نشے کی وجہ سے انسان میں رشتوں کی تمیز ختم ہوجاتی ہے،انور عباس
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حیدراباد (اسٹاف رپورٹر)کسی بھی نشے کی بری عادت سے انسان کے اندر رشتوں کی تمیز ختم ہونے کی وجہ سے ہنستے بستے گھرانے بربادی کا باعث بنتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار سچل سرمست ٹاؤن تعلقہ لطیف اباد یو سی 89 کے یو سی چیئرمین انور عباس نے بھائی خان ویلفیئر کی جانب سے گجراتی پاڑہ میں انسداد منشیات کے حوالے سے منعقدہ اگاہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔تقریب میں ویلفیئر کے فاؤنڈر جنرل سیکرٹری حاجی محمد یاسین ارائیں۔تعلقہ چیئرمین حاجی عبدالحمید مٹھو۔تنظیم خادم انسانیت کے صدر سجاد احمد خان۔نائب صدر حاجی محمد اسلم ملک۔بی کے ڈبلیو کے سینیئر نائب صدر خان افتاب احمد خان۔نائب صدر شاہد راجپوت۔وائس چیئرمین اکرم شاہ۔نائب صدر دوئم حاجی محمد اسماعیل شیخ۔لالا محمد حسن۔محمد اسماعیل شیخ جوائنٹ سیکریٹری۔یونس عباسی۔سید مشتاق احمد۔شوقین و دیگر نے بھی شرکت کی۔انہوں نے کہا کہ نشے کی لت میں مبتلا اپنے نوجوانوں کو تنہا نہ چھوڑیں بلکہ ان کا علاج اور ان کی توجہ کھیلوں کی جانب مبزول کرائیں۔سجاد احمد خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں۔حاجی محمد یاسین ارائیں نے کہا کہ پسماندہ علاقے میں اگاہی سیمینار رکھنا اس لیے ضروری تھا کہ ان علاقوں میں کھلے عام منشیات فروخت ہو رہی ہے جس کی وجہ سے یہاں منشیات کا استعمال بہت زیادہ ہے۔خان افتاب احمد خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ حکومت اس سلسلے میں جو اقدامات کر رہی ہے ہمیں مل کر ان کا ساتھ دینا ہوگا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
انسان کو خوش یا غمگین کرتے ہارمون
سائنس نے دریافت کیا ہے، انسانی جسم میں 50 سے زیادہ ہارمون پیدا ہوتے ہیں ،گو مزید دریافت ہونے کا امکان ہے۔ یہ ہارمون کیمیائی پیغام بر ہیں جو خون کے دھارے میں شامل ہو کر میٹابولزم، نشوونما، تولید، نیند ، موڈ اور دیگرجسمانی افعال کو منظم کرتے ہیں۔ان کی مدد ہی سے ہمارا جسم درست طریقے سے کام کرتا ہے۔ لیکن وہ ہمارے موڈ اور ذہنی صحت پر طاقتور اور کبھی کبھار منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے جذبات و احساسات ہمارے قابو میں ہیں، لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ سائنسدانوں کو یہ بات پہلے سے معلوم ہے کہ کیمیائی پیغامات دینے والے مادے، جنہیں نیوروٹرانسمیٹرز کہا جاتا ہے، ہمارے دماغ پر بہت بڑا اثر ڈالتے ہیں۔ تاہم جیسے جیسے سائنسدان مزید تحقیق کر رہے ہیں، وہ یہ بھی دریافت کرچکے کہ ہارمون بھی غیر متوقع طریقوں سے ہمارے دماغ پر اچھے بُرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔اب کچھ سائنسدان یہ علم استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ڈپریشن اور پریشانی(اسٹریس) جیسی عام طبی خللوں کے نئے علاج دریافت کیے جا سکیں۔
