ترکیے تو دل کی دھڑکن ہے ہی برادر محترم ڈاکٹر خلیل طوقار سے تعلق خاطر اور پاکستان میں ان کی موجودگی نے اسے مزید با معنی بنا دیا ہے۔ تخلیقی مزاج رکھنے والے کسی بھی ادیب اور دانشور کی طرح وہ نازک مزاج ہیں۔ موسم اور حالات ان کی راہ روکتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ دیوانوں کی طرح کام میں جتے رہتے ہیں۔ 2017 میں وہ تشریف لائے تو لاہور میں انہوں نے یونس ایمرے انسٹیٹیوٹ قائم کیا یوں یہاں شاندار تہذیبی گہما گہمی پیدا کر دی۔ اس زمانے میں انہوں نے جن سرگرمیوں کی بنیاد رکھی وہ ادارہ جاتی حیثیت اختیار کر گئیں۔ خوش قسمتی سے اب وہ سال بھر سے پھر پاکستان میں ہیں اور اس مختصر سے عرصے میں انہوں نے یونس ایمرے انسٹیٹیوٹ کی شاخیں اسلام آباد اور کراچی میں قائم کر دی ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں پے درپے ایسے پروگرام کیے ہیں جن کی معنویت اور ان کا تعلق ہمارے بلکہ مسلم دنیا کے حالات سے بھی غیر معمولی ہے۔ حال ہی میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے یونس ایمرے انسٹیٹیوٹ کے تعاون سے علامہ اقبال اور ترک قومی ترانے کے خالق محمد عاکف ایرصوئے کے فکری مشترکات پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا اور مجھے ایک ذمے داری سونپی۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا اس وقت نو استعماریت کا شکار ہے۔ کیا اقبال اور عاکف کے افکار میں اس چیلنج کا جواب بھی موجود ہے یا نہیں؟ تمہیں اس موضوع پر اظہار خیال کرنا ہے۔
یہی ذمے داری تھی جسے پورا کرنے کے لیے مجھے ان دونوں بزرگوں کے افکار سے رجوع کرنا پڑا اور سچ یہ ہے کہ یہ مطالعہ میرے لیے نعمت بن گیا کیونکہ یہ حقیقت پہلی بار کھل کر سامنے آئی کہ ہمارے یہاں اقبال اور ترکیے میں عاکف کا اصل کارنامہ کیا ہے اور نواستعماریت یعنی خاص طور نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والے چیلنجز میں یہ دونوں بزرگ ہماری رہنمائی کیا کرتے ہیں۔
اقبال کے عہد سے قبل مسلم برصغیر ایک بہت بڑے نظریاتی مخمصے سے دوچار تھا۔ انگریزوں کے برِصغیر میں قوت پکڑنے اور خاص طور پر 1857 کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد مسلمانوں میں دو طرح کا ردعمل پیدا ہوا۔ اول انگریزوں سے مکمل فاصلہ اور نئی تہذیب و ترقی اور افکار و نظریات سے لاتعلقی۔ دوم ان کے سامنے مکمل سپردگی تاکہ وہ انہیں دشمن سمجھنے کے بجائے ان کے بارے میں مشفقانہ طرز عمل اختیار کریں۔ سرسید کی اس حکمت عملی سے سب سے بڑا اختلاف شبلی نعمانی نے کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ سرسید کی حکمت عملی یوں مناسب نہیں کہ اس کے نتیجے میں یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ اس نظام سے نکلے ہوئے مسلمان کا رشتہ اپنے عقیدے اور تہذیب سے کمزور ہو جائے گا۔ اس کے ردعمل میں علامہ شبلی نعمانی نے یہ نظریہ پیش کیا کہ دنیا کی دیگر اقوام کی ترقی یہ ہے کہ وہ آگے بڑھتی جائیں اور دنیوی ترقی کے ہر موقع سے استفادہ کریں۔ اس کے مقابلے میں مسلمان کی ترقی یہ ہے کہ وہ پیچھے ہٹتا چلا جائے یہاں تک کہ صحابہ کے عہد میں داخل ہو جائے۔ مسلم برصغیر کا مسلمان ان دو نظریات کے بیچ ہچکولے کھا رہا تھا کہ اقبال کا سورج طلوع ہوا۔
