گستاخان رسول کے حقوق کی جنگ ؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
(گزشتہ سےپیوستہ)
اب سوال یہ ہےکہ بفرض محال اگر یہ درست ہے کہ مذکورہ مجرمان کو ٹریپ کرکے ان سے بلاسفیمی جیسے سنگین جرم کاارتکاب کروایاگیاہے،تو کیا محض اس بنیاد پر مذکورہ مجرمان کوکوئی ریلیف دیاجاسکتا ہے؟؟؟کیا محض اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مذکورہ مجرمان کے خلاف بلاسفیمی سے متعلقہ قوانین کو حرکت میں لانا غلط ہے؟ قانون کی روشنی میں مذکورہ دونوں سوالات کاجواب نفی میں ہے۔اس لئے کہ کسی بھی مجرم کے حق میں یہ دلیل نہیں مانی جاسکتی کہ اس نے کسی بھی جرم کا ارتکاب اپنی مرضی سے نہیں بلکہ ٹریپ ہو کر کیا ہے۔اگر مجرمان کےحق میں اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو پھر کسی دہشت گرد کو کوئی سزا نہیں ہونی چاہیے۔اس لئے کہ یہ تو ریاست بھی مانتی ہے کہ ٹی ٹی پی جیسی شدت پسند تنظیمیں نوجوانوں کو ٹریپ کرکے/ان کی ذہن سازی کرکے انہیں دہشت گرد بناتی ہیں۔مگر آج تک کسی بھی دہشت گرد کو اس دلیل کی بنیاد پر کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔اگر مجرمان کے حق میں اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو پھر حال ہی میں سانحہ نو مئی میں ملوث مجرمان کو ملٹری کورٹس نے کیوں سزائیں سنائی ہیں؟ جبکہ آئی ایس پی آر نے بھی ایک بار نہیں،بارہا اپنی پریس ریلیز میں واضح طور پر یہ کہا کہ جن مجرمان کو سزائیں سنائی گئی ہیں،ان کی ایک سیاسی جماعت یا ایک سیاسی جماعت کے لیڈر نے ایسی ذہن سازی کی تھی کہ جس کی وجہ سے انہوں نے نو مئی کو جرائم کا ارتکاب کیا۔اس جیسی اور کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ ان مثالوں سے معلوم ہوا کہ یہ دلیل مجرمان کے حق میں ایک احمقانہ دلیل ہے،جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ مزید یہ کہ کمیشن جن مجرمان کےحق میں اپنی رپورٹ میں یہ کہہ کر انہیں تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ انہیں ٹریپ کیا گیا،وہ مجرمان کوئی دودھ پیتے بچے نہیں ہیں۔ وہ تمام مجرمان قانون کے مطابق عاقل،بالغ ہیں۔وہ شعور رکھتے ہیں کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا۔ان مجرمان نے کسی معمولی جرم کا ارتکاب نہیں کیا کہ انہیں اس جیسی احمقانہ دلیلیں دیکر تحفظ فراہم کرنےکی گھنائونی کوشش کرکےکروڑوں پاکستانی مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیلا جائے۔ان تمام مجرمان نے بلاسفیمی جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے۔بلاسفیمی بھی ایسی کہ جس کی مثال گزشتہ ساڑھے چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔اس قدر سنگین،غلیظ بلاسفیمی۔نقل کفر،کفر نہ باشد۔یعنی فقہی اصول ہے کہ کسی شخص کے کفر کو بیان کرنا کفر نہیں ہے۔اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے لرزتے بدن کے ساتھ اللہ تعالی کے حضور توبہ و استغفار کرتے ہوئے ان مجرمان کے جرائم کی نوعیت مختصرا ًبیان کرنے پر درخواست گزارمجبورہےکہ جن کو تحفظ فراہم کرنے کےلئے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان نے اپنے قانونی مینڈیٹ سے تجاوز کرتے ہوئے غیر آئینی و غیر قانونی رپورٹ مرتب کی۔
