Nai Baat:
2025-11-05@03:17:46 GMT

مدینہ منورہ…. بازار اور خریداری!

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

مدینہ منورہ…. بازار اور خریداری!

(گزشتہ سے پیوستہ)
اس سے قبل یہ ذکر ہو چکا ہے کہ ہم مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے شمالی سمت کے بیرونی گیٹ نمبر 332 کے باہر سڑک کے پار ایک دوسرے سے متصل کئی منزلہ شاپنگ مالز میں مختلف اشیاءدیکھنے میں مصروف رہے عمران کو اپنی بیٹیوں کے لیے جدید ماڈل کی سمارٹ واچز لینا تھیں اس کے لیے شاپنگ مال کے تیسرے فلور پر دو تین بار ہمارا گزر ایک ایسی دکان کے سامنے سے ہوا جس کے باہر کھڑا ایک بنگالی نوجوان وہاں قریب سے گزرنے والوں کو اپنی دکان سے خریداری کے لیے آوازیں وغیرہ دے رہا تھا۔ اُس نے دو تین بار ہمیں اِدھر اُدھر آتے جاتے دیکھا تو ہمیں کچھ سادہ لوح سمجھ کر کوئی طنزیہ سی بات کہہ کر ہماری (میری) طرف اشارہ وغیرہ بھی کیا۔ ہم رُک گئے اور میں اُس کے قریب چلا گیا اور انگریزی اور اُردو دونوں زبانوں میں تحریکِ پاکستان سے وابستہ کچھ بزرگ بنگالی رہنماﺅں کے نام لے کر اُس سے پوچھا کہ کیا آپ ان کو جانتے ہیں۔ اس پر وہ کچھ لاجواب ہوا تو میں نے اُسے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے نام لیتے ہوئے آج بھی میرا سر ادب اور لگاﺅ سے جھُک جاتا ہے۔ اس پر وہ کچھ شرمندہ سا ہوا اور اگلے ایک دو دنوں میں جب بھی ہمارا اُدھر سے گزر ہوتا تھا وہ مودبانہ انداز میں ہمارے لیے ہاتھ ہلاتا رہا۔
ان شاپنگ مالز میں گھومتے پھرتے ہم نے نوٹ کیا کہ وہاں کے مختلف فلورز پر بنی دکانوں کے اُوپر نمبر بھی لکھے ہوئے ہیں مجھے یاد ہے کہ تھرڈ فلور پر دکان نمبر 308 سے ہم نے عمران کی بچیوں کے لیے سمارٹ واچز پسند کیں اور خرید بھی لیں۔ دکان کے مالک یا شاید سیلز مین کے طور پر دو نوجوان وہاں موجود تھے۔ ایک دکان میں آرٹیفیشل جیولری اور اسی طرح کی دوسری اشیاءوغیرہ کے حصے کو دیکھ رہا تھا اور دوسرا گھڑیوں (Watches) اور پرفیومز والے حصے کو سنبھالے ہوئے تھا ۔ یہ اچھا خوبرو نوجوان تھا جسے رواں اُردو بولتے دیکھ کر خیال گزرا کہ اس کا تعلق شاید پاکستان سے ہو گا۔ میں نے
اس بارے میں اُس سے پوچھا تو اُس نے جواب دیا کہ اُس کا تعلق پاکستان سے نہیں بلکہ ازبکستان سے ہے۔ خیر اُس کے پاس موجود سمارٹ واچز عمران کو کچھ پسند آ گئیں، قیمت اور بھاﺅ تاﺅ کرنا میری ذمہ داری تھی کچھ بحث مباحثے کے بعد وہ 70 یا شاید 80 ریال فی گھڑی کے حساب سے ہمیں سمارٹ واچز دینے پر آمادہ ہو گیا۔ اُس کے پاس پرفیومز اچھی کوالٹی کے اور چھوٹی سے بڑی پیکنگ میں تھے۔ چھوٹی شیشی کی قیمت کم از کم 10 ریال تھی ہم نے اُ س دن اُس سے صرف دو تین سمارٹ واچز کی خریداری پر اکتفا کیا اور اُسے بتایا کہ ہم اگلے دن کچھ مزید سمارٹ واچز خریدنے کے لیے اُس کے پاس آئیں گے۔
مدینہ منورہ میں قیام کے چوتھے یا پانچویں روز ہمارا چھوٹی موٹی اشیاءکی خریداری کا جو یہ سلسلہ شروع ہوا ، وہ وقفے وقفے سے اگلے تین چار دنوں میں بھی اس طرح جاری رہا کہ 28 جولائی اتوار کو سہ پہر 3 بجے مدینہ منورہ کے مقدس ، بابرکت اور پُر نور شہر سے مکہ مکرمہ کے پُر عظمت اور پُر جلال و جمال شہر کو میری اور میری اہلیہ محترمہ کی واپسی کے دن بھی آخری وقت میں ہم نے اپنے قیام کے ہوٹل طیبہ الطیبہ کی بیسمنٹ میں کھجوروں کی دکان سے کھجوریں خرید کر پیک کرائیں۔ جیسے اس سے قبل ذکر ہو چکا ہے کہ ہم نے اپنی خریداری کی ابتدا مسجد نبوی کی شمالی سمت کے بیرونی گیٹ نمبر 332 کے باہر سڑک کے پار بنے ایک دوسرے سے متصل بلند و بالا شاپنگ مالز میں قائم” بن داﺅد“ کے سُپر سٹور سے کی تھی۔ بعد کے دنوں میں بھی ظہر اور عصر کی نمازوں کے درمیانی وقت میں ہم ان شاپنگ مالز میں بنی دکانوں وغیرہ میں آتے رہے تو ان سے پچھلی طرف کے پلازوں میں3 ریال سے 15 ریال کی مقررہ قیمت تک مختلف اشیاءبیچنے والی دکانوں سے بھی اپنی خواتین کے ہمراہ کچھ اشیاءکی خریداری کی۔ اس کے ساتھ ہم نے اپنے قیام کے ہوٹل سے کچھ فاصلے پر مسجد بلال کی بیسمنٹ میں بنی قدیم مارکیٹ کا بھی ایک آدھ دن جائزہ لیا اور وہاں سے مناسب نرخوں پر ایک اٹیچی کیس خرید لیا اس کے علاوہ مسجد قباءکی سمت میں دو تین بڑے سُپر سٹور ز پر بھی ہم گے۔ وہاں سے ہم نے بچوں کے ملبوسات، جوتے، کھلونے ، بسکٹ اور خواتین کے لیے مفلر نما سٹالرز، شالوں اور جرابوں وغیرہ کے ساتھ کم قیمت کی پرفیومز وغیرہ کی خریداری بھی کی۔ ان میں سے ایک سُپر سٹور پر سیل میں جوتے ، گھڑیاں اور ملبوسات وغیرہ دستیاب تھے تو اس سے کچھ فاصلے پر دوسرے سُپر سٹور میں بڑی تعداد میںمختلف اشیاءساڑھے گیارہ ریال کی مقررہ قیمت میں بیچی جا رہی تھیں۔
خمس سے ملتے جُلتے نام کے ایک تیسرے بڑے سُپر سٹور جو مسجد قباءکے کافی قریب واقع ہے جس پر خریداروں کا بہت رش ہوتا ہے ہم تینوں کا ایک بار راضیہ کے ساتھ اور دوسری بار دیگر خواتین کے ساتھ وہاں جانا ہوا۔ اس سُپر سٹور میں گراسری اور کھانے پینے کی اشیاءسمیت گھریلو اور روز مرہ استعمال کی دیگر تمام اشیاءجن میں برتن اور پرفیومز وغیرہ بھی شامل ہیںپانچ (خمس) ریال اور اس پر سیلز ٹیکس شامل کر کے پونے چھ (5.