ایک ممتاز مستشرق ولفرڈ کینٹ اسمتھ نے لکھا ہے کہ اقبال نے مسلمانوں کو اسی نظریاتی الجھن سے نکال کر درست راہ پر گامزن کر دیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ اقبال نے یہ سوال اٹھایا کہ صحابہ کے عہد میں سانس لینا تو سعادت کی بات ہے لیکن نئے عہد کے جو چیلنجز پیدا ہو رہےہیں ان کا جواب کیا ہے۔ اس سوال کا جواب نہ جدت پسندوں کے پاس تھا اور نہ قدامت پسندوں کے پاس۔ یوں اقبال اپنے عہد کے اہل فکر کو ہی نہیں بلکہ عام آدمی کو بھی متوجہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
اقبال کی فکر کو چند نکات میں سمیٹا جائے تو وہ یوں ہو گی۔ انہوں نے اپنی قوم کو مشورہ دیا کہ وہ ردِعمل کی کیفیات سے نکلیں۔ ردِعمل کی کیفیات سے کیا مراد ہے؟ اسے ہم برصغیر میں تحریک خلافت کے اہم واقعے سے سمجھ سکتے ہیں۔ ترکیہ میں اس زمانے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے زیادہ آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے۔ ترکیہ میں مصطفیٰ کمال اتا ترک نے خلافت کا خاتمہ کر کے جدید ترکی کی بنیاد رکھی تو برصغیر میں اس کا شدید ردعمل پیدا ہوا۔ اس ردِعمل اور جذباتی کیفیت کا اندازہ تند و تیز تحریک خلافت سے کیا جاسکتا ہے۔ برِصغیر کے صرف 3 مسلمان تھے جنہوں نے اس تحریک سے فاصلہ رکھا۔ ان میں ایک علامہ اقبال تھے جنہوں نے ترکی میں ابھرتے ہوئے نئے سورج کا خیر مقدم کیا۔ وہ جو دینی معاملات میں اجتہاد کی ذمے داری پارلیمنٹ کے سپرد کرتے ہیں، اس کا سبب بھی ترکی میں آنے والے اس انقلاب میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ تحریک خلافت سے دور رہنے والی دوسری 2 شخصیات میں قائداعظم محمد علی جناح اور مولانا اشرف علی تھانوی تھے۔
اقبال اپنی قوم کو صرف جذبات کی آندھی سے ہی بچانا نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ انہیں مسلح تصادم میں الجھنے سے بھی روکتے تھے۔ 1857 کا واقعہ ہو یا تحریک مجاہدین کی شدت پسندی، وہ ہر دو کو مسلمانوں کے مفاد کے خلاف سمجھتے تھے۔ اس کے مقابلے میں انہوں نے جو تصور پیش کیا اس کی بنیاد ابن ماجہ کی اس حدیث پر رکھی کہ دانائی مومن کی گم شدہ میراث ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنی تہذیب اور عقیدے کے ساتھ منسلک رہتے ہوئے جدید ترین تعلیم حاصل کرے اور علم کی اس طاقت کو وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرے۔ اسی طرح وہ اپنی قوم کو آئین اور قانون کی پابندی کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ ان کا ایک شعر ہے
دہر میں عیش و آرام آئیں کی پابندی سے ہے
موج کو آزادیاں سامان شیون ہو گئیں
