مدینہ منورہ…. بازار اور خریداری!
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
اس سے قبل یہ ذکر ہو چکا ہے کہ ہم مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے شمالی سمت کے بیرونی گیٹ نمبر 332 کے باہر سڑک کے پار ایک دوسرے سے متصل کئی منزلہ شاپنگ مالز میں مختلف اشیاءدیکھنے میں مصروف رہے عمران کو اپنی بیٹیوں کے لیے جدید ماڈل کی سمارٹ واچز لینا تھیں اس کے لیے شاپنگ مال کے تیسرے فلور پر دو تین بار ہمارا گزر ایک ایسی دکان کے سامنے سے ہوا جس کے باہر کھڑا ایک بنگالی نوجوان وہاں قریب سے گزرنے والوں کو اپنی دکان سے خریداری کے لیے آوازیں وغیرہ دے رہا تھا۔ اُس نے دو تین بار ہمیں اِدھر اُدھر آتے جاتے دیکھا تو ہمیں کچھ سادہ لوح سمجھ کر کوئی طنزیہ سی بات کہہ کر ہماری (میری) طرف اشارہ وغیرہ بھی کیا۔ ہم رُک گئے اور میں اُس کے قریب چلا گیا اور انگریزی اور اُردو دونوں زبانوں میں تحریکِ پاکستان سے وابستہ کچھ بزرگ بنگالی رہنماﺅں کے نام لے کر اُس سے پوچھا کہ کیا آپ ان کو جانتے ہیں۔ اس پر وہ کچھ لاجواب ہوا تو میں نے اُسے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے نام لیتے ہوئے آج بھی میرا سر ادب اور لگاﺅ سے جھُک جاتا ہے۔ اس پر وہ کچھ شرمندہ سا ہوا اور اگلے ایک دو دنوں میں جب بھی ہمارا اُدھر سے گزر ہوتا تھا وہ مودبانہ انداز میں ہمارے لیے ہاتھ ہلاتا رہا۔
ان شاپنگ مالز میں گھومتے پھرتے ہم نے نوٹ کیا کہ وہاں کے مختلف فلورز پر بنی دکانوں کے اُوپر نمبر بھی لکھے ہوئے ہیں مجھے یاد ہے کہ تھرڈ فلور پر دکان نمبر 308 سے ہم نے عمران کی بچیوں کے لیے سمارٹ واچز پسند کیں اور خرید بھی لیں۔ دکان کے مالک یا شاید سیلز مین کے طور پر دو نوجوان وہاں موجود تھے۔ ایک دکان میں آرٹیفیشل جیولری اور اسی طرح کی دوسری اشیاءوغیرہ کے حصے کو دیکھ رہا تھا اور دوسرا گھڑیوں (Watches) اور پرفیومز والے حصے کو سنبھالے ہوئے تھا ۔ یہ اچھا خوبرو نوجوان تھا جسے رواں اُردو بولتے دیکھ کر خیال گزرا کہ اس کا تعلق شاید پاکستان سے ہو گا۔ میں نے
اس بارے میں اُس سے پوچھا تو اُس نے جواب دیا کہ اُس کا تعلق پاکستان سے نہیں بلکہ ازبکستان سے ہے۔ خیر اُس کے پاس موجود سمارٹ واچز عمران کو کچھ پسند آ گئیں، قیمت اور بھاﺅ تاﺅ کرنا میری ذمہ داری تھی کچھ بحث مباحثے کے بعد وہ 70 یا شاید 80 ریال فی گھڑی کے حساب سے ہمیں سمارٹ واچز دینے پر آمادہ ہو گیا۔ اُس کے پاس پرفیومز اچھی کوالٹی کے اور چھوٹی سے بڑی پیکنگ میں تھے۔ چھوٹی شیشی کی قیمت کم از کم 10 ریال تھی ہم نے اُ س دن اُس سے صرف دو تین سمارٹ واچز کی خریداری پر اکتفا کیا اور اُسے بتایا کہ ہم اگلے دن کچھ مزید سمارٹ واچز خریدنے کے لیے اُس کے پاس آئیں گے۔