درخواست گزار کے پاس مزید الفاظ نہیں کہ ان کے جرائم کی مزید سنگینی کو بیان کر سکےلہٰذا یہ کہنا کہ ان مجرمان کو ٹریپ کرکے ان سے مذکورہ سنگین جرائم کا ارتکاب کروایا گیا ہے،انتہائی غیرمناسب اور احمقانہ بات ہے۔پھر بھی بفرض محال اگر کسی ایک مقدمے میں بھی ایسے کوئی شواہدموجود ہوں کہ کسی مجرم کو مذکورہ جرم کے ارتکاب پر اکسایا گیا یا کسی کو ٹریپ کرکے یا بلیک میل کرکے مذکورہ جرم کا ارتکاب کروایا گیا تو اس صورت میں بھی ایسے مجرم کو تو پھر بھی قانون کے مطابق کوئی ریلیف نہیں دیا جاسکتا،ہاں اتنا کیا جاسکتا ہے اور ایسا کیاجانا بھی چاہیے کہ ایسے شخص کےخلاف بھی قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے،جس کسی نے کرنے پر اکسایا یا اسے ٹریپ کیا یا اسے بلیک میل کیا۔
تیسری گزارش یہ ہے کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کا اپنی رپورٹ میں یہ کہنا کہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے افسران و اہلکاران پرائیویٹ لوگوں کے ملی بھگت سے کام کررہے ہیں،ایک بہتان کے علاوہ کچھ نہیں۔حقائق یہ ہیں کہ2016 ء کے آخر میں جب سوشل میڈیا پر مذکورہ بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کا آغاز ہوا تو اس وقت بھی قانون کےمطابق درخواست گزار نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ سے رجوع کیا تھا کہ مذکورہ بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث مجرمان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے اپنی قانونی ذمہ داری پوری کرنےسے گریز کیا،جس کے بعد مجبوراً درخواست گزار کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنا پڑا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائرکی گئی رٹ پٹیشن نمبر 739/2017 بعنوان سلمان شاہد بنام وفاق پاکستان وغیرہ پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ 2017 PLD Islamabad 218 کی وجہ سے ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ اور پی ٹی اے پہلی دفعہ مجبور ہوا تھا کہ وہ مذکورہ جرائم میں ملوث مجرمان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ اور پی ٹی اے کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے مذکورہ فیصلے کی روشنی میں قانونی کارروائی کی وجہ سے سوشل میڈیا پرگستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کا سدباب ہو گیا تھا تاہم 2020ء سےسوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں اور شعائر اسلام کی توہین پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کا ایک دفعہ پھر آغاز ہوا۔پھر درخواست گزار کی جانب سے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ اور پی ٹی اے سے رجوع کیا گیا۔نہ تو ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے اپنی قانونی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے مذکورہ گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث مجرمان کا سراغ لگا کر ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی اور نہ ہی پی ٹی اے نے سوشل میڈیا پر موجود گستاخانہ مواد کو ہٹانے اور اسے اپلوڈ ہونے سے روکنے کے متعلق اپنی قانونی ذمہ داری پوری کی۔مجبورا ایک دفعہ پھردرخواست گزار کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن نمبر 1922/2021 دائر کرنی پڑی۔