بالکل اقبال ہی کی طرح ترکیے میں محمد عاکف ایرصوئے نے بھی اپنی قوم کو یہی راہ دکھائی۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال نے اپنی قوم کی توجہ غیر دانشمندانہ جوش و خروش اور مسلح تصادم سے آئینی اور پارلیمانی جدوجہد کی طرف مبذول کرا دی اور اسی مقصد کے لیے قائداعظم کو لندن سے واپس لائے۔
اقبال اور عاکف کو جسمانی طور پر گزرے ایک صدی گزرتی ہے۔ اس عرصے میں دنیا میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں خاص طور پر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد۔ نائن الیون کے واقعات اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں القاعدہ اور تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اسی قسم کا مزاج رکھنے والی بہت سی تنظیمیں وجود میں آئیں۔ ٹی ٹی پی وغیرہ کو بھی اسی ذیل میں رکھنا چاہیے۔ یہ لوگ بھی ماضی کی طرح دیوار سے سر ٹکرا دینے پر یقین رکھتے ہیں اور اس نظریے کو باطل بلکہ کفر قرار دیتے ہیں جو انہیں فہم و فراست کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دے۔ اس طرز عمل نے مغربی طاقتوں کے لیے بہت آسانی پیدا کر دی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں کو یہ آسانی میسر آ گئی تھی کہ وہ اپنے مخالفین خاص طور پر مسلمانوں کو کچل کر رکھ دیں۔ لہٰذا ماضی میں جس اقبال اور عاکف نے بتایا تھا کامیابی غیظ و غضب کے بجائے دانشمندی اور علم و حکمت میں ہے بالکل اسی طرح موجودہ عہد میں بھی کامیابی کا راستہ یہی ہے۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کے مسلح گروہوں نے افغانستان، عراق، شام، پاکستان حتیٰ کہ غزہ، فلسطین اور اسرائیل میں بھی زور آزمائی کر کے دیکھ لی۔ نتیجہ سوائے تباہی کے اور کیا نکلا؟ مسلمانوں کے لیے نجات کی راہ آج بھی وہی ہے جس کی نشاندہی صدی بھر قبل اقبال نے یہاں اور ترکی میں عاکف نے کی تھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دنیا میں شعوری سطح پر ایسی تحریک پیدا کی جائے۔ یہی تحریک انہیں تباہی کے راستے ہٹا کر کامیابی کے راستے پر گامزن کر سکتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔
wenews برصغیر پاکستان ترکیہ شاعر مشرق علامہ اقبال فاروق عادل قوم محمد عاکف مسلح تصادم وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان ترکیہ علامہ اقبال فاروق عادل محمد عاکف وی نیوز میں انہوں نے علامہ اقبال اپنی قوم کو اقبال اور کہ اقبال اقبال نے کے ساتھ پیدا ہو کے بعد اور اس کی طرح کے لیے
پڑھیں:
اقبال کے مذہب پر علامہ عبدالعلی الہروی کی علمیت کا اثر
اسلام ٹائمز: علامہ ہروی (اعلیٰ اللہ مقامہ) سے فیض یاب ہونے سے کسی کو انکار نہیں۔ علامہ کی آخری عمر تک اقبال نے جی بھر کر اپنی تحقیقات کو جاری رکھا اور تنہاء ملاقاتوں کے علاؤہ مواعظ میں بھی علامہ موصوف سے شبہات کے ازالے کے لیے سوالات کر دیا کرتے تھے اور علامہ کے تسلی و تشفی بخش جوابات سے مطمئن ہو جاتے تھے۔ علامہ شیخ نے دسمبر 1922ء میں انتقال فرمایا اور اس کے بعد اقبال کے جوہر دن بدن زیادہ ہی کھلتے گئے۔ کھوج: سید نثار علی ترمذی
