ایس پی عدیل اکبر کی مبینہ خودکشی کی تحقیقات میں اہم پیشرفت سامنے آگئی
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
ایس پی عدیل اکبر کی مبینہ خودکشی کی تحقیقات میں اہم پیشرفت سامنے آگئی WhatsAppFacebookTwitter 0 30 October, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس) ایس پی عدیل اکبر کی مبینہ خودکشی کی تحقیقات میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔
تفصیلات کےمطابق ایس پی عدیل اکبرکی مبینہ خودکشی کیس میں 3 رکنی انکوائری کمیٹی نےرپورٹ تیار کرلی،تین رکنی انکوائری کمیٹی کو ایس پی عدیل اکبرکی خودکشی کےشواہد نہیں ملے،انکوائری کمیٹی کو ایس پی عدیل اکبرکی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی موصول ہوگئی۔
ذرائع کےمطابق ایس پی عدیل کی موت کی وجہ چہرے پر لگنے والی گولی ہی تھی،کمیٹی نے ایس پی کے وائرلیس آپریٹر،ڈرائیور،دیگراسٹاف کے بیانات ریکارڈ کئے،انکوائری کمیٹی نےعدیل اکبر کا علاج کرنے والےماہر نفسیات کا بیان بھی ریکارڈ کیا،ایس پی عدیل اکبر نے اپنے ڈاکٹر سے دو مرتبہ رجوع کیا تھا۔
ذرائع کےمطابق انکوائری کمیٹی اپنی رپورٹ آج آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی کو پیش کرے گی ، آئی جی اسلام آباد اپنی سفارشات کے ساتھ رپورٹ وزیر داخلہ محسن نقوی کو پیش کریں گے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان اور چین کا صنعتی تعاون مزید بڑھانے پر اتفاق پاکستان اور چین کا صنعتی تعاون مزید بڑھانے پر اتفاق سہیل آفریدی کی عمران خان سے ملاقات سے قیامت نہیں آئے گی، چیئرمین تحریکِ انقلاب عدالتی حکم عدولی پر ڈپٹی ڈائریکٹر لینڈ چوہدری نذیر گرفتار پاکستانی خلاباز چینی خلائی مشن کا حصہ بنے گا،انتخاب کا عمل جاری آزاد کشمیر میں سیاسی ہلچل، وزیراعظم انوار الحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر اہم پیشرفت راولپنڈی سے رواں سال کتنے غیر قانونی افغان مہاجرین کو واپس بھیجا گیا؟ تفصیلات سامنے آگئیںCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کی مبینہ خودکشی کی ایس پی عدیل اکبر اہم پیشرفت
پڑھیں:
خودکشیوں کا سونامی، اسرائیلی فوج کی باضابطہ رپورٹ
اسلام ٹائمز: یہ واقعات محض ذاتی کمزوری نہیں بلکہ ریاستی بحرانِ وجدان (crisis of conscience) کا اظہار ہیں۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اسرائیل کی اصل شکست میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ اپنے فوجیوں کے ذہن و دل میں رونما ہو چکی ہے۔ اسرائیلی فوج کی خودکشیوں میں اضافہ صرف ایک نفسیاتی بحران نہیں بلکہ سیاسی و اخلاقی زوال کی علامت بھی ہے۔ غزہ جنگ نے اسرائیل کے فوجی بیانیے یعنی طاقت کے ذریعے سلامتی کو باطل ثابت کر دیا ہے۔ اب نہ صرف دشمن بلکہ خود اسرائیلی سپاہی بھی اپنے ضمیر کے خلاف لڑنے کی اذیت برداشت نہیں کر پا رہے۔ خصوصی رپورٹ:
کنیست کے مرکزِ اطلاعات و تحقیقات نے ایک باضابطہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ غزہ جنگ کے بعد اسرائیلی فوج میں خودکشیوں کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے، اور ان فوجیوں کے علاوہ جو خودکشی کر چکے ہیں، سینکڑوں ناکام خودکشیوں کے واقعات بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک صہیونی اداروں کی جانب سے متعدد رپورٹس میں فوج کے اندر خودکشیوں میں غیر معمولی اضافے کی نشاندہی کی جا چکی ہے، اور اب ایک سرکاری اسرائیلی رپورٹ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پچھلے 18 مہینوں کے دوران اسرائیلی فوجیوں میں خودکشی اور خودکشی کی کوششوں کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے، جو فوج کے اندر نفسیاتی بحران کی بے مثال شدت کو ظاہر کرتا ہے۔