مذکورہ رٹ پٹیشن پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے سخت احکامات کے بعدایک دفعہ پھر ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ اور پی ٹی اے سوشل میڈیا پر جاری گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث مجرمان کے خلاف جون 2021ء میں متحرک ہوا۔مذکورہ رٹ پٹیشن تاحال اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرالتوا ہے۔اسی دوران لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں بھی اسی نوعیت کی ایک رٹ پٹیشن نمبر 2336/2022 دائر کی گئی۔مذکورہ رٹ پٹیشن بھی تاحال لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں زیر التوا ہے۔اس کے علاوہ بھی متعدد پٹیشنز پر اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے،احکامات موجود ہیں کہ جن پر عملدرآمد کرنا ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ سمیت تمام حکومتی اداروں پر لازم ہے۔
تلخ حقیقت ہے کہ ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ ہو یا پی ٹی اے۔مذکورہ دونوں ادارے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے خلاف خوش دلی سے اپنی قانونی ذمہ داری ادا نہیں کررہےبلکہ وہ صرف اس وجہ سے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث مجرمان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے پر مجبور ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کے احکامات ان کے سر پرہیں۔درخواست گزار سمیت عوام پاکستان مذکورہ معاملے میں اعلی عدلیہ کے کردارکو لائق تحسین سمجھتے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ نے مذکورہ معاملے کی حساسیت کو سمجھا اور قانون کے مطابق فیصلے،احکامات صادر کرکے حکومتی اداروں کو مجبور کر دیا کہ وہ مذکورہ بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم اور اس میں ملوث مجرمان کے خلاف قانون کوحرکت میں لائیں۔لہذا یہ تاثر قائم کرنا بالکل غلط ہے کہ ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ کسی کی ملی بھگت سے کام کررہا ہےبلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ سوشل میڈیا پر جاری مذکورہ بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث مجرمان کےخلاف اعلی عدلیہ کے فیصلوں، احکامات کی وجہ سےقانون کے مطابق کارروائی کرنے پر مجبور ہے۔
مذکورہ بالاتمام حقائق و واقعات سےیہ ثابت ہوتا ہے کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی مذکورہ رپورٹ نہ صرف یہ کہ آئین و قانون کے خلاف ہے،بلکہ مذکورہ رپورٹ مرتب کرکے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان نے اپنے قانونی مینڈیٹ سے تجاوز کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث تقریبا پانچ سو زیر حراست مجرمان کے خلاف ٹرائل کورٹس میں زیر سماعت مقدمات پر مذکورہ مجرمان کے حق میں اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی جانب سے مرتب کردہ مذکورہ رپورٹ کمیشن کی چیئرپرسن سمیت تمام ممبران کی اہلیت پر بھی سنگین سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ مذکورہ بالا حقائق و واقعات کی روشنی میں استدعا ہے کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی جانب سے بلاسفیمی مقدمات کے متعلق مرتب کردہ تحقیقاتی رپورٹ 2024ء پر نظر ثانی کرتے ہوئےاسےبلاتاخیر کالعدم قرار دیا جائے۔