فلسطین میں جنگ بندی اور قیام امن کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور آٹھ رکنی عرب اسلامی گروپ جس میں پاکستان کے علاوہ سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، مصر، اردن، انڈونیشیا اور ترکیہ شامل ہیں کے درمیان چند ماہ قبل جو امن معاہدہ ہوا تھا۔ اس تناظر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ 20 نکاتی قرارداد غزہ امن منصوبے کے حوالے سے منظور کر لی گئی ہے۔
سلامتی کونسل کے 15 اراکین میں قرارداد کے حق میں 13 ووٹ آئے جب کہ چین اور روس نے بعض تحفظات کے باعث قرارداد کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ پاکستان نے قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا اور یہ موقف اختیارکیا کہ اس منصوبے کی حمایت صرف ایک بنیادی مقصد کے تحت کی گئی ہے جس میں غزہ میں خوں ریزی روکنا، خواتین و بچوں سمیت بے گناہ فلسطینیوں کی جانیں بچانا، جنگ بندی برقرار رکھنا اور غزہ سے اسرائیلی فورسز کے مکمل انخلا کو یقینی بنانا شامل ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب جناب عالم افتخار احمد کا کہنا تھا کہ قرارداد کے حق میں پاکستان کا ووٹ فلسطینیوں، عرب اور 8 رکنی عرب اسلامی گروپ کے موقف کے مطابق دیا گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مشترکہ سفارتی کوششوں کا مقصد غزہ میں جنگ کا خاتمہ، انسانی امداد تک رسائی کو یقینی بنانا، جبری بے دخلی کو روکنا اور فلسطینیوں کے حق خودارادیت اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک قابل اعتماد راستے کی حمایت کرنا تھا۔ انھوں نے بجا طور پر فلسطین کے حوالے سے پاکستان کی مستقل پالیسی کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی امن منصوبہ اس وقت قابل قبول ہوگا جب وہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک خود مختار، آزاد اور جغرافیائی طور پر مستقل فلسطینی ریاست کی تشکیل کی طرف لے جائے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
پاکستان کی اول دن سے یہی پالیسی ہے کہ جب تک جغرافیائی لحاظ سے ایک آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست جس کا دارالخلافہ القدس شریف ہو، قائم نہیں ہوگی، تنازعہ فلسطین کا کوئی حل قابل قبول نہیں ہوگا۔ سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی ٹرمپ کی 20 نکاتی قرارداد کے حوالے سے ابھی تک مکمل تفصیلات منظر عام پر نہیں آئی ہیں۔ اس لیے تمام نکات کے حوالے سے طے ہونے والے معاملات پر ابہام پایا جاتا ہے، متذکرہ قرارداد کی منظوری کے وقت دو اہم سلامتی کونسل کے رکن ممالک چین اور روس نے اگرچہ قرارداد کو ویٹو نہیں کیا تو اس کی ایک اہم وجہ جہاں پاک چین مضبوط دوستی اور روس کے ساتھ مستحکم ہوتے تعلقات تھے تو دوسری وجہ مذکورہ دونوں رکن ممالک غزہ امن منصوبے کے حوالے سے اپنے بعض تحفظات بھی رکھتے ہیں جن کا انھوں نے برملا اظہار بھی کیا۔ چین اور روس کا کہنا ہے کہ غزہ امن منصوبے میں دو ریاستی حل، غزہ کی مستقل حکمرانی اور عالمی فورس کے دائرہ کار سے متعلق ابہام پایا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ میں چینی مندوب ایلچی فوکونگ نے کھل کر اپنے اس موقف کا اظہار کرتے ہوئے بین الاقوامی فورس کے دائرہ کار اور ڈھانچے سے متعلق ابہام کا تذکرہ کیا بعینہ روس کے سفیر واسیلی نیپنزیا نے بھی استحکام فورس پر اعتراضات اٹھائے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ امن منصوبہ امریکا کی جانب سے اسرائیل میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کیے جانے والے بے لگام تجربات کے لیے پردہ نہیں بننا چاہیے۔ فلسطینیوں کی نمایندہ مزاحمتی تنظیم حماس نے بھی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ یہ فلسطینیوں کے حقوق اور مطالبات پورے نہیں کرتی اور غزہ پر ایک بین الاقوامی سرپرستی مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
