data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد/ لاہور/کراچی (نمائندگان جسارت+ اسٹاف رپورٹر) وزیراعظم شہباز شریف نے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر اتحادی جماعتوں سے مشاورت مکمل کرلی ہے۔ جس کے بعدمجوزہ ترمیم منظوری کے لیے آج جمعے کو وفاقی کابینہ میں پیش کی جائے گی۔وزیر اعظم نے جمعرات کو 27 ویں آئینی ترمیم پر مشاورتی عمل جاری رکھا، حکومتی اتحادی پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، ق لیگ ، بلوچستان عوامی پارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی کے وفود سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔ ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کا آئینی ترمیم میں بلدیاتی اختیارات شامل کرنے اور بلوچستان عوامی پارٹی نے نشستیں بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی بلدیاتی اداروں کو آئینی طور پر بااختیار بنانے پر تیار نہیں۔علاوہ ازیں وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور طارق فضل چودھری نے کہا ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ آج جمعے کو سینیٹ میں پیش ہو جائے گا، اس کے بعد مسودہ قومی اسمبلی میں پیش ہوگااور ہمیں امید ہے 27 ویں ترمیم پاس ہوجائے گی،ترمیم میں 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم میں 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوئی بات نہیں ہے، ہماری کوشش ہے کہ مشاورت سے فیصلے ہوں،این ایف سی اور دیگر معاملات پر باہمی مشاورت سے معاملات طے پا جائیں گے، دو تین نکات کے علاوہ کسی مجوزہ شق پر کوئی اختلافات نہیں ہیں۔ ادھر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ اس حکومت کے پاس ترمیم کا استحقاق ہی نہیں ، دو تہائی اکثریت کے بغیر آئین میں ترمیم نہیں کی جاسکتی۔انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ یہ حکومت رات کے اندھیرے میں ترامیم منظور کراتی ہے ، پتا چلا ہے کہ آئینی عدالت میں ججوں کی سلیکشن وزیر اعظم کریں گے،اس اقدام سے عوام کا عدلیہ پر اعتماد متاثر ہوگا ، 26 ویں ترمیم میں خصوصی کمیٹی میں جو مسودہ پی ٹی آئی کے ساتھ منظور ہوا تھا ، وہ سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا تھا۔بیرسٹر گوہر نے کہا کہ 27 ویں ترمیم سے وفاق اور صوبے سب متاثر ہوں گے، 26 ویں ترمیم بھی غلط تھی ، 27 ویں بھی غلط ہے۔ مزید برآں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سیکریٹری اطلاعات شازیہ مری نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت ہماری پارٹی کی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے، تو پیپلز پارٹی 18ویں ترمیم یا این ایف سی ایوارڈ میں کسی بھی قسم کی واپسی یا تبدیلی کی حمایت نہیں کرے گی۔ بلال ہاؤس کراچی کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شازیہ مری نے کہا کہ ان کی جماعت صوبوں کو دیے گئے حقوق کبھی واپس نہیں لے گی، انہوں نے کہا کہ جہاں تک صوبوں کا تعلق ہے، پیپلز پارٹی کا مؤقف بالکل واضح ہے، پاکستان پیپلز پارٹی صوبوں کے استحکام کی خواہاں اور وہ ان کے حقوق واپس لینے یا کسی ایسی تجویز پر متفق ہونے پر کبھی آمادہ نہیں ہوگی، جو صوبائی خودمختاری کو متاثر کریں۔تاہم شازیہ مری نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی آئینی ترمیم پاکستان کے نظامِ حکمرانی میں بہتری، اداروں کی کارکردگی کو مضبوط اور عوام کو زیادہ ریلیف فراہم کر سکتی ہے تو پیپلز پارٹی ایسی تجاویز پر غور کرنے اور ان کی حمایت کرنے کے لیے تیار ہے۔ذرائع کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالت عظمیٰ میں آئینی بینچ کی جگہ 9 رکنی آئینی عدالت قائم کی جائے گی، آئینی عدالت کے ججوں کی عمر کی بالائی حد 68 سے 70 سال تک کرنے کی تجویز ہے۔ مسودے کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کے تقرر میں ڈیڈ لاک کی صورت میں معاملہ سپریم جوڈیشل کمیشن کے سپرد کیا جائے گا، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے تقرر میں صدر، وزیراعظم کا کردار کم کر کے جوڈیشل کمیشن کا بڑھایا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ آرٹیکل 243 میں ترمیم کے ذریعے فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی تحفظ دیا جائے گا، فیلڈ مارشل کو آئینی اختیارات بھی دیے جائیں گے، مجوزہ آئینی ترمیم کے تحت فیلڈ مارشل کا ٹائٹل تاحیات رہے گا۔ذرائع کے مطابق مجوزہ ترمیم کے تحت این ایف سی ایوارڈ میں وفاق کو صوبوں کے شیئر سے مزید0 1 فیصد حصہ دینے کی تجویز ہے جب کہ تعلیم اور صحت کے شعبے وفاق کو دینے پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا۔

نمائندہ جسارت سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ویں ا ئینی ترمیم پیپلز پارٹی ویں ترمیم نے کہا کہ ترمیم کے کے مطابق میں پیش جائے گا

پڑھیں:

حکومت کا 27ویں آئینی ترمیم لانے کا اعلان۔منظور نہیں ہونے دیں گے، اپوزیشن اتحاد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251105-01-19
اسلام آباد(نمائندہ جسارت،خبر ایجنسیاں) نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم حکومت لارہی ہے اور یہ ضرور آئے گی۔ سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت آئینی ترمیم لارہی ہے اور لائے گی اور یہ ہماری ترمیم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم سمیت اتحادیوں کو اعتماد میں لیں گے اور ہم 27 ویں ترمیم پر اپنے سب سے بڑے اتحادی پیپلزپارٹی کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اتحادیوں کو ساتھ لے کر چل رہی ہے، تجویز دیتا ہوں ترمیم پہلے سینیٹ میں پیش کی جائے کیونکہ قانون سازی کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ علی ظفر کو یقین دلاتا ہوں ترمیم پر بحث ہوگی، قانون کے مطابق 27 ویں آئینی ترمیم پیش کریں گے، بلاول نے ٹویٹ کیا وہ ہمارے اتحادی ہیں۔انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ اپنے چیمبر میں فیصلہ کرتے ہیں اور قائد حزب اختلاف کی تعیناتی بھی اْن کی ہی ذمہ داری ہے، میرے خیال میں یہ بالکل ہونی چاہیے، جتنی جلدی اپوزیشن لیڈر آئے اچھا ہے۔جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے ممکنہ 27 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے کہا ہے کہ ترمیم کے ذریعے عدلیہ کے ادارہ جاتی ڈھانچے کو مضبوط بنانے پر مشاورت جاری ہے، ہم آئینی بینچ سے آئینی کورٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں تاکہ نظام انصاف بہتر ہو۔سیشن کورٹ لاہور میں وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بانی پی ٹی آئی کے خلاف10 ارب روپے ہرجانے کے دعوی کیس کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کے خلاف ہتک عزت کیس میں حقیقی پیشرفت ہو چکی ہے اور تمام ثبوت عدالت میں پیش کر دیئے گئے ہیں،امید ہے انصاف ملے گا۔عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ حکومت قانون کی حکمرانی، معاشی بحالی اور سیاسی استحکام کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ ہم نے عدالت میں سچ رکھا ہے۔علاوہ ازیں 27 ویں آئینی ترمیمی بل 7 نومبرکو سینیٹ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں بل کا اجلاس میں جائزہ لیں گی۔ذرائع کا مزید بتانا ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم کا بل آئندہ ہفتے منظور کیا جائیگا۔حکومت نے 27ویں آئینی ترمیم کی پارلیمنٹ سے منظوری کے لیے فریم ورک تیار کرلیا۔ذرائع نے مزید بتایا کہ وزارت قانون اور وزارت پارلیمانی امور نے سینیٹ سیکرٹریٹ کو آگاہ کر دیا ہے اور آئینی ترمیم آئندہ ہفتے دونوں ایوانوں سے منظور کروائے جانے کا امکان ہے۔