مدینہ منورہ میں قیام کے چوتھے یا پانچویں روز ہمارا چھوٹی موٹی اشیاءکی خریداری کا جو یہ سلسلہ شروع ہوا ، وہ وقفے وقفے سے اگلے تین چار دنوں میں بھی اس طرح جاری رہا کہ 28 جولائی اتوار کو سہ پہر 3 بجے مدینہ منورہ کے مقدس ، بابرکت اور پُر نور شہر سے مکہ مکرمہ کے پُر عظمت اور پُر جلال و جمال شہر کو میری اور میری اہلیہ محترمہ کی واپسی کے دن بھی آخری وقت میں ہم نے اپنے قیام کے ہوٹل طیبہ الطیبہ کی بیسمنٹ میں کھجوروں کی دکان سے کھجوریں خرید کر پیک کرائیں۔ جیسے اس سے قبل ذکر ہو چکا ہے کہ ہم نے اپنی خریداری کی ابتدا مسجد نبوی کی شمالی سمت کے بیرونی گیٹ نمبر 332 کے باہر سڑک کے پار بنے ایک دوسرے سے متصل بلند و بالا شاپنگ مالز میں قائم” بن داﺅد“ کے سُپر سٹور سے کی تھی۔ بعد کے دنوں میں بھی ظہر اور عصر کی نمازوں کے درمیانی وقت میں ہم ان شاپنگ مالز میں بنی دکانوں وغیرہ میں آتے رہے تو ان سے پچھلی طرف کے پلازوں میں3 ریال سے 15 ریال کی مقررہ قیمت تک مختلف اشیاءبیچنے والی دکانوں سے بھی اپنی خواتین کے ہمراہ کچھ اشیاءکی خریداری کی۔ اس کے ساتھ ہم نے اپنے قیام کے ہوٹل سے کچھ فاصلے پر مسجد بلال کی بیسمنٹ میں بنی قدیم مارکیٹ کا بھی ایک آدھ دن جائزہ لیا اور وہاں سے مناسب نرخوں پر ایک اٹیچی کیس خرید لیا اس کے علاوہ مسجد قباءکی سمت میں دو تین بڑے سُپر سٹور ز پر بھی ہم گے۔ وہاں سے ہم نے بچوں کے ملبوسات، جوتے، کھلونے ، بسکٹ اور خواتین کے لیے مفلر نما سٹالرز، شالوں اور جرابوں وغیرہ کے ساتھ کم قیمت کی پرفیومز وغیرہ کی خریداری بھی کی۔ ان میں سے ایک سُپر سٹور پر سیل میں جوتے ، گھڑیاں اور ملبوسات وغیرہ دستیاب تھے تو اس سے کچھ فاصلے پر دوسرے سُپر سٹور میں بڑی تعداد میںمختلف اشیاءساڑھے گیارہ ریال کی مقررہ قیمت میں بیچی جا رہی تھیں۔
خمس سے ملتے جُلتے نام کے ایک تیسرے بڑے سُپر سٹور جو مسجد قباءکے کافی قریب واقع ہے جس پر خریداروں کا بہت رش ہوتا ہے ہم تینوں کا ایک بار راضیہ کے ساتھ اور دوسری بار دیگر خواتین کے ساتھ وہاں جانا ہوا۔ اس سُپر سٹور میں گراسری اور کھانے پینے کی اشیاءسمیت گھریلو اور روز مرہ استعمال کی دیگر تمام اشیاءجن میں برتن اور پرفیومز وغیرہ بھی شامل ہیںپانچ (خمس) ریال اور اس پر سیلز ٹیکس شامل کر کے پونے چھ (5.