75) ریال میں دستیاب ہیں ۔ ہم نے یہاں سے بھی جوتوں ، پرفیومز ، بچوں کے کپڑوں اور کچھ بسکٹوں وغیرہ کی خریداری کی۔
مقدس اور بابرکت شہر مدینہ منورہ میں ہماری خریداری تذکرہ اگرچہ مکمل نہیں ہوا تاہم چھوٹی موٹی اشیاءکی خریداری کی اس تفصیل کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حاشا وکلا ہم نے مسجد نبوی میں اپنی حاضری میں کوئی کوتائی آنے دی ہو۔ بفضل تعالیٰ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں عام طور پر صبح ناشتے کے بعد سے ظہر کی نماز تک اور ظہر کی نماز کے بعد عصر کی نماز تک کے اوقات کو عازمین حج و عمرہ اکثر آرام کے لیے استعمال کرتے ہیںاور وہ زیادہ تر اپنے قیام کی جگہ پر ہی موجود رہتے ہیں۔ ہم نے مدینہ منورہ میں شاپنگ مالز، سُپر سٹورز، دکانوں اور مارکیٹوں وغیرہ کے جو بھی چکر لگائے اور وہاں سے خریداری وغیرہ کی بلا شبہ وہ زیادہ تر انہی اوقات میں کی۔ یہ وضاحت شاید اتنی ضروری نہیں تھی کہ ربِ کریم کے ساتھ معاملات کا تعلق بندوں کی ذات سے جڑا ہوتا ہے اور اس کی تشہیر کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔ خیر اگر یہ ذکر ہوا ہے تو محض اللہ کریم کے حضور اظہار ِ تشکرکے طور پر اور اپنی کم مائیگی اور عاجزی کے اظہار کے طور پر کیا گیا ہے۔ (جاری ہے)