رپورٹ کی تفصیلات:
یہ رپورٹ کنیست کے مرکزِ تحقیقات و اطلاعات نے عوفر کسیف (Knesset Member Ofer Cassif) کی درخواست پر تیار کی۔ رپورٹ کے مطابق جنوری 2024 سے جولائی 2025 کے درمیان 279 فوجیوں نے خودکشی کی کوشش کی۔ اعداد و شمار کے مطابق خودکشی سے متعلق معلومات کا منظم ریکارڈ پہلی بار سال 2024 میں جمع کیا گیا۔ ان میں سے 12 فیصد واقعات کو سنگین اور 88 فیصد کو درمیانہ نوعیت کا قرار دیا گیا۔ رپورٹ نے طویل المدت اعداد و شمار بھی پیش کیے ہیں، جن کے مطابق 2017 سے جولائی 2025 کے درمیان 124 فوجی خودکشی کے نتیجے میں اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ ان میں سے 68٪ عام فوجی، 21٪ ریزرو فوجی، اور 11٪ پیشہ ور افسران تھے۔
خودکشیوں میں نمایاں اضافہ
رپورٹ کے مطابق ریزرو فوجیوں میں خودکشیوں کی شرح سال 2023 سے نمایاں طور پر بڑھی۔ 2017 تا 2022 کے دوران فوج میں خودکشیوں کا تناسب 42 تا 45 فیصد کے درمیان رہا۔ 2023 (غزہ جنگ سے قبل) میں یہ شرح 17 فیصد تک گر گئی تھی۔ مگر 2024 میں دوبارہ بڑھ کر 78 فیصد تک پہنچ گئی۔ عبرانی ویب سائٹ شومریم کے مطابق پچھلے ایک سال میں خودکشی کرنے والے زیادہ تر فوجی ریزرو دستوں سے تعلق رکھتے تھے۔ تاہم فوج کا دعویٰ ہے کہ چونکہ غزہ جنگ کے آغاز سے ریزرو فوجیوں کی تعداد دوگنا ہو گئی ہے، اس لیے خودکشی کی شرح قابلِ تشویش نہیں۔
لیکن ماہرین اس وضاحت کو گمراہ کن قرار دیتے ہیں۔ روپین یونیورسٹی کے مرکزِ تحقیقِ خودکشی کے سربراہ پروفیسر یوسی لوی بلاس نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی فوج میں خودکشیوں کے اعداد و شمار واضح طور پر اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہم مستقبل میں ایک بڑے خودکشی کے بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پروفیسر بلاس نے مزید کہا 7 اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیلی فوجیوں کو احساس ہوا کہ وہ ایک بہت بڑے دشمن کے مقابل ہیں، نہ صرف خارجی بلکہ اندرونی نفسیاتی دشمن کے بھی۔ ریزرو فوجی اس جنگ کے دوران انتہائی حد تک کمزور ہو چکے ہیں، اور آج بھی اختلالِ اضطراب پس از سانحہ (PTSD) سے نبرد آزما ہیں۔ ہم موجودہ دور میں اور جنگ کے بعد بھی خودکشیوں کی ایک نئی لہر دیکھیں گے، کیونکہ ان فوجیوں کے لیے جنگ میں پیش آنے والے تجربات کو برداشت کرنا ممکن نہیں رہا۔
| 2017–2022 | 42–45٪ | نسبتاً مستحکم دور |
| 2023 | 17٪ | جنگِ غزہ سے قبل کمی |
| 2024 | 78٪ | غزہ جنگ کے بعد اچانک اضافہ |
نفسیاتی معاونت کی کمی
اعداد و شمار کے مطابق صرف 17 فیصد فوجی جنہوں نے خودکشی کی، جنگ سے قبل کسی ماہرِ نفسیات یا فوجی ذہنی صحت کے افسر سے ملاقات کر چکے تھے، جو فوج کے اندر نفسیاتی معاونت کے شدید فقدان کی نشاندہی کرتا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ اعداد و شمار صرف ان کیسوں پر مشتمل ہیں جو فوج کے نفسیاتی ماہرین کے پاس باضابطہ طور پر رپورٹ ہوئے۔ عبرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق 10 ہزار سے زائد اسرائیلی فوجی اس وقت ذہنی صحت کے مسائل اور اختلالِ اضطرابِ پس از سانحہ (PTSD) میں مبتلا ہیں۔ ان میں سے صرف 3769 فوجیوں کو ماہرین کی جانب سے خصوصی علاج فراہم کیا جا رہا ہے، جب کہ باقی افراد عمومی یا ناکافی دیکھ بھال پر ہیں۔