ہارمون وہ کیمیائی پیغامات ہیں جو مخصوص غدود، اعضا اور ٹشوز کے ذریعے جاری ہوتے ہیں۔ یہ خون میں شامل ہو کر پورے جسم میں سفر کرتے اور پھر کسی خاص جگہ ریسپٹرز سے جڑتے ہیں۔ یہ ملاپ ایک طرح کا حیاتیاتی "ہینڈشیک" ہے جو جسم کو کچھ کرنے کا اشارہ دیتا ہے۔ مثلاً انسولین ہارمون جگر اور پٹھوں کے خلیوں کو خون سے اضافی گلوکوز جذب کرنے اور اسے گلیکوجن کے طور پر ذخیرہ کرنے کا حکم دیتا ہے۔
ہارمونز کا پوشیدہ کنٹرول
پچاس سے زیادہ ہارمون مل کر سیکڑوں جسمانی عمل منظم کرتے ہیں جن میں انسان کی ذہنی فلاح و بہبود شامل ہے۔’’ہارمون ہمارے موڈ اور جذبات پر واقعی اثر ڈالتے ہیں۔‘‘کینیڈا کی ’یونیورسٹی آف اوٹاوا‘ میں نفسیات کی پروفیسر نفیسہ اسماعیل کہتی ہیں۔’’ اس طرح کہ وہ نیوروٹرانسمیٹرز کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں جو دماغ کے مخصوص حصوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔بلکہ یہ خلیوں کی موت یا نیوروجینسیس جیسے عمل کو بھی متاثر کرتے ہیں جس کی بدولت نئے نیورون(دماغی خلیے) جنم لیتے ہیں۔"
ذہنی صحت کے مسائل
ماہرین نے جانا ہے، ذہنی صحت کے مسائل جیسے ڈپریشن، پریشانی، اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) وسیع پیمانے پر انجام پائی ہارمونل سرگرمیوں کے دوران زیادہ ہوجاتے ہیں۔ یہ خصوصاً خواتین کے لیے بہتر ہے۔ بچپن کے دوران لڑکوں اور لڑکیوں میں ڈپریشن کی شرح تقریباً برابر ہوتی ہے، لیکن بلوغت کے دوران لڑکیاں لڑکوں کی نسبت دوگنا امکان رکھتی ہیں کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہوں … اور یہ فرق زندگی بھر برقرار رہتا ہے۔
تو کیا ہارمون اس کے ذمے دار ہو سکتے ہیں؟ اگر آپ خاتون ہیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ تولیدی (یا جنسی )ہارمون آپ کے موڈ پر نمایاں اثر ڈالتے ہیں۔ عورتوں کے ماہواری سے پہلے کے دنوں اور ہفتوں میں ایسٹروجن اور پروجیسٹرون کی سطح کم ہو جاتی ہے۔تبھی چڑچڑاپن، تھکاوٹ، اداسی اور پریشانی کے احساسات جنم لیتے ہیں لیکن یہ ہر کسی کے ساتھ نہیں ہوتا۔ کچھ خواتین تو پری مینسٹرول ڈائسفورک ڈس آرڈر (PMDD) کا سامنا کرتی ہیں جو ہارمونوں سے وابستہ موڈ کی ایک شدید خرابی ہے۔
موڈ کی انتہائی تبدیلیاں، پریشانی، ڈپریشن اور کبھی کبھار خودکشی کے خیالات اس خرابی سے متعلق ہیں جو ماہواری سے دو ہفتے پہلے ظاہر ہوتے ہیں۔پی ایم ڈی ڈی سے متاثرہ کئی خواتین کے لیے یہ ایک مسلسل مسئلہ ہوتا ہے جس کا وہ ہر ماہ سامنا کرتی ہیں۔ اور یہ ان کی زندگیوں پر گہرا منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
یاد رہے، ماہواری سے پہلے ایسٹروجن کی بلند سطح خوشی اور سکون کے احساسات پیدا کرتی ہے۔ اس دوران پروجیسٹرون کے ٹوٹنے سے پیدا ہونے والا ایک مادہ، ایلوپریگنانونول بھی پُرسکون اثرات کو جنم دیتا ہے۔اگر آپ کسی کو ایلوپریگنانونول کا انجکشن دیں، تو وہ آرام محسوس کریں گے۔