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: شاپنگ مالز میں کی خریداری خریداری کی س پر سٹور کے ساتھ کے لیے دو تین

پڑھیں:

مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!

پاک افغان تعلقات کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد

(ڈین فیکلٹی آف سوشل اینڈ بیہوئرل سائنسز، جامعہ پنجاب)

پاک افغان تنازعہ نیا نہیں ہے مگر اس کی جہت نئی ہے۔ اس وقت بہت کوشش کی جا رہی ہے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آسکے تاہم سوال یہ ہے کہ اس کیلئے کتنی قربانی دی جاسکتی ہے؟ پاکستان کے معاشرتی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے اور تعاون جاری رہے۔

پہلے صرف ریاست فیصلہ کرتی تھی اور عوام کو بتا دیتی تھی۔ عصر حاضر میں ذرائع ابلاغ بدل چکے ہیں، اب حکومت اکیلئے فیصلہ نہیں کرتی بلکہ عوام بھی پرزور انداز میں اپنی رائے دیتے ہیں۔ اگر 2025ء میں یہ سوال کیا جائے کہ کیا ریاست اپنے طور پر مسئلہ افغانستان حل کر سکتی ہے تو جواب ہوگا نہیں، بلکہ اب ریاست کو اس مسئلے میں عوام کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اس معاملے پر معاشرے کے مختلف گروہوں میں اطمینان ضروری ہے۔ ہمیں دنیا پر واضح کرنا چاہیے کہ پاکستان کو مسئلہ افغانستان سے نہیں بلکہ وہاں موجود دہشت گرد گروہوں سے ہے جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔

سیاسی جماعتوں اور قیادت کو چاہیے کہ پارلیمنٹ میں باقاعدہ قرارداد لا کر دنیا کو دو ٹوک پیغام دیا جائے تاکہ اختلافات اور افواہیں ختم ہوں اور ایک موقف کے ساتھ ملک میں استحکام لایا جاسکے۔یہ سب کی یکساں ذمہ داری ہے کہ ملکی استحکام کو دوام بخشنے کیلئے ایک موقف اپنائیں۔ بارڈر پر دی جانے والی قربانیوں کا فائدہ اس وقت ہی ہوگا جب سب متحد ہوں۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہماری نوجوان نسل میں تصدیق کا عمل ختم ہوگیا ہے۔

انہیں یہ سکھانا ہے کہ جب بھی کوئی خبر آئے اس کی تصدیق کر لیں، اس کا سورس لازمی دیکھیں۔ ہمارے لیے سوچ بدلنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے اپنی نسلوں کو اس بیانیے پر پروان چڑھایا کہ افغانستان برادر اسلامی ملک ہے جس پر دشمن قابض ہے لہٰذا ہمیں ہر حال میں اس کا ساتھ دینا ہے۔

اب اس نسل کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ ہم پہلے ٹھیک تھے یا اب۔ بھارت نے ہمیں آزمائش میں ڈال رکھا ہے جس کی تیاری کیلئے ہمیں بہت سارے پہلوؤں پر سوچنا ہوگا، اس کیلئے اندرونی اتحاد اور پاک افغان اعتماد بحال کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر ذمہ دارانہ بیانات دیے جائیں۔ جذباتی بیانات کے نتائج قوموں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔

افغانستان کے ساتھ ہمارا بھائی چارے کا تعلق ہے، وہاں چند عناصر ہیں جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں، اس کا ذمہ دار پورے افغانستان کو نہیں ٹہرایا جاسکتا۔ ہمیں بھارت کے ہاتھوں میںکھیلنے والوں کو بہترین حکمت عملی سے ڈیل کرنا ہے۔ ہمیں ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے لوگ مشتعل ہوں، ہم نیا محاذ کھولنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہمیں تمام عناصر کا سمجھداری سے مقابلہ کرنا ہے۔ میرے نزدیک پاک افغان معاملے پر ریاست کو ذمہ دارانہ بیانات دینے چاہئیں۔ سب سے پہلے ہمیں اندرونی استحکام لانا ہے، ہمارے ادارے، حکومت اور افواج پاکستان ملک کو ہر طرح سے محفوظ بنانے اور استحکام لانے کیلئے تیار ہیں، تمام سیاسی جماعتوں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو اعلانیہ طور پر غلط چیزوں کی مذمت کرنی چاہیے، سب کو واضح ہونا چاہیے ہمارا ملک بھی ایک ہے اور دشمن بھی سب کا ہے۔

بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی

(دفاعی تجزیہ کار)

 میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیادہ تر جنگ کی بات ہوتی ہے، ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جن میں ٹکراؤ کا عنصر زیادہ ہوتا ہے اور امن کی بات کم۔ میرے نزدیک ’افغانستان کو کھلی دھمکی‘ جیسے الفاظ سے پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر ہوتی ہے، ہمیں پاک افغان مذاکرات کے معاملے میں اشتعال انگیز بیانات کے بجائے امن کے پیغام کو اجاگر کرنا چاہیے۔ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور اس لیے ہی مذاکرات بھی کر رہا ہے۔

پاک افغان تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے، ان میں اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ ستمبر 1947ء میں افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت کی اور پھر اکتوبر میں پاکستان کو بطور ملک تسلیم کر لیا۔ افغانستان کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کا پہلا واقعہ لیاقت علی خان کی شہادت ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کی آرکائیوز میں یہ موجود ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل میں سی آئی اے کا ہاتھ تھا کیونکہ وہ امریکا کی مرضی کے خلاف جا رہے تھے۔ سی آئی اے نے افغانستان سے شوٹر لیے اور اپنا کام کروا لیا۔ پاک افغان اور پاک بھارت تعلقات میں بہت کچھ مشترک ہے۔

بھارت نے بھی آزادی سے پہلے ہی پاکستان کیلئے مسائل پیدا کیے۔ آزادی کے بعد بھی یہی سب چل رہا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح فیروزپور اور گرداسپور میں مسیحیوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا، 51 فیصد ووٹ ہونے کے باوجود علاقہ بھارت کو دے دیا گیا۔ بھارت کی بنیاد میں دہشت گردی پوشیدہ ہے۔ اس وقت بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ ہے اور دونوں ہی شروع دن سے پاکستان کے مخالف ہیں۔افغانستان کے بادشاہ عبدالرحمن نے ڈیورنڈ لائن کو عالمی سرحد تسلیم کیا لیکن اب افغانستان اسے نہیں مانتا۔ بھارت خطے میں مسائل پیدا کر رہا ہے اور پاک افغان تعلقات میں مزید خرابیاں پیدا کرنی کی کوشش میں ہے۔

آر ایس ایس ، اجیت دوول، ششی تھرور و دیگر اشتعال انگیز سیاست کر رہے ہیں۔ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ امریکا افغانستان میں 7.2 ارب ڈالر کا اسلحہ چھوڑ کر چلا گیا جو وہاں طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں ہے۔ وہاں اسلحہ کی فروخت اور سمگلنگ بھی ہو رہی ہے۔یہ جدید اسلحہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہو رہا ہے۔

