ایمان انسٹی ٹیوٹ آف نرسنگ میں سکالر شپ دینے کی تقریب،اسٹیشن کمانڈر ڈیرہ برگیڈیئر عامر حیات نے طلباء میں سکالر شپ تقسیم کیے
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
ایمان انسٹی ٹیوٹ آف نرسنگ میں سکالر شپ دینے کی تقریب،اسٹیشن کمانڈر ڈیرہ برگیڈیئر عامر حیات نے طلباء میں سکالر شپ تقسیم کیے WhatsAppFacebookTwitter 0 11 January, 2025  سب نیوز 
ڈیرہ اسماعیل خان( محمد ریحان)اسٹیشن کمانڈر ڈیرہ برگیڈیئر عامر حیات نے ایمان انسٹی ٹیوٹ آف الائیڈ اینڈ نرسنگ سائنسز میں 35طلبہ کو 42لاکھ روپے کے سکالر شپ دینے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کی ترقی تعلیم کے فروغ میں پوشیدہ ہے انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا اور بالخصوص ڈیرہ اسماعیل خان میں قیام امن میں افواج پاکستان اور یہاں کے باسیوں کی قربانیاں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ڈیرہ اسماعیل خان کے باسیوں نے مشترکہ کوششیں کرکے یہاں امن ،رواداری اور برداشت کے کلچر کو فروغ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم متحد ہے ، انہوں نے کہا کہ نوجوان ہمارا اثاثہ ہیں انکا پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں اہم کردار ہے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایمان کے ڈائریکٹر معروف قانون دان ملک طاہر وسیم ڈیال ایڈوکیٹ نے کہا کہ اس خطہ میں الائیڈ ہیلتھ سائنسز اور بی ایس نرسنگ کے شعبہ کا فروغ صرف جنوبی اضلاع ہی نہیں پاکستان کی معاشی خوشحالی میں بھی مثالی کردار ادا کرے گا یہاں مشکلات کو دور کرنے میں افواج پاکستان کا تعاون قابل صد ستائش ہے انہوں نے کہا کہ کوہاٹ سے ڈیرہ اسماعیل خان اور ضم شدہ جنوبی اضلاع میں ہمارے ہی صرف دو ادارے ہیں جو تمام تر قانونی تقاضوں سے آراستہ ہیں یہاں یونیورسٹی آف نرسنگ اینڈ الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے قیام کا منصوبہ جلد شروع کیا جائے گا ۔
ایس آئی ایف سی کی مکمل تعاون و تائید حاصل ہے انہوں نے کہا کہ اس حوالہ سے جہاں بہت سارے لوگوں کی کاوشیں شامل ہیں وہاں بالخصوص لیفٹیننٹ جنرل سرفراز ، جنرل لقمان ، جنرل ہارون ، جنرل ندیم ، برگیڈئیر اسد ، اور خصوصا ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے میجر جنرل احمد کمال اور برگیڈیئر نجیب گل کا خصوصی شکریہ ادا کیا جنکی کاوشوں سے ڈیرہ اسماعیل خان میں میڈیکل کی اعلی سطحی فنی تعلیم کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا ، تقریب کے اختتام پر ایمان کے ڈائریکٹر ملک طاہر وسیم ڈیال نے اسٹیشن کمانڈر برگیڈیئر عامر حیات ، کرنل علی ڈیال ، گروپ کیپٹن عاصم فاروق ڈیال کو خصوصی شیلڈزبھی پیش کی، تقریب میں طلبہ کے والدین اساتذہ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے معززین علاقہ کی بڑی تعدادنے شرکت کی۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: اسٹیشن کمانڈر میں سکالر شپ
پڑھیں:
تماشا دکھا کر مداری گیا!!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251104-03-7
اسماعیل صدیقی
آج نیویارک میں مئیر کا الیکشن ہونے جارہا ہے جس نے نہ صرف نیویارک اور امریکا بلکہ پوری دنیا کی توجہ حاصل کی ہوئی ہے۔ اس سے پہلے نیویارک میں ہونے والے مئیر کے الیکشن میں لوگوں کی عدم دلچسپی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ چار سال پہلے ہونے والے الیکشن میں فقط تیئس ۲۳ فی صد ووٹ ڈالے گئے تھے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عام الیکشن سے پہلے ہونے والی ابتدائی (early) ووٹنگ میں تقریباً ساڑھے سات لاکھ ووٹ ڈالے جاچکے ہیں جو پچھلی دفعہ کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہیں۔ اس دفعہ بھی شاید عوامی بے رُخی پچھلی دفعہ والی ہوتی اگر یوگینڈا میں پیدا ہونے والے ہندوستانی نژاد امیدوار ظہران ممدانی میدان میں نہ ہوتے جو خود کو مسلم سوشلسٹ کہہ کر متعارف کرواتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کا گڑھ کہلانے والے نیویارک میں ان کے اس تعارف کے دونوں حصے ’’مسلمان‘‘ اور ’’سوشلسٹ‘‘ دہکتے ہوئے انگاروں کی مانند ہیں۔
تاریخی طور پر نیویارک میں سفید فاموں کے علاوہ اطالوی نژاد امریکی، یہودی اور سیاہ فام میئرز منتخب ہوتے آئے ہیں۔ ایسے میں ایک مسلمان امیدوار کا سنجیدگی سے انتخابی دوڑ میں شامل ہونا کبھی بعید از قیاس سمجھا جاتا تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ظہران ممدانی کی مقبولیت ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ مسلمان ہونے کے باوجود ہے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف ان کا پیغام عوام کے دل کی آواز بن چکا ہے۔
