پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں جمعرات کے روز بھی مسلسل مندی کا رجحان چھایا رہا، جہاں ابتدائی مثبت آغاز کے بعد شدید فروخت کے دباؤ نے مارکیٹ کو گرا دیا۔

بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس 1,732 پوائنٹس سے زائد کمی کے ساتھ 156,732.87 پر بند ہوا، جو 1.09 فیصد کی گراوٹ کا عکاس ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، 32 گھنٹوں کے دوران انڈیکس میں 36,00 سے زائد پوائنٹس کی کمی

کاروبار کے آغاز پر مارکیٹ مثبت زون میں داخل ہوئی اور انٹرا ڈے ہائی 159,507.

41 پوائنٹس تک گئی، تاہم بعد ازاں سرمایہ کاروں کی جانب سے منافع کے حصول کے باعث مارکیٹ دباؤ میں آگئی۔

Market Close Update: Negative Today! ????
???????? KSE 100 ended negative by -1,732.2 points (-1.09%) and closed at 156,732.9 with trade volume of 378 million shares and value at Rs. 28.51 billion. Today's index low was 156,328 and high was 159,507. pic.twitter.com/ktDNUVQPkK

— Investify Pakistan (@investifypk) October 30, 2025

اس دباؤ کے نتیجے میں انڈیکس 156,327.60 پوائنٹس کی کم ترین سطح تک گر گیا۔

بدھ کے روز بھی مارکیٹ میں مسلسل فروخت دیکھی گئی تھی، جب سرمایہ کاروں نے رول اوور تشویش اور ادارہ جاتی سرمایہ کاری میں کمی کے باعث پوزیشنز بند کیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، انڈیکس 2 ہزار پوائنٹس گر گیا

جس سے کے ایس ای 100 انڈیکس میں 1,635.97 پوائنٹس یعنی 1.02 فیصد کی کمی واقع ہوئی اور یہ 158,465.06 پر بند ہوا۔

بین الاقوامی سطح پر جمعرات کے روز ایشیائی مارکیٹس میں بہتری دیکھی گئی، جب امریکی فیڈرل ریزرو نے شرحِ سود میں کٹوتی کی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کی جنوبی کوریا میں تجارتی مذاکرات کے لیے ملاقات متوقع ہے۔

ایم ایس سی آئی کے مطابق جاپان کے علاوہ ایشیا پیسیفک کے شیئرز میں 0.4 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جبکہ امریکی ایس اینڈ پی 500 فیوچرز بھی 0.4 فیصد بڑھ گئے۔

مزید پڑھیں: سرمایہ کاروں کا اعتماد اسٹاک ایکسچینج میں بہتری کا باعث، کیا معیشت مستحکم ہورہی ہے؟

اس کے برعکس ین کی قدر میں کمی واقع ہوئی کیونکہ بینک آف جاپان نے توقع کے مطابق شرح سود کو برقرار رکھا۔

عالمی مارکیٹس ان دنوں مختلف مرکزی بینکوں کے فیصلوں کے منتظر ہیں، جو آئندہ شرحِ سود کے رجحان پر اثر انداز ہوں گے۔

خاص طور پر ایسے وقت میں جب ٹرمپ انتظامیہ غیر ملکی درآمدات پر وسیع محصولات عائد کر رہی ہے۔

جاپان کے نکی 225 انڈیکس نے اتار چڑھاؤ کے بعد معمولی 0.2 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا۔

مزید پڑھیں: اسٹاک مارکیٹ بلند ترین سطح پر پہنچ کر مندی سے دوچار، کیا معیشت خطرے میں ہے؟

بینک آف جاپان نے شرح سود میں کوئی تبدیلی نہیں کی، تاہم یہ عزم دہرایا کہ اگر معیشت پیش گوئی کے مطابق آگے بڑھی تو وہ بتدریج شرحِ سود میں اضافہ جاری رکھے گا۔

فیڈرل ریزرو نے بدھ کے روز شرحِ سود میں چوتھائی فیصد پوائنٹ کمی کی۔ تاہم تاجروں نے دسمبر میں مزید کمی کے امکانات کو کم کر دیا ہے، جسے پہلے تقریباً یقینی سمجھا جا رہا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ادارہ جاتی انڈیکس بینک آف جاپان پاکستان اسٹاک ایکسچینج ٹرمپ انتظامیہ جاپان سرمایہ کاری فیڈرل ریزرو ین

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ادارہ جاتی انڈیکس بینک آف جاپان پاکستان اسٹاک ایکسچینج ٹرمپ انتظامیہ جاپان سرمایہ کاری فیڈرل ریزرو اسٹاک ایکسچینج میں کے روز

پڑھیں:

اے آئی چیٹ بوٹس سے مشورے لینے کا تیزی سے بڑھتا رجحان؛ ماہرین نفسیات نے خبردار کردیا

ماہرینِ نفسیات نے خبردار کیا ہے کہ اے آئی چیٹ بوٹس سے غیر ضروری بات چیت اور مشورے لینے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، جو انسان کو سماجی طور پر تنہا، ذہنی طور پر کمزور اور جذباتی طور پر غیر متوازن بنا رہا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹس کے مطابق اوپن اے کی طرف سے شائع کردہ ایک بلاگ پوسٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہر ہفتے ایک ملین سے زیادہ چیٹ جی پی ٹی صارفین ایسے پیغامات بھیجتے ہیں جن میں "ممکنہ خودکشی کی منصوبہ بندی یا ارادے کے واضح اشارے" شامل ہوتے ہیں۔

ماہرینِ نفسیات نے خبردار کیا ہے کہ اے آئی چیٹ بوٹس سے غیر ضروری بات چیت اور مشورے لینے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، جو انسان کو سماجی طور پر تنہا، ذہنی طور پر کمزور اور جذباتی طور پر غیر متوازن بنا رہا ہے۔

ایسے افراد میں نہ صرف ڈپریشن اور انزائٹی کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے،بلکہ ان میں فیصلہ لینے کی صلاحیت بھی متاثر ہورہی ہے۔

اس حوالے سے معروف ماہرِ نفسیات پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کے دوران کہا کہ آج کل مصنوعی ذہانت کے استعمال سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، اے آئی کے درست استعمال سے بہت فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں، کیونکہ اس کے ذریعے گھنٹوں یا دنوں کا کام چند سیکنڈز میں مکمل ہوجاتا ہے، تاہم اس کے کچھ دور رس اثرات بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اے آئی کے غیر ضروری استعمال سے ہم سماجی طور پر تنہا (سوشل آئسولیٹ) ہوگئے ہیں۔ پہلے کھانے کے وقت یا گھر میں بیٹھک کے دوران فیملیز آپس میں بات چیت کرتی تھیں مگر اب ہم کم بولتے ہیں۔ جب دماغ کو استعمال نہیں کیا جاتا تو وہ اپنی صلاحیت کھونے لگتا ہے۔ دماغی صلاحیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یوز اٹ آر لوز اٹ یعنی اگر اسے استعمال نہ کیا جائے تو صلاحیت ضائع ہوجاتی ہے۔

ڈاکٹر اقبال آفریدی نے کہا کہ پہلے زمانے میں بچوں کو گھڑ سواری، تیر اندازی اور طاقتِ گفتار جیسی تربیت دی جاتی تھی، لیکن آج کے ماحول میں گاڑی کوئی اور چلاتا ہے، چوکیداری کوئی اور کرتا ہے اور اب تو لکھنے کا کام بھی اے آئی کر دیتی ہے، جس کے باعث ذہنی صلاحیت کمزور پڑنے لگی ہے۔

ہمارے آباؤ اجداد گنتی زبان سے کرتے تھے مگر اب ہم کیلکولیٹر پر انحصار کرتے ہیں، اسی وجہ سے ہم ذہنی طور پر جمود (اسٹیگنینٹ) کا شکار ہوگئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ جسمانی حرکت اور چہل قدمی سے دماغ میں خوشی پیدا کرنے والے کیمیکل ڈوپامین کی سطح بڑھتی ہے، مگر جو لوگ مختلف چیٹ بوٹس سے باتیں کرتے ہیں ان میں ڈپریشن کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ ان باتوں میں ہمدردی (ایمپیتھی) اور سچائی (سینسیریٹی) کا عنصر نہیں ہوتا۔

اگر آپ اپنے والدین، دوستوں یا ساتھیوں سے مسئلہ ڈسکس کریں تو اس میں انسانی جذبہ شامل ہوتا ہے، مگر چیٹ بوٹس صرف مشینی جواب دیتے ہیں، جس کے باعث انزائٹی، ڈپریشن اور حتیٰ کہ خودکشی کے کیسز بھی سامنے آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اے آئی کے غیر ضروری استعمال سے غلط مشورے بھی ملتے ہیں۔ انسان میں جذبات اور دوسرے کے احساسات کو سمجھنے کی ایک قدرتی صلاحیت ہوتی ہے، لیکن چیٹ بوٹس کے استعمال سے یہ صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔ اے آئی سے چیٹ کرنے سے بات کرنے کی صلاحیت اور الفاظ کا ذخیرہ کم ہوجاتا ہے، اس لیے ایسے لوگوں میں ذہنی دباؤ اور ڈپریشن زیادہ پایا جاتا ہے۔

