دکھی انسانیت کی مدد و نصرت کی فضیلت و اہمیت
اشاعت کی تاریخ: 21st, November 2025 GMT
دنیاوی زندگی آزمائشوں کا گھرہے۔ کبھی خوشی، غمی، آسائش اور کبھی مصیبت انسان کا مقدر بنتی ہے۔ قدرتی آفات جیسے زلزلے، طوفان، وبائیں اور سیلاب دراصل بندوں کے لیے آزمائشیں ہیں۔ ایسے وقت میں مومن کا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی خبر گیری کرے، ان کے دکھ درد کو بانٹے اور ان کی ضرورتیں پوری کرے۔ اسلام نے ایسے مواقع پر متاثرین کی مدد کو صرف انسانیت کا تقاضا نہیں بلکہ عبادت اور قربِ الٰہی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
مصیبت زدہ و دکھی انسانیت کی مدد، وقت کی ضرورت بھی ہے اور بہت بڑی عبادت بھی۔ کسی انسان کے دکھ درد کو بانٹنا حصولِ جنت کا ذریعہ ہے۔ کسی زخمی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا اﷲ کی خوش نُودی کا ذریعہ ہے۔ کسی مقروض کے ساتھ تعاون کرنا اﷲ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ کسی بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا فرض بھی ہے اور سنّت رسول کریم ﷺ بھی۔ کسی بھوکے کو کھانا کھلانا عظیم نیکی اور ایمان کی علامت ہے۔
اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے، مفہوم: ’’اور اﷲ ہی کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ، قرابت داروں، یتیموں، ناداروں، رشتے داروں، ہمسایوں، اجنبیوں ، پاس بیٹھنے والوں، مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں، سب کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ بے شک! اﷲ تکبر کرنے والے اور بڑائی کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ (سورۃ النساء)
قرآن کریم میں نیکی اور تقویٰ میں تعاون کے بارے حکم کیا گیا ہے۔
مفہوم: ’’نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔‘‘ (المائدہ)
یہ آیت عمومی حکم دیتی ہے، مگر مصیبت زدوں کی مدد اس کی اعلیٰ ترین مثال ہے، کیوں کہ یہ بھوکوں کو کھلانا، بے گھر کو چھت دینا اور مصیبت زدہ کو سہارا دینا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ کے نزدیک سب سے محبوب لوگ وہ ہیں جو دوسروں کے لیے زیادہ نفع رساں ہوں۔‘‘ (الطبرانی، المعجم الاوسط)
’’جو کسی مومن کی دنیا کی ایک مشکل آسان کرے گا اﷲ تعالیٰ قیامت کی ایک بڑی مشکل آسان فرما دے گا۔‘‘ (صحیح مسلم)
’’اﷲ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
یعنی مخلوق کی خدمت میں جنت کی ضمانت ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’جو دوسروں کی ضروریات پوری کرے گا اﷲ اس کی ضروریات پوری کرے گا۔‘‘ (البخاری)
حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاصؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
’’جو شخص اپنے کسی بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اور پانی پلائے گا اﷲ تعالیٰ اسے (دوزخ کی) آگ سے سات خندق جتنے فاصلے کی دوری پر کردے گا اور دو خندق کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔‘‘ (حاکم المستدرک)
اسلام اﷲ تعالی کا نازل کردہ اور پسندیدہ دین ہے، اس دین میں سب سے زیادہ کام یاب انسان اسے کہا گیا ہے جو اپنی دین داری کے ساتھ لوگوں کے لیے زیادہ مفید اور کارآمد ہو۔
رسول کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ساری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے، اﷲ کے نزدیک سب سے پسندیدہ بندہ وہ ہے جو اس کے عیال کے لیے سب سے زیادہ نافع ہو۔‘‘ (المعجم الکبیر )
خدمت خلق کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب آپ ﷺ پہلی وحی نازل ہونے کے بعد گھر تشریف لائے تو غم گسار شریک حیات ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا نے کیفیت کو دیکھ کر فرمایا کہ اﷲ تعالی آپؐ کو ہرگز ضایع نہیں کرے گا، کیوں کہ آپؐ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، بے سہارا لوگوں کی مدد کرتے ہیں، مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے ہیں اور آسمانی حوادث میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ (بخاری)
ان پانچوں اوصاف جن کا خصوصیت سے جناب حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے تذکرہ کیا ان سب کا تعلق خدمت خلق کے مختلف پہلوؤں سے ہے اس میں حسن سلوک بھی ہے اور بدنی و مالی تعاون بھی ہے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اسلام کا بہترین عمل کھانا کھلانا اور سلام کو رواج دینا ہے۔‘‘
(بخاری شریف کتاب الایمان)
آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’جو آسودہ ہو کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔‘‘ (المستدرک للحاکم)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ دوسرے پر ظلم کرتا ہے نہ اسے (دشمن کے) سپرد کرتا ہے۔ جو مسلمان بھائی کی ضرورت میں کام آئے گا اﷲ تعالیٰ اس کی ضرورت میں کام آئے گا۔ اور جو کسی مسلمان کے رنج اور غم کو دور کرے گا اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مصیبت کو دور کر دے گا۔ اور جو کسی مسلمان کے عیب چھپائے گا اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب کو چھپائے گا۔ (بخاری و مسلم)
حضرت ابو ہریرہؓ سے ایک فرمان مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
’’اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا، اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا، تونے میری عیادت نہ کی۔ انسان حیران ہو کر کہے گا: اے میرے رب! تو تو رب العالمین ہے، میں تیری کس طرح عیادت کرتا۔ پھر اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا، اگر تو اس کی عیادت کرتا تو اسے میرے پاس پاتا۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تونے مجھے کھانا نہ دیا۔ بندہ عرض کرے گا: اے پروردگار! تو رب العالمین ہے۔ تجھے کس طرح کھانا کھلاتا۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: کیا یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا، لیکن تونے اسے کھانا نہ کھلایا۔ اگر تو اُسے کھانا کھلاتا تو اس کا ثواب میرے یہاں پاتا۔ اسی طرح اﷲ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے پانی مانگا تو تونے مجھے پانی نہیں پلایا۔ انسان کہے گا: اے میرے رب! میں تجھے کس طرح پانی پلاتا، جب کہ تو رب العالمین ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا، مگر تونے اسے پانی نہ پلایا کیا۔ تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے پانی پلاتا تو اسے میرے پاس پاتا۔‘‘ ( مسلم شریف)
دوسروں کی مدد سے بندہ اﷲ کی رضا اور اس کے قرب کا حق دار بن جاتا ہے کہ اﷲ اس شخص کو پسند فرماتا ہے جو انسانوں کے لیے نفع بخش ہو۔ خدمت کا سب سے اہم ترین فائدہ یہ ہے کہ خادم و مخدوم کے درمیان محبت و الفت کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور باہمی قربت بڑھتی ہے۔ اس کے باعث انسان برے اخلاق اور اس کے دام فریب سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ کبر و نخوت، ظلم و دہشت، جبر و تشدد، جیسی خطرناک بیماریوں کا علاج خدمت خلق کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔ خدمت خلق کے لیے محبت و شفقت اور ہم دردی و اخلاص کے علاوہ ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
مصیبت زدہ و تکالیف میں گرے ہوؤں کی مدد و نصرت کا فائدہ یہ ہے کہ اﷲ تعالی غیب سے ان کی مدد فر ماتا ہے: ’’اور اﷲ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔ ‘‘ (صحیح ابن ماجہ للالبانی)
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’مومن دوسرے مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے کہ اس عمارت کا بعض حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کردیتا ہے۔‘‘ (ترمذی شریف)
اﷲ کے نبی ﷺ نے واضح لفظوں میں ارشاد فرمایا: ’’لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔ ‘‘ (کنزالعمال)
اﷲ پاک نعمتوں کو بانٹنے سے بڑھاتا ہے، کم نہیں کرتا تو ہمیں اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔
اسلام میں آفت زدگان کی مدد صرف فرد واحد کی ذمہ داری نہیں بلکہ پوری امت کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں جب مدینہ میں قحط پڑا تو آپ خود لوگوں میں کھانا تقسیم کرتے اور خیمے لگا کر متاثرین کی مدد کرتے۔ مصیبت کے وقت خدمتِ خلق صحابہ کرام ؓ کی بھی سنت ہے۔
مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کے عملی تقاضے یہ ہیں کہ ان کی بھرپور امداد کی جائے یعنی کپڑے، کھانے پینے کا سامان، ادویات اور مالی تعاون بھی اور نفسیاتی مدد یعنی ان کو حوصلہ دینا، غم بانٹنا اور صبر کی تلقین کرنا۔ دعا و استغفار کرنا اور اجتماعی طور پر اﷲ سے آفات کے ٹلنے کی دعا کرنا۔
ہمیں چاہیے کہ مصائب سے دوچار افراد کی مدد کو اپنا فرض سمجھیں اور ان کے دکھ درد کو بانٹیں۔ یہی حقیقی ایمان، اخوت اور انسانیت ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: گا اﷲ تعالی ﷺ نے فرمایا کی مدد کرتا فرمائے گا کرتے ہیں سے کھانا رسول اﷲ کے ساتھ سے پانی کے لیے ہے اور بھی ہے ہیں کہ کرے گا
پڑھیں:
کنجی
فلسطین میں جنگ بندی اور قیام امن کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور آٹھ رکنی عرب اسلامی گروپ جس میں پاکستان کے علاوہ سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، مصر، اردن، انڈونیشیا اور ترکیہ شامل ہیں کے درمیان چند ماہ قبل جو امن معاہدہ ہوا تھا۔ اس تناظر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ 20 نکاتی قرارداد غزہ امن منصوبے کے حوالے سے منظور کر لی گئی ہے۔