صہیونی چینل کان (KAN) کی رپورٹ
اسرائیلی چینل کان نے رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ ان اعداد و شمار کی اہمیت یہ ہے کہ ہر اُس فوجی کے مقابلے میں جو خودکشی کر چکا ہے، سات ناکام خودکشیوں کے واقعات بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں۔
کنیست ارکان، ماہرینِ نفسیات اور فوجی حکام کے اعترافات
1۔ اسرائیلی کنیست کے رکن عوفر کسیف نے ہی اس رپورٹ کی اشاعت کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ خودکشیوں کی یہ وبا جو غالباً جنگ کے خاتمے کے بعد مزید بدتر ہو جائے گی، اس بات کی متقاضی ہے کہ فوجی مرد و خواتین کے لیے حقیقی نفسیاتی و سماجی معاونت کے نظام قائم کیے جائیں، اور سب سے بڑھ کر، ان جنگوں کا خاتمہ کیا جائے جنہوں نے یہ بحران پیدا کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ حکومت جو اپنے سپاہیوں کو جنگ اور قید میں دھکیل کر پھر انہیں تنہا چھوڑ دیتی ہے، دراصل اپنے ہی فوجیوں کے خلاف جنگ کر رہی ہوتی ہے۔
2۔ وزارتِ جنگ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل اور شعبۂ منصوبہ بندی کے سربراہ ایتمار گراف نے خودکشیوں کے بڑھتے رجحان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس مسئلے کے حل کے لیے مختلف منصوبے اور نفسیاتی ٹیمیں تشکیل دی ہیں، جو فوجیوں کے کیسز کی نگرانی کر رہی ہیں، لیکن بدقسمتی سے خودکشی کے قابلِ ذکر واقعات بدستور موجود ہیں، اور ہم اس رجحان کے مسلسل بڑھنے کے گواہ ہیں، ہر ایک خودکشی دراصل ہماری اجتماعی ناکامی ہے۔
3۔ اسرائیل میں برائے زندگی نامی تنظیم کے بانی اور ممتاز ماہرِ نفسیات پروفیسر ہاگای ہرمس نے کہا ہے کہ فوج میں خودکشیوں سے متعلق پیش کردہ اعداد و شمار دراصل آئیس برگ کی صرف چوٹی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل میں ہر سال 500 سے 700 افراد خودکشی کرتے ہیں، جن کی اکثریت کی خبریں میڈیا میں ظاہر ہی نہیں ہوتیں، فوج میں خودکشی کے واقعات مجھے ذاتی طور پر تکلیف دیتے ہیں کیونکہ میرا اپنا بیٹا فوجی خدمت کے دوران خودکشی کر بیٹھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ خودکشی کی روک تھام کے لیے سب سے بنیادی قدم یہ ہے کہ درست اور شفاف معلومات فراہم کی جائیں تاکہ سماج اور ادارے مسئلے کی اصل گہرائی کو سمجھ سکیں۔
نتیجہ
یہ بیانات اسرائیلی فوج کے اندر گہرے اخلاقی، نفسیاتی، اور تنظیمی بحران کی عکاسی کرتے ہیں۔ غزہ کی جنگ نے نہ صرف اسرائیل کی عسکری طاقت کی محدودیت کو ظاہر کیا، بلکہ اس کے فوجیوں کے ضمیر اور ذہنی استحکام کو بھی شدید طور پر مجروح کیا۔ رپورٹ کے مطابق جنگ کے دوران ریزرو فوجیوں میں خودکشیوں کی شرح سب سے زیادہ رہی، یہ وہ افراد ہیں جنہیں معمولی تربیت کے بعد طویل عرصہ کے لیے محاذ پر رکھا گیا۔ کنیست کی رپورٹ ایک عسکری ادارے کے اندرونی زوال کا آئینہ ہے۔
خودکشی کے یہ واقعات محض ذاتی کمزوری نہیں بلکہ ریاستی بحرانِ وجدان (crisis of conscience) کا اظہار ہیں۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اسرائیل کی اصل شکست میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ اپنے فوجیوں کے ذہن و دل میں رونما ہو چکی ہے۔ اسرائیلی فوج کی خودکشیوں میں اضافہ صرف ایک نفسیاتی بحران نہیں بلکہ سیاسی و اخلاقی زوال کی علامت بھی ہے۔ غزہ جنگ نے اسرائیل کے فوجی بیانیے یعنی طاقت کے ذریعے سلامتی کو باطل ثابت کر دیا ہے۔ اب نہ صرف دشمن بلکہ خود اسرائیلی سپاہی بھی اپنے ضمیر کے خلاف لڑنے کی اذیت برداشت نہیں کر پا رہے۔