کیا کینیڈا امریکا کی 51ویں ریاست بن سکتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کینیڈا کو امریکی ریاست بننے کی پیشکش نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ لیکن کیا کینیڈا کبھی امریکا کی ریاست بن سکتا ہے؟
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق کینیڈا کو امریکا کی ریاست بننے سے پہلے تمام انتظامی اکائیوں کو علیحدہ کرنا پڑے گا۔ یعنی دوسرے الفاظ میں کینیڈا کو تقسیم کرنا پڑے گا اور یہ تحلیل ہونے کے بعد ہی ایسا کوئی قدم اٹھایا جاسکتا ہے۔
کینیڈا کو بحیثیت ریاست ختم کرنے کے لیے آئین میں ایک ترمیم کرنا ہوگی جس کے لیے ’ہاؤس آف کامنز‘، سینیٹ اور کینیڈا کے تمام صوبوں کی منظوری درکار ہوگی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کینیڈا کے دونوں ایوانوں اور صوبوں کا کینیڈا کی تقسیم کے کسی فیصلے پر اتفاق بہت زیادہ مشکل ہے۔ بالفرض اگر ایوان اور صوبے کسی ایسے فیصلے پر متفق ہو بھی ہوگئے تو پھر ایک مسئلہ کینیڈا کی اصل مقامی کمیونیٹیز کی رضامندی کا بھی ہے جنہیں ’انڈیجینیئس‘ کی حیثیت حاصل ہے۔
یہ بھی پڑھیے:امریکا کی ریاست بن جائیں، ٹیرف ختم کردیں گے، ٹرمپ کی کینیڈا کو پیشکش
ایسے میں کینیڈا کو امریکا کا حصہ بنانے کا واحد راستہ فوجی مداخلت اور حملے کا رہ جاتا ہے۔ تاہم اس امکان کو خود ڈونلڈ ٹرمپ نے مسترد کردیا ہے۔ انہوں نے فوجی حملے کے بجائے معاشی طاقت استعمال کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
ان سب کے علاوہ ایک اہم رکاوٹ خود امریکی عوام کی رائے بھی ہوگی۔ کینیڈا کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کو سینیٹ میں دوتہائی ممران کا ووٹ چاہیے ہوگا۔ یہ اکثریت ٹرمپ کے پاس نہیں ہے۔
اس لیے سیاسی ماہرین کی رائے ہے کہ فی الحال کینیڈا کا امریکی ریاست بننے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ موقف محض ایک سیاسی بیان ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
America ATTACK Canada TRUMP US VOTING امریکا ٹرمپ کینیڈا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کی کی ریاست کے لیے
پڑھیں:
صدر ٹرمپ کا چین پر ٹیرف میں کمی کا عندیہ، امریکی ریاستوں کا عدالت سے رجوع
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین پر عائد کردہ اپنے انتہائی مہنگے ٹیرف کو کم کرنے کے ارادے کا اعادہ کرتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ کسی بھی ریلیف کی ٹائم لائن بیجنگ پر منحصر ہوگی۔
دوسری جانب ریاست ایریزونا، کولوراڈو، کنیکٹی کٹ، الینوائے اور نیویارک سمیت 12 امریکی ریاستوں کے ایک گروپ نے امریکی کانگریس کی منظوری کے بغیر ٹیرف لگانے کے صدر ٹرمپ کے اختیار کو چیلنج کرتے ہوئے ایک مقدمہ دائر کیا ہے۔
بدھ کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ وہ اگلے چند ہفتوں میں چین سمیت امریکی تجارتی شراکت داروں پر ٹیرف کی نئی شرحوں کا اعلان کر سکتے ہیں، یہ دوسرے ممالک کے ساتھ امریکی انتظامیہ کے مذاکرات کے نتائج پر منحصر ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
صدر ٹرمپ سے جب پوچھا گیا کہ وہ کتنی جلدی 145 فیصد ٹیرف کو کم کر سکتے ہیں جو انہوں نے زیادہ تر چینی اشیا پر عائد کیا ہے، تو انہوں نے کہا کہ یہ ان پر منحصر ہے، ہمارے پاس ایک ایسی صورتحال ہے, جہاں ہمارے پاس ایک بہت اچھی جگہ ہے، جسے امریکا کہا جاتا ہے اور جسے برسہا برس سے لوٹا گیا ہے۔