ڈاکٹر آفریدی نے کہا کہ ان افراد کا دماغ تو کام کرتا ہے مگر جسم متحرک نہیں رہتا، جس سے خوشی کے احساسات لانے والے نیوروٹرانسمیٹرز،خاص طور پر سیروٹونین کی سطح کم ہوجاتی ہے۔

اس کے نقصانات اسکرین کے زیادہ استعمال جیسے ہی ہیں ،ان علامات میں وزن میں اضافہ، نیند کی کمی، آنکھوں پر نیلی روشنی (بلو لائٹ) کا اثر، چڑچڑاپن اور اسکرین پر انحصار میں اضافہ شامل ہے۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ اگر ہم اچھی نیند، متوازن خوراک اور دماغی مشقیں کریں، جیسے مختلف پزلز اور معمے حل کریں، تو ذہنی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔ اے آئی پر ہر مشورہ نہیں لینا چاہیے کیونکہ اس سے جستجو اور فیصلہ کرنے کی طاقت کم ہوجاتی ہے۔

پروفیسر اقبال آفریدی نے واضح کیا کہ انسان کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا۔چیٹ بوٹس جذباتی دباؤ کم نہیں کرسکتے۔ مثال کے طور پر اگر آپ مسلسل گوگل میپ استعمال کریں تو کچھ عرصے بعد آپ کو راستے یاد نہیں رہیں گے، بلکہ غلط سمت میں بھی لے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح اے آئی پر انحصار دماغ کو محنت سے دور کر دیتا ہے جو آگے چل کر نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے لیے ڈیجیٹل ڈیٹاکسیفکیشن ضروری ہے، جس میں روزانہ اسکرین ٹائم دو گھنٹے سے کم رکھا جائے، غیر ضروری چیٹ بوٹس سے بات چیت سے پرہیز کیا جائے، اور دلچسپ فزیکل ایکٹیویٹیز اختیار کی جائیں۔ اے آئی کا استعمال صرف تعلیم یا ڈیٹا بیسڈ ریسرچ تک محدود رکھنا چاہیے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ لوگ نفسیاتی مسائل کو شرمندگی سمجھتے ہیں، اسی لیے اپنے مسائل چیٹ بوٹس سے شیئر کرتے ہیں، حالانکہ ان کے مشورے ہمیشہ درست نہیں ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ بیرون ملک بعض قوانین عجیب ہیں، جیسے اگر شوہر خراٹے لیتا ہے تو بیوی طلاق لے سکتی ہے، اسی طرح چیٹ بوٹس بھی عقائد کے بارے میں درست رہنمائی نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی لکھے کہ اس میں پروٹین کی کمی ہے تو چیٹ بوٹ اسے سور کا گوشت کھانے کا مشورہ دے دیتا ہے۔ اس طرح کے غیر مناسب مشورے رشتوں میں دوریاں پیدا کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس نیوز سے بات چیٹ کے دوران اے آئی چیٹ بوٹس سے بات کرنے والوں کا کہنا تھا کہ جب ہمیں لگتا ہے کہ کوئی سننے والا نہیں،تو ہم اس سے باتیں کرکے وقتی طور پر خود کو مصروف رکھتے ہیں،اوپر سے ہم اس سے کوئی ایسے موضوعات پر بات کرسکتے ہیں جو ہماری دلچسپی ہے،کیونکہ اس کی کوئی اپنی پسند تو ہوتی نہیں،تو یہ ہمارے موڈ کے حساب سے چلتا ہے،اس سے ہمیں یہ خوف محسوس نہیں ہوتا کہ یہ ہمیں جج کرے گا یا ہمارے بارے میں سن کر کوئی رائے بنالے گا۔

ماہرینِ نفسیات کے مطابق اب متعدد چیٹ بوٹس آواز کے ساتھ اس انداز میں جواب دیتے ہیں کہ ان کے لہجے میں جذبات بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اگر بات کرنے والا شخص اداس ہو تو چیٹ بوٹ کی آواز میں بھی افسردگی نمایاں ہوتی ہے اور اگر وہ خوشی کی کوئی بات کرے تو چیٹ بوٹ خوش مزاج لہجے میں جواب دیتا ہے۔ یہی انداز صارف کو لگاؤ کا تعلق محسوس کرواتا ہے،جیسے وہ کسی سمجھنے والے سے گفتگو کر رہا ہو۔