بی ایل اے جاوید مینگل گروپ کے پاس جدید ہتھیار ہیں، یہ اسلحہ انہیں افغان لیڈرز نے دیا ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور امریکا کو بھی مستحکم پاکستان پسند نہیں ہے۔امریکا جب افغانستان میں تھا تو ہم نے اسے یہاں سے کور دیا تاکہ دہشت گردی کی کارروائیاں نہ ہوں مگر آپریشن ضرب عضب میں ہمیں دھوکا دیا گیا۔ جب طالبان نے ٹیک اوور کیا تو وہاں کی جیلوں سے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کر دیاجنہوں نے خود کو دوبارہ سے منظم کر لیا۔ گلبدین حکمت یار، منگل باغ و دیگر کی کہانی سب کے سامنے ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت افغانستان میں 33 دہشت گرد تنظیمیں کام کر رہی ہیں جنہیں افغان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے،وہاں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ بھی کام کر رہی ہیں۔سانحہ آرمی پبلک سکول کے پیچھے بھارت ہے، دہشت گرد’’را‘‘ کے ساتھ رابطے میں تھے، پاکستان نے اقوام متحدہ کو بھی شواہد دیے ہیں۔ بھارت نے افغان حکومت کو فنڈز دیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت کا رویہ غیر لچکدار ہے۔افغانستان میں ’’را‘‘ کا دفتر بھی ہے، اب وہاں بھارتی سفارتخانہ بھی کھولا جا رہا ہے ۔

افغانستان کی جانب سے پاکستان کی دو تشکیلوں پر حملہ کیا گیا۔ ایف سی پر حملے میں ملوث پانچ افراد میں سے تین افغانی تھے جو وہاں بیان ریکارڈ کرو ا کر آئے تھے۔پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں 70 ہزار سول ملٹری شہادتیں دیں اور اربوں ڈالرز کا نقصان بھی اٹھایا۔ پاکستان نے خطے میں سٹرٹیجک رسٹرینٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم نے افغانستان پر کبھی حملہ نہیں کیا، اب بھی صرف جوابی کارروائی کی ہے۔ اس سے پہلے جب چمن بارڈر پر افغانستان کی طرف سے حملہ ہوا تھا تو اس کا جواب دیا، پاکستان نے افغان بارڈ پر باڑ لگائی اور انٹرنیشنل بارڈر کو یقینی بنایا۔ گزشتہ مہینے افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی ہوئی اور پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔

افغان حکومت کہتی ہے کہ اس کا دہشت گردوں پر کنٹرول نہیں ہے تو پھر دہشت گرد کہاں سے آئے؟ جب پاکستان نے افغان چیک پوسٹوں پر حملہ کیا تو وہاں افغان فورسز اور خوارج دونوں موجود تھے جو پاکستان کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے۔ پاکستان نے بھرپور جواب دیا جس کے بعد جنگ بندی ہوئی۔افغانستان بھارت گٹھ جوڑ بے نقاب ہو چکا ہے۔ استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں ترکیہ کی خفیہ ایجنسی نے کالیں ٹریس کی تو معلوم ہوا کہ مذاکرات میں شریک افغان نمائندوں کا رابطہ بھارت میں اجیت دوول کے ساتھ ہے۔ طالبان قندھا ر اور کابل کے درمیان پھنسے ہیں۔ افغان حکومت چاہتی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کوبھی مذاکرات میں شامل کیا جائے، پاکستان اس پر تیار نہیں ہے۔

افغانستان یہ مان نہیں رہاکہ وہاں دہشت گرد موجود ہیں جبکہ پاکستان نے ترکیہ کے سامنے ویڈیو ثبوت بھی پیش کیے ہیں۔ مذاکرات میں پاکستان کا یک نکاتی ایجنڈہ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہواور افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں کوئی دہشت گردی کی کارروائی نہ ہو، پاکستان افغانستان کے ساتھ جنگ کی طرف نہیں جائے گا، کوشش ہوگی کہ مذاکرات سے معاملہ حل ہو لیکن اگرمعاملہ حل نہ ہوا تو پھر دنیا نے جو ’’نیو نارمل‘‘ سیٹ کیا ہے کہ دور رہ کر کارروائی کرکے اپنے دشمنوں کا خاتمہ کریں تو پاکستان بھی یہ طریقہ استعمال کر سکتا ہے۔

محمد مہدی

(ماہر امور خارجہ)

پاک افغان تعلقات کی تاریخ پاکستان کی تحریک آزادی سے منسلک ہے۔ آزادی کے وقت آزاد پختونستان کی باتیں تھیں اور آج بھی یہ سوچ مسئلہ ہے۔ پاکستان نے شروع دن سے ہی کوشش کی کہ افغانستان کے ساتھ معاملات حل بہتر رہیں۔ آزادی کے بعد پہلے افغانستان نے پاکستان کی مخالفت کی اور بعدازاں تسلیم کر لیا۔ 65ء کی جنگ میں افغانستان نے مہمند پر حملہ کیا۔