’آخر میں، میرے خیال میں جو کچھ ہونے والا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس بہت اچھی ڈیلز ہوں گی، اور ویسے اگر ہمارا کسی کمپنی یا ملک کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہے، تو ہم ان کے ساتھ ٹیرف طے کرنے جا رہے ہیں۔‘
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ’بہت اچھی طرح‘ رہے ہیں، اور وہ امید کرتے ہیں کہ فریقین ایک معاہدے تک پہنچیں گے۔’ورنہ، ہم قیمت مقرر کریں گے۔‘
مزید پڑھیں:
کیا امریکی انتظامیہ چین کے ساتھ ’فعال طریقے سے‘ بات کر رہی ہے، صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ سب کچھ فعال ہے، ہر کوئی اس کا حصہ بننا چاہتا ہے جو ہم کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے تبصرے اس وقت سامنے آئے جب وال اسٹریٹ میں اس امید پر دوسرے دن کاروبار مثبت رہا کہ واشنگٹن اور بیجنگ تناؤ کو کم کریں گے جو دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان ایک موثر تجارتی پابندی کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
بینچ مارک ایس اینڈ پی 500 گزشتہ روز 1.67 فیصد زائد پر بند ہوا، جب کہ ٹیک ہیوی نیس ڈیک کمپوزٹ 2.50 فیصد بڑھ گیا، جس نے گزشتہ روز امریکی سیکریٹری خزانہ اسکاٹ بیسنٹ کے تبصروں سے حوصلہ پکڑا کہ چین کے ساتھ تجارت ’غیر پائیدار‘ تھی۔
مزید پڑھیں:
بدھ کے روز، وال اسٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے چینی سامان پر 50 سے 60 فیصد تک ٹیرف کم کرنے پر غور کر رہی ہے۔
میڈیا رپورٹ میں اس معاملے سے واقف لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ ڈیوٹی میں نرمی کے لیے کئی آپشنز پر غور کر رہے ہیں لیکن توقع کریں گے کہ بیجنگ اس کے بدلے میں امریکی اشیا پر 125 ٹیرف کم کرے گا۔
منگل کو، صدر ٹرمپ نے عوامی طور پر تسلیم کیا کہ چین پر ان کا 145 فیصد ٹیرف ’بہت زیادہ‘ ہے اور کسی وقت یہ شرح کافی حد تک نیچے آئے گی۔
مزید پڑھیں:
چین نے کہا ہے کہ وہ محصولات جیسے تحفظ پسندانہ اقدامات کی مخالفت کرتا ہے، لیکن اگر امریکا اپنے تجارتی تحفظات کو بڑھانے کا خواہاں ہے تو وہ ’آخر تک لڑنے‘ کے لیے تیار ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گو جیاکن نے بدھ کے روز باقاعدہ میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ ہم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ چین جنگ نہیں چاہتا لیکن ہم اس سے خوفزدہ بھی نہیں ہیں۔
’اگر امریکا بات کرنا چاہتا ہے تو ہمارے دروازے کھلے ہیں، اگر امریکا واقعی بات چیت سے حل چاہتا ہے تو اسے چین کو دھمکیاں دینا اور بلیک میل کرنا بند کردینا چاہیے اور برابری، احترام اور باہمی فائدے کی بنیاد پر بات چیت کرنی چاہیے۔‘
امریکا چین تجارتی جنگ نے عالمی اقتصادی سست روی کا خدشہ بڑھا دیا ہے، اس ہفتے کے شروع میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے اپنی 2025 کی شرح نمو کی پیش گوئی کو 3.3 فیصد سے کم کر کے 2.8 فیصد کر دیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسکاٹ بیسنٹ امریکا امریکی صدر بیجنگ تجارتی جنگ ٹیرف چین ڈونلڈ ٹرمپ سیکریٹری خزانہ شرح نمو واشنگٹن وال اسٹریٹ