سلامتی کونسل کے 15 اراکین میں قرارداد کے حق میں 13 ووٹ آئے جب کہ چین اور روس نے بعض تحفظات کے باعث قرارداد کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ پاکستان نے قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا اور یہ موقف اختیارکیا کہ اس منصوبے کی حمایت صرف ایک بنیادی مقصد کے تحت کی گئی ہے جس میں غزہ میں خوں ریزی روکنا، خواتین و بچوں سمیت بے گناہ فلسطینیوں کی جانیں بچانا، جنگ بندی برقرار رکھنا اور غزہ سے اسرائیلی فورسز کے مکمل انخلا کو یقینی بنانا شامل ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب جناب عالم افتخار احمد کا کہنا تھا کہ قرارداد کے حق میں پاکستان کا ووٹ فلسطینیوں، عرب اور 8 رکنی عرب اسلامی گروپ کے موقف کے مطابق دیا گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مشترکہ سفارتی کوششوں کا مقصد غزہ میں جنگ کا خاتمہ، انسانی امداد تک رسائی کو یقینی بنانا، جبری بے دخلی کو روکنا اور فلسطینیوں کے حق خودارادیت اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک قابل اعتماد راستے کی حمایت کرنا تھا۔ انھوں نے بجا طور پر فلسطین کے حوالے سے پاکستان کی مستقل پالیسی کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی امن منصوبہ اس وقت قابل قبول ہوگا جب وہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک خود مختار، آزاد اور جغرافیائی طور پر مستقل فلسطینی ریاست کی تشکیل کی طرف لے جائے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
پاکستان کی اول دن سے یہی پالیسی ہے کہ جب تک جغرافیائی لحاظ سے ایک آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست جس کا دارالخلافہ القدس شریف ہو، قائم نہیں ہوگی، تنازعہ فلسطین کا کوئی حل قابل قبول نہیں ہوگا۔ سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی ٹرمپ کی 20 نکاتی قرارداد کے حوالے سے ابھی تک مکمل تفصیلات منظر عام پر نہیں آئی ہیں۔ اس لیے تمام نکات کے حوالے سے طے ہونے والے معاملات پر ابہام پایا جاتا ہے، متذکرہ قرارداد کی منظوری کے وقت دو اہم سلامتی کونسل کے رکن ممالک چین اور روس نے اگرچہ قرارداد کو ویٹو نہیں کیا تو اس کی ایک اہم وجہ جہاں پاک چین مضبوط دوستی اور روس کے ساتھ مستحکم ہوتے تعلقات تھے تو دوسری وجہ مذکورہ دونوں رکن ممالک غزہ امن منصوبے کے حوالے سے اپنے بعض تحفظات بھی رکھتے ہیں جن کا انھوں نے برملا اظہار بھی کیا۔ چین اور روس کا کہنا ہے کہ غزہ امن منصوبے میں دو ریاستی حل، غزہ کی مستقل حکمرانی اور عالمی فورس کے دائرہ کار سے متعلق ابہام پایا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ میں چینی مندوب ایلچی فوکونگ نے کھل کر اپنے اس موقف کا اظہار کرتے ہوئے بین الاقوامی فورس کے دائرہ کار اور ڈھانچے سے متعلق ابہام کا تذکرہ کیا بعینہ روس کے سفیر واسیلی نیپنزیا نے بھی استحکام فورس پر اعتراضات اٹھائے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ امن منصوبہ امریکا کی جانب سے اسرائیل میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کیے جانے والے بے لگام تجربات کے لیے پردہ نہیں بننا چاہیے۔ فلسطینیوں کی نمایندہ مزاحمتی تنظیم حماس نے بھی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ یہ فلسطینیوں کے حقوق اور مطالبات پورے نہیں کرتی اور غزہ پر ایک بین الاقوامی سرپرستی مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
غزہ امن منصوبہ پر چین، روس اور حماس کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات اور تحفظات کو یکسر صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ اسرائیل غزہ امن منصوبے کی بار بار خلاف ورزی کرتے ہوئے وقفے وقفے سے غزہ پر گولہ باری جاری رکھے ہوئے ہے۔ نیتن یاہو کی نیت میں موجود فتور اس امر کی غمازی کر رہا ہے کہ اس امریکی دباؤ پر غزہ امن معاہدے کی حمایت کی ہے لیکن وہ کسی بھی صورت غزہ سے مستقل انخلا کے لیے تیار نہیں ہے اور عالمی فورس کی حمایت سے اپنا اثر و رسوخ جاری رکھے گا۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے حالیہ امریکی دورے میں جہاں ایک کھرب ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے وہیں انھوں نے امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران واضح طور پر کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی کنجی ہے۔ انھوں نے معاہدہ ابراہیمی میں شامل ہونے کا اشارہ بھی دیا تاہم یہ واضح کر دیا کہ دو ریاستی حل کا کوئی راستہ موجود ہو۔ آنے والا وقت بتائے گا کہ عرب اسرائیل تعلقات کی کنجی سے آزاد، خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کا تالا کھلے گا یا نہیں!