یہی قرین انصاف ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ قانون کے مطابق کارروائی اپنی قانونی ذمہ داری اسلام آباد ہائیکورٹ ان کے خلاف قانون مذکورہ مجرمان سوشل میڈیا پر درخواست گزار کارروائی کی کی جانب سے کرتے ہوئے کہ مذکورہ مجرمان کو کے حق میں کی وجہ سے کرکے ان ہیں کہ
پڑھیں:
قلم اُٹھایئے اور شعور پھیلایئے
اسلام ٹائمز: قلم فقط ماضی کا نوحہ لکھنے کیلئے نہیں، بلکہ مستقبل کے خواب سنوارنے کیلئے ہوتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے جھوٹے پروپیگنڈے سے محفوظ رہیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم علم و فہم کے آسمان پر پرواز کرے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ سچائی کا چراغ پھر سے روشن ہو تو ہمیں آج ہی قلم اٹھانا ہوگا، البتہ عزم، اخلاص اور شعور کے ساتھ۔ ضروری ہے کہ ہمارے دانشمندان قلم کی طاقت کے ذریعے وقت کے سب سے بڑے فتنے یعنی ان خائن اور مفاد پرست سیاست دانوں کو بے نقاب کریں، جنہوں نے اپنی ذاتی خواہشات، مفادات اور اقتدار کی ہوس کے بدلے وطن عزيز پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر دیں ہیں۔ تحریر: محمد حسن جمالی
علم بادشاہ ہے، جس قوم کے پاس علم ہو، وہی دوسروں پر حکمرانی کرسکتی ہے۔رہبر معظم کے مطابق علم تمدن کی بنیاد ہے۔ تحقیق، سیاسی، عسکری، تہذیب و ثقافت اور اقتصادی میدان میں قوموں کو استقلال اور اقتدار فراہم کرتی ہے۔ علم کے حصول کا اہم ذریعہ قلم ہے۔ قلم انسان کی وہ طاقت ہے، جس سے افکار تشکیل پاتے ہیں، تہذیبیں پروان چڑھتی ہیں۔ انقلابات جنم لیتے ہیں اور تاریخ کے دھارے بدل جاتے ہیں۔ یہ صرف روشنائی سے بھرا چند گرام وزنی آلہ نہیں بلکہ انسان کے ضمیر، احساس، تجربے اور مشاہدے کا نچوڑ صفحۂ قرطاس پر نمودار کرنے کا اہم وسیلہ ہے۔ جو قومیں اپنے قلم کو سچائی، عدل اور شعور کی خدمت میں لگاتی ہیں، وہ کبھی فکری غلامی کا شکار نہیں ہوتیں، جبکہ وہ قومیں جو قلم کو نظرانداز کر دیتی ہیں یا اسے صرف مفاد، جھوٹ اور سنسنی پھیلانے کا ذریعہ بنا دیتی ہیں، وہ اپنی نسلوں کو تاریکی کے سپرد کر دیتی ہیں۔
آج کے اس پیچیدہ اور متلاطم دور میں ایک طرف سچ دبایا جا رہا ہے اور جھوٹ کو خوبصورت بیانیہ دے کر پھیلایا جا رہا ہے۔ ایسے میں خاموش رہ جانا سب سے بڑی خیانت ہے۔ خاموشی، ظلم کی تائید ہے، لاعلمی کے تسلسل کو جاری رکھنے کی اجازت ہے اور جھوٹے نظریات کو رواج دینے کا راستہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ اگر ہم نے سوچنے، سمجھنے اور لکھنے کا عمل ترک کر دیا تو ہم صرف ایک بے حس ہجوم بن کر رہ جائیں گے، جسے کسی بھی سمت ہانکا جا سکتا ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ہر وہ فرد جس کے اندر احساس کی رمق باقی ہے اور جو معاشرے کی بدحالی پر تڑپتا ہے، وہ خاموش تماشائی بنا رہنے کے بجائے قلم اٹھائے اور شعور کی شمع روشن کرے۔ قلم کا اصل مقصد صرف آنکھیں بند کرکے کاغذ کے صفحات بھرنا نہیں، بلکہ انسانوں کے اندر وہ سوال پیدا کرنا ہے، جو انہیں سچ تک لے جائے۔
