج کے بغیر۔ اگر سعودی عرب ان وسائل کو عوام کے حالات بہتر بنانے کے لئے استعمال کرتا تو آج اس کے پاس عوامی اطمینان و حمایت ہوتی اور اسے داخلی خطرات کا سامنا نہ ہوتا۔ لیکن افسوس وہی پرانے ناکارآمد طریقے جاری ہیں یعنی لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کے بجائے ذاتی وفاداریاں خریدنا۔ ہم اپنے خلیجی بھائیوں کو خیرخواہانہ نصیحت کرتے ہیں کہ وہ ان رقوم کے خرچ اور تقسیم کے طریقہ کار پر نظر ثانی کریں، خواہ وہ یمن کے لئے ہو یا دیگر ممالک کے لئے۔ یہ وسائل، جو آنے والی نسلوں کے لئے ہیں، فرسودہ وفاداریوں کو مضبوط کرنے کی بجائے داخلی ترقی پر صرف ہونے چاہئیں۔

اگر ان ممالک کے شہریوں کو یہ احساس ہو جائے کہ عرب ممالک کی امداد ان کے فائدے میں ہے، ان کی زندگیوں کو بہتر بناتی ہے، ان کے وقار کی حفاظت کرتی ہے اور ان کے معاشروں کو تفرقہ و عسکریت پسندی سے دور رکھتی ہے، تو یمن سے لے کر دیگر علاقوں تک کے یہی عرب عوام، خلیجی ممالک کے حقیقی پشت و پناہ بن جائیں گے۔ اس صورت میں، خلیجی ممالک نہ صرف شخصیات کی وفاداری، بلکہ قوموں کا احترام اور حمایت حاصل کریں گے۔ بجائے اس کے کہ وہ اُن شخصیات پر انحصار کریں جن کے پاس خیالی دشمنوں سے ڈرانے کے علاوہ کوئی فن نہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: متحدہ عرب امارات سعودی عرب اور خلیجی ممالک صرف کیا گیا بہتر بنانے عرب ممالک شخصیات کی ممالک کے کی بجائے عوام کے کے لئے

پڑھیں:

افغان طالبان اورٹی ٹی پی کی حمایت

ریاض احمدچودھری

اقوام متحدہ کے ایک پینل نے رپورٹ کیا ہے کہ افغان طالبان اب بھی تحریک طالبان پاکستان کو لاجسٹک اور آپریشنل مدد فراہم کر رہے ہیں، جب کہ واشنگٹن پوسٹ نے دستاویزی طور پر یہ ظاہر کیا ہے کہ درجنوں امریکی ساختہ ہتھیار اب پاکستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں میں ہیں، جو ریاست کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ان ہتھیاروں کے پھیلا ئو کی ایک وجہ طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان میں نگرانی کی کمی ہے۔ طالبان کے قبضے کی وجہ سے( ایس آئی جی اے آر) کو افغان نیشنل ڈیفنس اور سیکیورٹی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) کو فراہم کیے گئے کسی بھی سامان یا بنائے گئے سہولتوں کی تفتیش کرنے کا موقع نہیں ملا۔امریکی محکمہ دفاع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ تقریبا 7 ارب ڈالر 10 کروڑ مالیت کا امریکی فراہم کردہ سامان چھوڑا گیا تھا، جس میں ہزاروں گاڑیاں، لاکھوں چھوٹے ہتھیار، نائٹ ویڑن ڈیوائسز اور 160 سے زیادہ طیارے شامل ہیں۔واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، پاکستان میں پکڑے گئے کم از کم 63 ہتھیاروں کے سیریل نمبرز افغان فورسز کو فراہم کیے گئے ہتھیاروں سے میل کھاتے ہیں۔واشنگٹن پوسٹ نے پاکستانی حکام کے حوالے سے بتایا کہ ان میں سے کچھ رائفلز اور کاربائنس اس سے کہیں زیادہ بہتر ہیں جو 2021 سے پہلے ٹی ٹی پی کے جنگجو استعمال کرتے تھے۔اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ رپورٹس بھی اس تشویش کی بازگشت کرتی ہیں، 36ویں مانیٹرنگ رپورٹ (2025) میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے تقریبا 6 ہزار جنگجو افغانستان کے غزنی، ہلمند، قندھار، کنڑ، اوروزگان، اور زابل صوبوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور القاعدہ کے ساتھ تربیتی سہولتوں کا اشتراک کرتے ہیں۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خطاب کرتے ہوئے ڈنمارک کی نائب مستقل نمائندہ، ساندرا جینسن لینڈی نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کو کابل میں حکام کی طرف سے لاجسٹک اور اہم مدد مل رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے رپورٹس میں طالبان کی طرف سے ٹی ٹی پی کے رہنماں کو مہمان خانوں کی فراہمی، ہتھیاروں کی اجازت، نقل و حرکت کی اجازت، اور گرفتاری سے چھوٹ جیسے انتظامات کی تفصیل دی گئی ہے، ان سہولیات کی وجہ سے گروپ کو افغان علاقے میں مزید گہرا اثر رسوخ حاصل کرنے میں مدد کی ہے۔(ایس آئی جی اے آر) 2025 کی سہ ماہی رپورٹس میں بھی سرحد پار حملوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں جنوبی وزیرستان میں ایک حملہ بھی شامل ہے جس میں پاکستان کے 16 سیکورٹی اہلکار شہید ہوگئے تھے۔
امریکا نے افغان فورسز کے لیے 96 ہزار زمینی گاڑیاں، 4 لاکھ 27 ہزار سے زیادہ ہتھیار، 17 ہزار 400 نائٹ ویڑن ڈیوائسز، اور کم از کم 162 طیارے خریدے تھے۔(، جولائی 2021 تک جب افغان حکومت کا سقوط ہوا) افغان فضائیہ کے پاس 131 آپریشنل امریکی فراہم کردہ طیارے تھے، جن میں سے تقریبا تمام اب طالبان کے زیر قبضہ ہیں۔رپورٹ کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکا کی افغانستان میں ایک مستحکم اور جمہوری حکومت بنانے کی خواہش شروع ہی سے غلط مفروضوں اور غیر ہم آہنگ شراکت داریوں کی وجہ سے ناکام ہوئی۔رپورٹ میںمزیدکہا گیا کہ امریکی فیصلوں کیوجہ سے بدعنوان، حقوق کی پامالی کرنے والے طاقتور افراد کو تقویت ملی، جس سے حکمرانی کو نقصان پہنچا، اور باغی گروپوں کی بھرتی طاقت حاصل ہوئی، اور آخرکار وہ ادارے جو امریکا تعمیر کرنا چاہتا تھا، کمزور ہو گئے، اور 29 ارب امریکی ڈالر دھوکا دہی اور بدعنوانی کی نذر ہوئے۔انسانی قیمت کہیں زیادہ تھی، دسیوں ہزار افغان اور 2 ہزار 450 سے زائد امریکی فوجی ہلاک ہوئے، اور اس کے باوجود طالبان کا اقتدار بحال ہو گیا، جو اب وہی سامان استعمال کر رہے ہیں جو امریکا نے اپنے حریفوں کے لیے خریدا تھا۔ایک مریکی رپورٹ میں تصدیق ہوئی ہے کہ 2021 میں افغانستان سے واپسی کے دوران چھوڑے گئے اربوں ڈالر مالیت کے امریکی ہتھیار، فوجی سامان اور سیکیورٹی انفرااسٹرکچر اب طالبان کی سیکیورٹی مشینری کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔رواں ہفتے جاری کی گئی 137 صفحات پر مشتمل رپورٹ کو اسپیشل انسپیکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (ایس آئی جی اے آر)نے جاری کیا ہے۔
اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیموں اور واشنگٹن پوسٹ کی ایک تفتیشی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان ہتھیاروں میں سے کچھ پہلے ہی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی )تک پہنچ چکے ہیں، جس سے پاکستان میں حملوں میں شدت آئی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کانگریس نے 2002 سے 2021 تک افغانستان کی تعمیر نو اور جمہوری منتقلی کے لیے تقریبا 144 ارب 70 کروڑ ڈالر فراہم کیے، لیکن آخرکار نہ تو تعمیر نو ہوئی اور نہ ہی جمہوری منتقلی۔ اقوام متحدہ کے حالیہ جائزے اس ناکامی کے علاقائی اثرات کو مزید واضح کرتے ہیں۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • اسموگ کے مُضر اثرات سے کیسے بچا جائے؟
  • بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مستحقین کیلئے خوشخبری  
  • آئی فون 17 پرو اب 36 ماہ کی بلاسودی اقساط پر، مگر کیسے؟
  • افغان طالبان اورٹی ٹی پی کی حمایت
  • این اے 251، نون لیگ اور پشتونخوا میپ ایک صف پر، جے یو آئی کے امیدوار کی حمایت
  • 1.2ارب ڈالر آئی ایم ایف قسط ملنے سے روپے کی قدر میں استحکام پیدا ہوگا
  • نئے صوبے، ایم کیوایم نے بھی عبدالعلیم خان کی تجویز کی حمایت کر دی
  • جدہ بک فیئر 2025 کا شاندار آغاز، 24 ممالک کے پبلشرز کی شرکت
  • پاکستان کا سری لنکا سے یکجہتی کا اظہار، سائیکلون متاثرین کےلیے مزید امداد روانہ
  • بھارتیوں کے امریکا میں بچے پیدا کرکے شہریت لینے کے خواب ٹرمپ نے چکنا چور کردیئے