غزہ امن منصوبہ پر چین، روس اور حماس کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات اور تحفظات کو یکسر صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ اسرائیل غزہ امن منصوبے کی بار بار خلاف ورزی کرتے ہوئے وقفے وقفے سے غزہ پر گولہ باری جاری رکھے ہوئے ہے۔ نیتن یاہو کی نیت میں موجود فتور اس امر کی غمازی کر رہا ہے کہ اس امریکی دباؤ پر غزہ امن معاہدے کی حمایت کی ہے لیکن وہ کسی بھی صورت غزہ سے مستقل انخلا کے لیے تیار نہیں ہے اور عالمی فورس کی حمایت سے اپنا اثر و رسوخ جاری رکھے گا۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے حالیہ امریکی دورے میں جہاں ایک کھرب ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے وہیں انھوں نے امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران واضح طور پر کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی کنجی ہے۔ انھوں نے معاہدہ ابراہیمی میں شامل ہونے کا اشارہ بھی دیا تاہم یہ واضح کر دیا کہ دو ریاستی حل کا کوئی راستہ موجود ہو۔ آنے والا وقت بتائے گا کہ عرب اسرائیل تعلقات کی کنجی سے آزاد، خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کا تالا کھلے گا یا نہیں!
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فلسطینی ریاست سلامتی کونسل کے حوالے سے کرتے ہوئے کی حمایت انھوں نے اور روس
پڑھیں:
حماس نے سلامتی کونسل میں غزہ سے متعلق منظور قرارداد کو یکسر مسترد کردیا ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حماس نے غزہ کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظور کردہ قرارداد اور اس کے تحت بین الاقوامی فورس کی تعیناتی کے منصوبے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرارداد فلسطینی عوام کے سیاسی اور انسانی مطالبات اور حقوق کو پورا نہیں کرتی۔
غیرملکی خبر ایجنسی کے مطابق حماس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہےکہ قرارداد غزہ پر ایک بین الاقوامی سرپرستی مسلط کرتی ہے، جسے ہمارے عوام اور تمام مزاحمتی دھڑے قبول نہیں کرتے۔
حماس کے مطابق بین الاقوامی فورس کو غزہ کے اندر کارروائیوں، بالخصوص مزاحمتی دھڑوں کے غیر مسلح کرنےکا اختیار دینےکا مطلب ہےکہ یہ فورس غیر جانبدار نہیں رہےگی بلکہ قابض اسرائیل کے حق میں فریق بن جائےگی۔
بیان میں واضح کیا گیا ہےکہ اگرکوئی بین الاقوامی فورس قائم ہوتی ہے تو اسے صرف سرحدوں پر تعینات ہونا چاہیے، جنگ بندی کی نگرانی کرنی چاہیے اور مکمل طور پر اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ہونا چاہیے۔
حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے خلاف ہر طرح کی مزاحمت کو جائز سمجھتے ہیں، جس کی ضمانت بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کے تحت دی گئی ہے، ہتھیار ڈالنے کو مسترد کرتے ہیں۔
بیان میں عالمی برادری اور سلامتی کونسل سے اپیل کی گئی کہ وہ غزہ کے لیے ایسے فیصلے اپنائیں جو غزہ پر وحشیانہ نسل کش جنگ کے خاتمے، تعمیر نو، اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور فلسطینی عوام کو خودمختاری حاصل کرنے اور آزاد ریاست کے قیام کے لیے جو القدس کو اس کا دارالحکومت بنائے کے ذریعے انصاف فراہم کریں۔