ہارمونز کے اثرات اور ذہنی صحت
خواتین کو ماہواری ہی نہیں بلکہ حمل اور سن یاس کے دوران بھی ہارمونل تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ذہنی صحت پر شدید منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔ جن خواتین نے ابھی بچہ پیدا کیا ہو، ان میں 13 فیصد ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟وجہ یہ کہ زچگی کے بعد خواتین میں پروجیسٹرون اور ایسٹروجن ہارمونوں کی سطح میں تیزی سے کمی آتی ہے۔ سن یاس شروع ہو تب بھی خواتین کو ان ہارمونز میں نمایاں تبدیلیاں محسوس ہوتی ہیں۔بعض خواتین ان تبدیلیوں کے بہت اثرات لیتی ہیں، جبکہ کچھ بغیر کسی منفی علامات کے سن یاس سے گزر جاتی ہیں۔
یہ صرف خواتین تک محدود نہیں،مرد بھی عمر کے ساتھ ٹیسٹوسٹیرون ہارمون کی سطح میں کمی محسوس کرتے ہیں حالانکہ یہ تبدیلی تدریجی ہوتی ہے اور خواتین کی نسبت اتنی نمایاں نہیں ہوتی۔ تاہم کچھ شواہد بتاتے ہیں، معمولی تبدیلی بھی کچھ مردوں میں موڈ تبدیل کر سکتی ہے۔
ایک طریقہ جس سے تولیدی (یا جنسی) ہارمون انسان کے موڈ پر اچھا اثر ڈالتے ہیں، وہ یہ کہ دماغ میں نیوروٹرانسمیٹرز… سیروٹونن اور ڈوپامین کی سطح میں اضافہ کرتے ہیں۔ سیروٹونن کی کم سطح ڈپریشن جنم لینے کی ایک اہم وجہ ہے۔اسی لیے جدید اینٹی ڈپریسنٹس اس دماغی کیمیائی مادے کی سطح بڑھاتے ہیں۔ شواہد ہیں کہ ایسٹروجن ہارمون سیروٹونن ریسپٹرز کو زیادہ حساس بناتا اور دماغ میں ڈوپامین ریسپٹرز کی تعداد بڑھا دیتا ہے۔
ایک اور نظریہ یہ ہے کہ ایسٹروجن نیورونز کو نقصان سے بچاتا ہے، حتیٰ کہ دماغ کے حصے، ہپوکیمپس میں نئے نیورونز کی نشوونما کو بھی متحرک کر تا ہے جو یادداشت اور جذبات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ڈپریشن اور الزائمر کی بیماری میں مبتلا افراد میں ہپوکیمپس کے نیورونز کم ہوجاتے ہیں۔
اینٹی ڈپریسنٹس اور موڈ بڑھانے والی سائیکڈیلک ادویہ کی مدد سے ہپوکیمپس میں نئے دماغی خلیے پیدا کیے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے جب خواتین سن یاس میں داخل ہوتی ہیں،تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایسٹروجن کی کمی کے باعث دماغ میں نئے نیورونز کی پیدائش کم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے ، سن یاس کا سامنا کرنے والی خواتین اکثر دماغی دھند (fog brain) اور یادداشت کے مسائل سے مقابلہ کرتی ہیں۔
جسم میں خرابی
ہپوکیمپس میںنیورونز کم جنم لینے سے ایک ہارمونل سسٹم، یعنی ہائپوتھیلامس- پٹیوٹری- ایڈری نل (HPA) نظام بھی متاثر ہوتا ہے جو انسانی جسم میں اسٹریس یا پریشانی پیدا ہونے پر ردعمل کو منظم کرتا ہے۔جب ہمیں پریشانی محسوس ہو، تو ہائپوتھیلامس، دماغ کا وہ حصہ جو جسم میں بیشتر ہارمونوں کا اخراج کنٹرول کرتا ہے، ایک اور دماغی غدہ، پٹیوٹری (pituitary)کو ایک ہارمون، ایڈرینوکورٹیکوٹروپک ہارمون (ACTH) کے اخراج کا سگنل بھیجتا ہے۔ ACTH پھر ایڈرینل غدود کو متحرک کرتا ہے تاکہ کورٹیسول جاری ہو سکے جو اسٹریس کنٹرول کرنے والا ہارمون ہے۔ کورٹیسول جسم کو خون میں شوگر جاری کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ دماغ اور جسم کو ایمرجنسی کی حالت میں کام کرنے کے لیے توانائی مل سکے۔