جب ہم کسی مظلوم کی داستان لکھتے ہیں، کسی ناانصافی کی نشاندہی کرتے ہیں اور کسی گمراہی کو بے نقاب کرتے ہیں تو ہم درحقیقت سچائی کی جانب ایک راستہ کھولتے ہیں اور یہی وہ پہلی اینٹ ہے، جو معاشرے کی اصلاح کے لیے درکار ہوتی ہے۔ یاد رکھیں! اگر آپ کا ایک جملہ کسی نوجوان کے دل میں بیداری پیدا کر دے، اگر آپ کا ایک مضمون کسی فرد کو سوچنے پر مجبور کر دے تو یہ فقط تحریر نہیں بلکہ تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ آج ہمیں سوشل میڈیا کی سطحی تحریروں، جھوٹے تجزیوں اور فکری بدنظمی کے طوفان کا سامنا ہے۔ یہاں ہر کوئی لکھ رہا ہے، مگر کم ہی لوگ ایسے ہیں، جو ذمہ داری سے لکھتے ہیں۔ ہمیں ایسے افراد کی ضرورت ہے، جو مسائل پر سوچیں، انہیں پرکھیں، ان پر تحقیق کریں اور پھر لکھیں۔ ایسا لکھیں، جو وقتی واہ واہ کے لیے نہیں، بلکہ قوم کی دیرپا بیداری کے لیے ہو۔
ہمیں ایسے قلم کار درکار ہیں، جو قوم کے ذہنوں سے تعصب، جہالت اور غفلت کی گرد جھاڑ سکیں، جو سچ کے راستے پر سوالات کے چراغ روشن کریں، جو ظالم کو ظالم لکھنے کی جرأت رکھیں اور مظلوم کے حق میں آواز بلند کرسکیں۔ قلم کا مطلب ہے ذمہ داری اور شعور۔ ایک باشعور قلم کار وہ ہوتا ہے، جو اپنے ہر لفظ کو تولتا ہے، جو صرف لکھنے کے لیے نہیں لکھتا، بلکہ انسانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے لکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا ایک جملہ کسی کے دل کا رُخ بدل سکتا ہے، کسی کی سوچ کی بنیاد ہلا سکتا ہے اور کسی کو عمل پر آمادہ کرسکتا ہے۔ لہٰذا، ہمیں چاہیئے کہ ہم بھی اس کارواں کا حصہ بنیں، ہم بھی لکھیں، ہم بھی سوچیں اور ہم بھی شعور بانٹیں۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھیں کہ سوچنے اور لکھنے کے عمل کو زندہ رکھنا خود انسانیت کی بقا ہے۔ اگر آج ہم نے شعور کی شمع اپنے قلم سے نہ جلائی تو کل اندھیروں کا گلہ کرنا بے معنی ہوگا۔ ہمیں اپنے قلم کو تلوار سے زیادہ مؤثر ہتھیار بنانا ہوگا۔ ایک ایسا ہتھیار جو خون نہیں سوچ نکالے؛ جو چیخ نہیں دلیل دے؛ جو نفرت نہیں فہم بانٹے۔
قلم فقط ماضی کا نوحہ لکھنے کے لیے نہیں، بلکہ مستقبل کے خواب سنوارنے کے لیے ہوتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے جھوٹے پروپیگنڈے سے محفوظ رہیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم علم و فہم کے آسمان پر پرواز کرے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ سچائی کا چراغ پھر سے روشن ہو تو ہمیں آج ہی قلم اٹھانا ہوگا، البتہ عزم، اخلاص اور شعور کے ساتھ۔ ضروری ہے کہ ہمارے دانشمندان قلم کی طاقت کے ذریعے وقت کے سب سے بڑے فتنے یعنی ان خائن اور مفاد پرست سیاست دانوں کو بے نقاب کریں، جنہوں نے اپنی ذاتی خواہشات، مفادات اور اقتدار کی ہوس کے بدلے وطن عزيز پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر دیں ہیں۔ وہ سیاست دان جنہیں قوم نے امانت دار سمجھ کر ووٹ دیا، جنہیں رہنماء جان کر سروں پر بٹھایا، جن کے وعدوں پر بھروسہ کیا، جن کی باتوں میں امید کے دیئے تلاش کیے گئے، مگر بدلے میں انہوں نے عوام کے اعتماد کو بیچ کر اپنے محل تعمیر کیے، غریب کے منہ سے نوالہ چھین کر اپنے بچوں کے بینک بیلنس بڑھائے اور پاکستان کی قسمت کو اپنی سیاست کی شطرنج پر قربان کر دیا۔