مقدس اور بابرکت شہر مدینہ منورہ میں ہماری خریداری تذکرہ اگرچہ مکمل نہیں ہوا تاہم چھوٹی موٹی اشیاءکی خریداری کی اس تفصیل کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حاشا وکلا ہم نے مسجد نبوی میں اپنی حاضری میں کوئی کوتائی آنے دی ہو۔ بفضل تعالیٰ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں عام طور پر صبح ناشتے کے بعد سے ظہر کی نماز تک اور ظہر کی نماز کے بعد عصر کی نماز تک کے اوقات کو عازمین حج و عمرہ اکثر آرام کے لیے استعمال کرتے ہیںاور وہ زیادہ تر اپنے قیام کی جگہ پر ہی موجود رہتے ہیں۔ ہم نے مدینہ منورہ میں شاپنگ مالز، سُپر سٹورز، دکانوں اور مارکیٹوں وغیرہ کے جو بھی چکر لگائے اور وہاں سے خریداری وغیرہ کی بلا شبہ وہ زیادہ تر انہی اوقات میں کی۔ یہ وضاحت شاید اتنی ضروری نہیں تھی کہ ربِ کریم کے ساتھ معاملات کا تعلق بندوں کی ذات سے جڑا ہوتا ہے اور اس کی تشہیر کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔ خیر اگر یہ ذکر ہوا ہے تو محض اللہ کریم کے حضور اظہار ِ تشکرکے طور پر اور اپنی کم مائیگی اور عاجزی کے اظہار کے طور پر کیا گیا ہے۔ (جاری ہے)
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: شاپنگ مالز میں کی خریداری خریداری کی س پر سٹور کے ساتھ کے لیے دو تین
پڑھیں:
2 ماہ میں فری انرجی مارکیٹ پالیسی نافذ کرنے کا اعلان، حکومت کا بجلی خریداری کا سلسلہ ختم ہو جائے گا
وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے کہا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ "فری انرجی مارکیٹ پالیسی" آئندہ 2 ماہ میں اپنے حتمی نفاذ کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی، جس کے بعد حکومت کی جانب سے بجلی کی خریداری کا سلسلہ مستقل طور پر ختم ہو جائے گا۔
یہ بات وزیر توانائی نے عالمی بینک کے ایک اعلیٰ سطحی وفد سے ملاقات کے دوران کہی، جس کی قیادت عالمی بینک کے ریجنل نائب صدر برائے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، افغانستان اور پاکستان، عثمان ڈیون (Ousmane Dione) کر رہے تھے۔
وفاقی وزیر توانائی نے بتایا کہ "سی ٹی بی سی ایم" (CTBCM) کے تحت مارکیٹ میں بجلی کی آزادانہ تجارت ممکن ہو سکے گی۔
اس ماڈل کے تحت "وِیلنگ چارجز" اور دیگر میکانزم متعارف کرائے جا رہے ہیں اور حکومت کا کردار صرف ریگولیٹری فریم ورک تک محدود کر دیا جائے گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ منتقلی بتدریج اور ایک جامع حکمت عملی کے تحت کی جائے گی تاکہ نظام میں استحکام قائم رہے۔
ملاقات کے دوران سردار اویس لغاری نے عالمی بینک کے وفد کو حکومت کی توانائی اصلاحات، نیٹ میٹرنگ پالیسی، نجکاری، ریگولیٹری بہتری اور سرمایہ کاری کے مواقع سے متعلق تفصیلی بتایا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پالیسی کا جھکاؤ واضح طور پر نجی شعبے کے فروغ اور شفافیت کی جانب ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی سرمایہ کار اس میں شراکت دار بنیں۔
جناب عثمان ڈیون نے پاکستان میں توانائی کے شعبے میں ہونے والی اصلاحات کو سراہا اور اس امر پر زور دیا کہ توانائی ترقی کی بنیاد ہے اور کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے توانائی کا شعبہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اسی لیے عالمی بینک اس شعبے میں پاکستان کی حمایت جاری رکھے گا۔
انہوں نے کہا کہ عالمی بینک حکومتِ پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے تاکہ پائیدار، قابل اعتماد اور سرمایہ کاری کے لیے موزوں توانائی نظام کو فروغ دیا جا سکے۔
وفاقی وزیر نے عالمی بینک کے وفد کو شعبے میں جاری ریفارمز پر مبنی ایک جامع کتابچہ بھی پیش کیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ موجودہ شراکت داری مستقبل میں مزید مضبوط ہو گی۔