درج بالا ایچ پی اے نظام اس وقت متحرک ہوتا ہے جب کوئی شخص اسٹریس کا شکار ہو۔یہ قلیل مدتی طور پر فائدے مند ہے کہ جسم کو اسٹریس سے نمٹنے میں مدد دیتا ہے۔لیکن طویل مدت میں نقصان دہ ثابت ہو تاہے۔بہرحال پوری صورتحال سے واضح ہے کہ ہارمون صرف جسمانی صحت نہیں بلکہ ذہنی صحت کے لیے بھی انتہائی اہم ہیں اور ان میں ہونے والی تبدیلیاں ہماری ذہنی حالت پر گہرا اثر ڈال سکتی ہیں۔
جب جسم میں کورٹیسول بڑھے، تو اس کا مقصد ایک منفی فیڈبیک لوپ کو متحرک کرنا ہوتا ہے۔اس کے ذریعے ہپوکیمپس ،ہائپوتھیلامس کو یہ بتاتا ہے کہ پٹیوٹری غدود سے بات چیت روک دو۔ اس طرح اسٹریس کا ردعمل ختم ہو جاتا ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص مسلسل اسٹریس کا سامنا کرے جیسے دھمکی، تشدد یا بدسلوکی کی وجہ سے تو یہ فیڈبیک لوپ فعال نہیں ہوتا اور دماغ کورٹیسول سے بھر جاتا ہے۔یہ نقصان دہ ہے کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ کورٹیسول دماغ میں سوزش (inflammation) بڑھاتا ہے جو ہپوکیمپس میں نیورونز کو نقصان پہنچا کر اس فیڈبیک کو روک دیتا ہے۔اس کے علاوہ کورٹیسول دوسرے دماغی حصوں میں بھی نیورونز کو تباہ کر سکتا ہے، جیسے کہ ایموگڈالا (amygdala) اورپریفرنٹل کارٹیکس (prefrontal cortex) کے حصے جو یادداشت، توجہ اور موڈ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ایموگڈالا وہ دماغی علاقہ ہے جو ہمیں اپنے جذبات کنٹرول کرنے میں مدد دیتا ہے۔یہ علاقہ کورٹیسول کی وجہ سے سکڑ جائے تو انسان بڑھتی جذباتیت، چڑچڑاپن اور منفی جذبات کنٹرول کرنے میں مشکل محسوس کرتا ہے۔اسی طرح پریفرنٹل کارٹیکس میں سکڑاؤ (atrophy) جنم لے تو انسان کو توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں اور وہ صحیح وقت پر درست فیصلے نہیں کر پاتا ۔ ہپوکیمپس میں سکڑاؤ یادداشت کم ہونے سے جڑا ہے۔
آکسیٹوسن: محبت کا ہارمون
کورٹیسول طویل مدت تک رہے تو ہمیں اسٹریس کا شکار بنا سکتا ہے مگر آکسیٹوسن جو اکثر "محبت کا ہارمون" کہلاتا ہے، اس کا الٹ اثر دکھاتا ہے۔ آکسیٹوسن کا تعلق محبت، ہمدردی اور تعاون سے ہے۔ یہ ہارمون زچگی، دودھ پلانے اورملاپ کے دوران جاری ہوتا ہے۔ جانوروں اور انسانوں کے درمیان تعلقات میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔’’آکسیٹوسن کا تعلق محبت پیدا کرنے اور محفوظ بندھن کے احساس سے ہے۔ یہ اسٹریس کے اثرات کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔‘‘ نفیسہ اسماعیل کہتی ہیں۔ ’’جب ہمیں تحفظ محسوس ہو اور ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے ارد گرد حمایتی موجود ہیں ، تو یہ کورٹیسول کی سطح کم کر دیتا ہے جو اسٹریس کے ذریعے بڑھ سکتی تھی۔‘‘