ذرائع کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم پر مشاورت کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جس میں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے اراکین شامل ہوں گے، تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین اور مرکزی قیادت کی نمائندگی ہوگی۔ذرائع کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کا مجوزہ ڈرافٹ پارلیمانی کمیٹی میں پیش کیا جائے گا، پارلیمانی کمیٹی سے منظوری کے بعد آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ سے منظور کروایا جائے گا۔دوسری جانب اپوزیشن اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم منظور نہیں ہونے دیں گے کیونکہ اس کے بدترین نقصانات ہوں گے اور ملک کی بنیادیں ہل جائیں گی۔تحریک تحفظ آئین پاکستان کے صدر محمود خان اچکزئی کی سربراہی میں ہنگامی اجلاس ہوا جس میں ملک کی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ بعد ازاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا کہ جو 27 ویں آئینی ترمیم کا پنڈورا باکس کھولا گیا ہے، بلاول زرداری کا بھی جو ٹویٹ آیا ہے وہ تشویش ناک ہے، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بھی اس ٹوپی ڈرامے میں شریک ہے، اس کا فیصلہ پہلے ہو چکا ہے یہ صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔اسد قیصر نے کہا کہ ایک پی پی پی تھی ذوالفقار علی بھٹو والی جس نے آئین کی بنیاد رکھی، دوسری بینظیر بھٹو والی جس نے جمہوریت کے لیے جان دے دی، آج بھی پی پی پی جمہوریت کو دفن کرنے کے لیے جان لگا رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میاں صاحب جو کچھ عرصے پہلے ووٹ کو عزت دینے کے لیے مہم چلا رہے تھے، اب ووٹ کو عزت دو کا نعرہ کہاں گیا؟ اس اقتدار کا آپ کو کیا کرنا ہے جو پاؤں پڑنے کی بنیاد پر دیا جائے، میاں نواز شریف کو خود کو ووٹ کو عزت دینے کا چمپئین سمجھ رہے تھے وہ اب خاموش ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے عمران خان کو بھی اپنی سفارشات بھیجی ہیں، اگر ملاقات ہو جاتی ہے تو پریس ریلیز جاری کردیں، ہم ہر صورت جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لیے عوام کے پاس بھی جائیں گے اور پارلیمنٹ میں بھی بھرپور احتجاج ریکارڈ کروائیں گے۔اس موقع پر سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ اس بات میں تو کسی پاکستانی کو شک و شبہ نہیں ہے کہ کچھ عرصے سے اس ملک میں جبر کا نظام نافذ ہے، تمام چیزیں جو پاکستانی شہریوں کے لیے آئین نے فراہم کی تھی وہ سبوتاژکردی گئی ہیں۔سابق سینیٹر نے کہا کہ بلاول کی ٹوئٹ کے ذریعے ہمیں آئینی ترمیم کا پتا چلا، آپ نے جب آئینی بینچز بنائے تو یہ بیان رکھا کہ اس سے انصاف کی فراہمی بہتر ہو جائے گی، ایک ایسی عدالت بنانے جا رہے ہیں جس کی مدت 70 سال ہو گی۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ جو حکومت کو خوش رکھے گا اس کے لیے آگے موقع موجود ہے، یہ عدلیہ کے ساتھ کیا کھلواڑ کر رہے ہیں، ججوں کی ٹرانسفر پوسٹنگ باقی بیورو کریسی کی طرح ہوگی، جن کے فیصلے پسند نہیں آتے انہیں اٹھا کر دوسری جگہ پھینک دیں گے، اس طرح کون سا جج عوام کو انصاف دینے کے لیے کھڑا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ کوئی ادارہ کسی دوسرے ادارے کا اختیار استعمال نہیں کرے گا، آپ پھر سے انگریزوں کا کالا قانون واپس لانا چاہتے ہیں، جو عدلیہ، میڈیا اور دیگر کے خلاف استعمال ہوں گے۔مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی تقرری کے لیے نئی ترامیم لائی جائیں گی، آج اس ملک میں الیکشن کمیشن خود ایک مذاق بن گیا ہے، جو ٹریبونل بنائے گئے تھے آپ نے انہیں سبوتاژ کیا، جو اختیارات صوبوں کو دیے گئے ان میں سے کئی محکمے وفاق کو دیے جائیں گے۔مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ آپ نے یہ بھی نوید سنا دی، آرٹیکل 243 جس کے تحت آرمی چیف کی تقرری ہوتی ہے اس میں بھی ترمیم آنے جا رہی ہے، اگر اس میں ترمیم کریں گے تو ملک کا انفرا اسٹرکچر تبدیل ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ جو گفتگو ہو رہی ہے اس کے مطابق کمانڈر ان چیف کا عہدہ بنایا جا رہا ہے، یہ ملک آپ کس کے حوالے کر رہے ہیں؟ کہاں گئی سویلین بالادستی کی باتیں؟ سویلین اداروں کو اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت بنا دیا جائے گا، اس ترمیم کے وہ نقصانات ہوں گے کہ ملک کی بنیادیں ہلادیں گے اور لوگ اس کو ماننے سے انکار کر دیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم اس کو منظور نہیں ہونے دیں گے، ہم میڈیا، سول سوسائٹی اور دیگر تنظیموں سے رابطہ کریں گے، یہ مہینہ ہمارے لیے بہت اہم ہے، ہم نے اس ناجائز پارلیمان کو یہ قدم اٹھانے سے روکنا ہے، ہم صرف انتظار کررہے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی ملاقات ہوجاتی ہے بانی سے تو ان کا اِن پٹ لے کر پلان دیں۔سابق گورنر سندھ زبیر عمر نے کہا کہ میاں نواز شریف سے میں گزارش کروں گا کہ 26 آئینی ترمیم اور 27 ویں آئینی ترمیم پر صرف ایک بیان دے دیں، مجھے امید ہے کہ وہ اس سے بھرپور اختلاف کریں گے اور وہ اپنے بھائی کو یہ کرنے سے روکیں گے۔قبل ازیںپیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ آئین میں مجوزہ ترامیم اگر منظور کرلی گئیں تو یہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے خاتمے کے مترادف ہوں گی۔رضا ربانی نے اپنے بیان میں کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی خودمختاری سے متعلق مجوزہ آئینی ترامیم دراصل 18ویں ترمیم کو ختم کرنے کی کوشش ہیں۔2010 میں منظور کردہ 18ویں ترمیم نے صوبوں کے خدشات دور کرتے ہوئے کئی وفاقی وزارتیں اور محکمے صوبوں کو منتقل کر دیے تھے، جن میں تعلیم اور آبادی کے محکمے بھی شامل تھے۔انہوں نے خبردار کیا کہ موجودہ نازک سیاسی حالات میں صوبائی خودمختاری سے چھیڑ چھاڑ وفاق پر گہرے اثرات ڈال سکتی ہے۔رضا ربانی کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم نے شدت پسند قوم پرستوں کو سیاسی بحث سے باہر کر دیا تھا اور مجوزہ تبدیلیاں انہیں دوبارہ غیر آئینی سرگرمیوں کی طرف راغب کر سکتی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ صوبوں کو منتقل کی گئی وزارتوں کو واپس لینا وفاقی حکومت کے لیے مالی بوجھ بنے گا اور مالیاتی اختیارات واپس لینا شراکتی وفاقیت کے اصولوں کے خلاف ہوگا۔انہوں نے تجویز دی کہ اگر وفاقی حکومت اپنے مالی معاملات نہیں سنبھال سکتی تو صوبوں کو تمام ٹیکس جمع کرنے اور وفاقی اخراجات کو مشترکہ مفادات کونسل کے ذریعے پورا کرنے کی اجازت دی جائے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اجلاس میں 27ویں آئینی ترمیم پر مشاورت
  • وفاقی کابینہ سے 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ کل منظور ہونے کا امکان
  • قومی اسمبلی، سینیٹ اور کابینہ اجلاس کل طلب، 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ پیش کیے جانے کا امکان
  • وفاقی کابینہ کل 27ویں ترمیم کی منظوری دے گی، وزیراعظم نے اجلاس طلب کرلیا
  • حکومت کا 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ کل وفاقی کابینہ سے پاس کرانے کا فیصلہ، اجلاس طلب
  • وفاقی کابینہ سے27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ کل منظور ہونے کا امکان، وزیراعظم نے اجلاس طلب کرلیا
  • حکومت 27ویں آئینی ترمیم ضرور لائے گی پہلے اتحادیوں کو اعتماد میں لیں گے، نائب وزیراعظم
  • حکومت کا 27ویں آئینی ترمیم لانے کا اعلان۔منظور نہیں ہونے دیں گے، اپوزیشن اتحاد
  • 27ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے پہلے سینیٹ میں پیش کی جائے، اسحاق ڈار کی تجویز