آئینی ترمیم: وزرا و ارکان پارلیمنٹ کے غیرملکی دورے منسوخ
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک /آن لائن / صباح نیوز) 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے اہم معاملے کے پیش نظر وزیراعظم نے تمام وفاقی وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کے غیر ملکی دورے فوری طور پر منسوخ کر دیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ تمام وزرا اور پارلیمانی ارکان اسلام آباد میں موجود رہیں تاکہ ترمیم کے حوالے سے اجلاس اور مشاورتی عمل بلا تعطل جاری رہ سکے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا مقصد 27 ویں ترمیم کے قانونی اور آئینی پہلوؤں پر مکمل توجہ دینا اور ملکی مفاد میں فوری اقدامات کو یقینی بنانا ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت ترمیم کی منظوری کے لیے اعلیٰ سطحی مشاورت اور حکمت عملی ترتیب دینے میں مصروف ہے‘ اس اقدام کے بعد وفاقی کابینہ اور پارلیمانی کمیٹیاں تمام متعلقہ امور پر اسلام آباد میں فوری اجلاس کر رہی ہیں، تاکہ ترمیمی عمل کی رفتار اور ملکی مفاد میں فیصلہ سازی بلا تعطل مکمل ہو سکے۔وزیراعظم شہباز شریف نے 27 ویں آئینی ترمیم پر تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے حاصل کرنے کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو اہم ٹاسک دیدیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہاؤس بزنس مشاورتی کمیٹی کا اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 27ویں آئینی ترمیم 14 نومبر کو قومی اسمبلی سے منظور کرائی جائے گی جبکہ ایوان کا موجودہ اجلاس بھی 14نومبر تک جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ اجلاس کے دوران ایجنڈے اور شیڈول کی بھی باقاعدہ منظوری دی گئی تاہم تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ پارلیمنٹ سے27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے نمبر گیم اہمیت اختیار کرگیا۔ ذرائع کے مطابق حکومت کو قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کے لیے237 ارکان کی حمایت حاصل ہے جب کہ حکومت کو آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے 224 ووٹ درکار ہیں۔ قومی اسمبلی میں ن لیگی ارکان کی تعداد 125 اور پیپلز پارٹی کے 74 ارکان ہیں۔ ایم کیو ایم کے 22، پاکستان مسلم لیگ 5، آئی پی پی کے 4 ارکان حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔ ان کے علاوہ ضیا لیگ، نیشنل پارٹی، باپ پارٹی کا ایک ایک رکن اور 4 آزاد ارکان بھی حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کی تعداد 89 ہے۔ دوسری جانب سینیٹ میں حکمران اتحاد کے اراکین 61 ہیں اور اپوزیشن اراکین کی تعداد 35 ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے لیے 64 اراکین کی ضرورت ہے۔ ذرائع کے مطابق آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو سینیٹ میں جے یو آئی یا اے این پی کے 3 اراکین کی حمایت درکار ہوگی۔ پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے 27 ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ بلاول زرداری کا حق ہے کہ وہ اظہار رائے کریں‘ تمام پارٹیوں سے مشاورت کے بعد جو شکل نکلے گی وہ سامنے لے آئیں گے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 27 ویں ترمیم وفاق کے لیے خطرہ ہے اور ترمیم کا حق صرف ان اراکین اسمبلی کو حاصل ہے جو مینڈیٹ لے کر آئے ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پورے ملک میں ہلچل ہے کہ وفاق صوبوں پر حملہ آور ہو رہا ہے، موجودہ حکومت نے 16 نشستوں کے ساتھ حکومت سنبھالی تھی ‘آئین میں ترمیم ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر، وفاقی وزیر تعلیم نے کہا ہے کہ 27 ویں آئی ترمیم پر حکومت سے ہم نے خود رابطہ کیا، حکومت سمجھتی ہے کہ آئینی ترمیم سے عدالتی نظام میں بہتری آئے گی مگر وقت کا تقاضا ہے کہ قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے۔ اسلام آباد میں ایم کیو ایم رہنماؤں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، فاروق ستار اور امین الحق نے27 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ آزاد سینیٹر فیصل واوڈا نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ان کی رہائش گاہ پر اہم ملاقات کی، جو تقریباً 40 منٹ تک جاری رہی۔ ذرائع کے مطابق ملاقات میں ملک کی مجموعی سیاسی صورتِ حال اور 27ویں آئینی ترمیم پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ فیصل واوڈا نے مولانا فضل الرحمن کو مجوزہ ترمیم سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں جمہوریت اور پارلیمانی نظام میں مولانا کا ہمیشہ اہم اور متوازن کردار رہا ہے، اور امید ہے کہ وہ اس بار بھی مثبت کردار ادا کریں گے۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے جواب میں کہا کہ جے یو آئی ایک ذمہ دار پارلیمانی جماعت ہے جو آئین کی محافظ ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جب تک آئینی ترمیم کا مسودہ سامنے نہیں آتا، اس پر کوئی حتمی رائے دینا قبل از وقت ہوگا۔ مولانا نے مزید کہا کہ مسودہ سامنے آنے کے بعد جے یو آئی کی پارلیمانی پارٹی، قانونی ٹیم اور شوریٰ سے مشاورت کی جائے گی تاکہ تفصیلی جائزے کے بعد حتمی مؤقف اختیار کیا جا سکے۔ انہوں نے فیصل واوڈا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترامیم جیسے حساس امور میں جلد بازی کے بجائے سنجیدہ مشاورت ناگزیر ہے۔ سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ نمبرز کا مسئلہ نہیں ترمیم کی منظوری کے لیے نمبرز پورے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ترمیم کی منظوری کے لیے ویں ا ئینی ترمیم ا ئینی ترمیم کے ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی اسلام ا باد فیصل واوڈا کرتے ہوئے حکومت کو ویں ا ئی کے بعد کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
27 آئینی ترمیم کے لئے حکومت کا سینیٹ میں بھی مطلوبہ تعداد پوری ہونے کا دعویٰ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: 27 آئینی ترمیم کا مسودہ 7 نومبر کو سینیٹ اجلاس میں پیش کرنے کا امکان ہے۔ حکومت نے سینیٹ میں جے یو آئی کے بغیر ہی تعداد پوری ہونے کا دعویٰ کردیا۔ 96 کے ایوان میں حکومت کو 65 ارکان کی حمایت ملنے کا قوی یقین ہے۔
میڈیاذرائع کے مطابق نائب وزیراعظم کے مطابق ستائیسویں آئینی ترمیم کےلیے اے این پی کے 3 سینیٹر کی حمایت ملنے کا امکان ہے۔ آزاد سینیٹر نسیمہ احسان سے بھی حمایت کی یقین دہانی حاصل کرلی گئی۔ مزید 6 آزاد سینیٹرز بھی 27ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالیں گے، محسن نقوی، عبدالکریم، فیصل واوڈا، عبدالقادر، انوارالحق کاکڑ اور اسد قاسم شامل ہیں۔ ضرورت پڑنے پر جے یو آئی کے 2 سینیٹرز کی حمایت لینے کی بھی کوششیں جاری ہیں۔
ایوان بالا میں پیپلزپارٹی26 اراکین کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے،حکومتی اتحاد میں مسلم لیگ ن کے 20،بی اے پی 4، ایم کیو ایم کے 3 ارکان شامل ہیں۔ اے این پی کے 3، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق کا ایک ایک سینیٹر بھی موجود ہیں۔سینٹ میں اپوزیشن کو 29 اراکین کی حمایت حاصل ہے، اپوزیشن بینچوں پر پی ٹی آئی کے 14 اور جے یو آئی کے 7 سینیٹرز موجود ہیں۔ 6 آزاد ، ایم ڈبلیو ایم اور سنی اتحاد کونسل ایک ایک رکن بھی اپوزیشن کا حصہ ہے۔ اپوزیشن کے آزاد ارکان مراد سعید اور خرم ذیشان نے ابھی تک حلف نہیں اٹھایا۔
واضح رہے کہ حکمران اتحاد کو قومی اسمبلی میں ترمیم کی منظوری کے لیے واضح دو تہائی اکثریت حاصل ہے، حکومت کو قومی اسمبلی میں 237 ارکان کی حمایت حاصل ہے، جب کہ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے 224 ووٹ درکار ہیں، قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 125، پی پی پی کے 74 ارکان، متحدہ قومی موومنٹ کے 22، پاکستان مسلم لیگ 5 ، استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے 4 ارکان اتحاد کا حصہ ہیں۔