حکومت کامعدنیات وکان کنی کیلئےنیاجامع قانونی نظام متعارف کروانےکا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
سٹی42: حکومت نے پنجاب میں معدنیات اور کان کنی کے لیے نیا جامع قانونی نظام متعارف کروانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں "پنجاب مائنز اینڈ منرلز بل 2025" پیش کیا جائے گا، جس کے تحت کان کنی کے جدید لائسنسنگ نظام کو متعارف کرایا جائے گا۔
بل کے مطابق کان کنی کے لیے ایک لائسنسنگ اتھارٹی تشکیل دی جائے گی، جس کے پاس نئے لائسنس جاری کرنے، معطل کرنے اور ختم کرنے کا اختیار ہوگا۔ غیر قانونی کان کنی روکنے کے لیے "کان کنی و معدنیات فورس" بھی قائم کی جائے گی، جس کے سینئر افسر ڈی جی ہوں گے اور دیگر افسران کے علاوہ فورس کو یونیفارم پہننا لازمی ہوگا۔ فورس کے پاس گرفتار کرنے کا اختیار بھی ہوگا اور اس کے تحت کان کنی و معدنیات پولیس اسٹیشن بھی قائم کیے جائیں گے۔
ہنڈائی ٹکسن ہائبرڈ بغیر سود کے آسان اقساط میں حاصل کریں
کان کنی و معدنیات کے مقدمات کے لیے سپیشل کورٹس تشکیل دی جائیں گی جن کے فیصلے سیشن کورٹ میں چیلنج کیے جا سکیں گے۔ بل کے تحت ایکسپلوریشن پروموشن ڈویژن بھی قائم کیا جائے گا، جو جیولوجیکل ڈیٹا بیس تیار کرے گا۔
مزید برآں، بل میں کان کنی کے لیے بڈنگ کے طریقہ کار اور جرمانوں کی شقیں بھی شامل کی گئی ہیں۔
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: سٹی42 کان کنی کے کے لیے
پڑھیں:
چیف جسٹس کے ایک سالہ دور پر قانونی ماہرین کا تحفظات کا اظہار
سپریم کورٹ نے اپنے چیف جسٹس جسٹس یحییٰ آفریدی کے ایک سالہ دور میں انصاف کی فراہمی کے نظام میں بہتری کے دعوے کیے ہیں، مگر قانونی ماہرین کی اکثریت اس کارکردگی سے متاثر نہیں اور عدلیہ پر اعتماد میں کمی کا اظہار کر رہی ہے۔
اتوار کو عدالت کی کارکردگی کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف اعداد و شمار پیش کیے گئے۔ چیف جسٹس نے ایک سال کے دوران ججوں، وکلا اور وفاقی حکومت کے تعاون اور ثابت قدمی کی تعریف کی۔
تاہم، سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے اس پریس ریلیز کو آئینی اختیار کے بجائے ادارہ جاتی کمزوری کی علامت قرار دیا اور کہا کہ اس میں عدالتی اختیارات کی درست عکاسی نہیں کی گئی بلکہ یہ غیر ضروری انتظامی بیان بازی ہے۔ ان کے مطابق اہم مسائل کو نظر انداز کیا گیا اور وہ ابھی بھی حل طلب ہیں۔
عبدالمعیز جعفری ایڈووکیٹ نے کہا کہ پچھلے سال حکومت کی طرف سے تشکیل دیے گئے بینچوں کے ذریعے انصاف فراہم کیا گیا، جن میں حکومت کے مقرر کردہ جج شامل تھے اور انہوں نے فرض شناسی کے ساتھ فیصلے دیے۔
ردا حسین ایڈووکیٹ نے کہا کہ چیف جسٹس کی خود کو مبارکباد دینے والی پریس ریلیز اس حقیقت کو نظر انداز کرتی ہے کہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد نچلے ترین سطح پر ہے۔ نئے ضابطہ اخلاق کے تحت ججز کو انتظامی یا عدالتی معاملات پر عوامی طور پر بات کرنے سے روک دیا گیا ہے، جو شفافیت کے بجائے سنسرشپ کا تاثر دیتا ہے۔
حافظ احسان احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ ایک سال کے دوران کئی تعمیری اقدامات کیے، جن میں قوانین میں ترامیم، ڈیجیٹل نظام کی بہتری اور فوجداری و ٹیکس کے معاملات پر توجہ شامل ہے۔ یہ مثبت پیش رفت ہیں، مگر عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو مضبوط کرنے کے لیے ابھی بہت کام باقی ہے۔