UrduPoint:
2025-06-09@19:38:13 GMT

بھارت کا کمبھ میلہ: دنیا کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

بھارت کا کمبھ میلہ: دنیا کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 جنوری 2025ء) پورے بھارت اور دنیا کے دیگر حصوں سے عقیدت مند اس میلے میں شرکت کے لیے پہنچ رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے عقیدت مند مذہبی جلوسوں کے ساتھ ساتھ ہاتھیوں، گھوڑوں اور رتھوں پر سوار ہو کر آئیں گے اور مختلف رسومات انجام دیں گے۔

یہ مذہبی میلہ ہر بارہ سال بعد شمالی بھارتی ریاست اتر پردیش کے پریاگ راج میں دریائے گنگا کے کنارے لگتا ہے۔

اس سال کمبھ میلہ 13 جنوری سے 26 فروری تک جاری رہے گا۔

کمبھ کے تاریخی میلے میں مسلمانوں کی شرکت پر پابندی

پریاگ راج، الہ آباد کا پرانا نام ہے، جسے ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی قیادت والی حکومت نے تبدیل کر دیا تھا۔

منتظمین کا کہنا ہے کہ کمبھ میلے کے لیے جس بڑے پیمانے پر تیاریاں کی گئی ہیں، وہ کسی ملک کو کھڑا کرنے کے مترادف ہے۔

(جاری ہے)

وسیع پیمانے پر تیاریاں

اس میلے میں ہزاروں کمیونٹی کچن بنائے گئے ہیں،جن میں سے ہر ایک میں ایک وقت میں 50 ہزار افراد کو کھانا کھلایا جا سکتا ہے جب کہ تقریباً ایک لاکھ 50 ہزار بیت الخلا بھی بنائے گئے ہیں۔

پریاگ میں پچھلا میلہ 'اردھ‘ یا آدھا کمبھ میلہ،2019 میں منعقد ہوا تھا جس میں حکومت کے مطابق 240 ملین یاتریوں نے شرکت کی تھی۔

کمبھ میلہ: کئی ملین ہندو زائرین کا تین دریاؤں کے سنگم پر غسل

اس سال حکام 400 ملین تک شرکاء کی آمد کی توقع کر رہے ہیں، جو امریکہ اور کینیڈا کی مشترکہ آبادی سے بھی زیادہ تعداد ہے۔

میلے کے حکام اور پولیس نے میلے میں کھو جانے والے یاتریوں کو ان کے اہل خانہ کے ساتھ دوبارہ ملانے میں مدد دینے کے لیے 'لاسٹ اینڈ فاؤنڈ‘ مراکز کے ساتھ ساتھ ایک خصوصی کمبھ فون ایپلیکیشن کا نیٹ ورک بھی قائم کیا ہے۔

میلے کی رسومات

میلے کی رسومات کا سب سے اہم حصہ دریا میں ڈبکی لگانا ہوتا ہے۔ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ جو لوگ گنگا میں ڈبکی لگاتے ہیں، وہ تمام گناہوں سے پاک ہو جاتے ہیں، پنر جنم کے چکر سے آزاد ہو جاتے ہیں اور بالآخر موکش یا نجات پا لیتے ہیں۔

عام ہندوؤں کے لیے دریا میں اشنان یا ڈبکی لگانے کا سلسلہ علی الصبح ناگا سادھوؤں کے ڈبکی لگانے کے بعد شروع ہوتا ہے۔

ناگا سادھو ننگے رہتے ہیں اور اپنے جسم پر راکھ لگا کر رکھتے ہیں۔

بہت سے عقیدت مند گنگا میں ڈبکی لگانے کے بعد سادگی سے زندگی گزارنے کا عہد کرتے ہیں، وہ تجرد کی زندگی بسر کرتے ہیں اور پوجا اور مراقبے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔

ہندوؤں میں کمبھ میلے کی اہمیت

کمبھ میلہ گنگا، جمنا اور افسانوی سرسوتی دریاؤں کے سنگم پر منعقد ہوتا ہے۔

لغوی سطح پر کمبھ کا مطلب گھڑا ہوتا ہے۔

اس تہوار کی جڑیں ہندو اساطیر میں پنہاں ہیں۔ دیوتاؤں اور راکشسوں کے درمیان اس کمبھ یا گھڑے کو حاصل کرنے کے لیے لڑائی ہوئی تھی، جس میں امرت یعنی وہ مشروب تھا، جسے پینے والا ابدی حیات حاصل کرلیتا ہے۔

دیومالائی سطح پر امرت سے بھرا یہ گھڑا 'سمندر منتھن‘ کے بعد حاصل ہوا تھا۔ دیوتا اسے لے کر بھاگ گئے، راکششوں نے ان کا پیچھا کیا۔

اس دوران پریاگ پہنچنے سے پہلے راستے میں ناسک، اجین اور ہری دوار میں اس کے قطرے گرے، جہاں ہر چھ سال بعد چھوٹا کمبھ میلہ لگتا ہے جب کہ پریاگ پہنچنے میں بارہ دن لگے۔ اس لیے علامتی طور پر ہر بارہ سال بعد یہاں 'پرن کمبھ‘ یا بڑا کمبھ میلہ لگتا ہے۔

ہندو مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس اساطیری جنگ کا تذکرہ مقدس مذہبی کتاب 'رگ وید‘ میں ملتا ہے۔

کمبھ میلے کے ابتدائی تاریخی تذکروں میں سے ایک چینی بودھ راہب اور دانش ور ہیون سانگ کی تحریروں میں ملتا ہے، جس نے ساتویں صدی میں اس میلے میں شرکت کی تھی۔

میلے کے دوران کیا ہو گا؟

میلے کے ایک ماہ سے زیادہ عرصے کے دوران سب سے اہم رسم گنگا میں غسل کرنا ہے۔

غسل ہر روز ہوتا ہے، لیکن سب سے متبرک تاریخوں پر غسل کو شاہی اشنان یا 'شاہی غسل‘ کہا جاتا ہے۔

تقریبات میں شاندار 'آرتی‘ شامل ہوتی ہے، جب پجاریوں کی بڑی تعداد ٹمٹماتے چراغوں کو تھامے رسمیں ادا کرتی ہے۔

عقیدت مند چمکتے ہوئے دیے سمندر میں بھی تیراتے ہیں۔ یہ دیا پکے ہوئے آٹے سے تیار کیا جاتا ہے اور اس میں سرسوں کے تیل یا گھی کا چراغ جلا کر رکھ دیا جاتا ہے۔

اہم تاریخوں میں 13 جنوری بھی شامل ہے، جس دن پورا چاند یا پورن ماشی ہو گا۔

سب سے متبرک دنوں میں سے ایک 29 جنوری یا مونی اماوسیا ہے۔ اماوس قمری مہینہ کا اخیر دن ہوتا ہے جس میں چاند نظر نہیں آتا۔

میلے کی تقریبات 26 فروری کو اختتام پذیر ہوں گی۔

ج ا ⁄ م م (اے ایف پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: کے لیے

پڑھیں:

بھارتی فوج بھی انتہاپسند ہندوتوا ایجنڈے کے رنگ میں رنگ گئی

حالیہ دنوں میں بھارتی آرمی چیف جنرل اوپندر دویدی کی مذہبی سرگرمیوں نے سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی حلقوں تک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا اب انڈین فوج محض دفاعی ادارہ نہیں رہی بلکہ ہندوتوا کے ایجنڈے کی محافظ بن چکی ہے؟

جنرل دویدی نے حال ہی میں وردی میں نہ صرف کیدارناتھ کے مندر میں حاضری دی بلکہ رام بھدرآچاریہ کے آشرم میں بھی ماتھا ٹیکتے دکھائی دیے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو انہوں نے فوجی وردی کو ہندو عقیدت کا لباس بنا ڈالا۔

سوال یہ نہیں کہ کسی کا ذاتی عقیدہ کیا ہے، سوال یہ ہے کہ جب ایک سیکولر ملک کی مسلح افواج کا سربراہ وردی میں مذہبی رسومات ادا کرے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ کیا فوجی وردی صرف ہندو دیوی دیوتاؤں کی خدمت کےلیے مخصوص ہوچکی ہے؟

