ٹرمپ کے کئی ممالک کی سرزمین پر قبضے کے بیانات نے ہنگامہ برپا کر دیا ہے، چینی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
واشنگٹن :
نئے سال کے آغاز پر فلسطین اسرائیل تنازعہ اور روس یوکرین تنازعہ جاری ہے اور امن مذاکرات کا راستہ اب بھی کانٹوں سے بھرا ہے۔ لیکن جو بات غیر متوقع ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کئی ممالک کی سرزمین پر قبضے کے بارے میں توسیع پسندانہ بیانات نے دنیا بھر میں ہنگامہ برپا کر دیا ہے اور لوگوں میں غم و غصے کو جنم دیا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے صدر کی حیثیت سے ٹرمپ نے باضابطہ طور پر عہدہ سنبھالنے سے قبل حیران کن ریمارکس دیے ہیں ۔جمعہ کے روز چینی میڈ یا نے ایک رپورٹ میں کہا کہ لوگوں کو یہ ضرور سوچنا پڑے گا کہ کیا امریکہ دنیا کی ترقی کی قیادت کر رہا ہے؟ کیا حالیہ بیانات سے دنیا میں امن اور اعتماد آئے گا یا افراتفری اور شکوک و شبہات پیدا ہوں گے؟
ٹرمپ نے 29 نومبر 2024 کو فلوریڈا کے علاقے مار لاگو میں ایک عشائیہ کے دوران یہ خیال پیش کیا کہ کینیڈا کو امریکہ کی اکیاونویں ریاست بننا چاہئے۔ بعد میں انہوں نے بارہا اپنے بیانات میں کہا کہ وہ کینیڈا کو امریکہ میں ضم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ فوجی طاقت کے بجائے “معاشی طاقت” اور کینیڈین مصنوعات پر بھاری محصولات عائد کرکے اس مقصد کی تکمیل کی جائے گی۔مزید یہ کہ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک نقشہ بھی پوسٹ کیا ۔ نقشے میں جس علاقے میں کینیڈا واقع ہے اسے امریکہ کے جیسے رنگ میں پینٹ ہوا دکھایا گیا ہے ، مطلب یہ ہے کہ کینیڈا امریکہ میں شامل ہے۔ ٹرمپ کے ان مخصوص “الحاق” کے بیانات نے بلاشبہ کینیڈا کے داخلی اور معاشی معاملات کی تشویش میں اضافہ کیا ہے جس کے نتیجے میں کینیڈین ڈالر کی قدر میں کمی، مارکیٹ کی تشویش میں اضافہ اور عوام میں بے چینی دیکھی جا رہی ہے ۔ توقع کی جا رہی ہے کہ شمالی امریکہ کے دو ہمسایہ اتحادی ممالک اس نئے سال میں امن سے نہیں رہیں گے، اور صورتحال مزید پیچیدہ ہو گی.
امریکہ اور کینیڈا کے درمیان اعتماد تیزی سے زوال پذیر ہو رہا ہے، اور بین الاقوامی رائے عامہ ٹرمپ کے بیانات پر قیاس آرائیاں کر رہی ہے۔ ایسی صورتحال کے تناظر میں ٹرمپ نے مزید بے بنیاد بیانات دیے ہیں، جس سے دنیا میں افراتفری اور عدم تحفظ کا انتہائی خطرہ پیدا ہوا ہے ۔
ٹرمپ نہ صرف نیٹو اتحادیوں سے فوجی اخراجات بڑھانے کے لیے کہہ رہے ہیں بلکہ ان پر براہ راست حملہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے 7 جنوری کو کہا کہ امریکہ کو گرین لینڈ کو “معاشی سلامتی” اور “آزاد دنیا کے تحفظ” اور دیگر ضروریات کی وجہ سے خریدنا ہوگا اور اگر ڈنمارک امریکہ کو اس معاملے میں انکار کرتا ہے تو امریکہ کو برآمد کی جانے والی ڈنمارک کی مصنوعات پر بھاری محصولات عا ئد ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ گرین لینڈ اور پاناما کینال کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے فوجی طاقت کے استعمال سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ ٹرمپ کے خیال میں “پاناما نہر امریکی فوج کے لیے بنائی گئی ہے اور یہ امریکہ کے لیے اہم ہے”۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ جلد ہی خلیج میکسیکو کا نام تبدیل کرکے “خلیج امریکہ” رکھیں گے۔ ٹرمپ کے قول و فعل کے اس سلسلے کو متعلقہ ممالک نے مسترد کیاہے ۔
کینیڈا اور ڈنمارک بھی نیٹو کے اتحادی ہیں اور امریکہ کو نیٹو کا باس کہا جا تا ہے۔ لیکن شائد ان دونوں کو بھی یہ توقع نہیں تھی کہ ان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو اپنے ہی باس سے دھمکی ملے گی ۔ این بی سی نیوز کے مطابق ٹرمپ کے بیانات سے امریکہ پر یورپ کا عدم اعتماد بڑھے گا اور ٹرمپ کا سفارتی موقف دیرپا نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
یوں 2025 کے آغاز میں دنیا میں پر امن دکھائی نہیں دے رہی اور عالمی صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ ٹرمپ کے تسلط پسندانہ بیانیے سے ایک بار پھر ظاہر ہوتا ہے کہ نئی ٹرمپ انتظامیہ اپنی خود غرضی کی بنیاد پر اپنا مسابقتی فائدہ حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی اعتماد کو قربان کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ تاہم یہ واضح ہے کہ اس طرح کا نکتہ نظر صرف بین الاقوامی اعتماد کے نظام کی تباہی کو بڑھائے گا اور بین الاقوامی ماحول کو چیلنجوں اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار کرے گا ۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2025 کو امن اور اعتماد کا بین الاقوامی سال قرار دیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ امن کے حصول اور اعتماد کی بحالی کے لئے ابھی ایک طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔ البتہ یہ بات اطمینان بخش ہے کہ چین کے انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے تصور اور “”تین عالمی انیشٹوز ” نے اعلی درجے کی ذمہ داری کے ساتھ ایک بین الاقوامی اعتماد کے نظام کی تعمیر کو فعال طور پر فروغ دیا ہے، جس سے بین الاقوامی اعتماد کی تعمیر نو کے لئے ایک روشن صبح دکھائی دیتی ہے ۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