اقبال اور اقبالیات دنیا اسلام میں اپنے خلوص، ہر دلعزیزی اور اسلامی تحقیقات کا سکہ بٹھا چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اسلامی ملک میں علامہ اقبال کو ذی علم طبقہ نے اپنے مقام پر اور عوام الناس نے اپنے مقام پر پسندیدہ نگاہوں سے دیکھا ہے۔ پاک و ہند میں بالخصوص مسلمانوں کو بیدار کرنے میں اقبال کا کافی حصہ ہے، نہ صرف بوڑھے اور بچے بلکہ نوجوان مرد و عورتیں طلباء و طالبات اقبال کے کلام اور پیغام کے گرویدہ دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت نے بھی اقبالیات کو قبول کیا ہے، ہر سال یوم اقبال بطور ایک منظور شدہ تعطیل (Gazetted holiday) کے منایا جاتا ہے۔ اندریں حالات اس امر کی ضرورت سے انکار نہیں، اقبال کے مسلک کو صحیح طور پر سمجھا جائے، تاکہ ہمارے نوجوان اور ذی علم طبقہ کے لیے پیغام اقبال سے روشناس ہو کر مناسب راستہ اختیار کرنے میں آسانی ہو۔
بقول مفکر و محقق ڈاکٹر عسکری بن احمد "علامہ علیہ الرحمہ اپنی تمام عمر راہ مستقیم کی تلاش میں رہے۔ ان کی تلاش حق اس قدر حق پر ہے کہ اگر کچھ دن اور جیے رہتے تو ضرور ظاہر بظاہر جذبہ و جوش کی مومنیت کو پا لیتے اور اسی کو اولی الامر کہتے ہیں، جس کی شان میں "انا قران الناطق" ہوتی۔ اس میں شک نہیں کہ اقبال کے اول سے لے کر آخر کلام تک آپ کو درجہ بدرجہ اسی تلاش حق کے نتائج نظر آئیں گے۔ اقبال کی تحقیقات کی بنا پر بعد رسول جہاں تک دین اسلام کا تعلق ہے، سوائے امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے کوئی اور کوئی اول الامر ثابت نہیں۔ مثنوی اسرار خودی میں نیابت الٰہیہ کے تحت "اولی الامر" کو "قائم با امراللہ" یعنی من جانب اللہ تسلیم کر کے جمہوریت اور طریقہ انتخاب یعنی الیکشن سے انکار کیا ہے اور اس کا نمونہ "در شرح اسرار علی مرتضیٰ" لکھ کر اپنے مسلک کا اظہار کیا ہے۔
یہ مسلک اقبال کو وراثت میں نہ ملا تھا بلکہ تحقیقی تھا۔ جو بھی خلوص نیت سے جستجو کرے، قدرت اس کی دستگیری کرتی ہے اور اس کے لیے تحقیقات کی راہوں کو آسان بنانے کے لیے ذرائع پیدا کر دیتی ہے۔ اقبال کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، یعنی سرکار علامہ شیخ عبدالعلی ہروی الطہرانی (اعلیٰ اللہ مقامہ) جیسے محقق اسلام جیسی ہستی اس سلسلے میں رہنمائی کا باعث بنی۔ شیخ ایران، عراق، مصر، ترکی کے شہرہ آفاق علماء سے اپنی علمیت قرآن و علوم حاضرہ کا سکہ منوا چکے تھے اور جامع ازہر مصر میں شیخ کی تقریروں سے خلاف اسلام ادیان باطلہ کے گھر صف ماتم بچھ چکی تھی۔ مشترکہ ہندوستان کی اور بالخصوص مسلمانوں کی یہ بڑی خوش نصیبی تھی کہ شیخ کے ورود ہند کے اسباب پیدا ہوگئے۔ 1902ء میں ظلمت کدہ ہند میں وارد ہوئے اور ایک برس کراچی میں قیام کے بعد سندھ میں آئے اور سندھ سے وارد پنجاب ہوئے۔ جس جس کسی کو بھی علامہ شیخ کا قرب نصیب ہوا، وہ آپ کے کمالات علمی، عبادات و اذکار اور تزکیہ و روحانیت کا گرویدہ ہوتا گیا۔