یہ وہی سیاست دان ہیں، جو ہر الیکشن میں نئے نعرے، نئی جھوٹی قسمیں اور نئے خواب لے کر عوام کے سامنے آتے ہیں اور جب اقتدار میں آجاتے ہیں تو ان کا ہر عمل اس ملک کی روح پر زخم بن کر لگتا ہے۔ ان کی زبان پر اسلام، جمہوریت، خدمت، اصول اور انصاف جیسے الفاظ ہوتے ہیں، مگر جب عمل کا وقت آتا ہے تو وہ صرف لوٹ مار، اقربا پروری، کرپشن، جھوٹ، بددیانتی، نااہلی اور بیرونی آقاؤں کی تابعداری کے سوا کچھ نہیں دکھاتے۔ وہ قومی اداروں کو کمزور کرتے ہیں، عدلیہ کو دباؤ میں رکھتے ہیں، میڈیا کو خریدتے ہیں اور ہر اس آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو ان کی اصلیت بے نقاب کرے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ان چہروں کو بار بار موقع دیا گیا، کیونکہ انہوں نے جھوٹ کو اس مہارت سے سچ کا لبادہ پہنایا کہ سادہ دل عوام پھر ان کے دام فریب میں آگئے۔
اگر آج ان کے جھوٹ کو قلم کی روشنی سے چیر کر بے نقاب نہ کیا گیا، اگر ان کی سازشوں، منافقتوں اور بدنیتیوں کو الفاظ کی تلوار سے کاٹا نہ گیا تو آنے والی نسلیں بھی انہی خالی نعروں اور جعلی تاریخوں کو رہنمائی سمجھتی رہیں گی۔ ان کے بچوں کی قسمت بھی انہی جعلی رہنماؤں کے ہاتھوں لکھی جائے گی اور قوم ایک بار پھر اسی اندھیرے میں بھٹکتی رہے گی، جس سے نکلنے کے لیے آج کا شعور پکار رہا ہے۔ یہ سیاست دان صرف مالی کرپشن تک محدود نہیں۔ ان کی سب سے بڑی خیانت فکری کرپشن ہے۔ انہوں نے قوم کو تقسیم کیا، فرقہ واریت کو ہوا دی، علاقائیت کو بڑھایا، قومیت کے نام پر نفرتیں بوئیں اور تعلیمی نظام کو ایسا بگاڑا کہ سوچنے والے ذہن پیدا ہی نہ ہوں۔ انہوں نے نوجوانوں کے ذہنوں میں الجھن، مایوسی اور غصہ بھرا، تاکہ کوئی شعور کی بات نہ کرسکے، کوئی سوال نہ اٹھا سکے اور کوئی ان کے مفادات کو چیلنج نہ کرسکے۔
وہ چاہتے ہیں کہ عوام صرف جذباتی رہے، تاکہ وہ جھوٹ بول کر ووٹ لے سکیں اور پھر اقتدار میں آکر ملک کو اپنے خاندانی کاروبار کی طرح چلا سکیں۔ لہٰذا یہ اب صرف ایک اخلاقی فرض نہیں رہا بلکہ ایک قومی فریضہ بن چکا ہے کہ اہلِ قلم ان فتنہ گر سیاست دانوں کی چمکتی ہوئی مگر اندر سے سڑتی ہوئی حقیقت کو بے نقاب کریں۔ ان کے وہ چہرے دکھائیں، جو میڈیا پر خوشنما پردوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ ان کے وہ بیانیے توڑیں، جو قوم کے شعور کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں، کیونکہ اگر ہم نے یہ کام نہ کیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ قلم صرف حسن کی تعریف کے لیے نہیں، بدصورتی کو بے نقاب کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے اور اس وقت سب سے بدصورت شے، سب سے مکروہ سازش اور سب سے خطرناک دھوکہ یہی مکار سیاست دان ہیں، جو جمہوریت کے پردے میں آمریت کے زہر سے قوم کو برباد کر رہے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ کسی قوم میں برپا ہونے والا حقیقی انقلاب صرف احتجاج یا اقتدار کی تبدیلی سے نہیں آتا، بلکہ اس کے پیچھے قلم کی طاقت کارفرما ہوتی ہے۔ انقلابِ اسلامی ایران اسی ابدی حقیقت کا ایک درخشاں اور زندہ ثبوت ہے۔ یہ فقط ایک سیاسی تحریک یا اقتدار کی منتقلی نہیں تھی، بلکہ ایک فکری بیداری، تہذیبی احیاء اور نظریاتی تجدید کا نام تھا۔ اس انقلاب کے پس پردہ جو اصل طاقت کارفرما تھی، وہ عوامی جذبات یا وقتی جوش و خروش نہیں، بلکہ وہ تحریریں اور افکار تھے، جو ذہنوں کو جھنجھوڑتے، دلوں کو جگاتے اور ضمیر کو بیدار کرتے تھے۔ ان تحریروں میں سب سے روشن اور مؤثر نام ہے شہید مرتضیٰ مطہری کا۔ شہید مطہری صرف ایک مذہبی عالم نہیں تھے بلکہ وہ فکر کے معمار، عقل و شعور کے مبلغ اور جدید اسلامی فکر کے عظیم معلم تھے۔ ان کے قلم نے نہ صرف مغرب کے فکری حملوں کا مدلل جواب دیا ہے، بلکہ مشرق کی خوابیدہ امت کے لیے بیداری بھی فراہم کی ہے۔
انہوں نے نوجوان نسل کو یہ سمجھایا کہ دین صرف رسوم و رواج یا ماضی کے قصے سنانے کا نام نہیں، بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے، جو انسان کو مقصد، بصیرت اور مزاحمت کی جرأت عطا کرتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ انقلاب سے پہلے فکری زمین تیار کرنا لازم ہے اور یہ زمین قلم کے ذریعے ہی زرخیز ہوتی ہے۔ جب انسان سوچتا ہے، سوال کرتا ہے، تحقیق کرتا ہے اور سچ کی تلاش میں نکلتا ہے، تبھی تبدیلی کے لیے تیار ہوتا ہے۔ شہید مطہری نے اسلامی تعلیمات کو صرف مساجد اور مدرسوں کی چار دیواری تک محدود نہیں رکھا، بلکہ فلسفہ، معاشرت، تاریخ اور انسانی افکار کے وسیع میدانوں میں اسلام کی روشنی پھیلائی۔ ان کا ہر جملہ ایک فکری مشعل اور ہر کتاب ایک نظریاتی قلعہ تھی۔ اسلامی انقلاب پوری امت مسلمہ کے لیے ایک نمونہ ہے۔ یہ اس زندہ حقیقت کا اعلان ہے کہ اگر قلم بیدار ہو جائے تو غلامی کی زنجیریں ٹوٹ سکتی ہیں، اگر فکر آزاد ہو جائے تو ایوانِ ظلم لرز سکتے ہیں اور اگر فکری انقلاب برپا ہو جائے تو تاریخ کے رخ موڑے جا سکتے ہیں۔
آج جب ہم اپنی ملت کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں تبدیلی کے نعرے تو موجود ہیں، مگر ان کے پیچھے وہ گہرائی، وہ فکری بنیاد اور وہ اخلاقی جرأت ناپید ہے، جو قلم کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی۔ ہمیں شہید مطہری جیسے اہلِ قلم کی ضرورت ہے، جو صرف لکھنے کے لیے نہ لکھیں، بلکہ زندگیاں بدلنے کے لیے لکھیں؛ جو نوجوان نسل میں وہ سوالات پیدا کریں، جو انہیں اندھی تقلید سے نکال کر تحقیق، تفکر اور تعمیری مزاحمت کی طرف لے جائیں۔ ہمیں ایسے قلم کار درکار ہیں، جو جھوٹ کا نقاب چاک کریں، جو سچ کو دلیل کے ساتھ پیش کریں، جو صرف تنقید نہیں بلکہ تعمیر کی بات کریں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے قلم کو وہ طاقتور ہتھیار بنائیں، جو بے ضمیری کی دیواروں کو توڑ دے اور شعور کی روشنی کو ہر دل تک پہنچا دے۔ آیئے قلم اٹھایئے اور شعور پھیلایئے۔