71ء میں بنگلہ دیش کے بننے پر کابل میں بڑا جشن منایا گیا۔ 1998ء میں طالبان کے پہلے دور میں برٹش انڈیا معاہدے کے 100 سال مکمل ہوئے، اس وقت طالبا ن کا پہلا دور تھا۔ پاکستان کا خیال تھا کہ اس کی توثیق کی جائے گی لیکن طالبان نے نہیں کی۔ اسی طرح جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں افغان حکومت کے ساتھ استنبول میں مذاکرات ہوئے۔ صدرپاکستان آصف علی زرداری کے سابق دور میں بھی استنبول میں سہ فریقی مذاکرات ہوئے لیکن دونوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو۔

دوحہ مذاکرات کے بعد خیال تھا کہ طالبان ہمارے احسان مند ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ طالبان نے کہا کہ پاکستان سے مذاکرات ہوئے ہی نہیں۔ اب استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات ہوئے جن سے فی الحال کچھ نہیں نکلا۔ پاکستان کہتا ہے کہ افغانستان دہشت گردی کو سپورٹ کر رہا ہے اور باقاعدہ ثبوت دکھا رہا ہے جبکہ طالبان کہتے ہیں کہ ہمارے پاس دہشت گرد نہیں ہیں، ہم لکھ کر کیوں دیں۔ اس وقت بھارت افغانستان کی مدد کر رہا ہے۔ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے کاکول اکیڈمی میں دیے گئے بیان میں واضح کیا کہ اگر بھارت اور افغانستان نے مل کر ہمیں انگیج کرنے کی کوشش کی تو ملکی دفاع میں ہر حد تک جائیں گے۔

خطے کے دیگر ممالک کی بات کریں تو چین نے افغانستان کے ساتھ سڑک تعمیر کی لیکن تجارت نہیںکھلی، چین چاہتا ہے کہ تجارت ہوں ۔ اس وقت خطے کے تقریباََ ہر ملک کو طالبان سے مسئلہ ہے۔ طالبان کی پالیسی ہے کہ ہر ملک کیلئے مسائل پیدا کرو تاکہ وہ گھبرا کر ان سے تعلق قائم کریں اور پھر یہ اپنی بات منوا سکیں۔ فیلڈ مارشل نے بارڈر سمگلنگ کا خاتمہ کر دیا ہے جس سے افغانستان کی معیشت کو نقصان ہوا ۔ افغانستان میں بھوک بڑھ رہی ہے۔ اگر پاکستان نے تمام افغان مہاجرین واپس بھیج دیے تووہاں بھوک کی صورتحال بدترین ہو جائے گی۔ طالبا ن قیادت کے اپنے بچے دوسرے ممالک میںرہتے ہیں۔

سہیل شاہین کے بچے قطر میں رہتے ہیں، ان لوگوں کو تو کوئی مسئلہ نہیںہے۔ پہلے قطر اور اب ترکی میں مذاکرات ہوئے، پاکستان جو چاہتا تھا وہ نہیں نکلا۔ افغانستان پر اس وقت دنیا کی توجہ ہے اور کچھ قوتیں متحرک بھی نظر آتی ہیں۔ جنرل احسان نے کہا ہے کہ دنیا میں بات ہو رہی ہے کہ اب افغانستان میں استحکام نہیں آئے گا۔ ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ دنیا افغانستان کی تقسیم پر غور کر رہی ہے، اگر امریکا اور چین دونوں اس پر متفق ہوجاتے ہیں تو یہ کام ہوسکتا ہے۔ افغانستان کا معاملہ سادہ نہیں ہے لہٰذا پاکستان کو احتیاط اور سفارتی محاذ پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں صرف ٹرمپ اور امریکا پر ہی توجہ نہیں دینی چاہیے دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا چاہیے ۔ ہمیں دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان امن پسند ہے اور افغانستان میں بھی امن چاہتا ہے۔ TAPI گیس پائپ لائن منصوبہ اہم ہے۔ اس میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت شامل ہیں۔ گیس ہم تک آنی ہے اور کرایہ افغانستان کو ملنا ہے۔ افغانستان کے مسائل کی وجہ سے وسط ایشیائی ممالک تک درست رسائی نہیں ہوسکی۔ پاکستان کو سفارتی محاذ پر محتاط تو رہنا ہے لیکن خاموش نہیں، ہمیں امن اور دفاع کا واضح پیغام دینا چاہیے۔

Tagsپاکستان

متعلقہ مضامین