زیادہ تر پٹیالہ، مالیر کوٹلہ، لاہور اور جھنگ میں قیام رہا۔ اہل لاہور نے بلاشبہ ان کے علم کی زیادہ قدر کی اور وہیں سے علامہ کے علم کے جوہر کھلے۔ مواعظ کا سلسلہ 1906ء سے شروع ہوا اور سلسلہ کامل سولہ برس تک یعنی 1922ء تک جاری رہا۔ مقربین میں سر علی امام، مسیح الملک حکیم اجمل خان، نواب سر ذوالفقار علی خان، خواجہ غلام ثقلین اور حکیم مشرق علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال جیسے عالی دماغ و آزاد خیال اصحاب بصیرت شامل تھے۔ حکیم مشرق علیہ الرحمہ نے سرکار شیخ کے بیانات کو صدق دل سے اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور ان کے بھرپور قرآنی و سائنسی علوم کے سامنے سر تسلیم ختم کر دیا۔ چنانچہ شیخ ہی سے مخاطب اقبال کے یہ اشعار اس امر پر کافی روشنی ڈالتے ہیں۔
اے مالک منہاج علی راہ دکھا دے
دروازہ رحمت مجھے للہ دکھا دے
جس در کا ہوں مشتاق وہ درگاہ دکھا دے
دربار شہنشاہ فلک جاہ دکھا دے
وہاں پہنچوں جہاں عرش بھی پایا نہیں رکھتا
ہمسایہ میں اس کا ہوں، جو سایہ نہیں رکھتا
(رخت سفر ص۔ 134، مطبوعہ تاج کمپنی لمیٹڈ)
دراصل علامہ (اعلیٰ اللہ مقامہ) سے اقبال کی ملاقاتیں 16-1915 سے شروع ہوئی تھیں، جیسا کہ فاضل محق محمد بشیر علی صاحب کے مضمون۔۔۔۔ ابتدائی ملاقاتیں (جو اس مضمون سے پیشتر درج ہے) ظاہر ہے۔ اقبال کے عقائد و تخیلات میں عظیم انقلاب ان ملاقاتوں ہی کا نتیجہ ہے، جو کہ اسرار خودی اور رموز بے خودی میں ظاہر ہوا۔ مجالس و محافل میں علامہ کی تقریروں کا ترجمہ کرنے کی ابتدائی خدمات بھی حکیم مشرق ہی کے سپرد تھیں۔ اقبال ہمیشہ شیخ (رح) کو سرکار علامہ کے الفاظ سے خطاب کرتے تھے۔ چنانچہ مہاراجہ سر کشن پرشاد بہادر شاد (وزیراعظم حیدرآباد دکن) سے حکیم مشرق کی خط و کتابت میں اس کا ذکر آتا ہے۔ یہ خط و کتابت شاد اقبال کے نام سے ادارہ ادبیات حیدر آباد دکن نے شائع کی، جسے ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور، ایم اے پی ایچ ڈی (لندن) پروفیسر صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ نے مرتب کیا ہے۔
اس میں ایک جگہ اقبال لکھتے ہیں: "۔۔۔۔۔ہاں یہ عرض کرنا بھول گیا کہ لاہور میں کچھ عرصہ سے ایک بہت بڑے ایرانی عالم مقیم ہیں، یعنی کہ سرکار علامہ شیخ عبدالعلی طہرانی۔ معلوم نہیں کبھی حیدرآباد میں بھی ان کا گزر ہوا یا نہیں۔ عالم متبحر ہیں۔ مذہباً شیعہ ہیں، مگر مطالب قرآن بیان فرماتے ہیں تو سمجھنے سوچنے والے حیران رہ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ علم جفر میں کمال رکھتے ہیں۔ کبھی کبھی ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا ہوں۔ اگر اس موسم میں سرکار لاہور کا سفر کریں، خوب ہو کہ یہ آدمی دیکھنے کے قابل ہیں۔ محمد اقبال، 13 اکتوبر 1916ء (شاد اقبال پہلا حصہ خطوط ص۔ 7)