آکسیٹوسن کی دیگر دلچسپ خصوصیات
دلچسپ بات یہ کہ آکسیٹوسن کا اثر نہ صرف جذباتی طور پر ہوتا ہے، بلکہ یہ سماجی تعلقات بھی بہتر بناتا ہے۔ مثلاً تحقیق سے پتا چلا ہے کہ بذریعہ اسپرے آکسیٹوسن کی خوشبو لینے سے لوگ زیادہ فراخدل، تعاون کرنے والے اور ہمدرد بن جاتے ہیں۔ یہ اس بات کی عکاسی ہے کہ آکسیٹوسن سماجی تعلقات اور تعاون بڑھا سکتا ہے جو ذہنی صحت پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔اس لیے اگرچہ کورٹیسول ہمارے جسم میں اسٹریس کے ردعمل کو بڑھاتا ہے، آکسیٹوسن ہمیں اس سے نمٹنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اور جب ہم محبت، اعتماد اور حمایت محسوس کرتے ہیں تو ہمارا دماغ کم پریشانی اور زیادہ سکون کا تجربہ کرتا ہے۔
تھائیرائیڈ ہارمون اور موڈ
تاہم سب ماہرین اس پر قائل نہیں ۔ ایک مسئلہ یہ کہ ابھی تک یہ قطعی طور پر ثابت نہیں ہوا، آکسیٹوسن خون-دماغ کی رکاوٹ (blood-brain barrier) عبور کر سکتا ہے۔لیکن ایک اور تھوڑا زیادہ تسلیم شدہ نظریہ یہ ہے کہ تھائیرائیڈ غدہ کے دو اہم ہارمونوں میں عدم توازن انسان میں ڈپریشن اور پریشانی پیدا کر تا ہے۔
تتلی کی شکل کا تھائیرائیڈ غدہ گردن میں موجود ہوتا ہے۔اس کے ہارمون، ٹری آئیوڈوتھائیرو نائن (T3) اور تھائروکسین (T4) دل کی دھڑکن اور جسمانی درجہ حرارت منظم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ تاہم جب ان ہارمونز کی سطح بہت زیادہ ہو جائے،جیسے ہائپر تھائیرائڈزم (overactive thyroid) کی صورت میں تو پریشانی (anxiety) پیدا ہو سکتی ہے۔
اس کے برعکس جب ان کی سطح بہت کم ہو، تو ڈپریشن جنم لیتا ہے۔ خوش قسمتی سے ان ہارمونوں کی سطح درست کرنا عموماً مریضوں کی علامات ٹھیک کر دیتا ہے۔’’جب مریض اپنے ڈاکٹر کے پاس جائے اور موڈ میں تبدیلی کی شکایت کرے، تو سب سے پہلے جو کام کیا جاتا ہے وہ ہارمونل پروفائل چیک کرنا ہے۔ کیونکہ اکثر جب ہم ہارمون کی سطح درست کرلیں، تو موڈ بھی بہتر کر سکتے ہیں،" نفیسہ اسماعیل کہتی ہیں۔
تھائیرائیڈ ہارمونزکا موڈ پر اثر
تھائیرائیڈ ہارمونز کے موڈ پر اثرات کے حوالے سے ابھی تک کوئی حتمی وجہ معلوم نہیں ہو سکی لیکن ایک نظریہ یہ ہے کہ خاص طور پر T3 دماغ میں سیروٹونن اور ڈوپامین کی سطح بڑھاتا یا ان نیوروٹرانسمیٹرز کے ریسپٹرز کی حساسیت بڑھا سکتا ہے۔ تھائیرائیڈ ہارمون کے ریسپٹرز دماغ کے ان حصوں میں بھی پائے جاتے ہیں جو موڈ منظم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
علاج کی نئی امید
ہارمونز اور ان کے موڈ پر اثرات سے متعلق یہ نئی معلومات امید ہے کہ نئے علاج میں تبدیل ہو سکیں گی۔ اس کی ایک مثال Brexanolone دوا ہے، جو آلوپریگنانونول (allopregnanolone) ہارمون کی نقل کرتی اور پوسٹ پارٹم ڈپریشن کے علاج میں بہت مؤثر ثابت ہوئی ہے۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہارمونز کی موڈ پر اثرات سمجھ کر علاج کی نئی حکمت عملیوں کی طرف قدم بڑھایا جا رہا ہے۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں دیگر ہارمونز کے اثرات کو ذہنی صحت کے مسائل کے علاج میں استعمال کیا جائے۔