’وہ کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں‘ ٹرمپ نے پاکستان کو ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل قرار دیدیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل ہے، انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ امریکا واحد ملک ہو جو ایسا نہ کرے۔
ٹرمپ نے امریکی ٹی وی پروگرام ’سکسٹی منٹس‘ میں ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ ’شمالی کوریا تجربے کر رہا ہے، پاکستان تجربے کر رہا ہے، مگر وہ اس کے بارے میں آپ کو نہیں بتاتے‘، ان سے یہ سوال اُس وقت پوچھا گیا جب گفتگو کا موضوع ان کی حالیہ ہدایت بنی، جس کے مطابق انہوں نے پینٹاگون کو ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔
حالیہ دنوں میں ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں امریکی محکمہ جنگ کو ہدایت دی تھی کہ وہ ’فوری طور پر‘ ایٹمی تجربات دوبارہ شروع کرے، اس اعلان کے بعد سے یہ الجھن پائی جا رہی ہے کہ آیا وہ 1992 کے بعد امریکا کے پہلے ایٹمی دھماکے کا حکم دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
جب انٹرویو میں ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’ہمارے پاس کسی بھی ملک سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں تخفیفِ اسلحہ کے بارے میں کچھ کرنا چاہیے، اور میں نے اس پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ سے بات بھی کی تھی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے پاس اتنے ایٹمی ہتھیار ہیں کہ دنیا کو 150 مرتبہ تباہ کر سکتے ہیں، روس کے پاس بھی بہت سے ہتھیار ہیں اور چین کے پاس بھی ہوں گے‘۔
جب میزبان نے سوال کیا کہ ’پھر ہمیں اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟‘ تو ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’کیونکہ آپ کو دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ کام کیسے کرتے ہیں، روس نے اعلان کیا کہ وہ تجربہ کرے گا، شمالی کوریا مسلسل تجربے کر رہا ہے، دوسرے ممالک بھی کر رہے ہیں، ہم واحد ملک ہیں جو تجربے نہیں کرتا، میں نہیں چاہتا کہ ہم واحد ملک ہوں جو ایسا نہ کرے‘۔
میزبان نے نشاندہی کی کہ شمالی کوریا کے سوا کوئی ملک ایٹمی تجربے نہیں کر رہا، کیونکہ روس اور چین نے بالترتیب 1990 اور 1996 کے بعد سے کوئی تجربہ نہیں کیا،اس پر ٹرمپ نے کہا کہ ’روس اور چین بھی تجربے کرتے ہیں، بس آپ کو اس کا علم نہیں ہوتا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم ایک کھلا معاشرہ ہیں، ہم اس بارے میں بات کرتے ہیں، روس یا چین میں رپورٹرز نہیں ہیں جو ایسی چیزوں پر لکھ سکیں، ہم بات کرتے ہیں، کیونکہ آپ لوگ رپورٹ کرتے ہیں‘۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’ہم تجربے کریں گے کیونکہ دوسرے ملک بھی کرتے ہیں، شمالی کوریا کرتا ہے، پاکستان کرتا ہے، مگر وہ اس بارے میں نہیں بتاتے، وہ زمین کے بہت نیچے تجربے کرتے ہیں جہاں کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ اصل میں کیا ہو رہا ہے، آپ صرف ایک ہلکی سی لرزش محسوس کرتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرنا ہوگا، ورنہ آپ کو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ وہ کام کرتے ہیں یا نہیں‘۔
ڈان نے اس معاملے پر امریکی صدر کے اس بیان کے حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ سے ردِعمل کے لیے رابطہ کیا ہے۔
انٹرویو کے دوران میزبان نے یہ بھی کہا کہ ماہرین کے مطابق امریکا کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی دنیا کے بہترین ہتھیار ہیں۔
اس پر ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’میرے مطابق بھی ہمارے ہتھیار بہترین ہیں، میں ہی وہ شخص ہوں جس نے انہیں اپنی 4 سالہ مدت کے دوران جدید بنایا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے یہ کام کرنا پسند نہیں تھا کیونکہ ان کی تباہ کن صلاحیت ایسی ہے کہ اس کا تصور بھی خوفناک ہے، مگر اگر دوسرے ملکوں کے پاس ہوں گے تو ہمیں بھی رکھنے ہوں گے، اور جب ہمارے پاس ہوں گے تو ہمیں ان کا تجربہ بھی کرنا ہوگا، ورنہ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ وہ کام کرتے ہیں یا نہیں، ہم انہیں استعمال نہیں کرنا چاہتے، مگر ہمیں تیار رہنا چاہیے‘