اس کا جواب مہاراجہ صاحب نے دیا: "۔۔۔۔ ابھی مجھے سرکار علامہ شیخ عبدالعلی الطہرانی سے آپ کے خط میں ملاقات کرنا باقی ہے۔ میں ان کا غائبانہ مشتاق ملاقات ہوں۔ مجھے علم نہیں نہ یاد ہے کہ حیدرآباد میں کبھی یہ آئے ہوں۔ میری طرف سے سلام شوق ملاقات۔ مزاج پرسی کیجئے اور کہیے کہ "علم جفر" کے مبارک احکام کے اثر سے مجھے بھی کچھ تسلی بخش حصہ ملنا چاہیے۔۔۔" فقیر شاد 11نومبر، 1916ء۔ (حوالہ ایضاً ص۔9) اس کے جواب میں اقبال نے لکھا: "۔۔۔۔ سرکار علامہ ہروی طہرانی سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ نہایت مخلصانہ سلام آپ کی خدمت میں پہنچاتے ہیں۔ اس سے پیشتر امرائے دکن میں سے کسی سے سرکار کے اوصاف کا تذکرہ سن چکے ہیں۔ فرماتے تھے کہ حیدرآباد کا سفر کروں گا تو مہاراجہ بہادر سے ضرور ملاقات کروں گا۔ دوسرے ملاقات کے مواقع پر اور بھی باتیں ان سے کروں گا اور جو کچھ وہ فرمائیں گے، دوسرے خط میں عرض خدمت والا کروں گا۔ مخلص دیرینہ: محمد اقبال، 4 دسمبر 1916ء (حوالہ ایضاً ص۔10)
علامہ ہروی (اعلیٰ اللہ مقامہ) سے فیض یاب ہونے سے کسی کو انکار نہیں۔ علامہ کی آخری عمر تک اقبال نے جی بھر کر اپنی تحقیقات کو جاری رکھا اور تنہاء ملاقاتوں کے علاؤہ مواعظ میں بھی علامہ موصوف سے شبہات کے ازالے کے لیے سوالات کر دیا کرتے تھے اور علامہ کے تسلی و تشفی بخش جوابات سے مطمئن ہو جاتے تھے۔ علامہ شیخ نے دسمبر 1922ء میں انتقال فرمایا اور اس کے بعد اقبال کے جوہر دن بدن زیادہ ہی کھلتے گئے۔ شیخ نے اپنے بیانات میں مسئلہ امامت اس قدر واضح کیا کہ اقبال "اصول امامت" تسلیم کرنے کے سوا انکار نہ کرسکا اور بالآخر پکار اٹھا:-
ہنوز ایں چرخ نیلی کج خرام است
ہنوز ایں کارواں دور از مقام است
ز کار بے نظام و چہ گویم
تو می دانی کہ امت بے امام است (ارمغان حجاز)
علامہ ہروی (رح) نے حکیم مشرق کو اس قدر صبہائے محبت اہل بیت پلا دی تھی کہ اقبال نے آخرکار ان الفاظ میں اپنی عقیدت کا اظہار کیا:-
نجف میرا مدینہ ہے مدینہ ہے میرا کعبہ
میں بندہ اور کا ہوں امت شاہ ولایت ہوں
جو سمجھوں اور کچھ خاک عرب میں سونے والے کو
مجھے معذور رکھ میں مست صہبائے محبت ہوں
محبت اقبال کے دل میں عشقِ کی حد تک پہنچ گئی۔ اس کے تمام پیغام کا مرکز یہ عشق ہی ہے اور اس کے نزدیک دین بغیر عشق کے اور کچھ نہیں۔
زندگی را شرع و آئین است عشقِ
اصل تہذیب است دیں، دین است عشقِ (جاوید نامہ)
اور اس وضاحت کے لیے محمد و آل محمد (علیہم السلام) ہی کو پیش کرتا ہے۔
عشق با نان جویں خیبر کشاد
عشق در اندام مہ چا کے نہاد
اور کبھی حسنین (علیہم الصلوۃ والسلام) کو مرکز "پر کار عشق" اور "قافلہ سالار عشق" کے الفاظ سے پکارتا ہے اور یہ یورپین نظام مادیت سے پوری طرح واقفیت رکھنے کے باوجود کہتا ہے:-
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف (بال جبریل)
وہ مسلمانوں کی ابتدائی حکومتوں سے بھی نالاں رہا، جو اسلامیت کو چھوڑ کر ملوکیت پر قائم ہوگئیں۔ جیسا کہ کہا:-
خود طلسم قیصر و کسریٰ شکست
خود سر تخت ملوکیت نشست
وہ نہ صرف ملوکیت سے بیزار رہا بلکہ جمہوریت کو بھی خلاف اسلام سمجھتا رہا:-
گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کاری شود
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آئید
کاش اقبال کے شیدائی اقبال کے پیغام کو سمجھیں۔
(ماہنامہ معارف اسلام لاہور، اپریل 1961ء)