بھارتی آئین کی شقیں شاید کتابوں میں اب بھی سیکولرزم کا دعویٰ کرتی ہوں، مگر زمین پر حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ بھارتی فوج جسے تمام قومیتوں، مذاہب اور ثقافتوں کا محافظ ہونا چاہیے تھا، اب زعفرانی رنگ میں رنگتی جا رہی ہے۔ جنرل دویدی کے مذہبی مندر دوروں سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے وہ صرف ایک مخصوص اکثریتی مذہب کے وفادار ہوں، اور اقلیتوں کے لیے ان کی فوجی قیادت سوالیہ نشان بن چکی ہو۔

اگر آرمی چیف ہندو مندر میں ماتھا ٹیک سکتے ہیں، تو کیا وہ کسی مسجد میں دو گھڑی سکون کی دعا کے لیے رکیں گے؟ کیا وہ کسی چرچ جا کر دعائیہ کلمات سنیں گے؟ سکھوں کے گوردوارے میں عقیدت سے جھکیں گے؟ یا یہ سب صرف آر ایس ایس کی ’’ہندو راشٹر‘‘ کی مہم کا حصہ ہے، جہاں وردی کو ایک مذہبی پرچم میں بدل دیا گیا ہے؟

یہ سارا معاملہ صرف ایک فرد کا مذہبی رجحان نہیں بلکہ اس پورے ادارے کے غیر جانب دار تشخص پر ایک سنجیدہ سوال ہے۔ جب جنرل دویدی میڈیا کے سامنے وردی میں پوجا پاٹ کرتے ہیں تو وہ نہ صرف آئین کے سیکولر اصولوں کی نفی کرتے ہیں بلکہ اقلیتوں کو بھی ایک واضح پیغام دیتے ہیں کہ ان کی نمائندگی اس فوج میں شاید صرف کاغذوں کی حد تک رہ گئی ہے۔

بھارت میں ہندوتوا کی سیاسی اور سماجی بالادستی اب اتنی گہری ہو چکی ہے کہ ملک کا ہر ادارہ اس کی جھلک دکھانے لگا ہے، حتیٰ کہ فوج جیسا حساس اور غیر جانبدار ادارہ بھی۔ اس تناظر میں جنرل دویدی کی مندر یاترا صرف ایک ذاتی عقیدے کا اظہار نہیں بلکہ ایک طاقتور پیغام ہے، اور وہ پیغام یہ ہے کہ نئی دہلی کی راہ صرف ہندوتوا کے قدموں کی چاپ سننے کو تیار ہے۔

کیا ہندوستانی سپہ سالار اب صرف ایک عقیدے کا نمائندہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو اقلیتوں کو سوچ لینا چاہیے کہ ان کی حفاظت کے دعوے صرف کاغذی تحریر رہ گئے ہیں، کیونکہ وردی پہنے وہ ہاتھ جو ملک کی سرحدوں کے محافظ کہلاتے ہیں، اب شاید صرف ایک مخصوص مذہب کے سامنے جھکنے کے لیے اٹھتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی فوج بھی انتہاپسند ہندوتوا ایجنڈے کے رنگ میں رنگ گئی
  • سکردو، تحریک بیداری کے زیر اہتمام امام خمینی کی برسی
  • بھارت نے سکھ یاتریوں کو پاکستان آنے سے روک دیا، واہگہ بارڈر پر علامتی استقبال کی تیاریاں مکمل
  • پاراچنار میں نماز عید کا روح پرور اجتماع
  • آج کا پاکستان کل جیسا نہیں رہا! نئی صف بندی؟
  • کراچی، دعائے عرفہ و مجلس شہادت حضرت مسلمؑ کا مرکزی روح پرور اجتماع، ویڈیو رپورٹ
  • ملک بھر میں عیدالاضحیٰ مذہبی جوش وجذبے سے منائی جا رہی ہے
  • پی ٹی آئی کی تحریک کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی، وفاق سے ڈائیلاگ کرے: شرجیل میمن
  • امریکہ کون ہوتا ہے؟
  • بار بی کیو کے لیے کون سا کوئلہ اچھا ہوتا ہے؟