کلینیکل سائیکولوجسٹ اور گیٹ وے کی نائب بانی ڈاکٹر اسما احمد نے کہا کہ اے آئی چیٹ بوٹس سے بات چیت کے کچھ فائدے ضرور ہیں، لیکن ان کا غیر ضروری استعمال ہمیں ان کے عادی بنا دیتا ہے۔ ان سے فوری جوابات تو مل جاتے ہیں، مگر حد سے زیادہ استعمال ہمیں انحصار کی طرف لے جا رہا ہے۔ ہر مشورہ اے آئی سے لینا درست نہیں۔ لوگ تنہائی پسند ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ اب عادت صرف نشے کی نہیں بلکہ اسکرین کی بھی ہو گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب لوگ معمولی علامات ظاہر ہونے پر بھی ڈاکٹر کے بجائے اے آئی سے پوچھتے ہیں، جو خطرناک ہے۔ سماجی تنہائی کی وجہ سے رشتے کمزور ہو رہے ہیں، لوگ ایک ساتھ بیٹھے بھی موبائل میں مصروف رہتے ہیں۔ کچھ افراد تو چیٹ بوٹس سے اس حد تک جڑ جاتے ہیں کہ ان کے نام بھی رکھ لیتے ہیں، لیکن ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کو حقیقت کی دنیا میں واپس لایا جائے کیونکہ اے آئی کے پاس جذبات نہیں ہوتے۔ جذباتی وابستگی کے لیے انسان کا کوئی متبادل نہیں۔

ڈاکٹر اسما احمد کے مطابق ہمارے معاشرے میں ذہنی صحت اب بھی ایک اسٹیگما ہے۔ بہت سے لوگ جو ڈپریشن یا انزائٹی میں مبتلا ہوتے ہیں، دوسروں سے بات کرنے سے گھبراتے ہیں، اس لیے وہ اے آئی چیٹ بوٹس سے اپنی باتیں شیئر کرتے ہیں، جو ان کے مسائل مزید بڑھا سکتی ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق اے آئی چیٹ بوٹس استعمال کرنے والے افراد کے دماغ کا مخصوص حصہ ہی فعال رہتا ہے جبکہ باقی حصہ سست پڑ جاتا ہے، جس سے ان کی تنقیدی سوچ (critical thinking) متاثر ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بچے اگر اسائنمنٹ میں اے آئی سے مدد لیتے ہیں تو ضروری ہے کہ معلومات کو چیک بھی کریں کہ وہ درست اور تازہ ہیں یا نہیں۔ اے آئی دماغ کے ڈوپامین ریوارڈ سسٹم کو متاثر کرتا ہے، جو خوشی کے احساسات پیدا کرتا ہے۔ بڑھتی عمر کے بچے جو والدین سے بات کرنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں، وہ اپنے سوالات چیٹ بوٹس سے پوچھنے لگے ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے۔

والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو بغیر جج کیے سنیں اور ان سے کھلے ماحول میں بات کریں، ورنہ بچوں میں فیصلہ لینے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔

ایسے چیٹ بوٹس نہ صرف لوگوں کو تنہائی کا عادی بنا رہے ہیں بلکہ ان میں خود پسندی (نارسیسزم) کا رجحان بھی پیدا کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر اسما احمد نے کہا کہ نے مزید کہا کہ آج کل نارسیسزم (خود پسندی) ایک عام نفسیاتی مسئلہ بنتا جا رہا ہے، جس میں انسان خود کو سب سے اہم سمجھتا ہے، دوسروں کی رائے برداشت نہیں کرتا، اور اپنی بات ہی زیادہ سننا چاہتا ہے۔ ایسے لوگ بھی اے آئی چیٹ بوٹس کا سہارا لیتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔

ڈاکٹر اسما نے مشورہ دیا کہ ایسے افراد کو ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے، ورنہ یہ رویہ نارسیسسٹک پرسنالٹی ڈس آرڈر میں بدل سکتا ہے۔اکتوبر کا مہینے میں ہم نے ذہنی صحت کی حوالے سے منایا جاتا ہے لیکن اس ہم سال پر مینٹل ہیلتھ پر کھل کر بات کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • سونے کی قیمت میں آج کمی کا رجحان، فی تولہ کتنے کا ہوگیا؟
  • اسٹاک مارکیٹ بدھ کے روز بھی مندی کا شکار رہی
  • اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، 2 روز میں انڈیکس 36,00 سے زائد پوائنٹس گر گیا
  • اے آئی چیٹ بوٹس سے مشورے لینے کا تیزی سے بڑھتا رجحان؛ ماہرین نفسیات نے خبردار کردیا
  • کیا پاکستان اسٹاک مارکیٹ اس سال کے اختتام پرنئی تارخ رقم کر پائے گی؟
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، انڈیکس 2 ہزار پوائنٹس گر گیا
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار کا مثبت رجحان
  • سٹاک مارکیٹ میں تیزی، ایک لاکھ 63 ہزار پوائنٹس کی حد دوبارہ بحال
  • اسٹاک مارکیٹ میں مندی کارجحان؛ انڈیکس میں 1ہزار140پوائنٹس کی کمی