نتیجہ
آکسیٹوسن، تھائیرائیڈ ہارمونز اور کیمیائی پیغامات دینے والے دیگر مادے انسان میں ذہنی صحت کا پیچیدہ نظام کنٹرول کرتے ہیں۔ ان کے توازن میں تبدیلیاں ہمارے موڈ، یادداشت، توجہ، اور جذبات پر گہرے اثرات ڈال سکتی ہیں۔ خوش قسمتی سے اس بات کا علم ہونے سے ہمیں بہتر علاج اور حل تلاش کرنے میں مدد مل رہی ہے،جو ذہنی صحت کی دیکھ بھال میں اہم پیشرفت ہے۔
ٹیسٹوسٹیرون، ایسٹروجن اور ہارمونل علاج
کچھ شواہد یہ بھی موجود ہیں کہ اگر ٹیسٹوسٹیرون کی سطح کم ہے، تو ٹیسٹوسٹیرون سپلیمنٹس کا استعمال اور کچھ اینٹی ڈپریسنٹس کے ساتھ ان کا مجموعہ ان ادویہ کو زیادہ مؤثر بنا سکتا ہے۔ اسی طرح ایسٹروجن تھراپی بشمول ہارمون ریپلیسمنٹ تھراپی (HRT) بھی کچھ خواتین کے لیے سن یاس سے قبل اور اس کے دوران موڈ بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے مگر یہ سب خواتین پر یکساں اثر نہیں کرتی۔
ہارمونل برتھ کنٹرول خاص طور پر کچھ خواتین کے لیے PMDD کی حالت میں شاندار نتائج دے سکتا ہے۔ تاہم بعض خواتین کے لیے یہ علامات مزید بڑھا سکتا ہے۔ یہ فرق اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ نئے علاج تلاش کرنے میں دشواری اس حقیقت کی وجہ سے ہے کہ ہم ابھی تک یہ نہیں سمجھ پائے، کیوں کچھ مرد وزن ہارمونل تبدیلیوں کے سلسلے میں بہت حساس ہوتے ہیں جبکہ دوسرے نہیں ہوتے۔
ہارمونل حساسیت اور علاج کی تلاش
"ہم جانتے ہیں کہ ہارمونز موڈ اور ذہنی صحت پر اثر ڈالتے ہیں، لیکن ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وہ یہ کیسے کرتے ہیں، تاکہ ہم مناسب علاج تیار کر سکیں۔" نفیسہ اسماعیل کہتی ہیں۔’’ ہم جانتے ہیں موجودہ اینٹی ڈپریسنٹس جو سیروٹونن کی سطح منظم کرتے ہیں، وہ تمام کیسز میں مؤثر نہیں اور بعض مطالعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ خاص طور پر نوعمروں میں کم مؤثر ہیں۔ اس لیے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ کیا چیز ہے جو اس عمر کے گروپ، دماغ، اور اس مرحلے پر دماغ کی نشوونما کو علاج کے خلاف مزاحم بناتی ہے۔‘‘
یہ سمجھنا کہ ہارمونز کا دماغ اور موڈ پر کیا اثر پڑتا ہے، ذہنی صحت کے مسائل کے علاج کے لیے انتہائی اہم ہے۔ مگر ساتھ ہی ہمیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم سمجھیں ، ہر شخص کیوں اور کیسے ہارمونل تبدیلیوں پر مختلف ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ ہارمونل علاج جیسے کہ ایسٹروجن تھراپی، ٹیسٹوسٹیرون سپلیمنٹس اور ہارمونل برتھ کنٹرول بعض افراد کے لیے فائدے مند ہو سکتے ہیں مگر ان کا اثر ہر کسی پر مختلف ہوتا ہے۔ یہی وہ چیلنج ہے جو ہمیں نئے اور زیادہ ذاتی نوعیت کے علاج کی تلاش میں درپیش ہے۔