امریکا میں عوام اس وقت دولت کی ظالمانہ حد تک غیر منصفانہ تقسیم سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ خصوصی طور پر نیویارک میں جہاں ایک طرف لوگوں کو فقط مکان کا کرایہ ادا کرنے کے لیے دو نوکریاں کرنی پڑ رہی ہیں وہاں امرا کی دولت میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے۔ اس وقت امریکا میں بالائی ایک فی صد طبقہ دولت کے تیس فی صد سے زائد حصے پر قابض ہے جبکہ زیریں پچاس فی صد کے حصے میں فقط تین فی صد دولت آئی ہے۔ کسی کمپنی کے ایک عام آدمی کی تنخواہ اور ایک سی ای او کی تنخواہ میں ایک اور ساڑھے چار سو کا تناسب ہے۔ دولت کی اس قدر غیر منصفانہ تقسیم پر امریکا میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ گزشتہ سال نیویارک میں ہونے والا ایک واقعہ یوں تو معمولی واقعہ تھا مگر وہ عوام میں پائی جانے والی اس بے چینی کا عکاس ہے۔
چار دسمبر 2024 کی ایک سرد صبح امریکا کی سب سے بڑی ہیلتھ انشورنس کمپنی یونائیٹڈ ہیلتھ کئیرکے سی ای او برائین تھامپسن کو دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام کے گڑھ نیویارک کے تجارتی علاقے مین ہیٹن میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ یہ قتل کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا۔ امریکا میں ہر سال تقریباً بیس ہزار قتل ہوتے ہیں۔ جو چیز انوکھی تھی وہ اس قتل کے بعد آنے والا رد عمل تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لوگ مقتول سے ہمدردی کرتے مگر لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد قاتل کو سراہنے لگی۔ تھامپسن کے جسم میں پیوست تین گولیوں پر ’’deny, defend, depose‘‘ کے الفاظ کندہ تھے۔ یہ تین الفاظ دراصل وہی حربے ہیں جن کے ذریعے ہیلتھ انشورنس کمپنیاں اپنی تنخواہ سے ماہانہ رقم کٹوانے کے باوجود صارفین کو وقت پڑنے پر علاج کے لیے رقم دینے سے گریز کرتی ہیں۔ چند ہی دنوں میں ملزم لوئیجی منجیونی گرفتار کر لیا گیا، مگر وہ ایک عوامی ہیرو بن چکا تھا۔ اس نے اپنے مینی فیسٹو میں لکھا کہ ان خون چوسنے والے طفیلیوں (parasites) کو یہ دن دیکھنا ہی تھا۔ اس کی مقبولیت سے خوف زدہ حکام نے قتل کے ساتھ ساتھ اس پر دہشت گردی کے الزامات بھی عائد کیے، مگر گزشتہ ماہ عدالت نے دہشت گردی کے الزامات مسترد کر دیے ہیں۔ اگرچہ کہ نیویارک کے قانون میں سزائے موت نہیں ہے مگر اس کیس کو وفاقی کیس بنا کر لوئیجی کو سزائے موت دلوانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ اس کو نشان عبرت بنایا جاسکے۔
لوئیجی منجیونی کی عوامی حمایت امریکا میں سیاسی تقسیم کی نوعیت میں تبدیلی کا ایک اشارہ تھی۔ یہ معاملہ دائیں یا بائیں بازو کا نہیں تھا، بلکہ بالائی اور زیریں طبقے کے درمیان ایک واضح لکیر کا تھا۔ دونوں بڑی جماعتوں کے غریب طبقے میں لوئیجی ایک ہیرو تھا، جب کہ امرا کی نظروں میں وہ ایک سفاک قاتل تھا۔ یہی بالائی اور زیریں تقسیم نیویارک کے موجودہ مئیر کے الیکشن میں نظر آتی ہے۔ اس وقت ڈیموکریٹک پارٹی کے اپنے منتخب امیدوار ظہران ممدانی کو ان کی پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے جو اشرافیہ پر مشتمل ہے اپنی حمایت مہیا کرنے سے انکار کردیا ہے جن کی سیاست کا انحصار ان بلینرز کی دولت پر ہے جن سے عوام تنگ آئے ہوئے ہیں۔ اس وقت ان بلینرز کا کسی قسم کا پروپیگنڈا عوام پر کام کرتا نظر نہیں آرہا۔ نیویارک میں ان بلینرز کی ایک بہت بڑی تعداد صہیونی یہودیوں پر مشتمل ہے جنہوں نے ظہران ممدانی کو شکست دینے کے لیے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیے ہیں۔ غزہ میں جاری نسل کشی کی حمایت کی وجہ سے ان بلینرز کے خلاف پہلے ہی سے عوامی جذبات موجود تھے۔
۲۰۰۸ میں بھی جب امریکا کو ان دولت کے بھوکے بے لگام بلینرز کی وجہ سے اقتصادی بحران سے گزرنا پڑا تھا اور ان بلینرز کو اپنے اعمال کی سزا بھگتنے کے لیے چھوڑنے کے بجائے ان کمپنیوں کو حکومت نے Too big to fail کے عنوان کے تحت بیل آؤٹ کیا تھا اس وقت بھی عوامی رد عمل میں امریکی معاشرہ دائیں بازو اور بائیں بازو کی تقسیم کے بجائے بالائی اور زیریں طور پر منقسم نظر آیا۔ جہاں ایک طرف بائیں بازو کی طرف Occupy Wall Street کی تحریک نظر آئی وہیں دائیں بازو کی طرف Tea Party Movement موجود تھی۔ بیک وقت اٹھنے والی یہ دونوں تحریکیں اگرچہ کہ بالکل مختلف محرکات کے تحت اٹھی تھیں مگر ان دونوں تحریکوں کا ہدف اشرافیہ سے تعلق رکھنے والا طبقہ تھا۔ بائیں بازو کا ہدف کارپوریشنز اور دائیں بازو کا ہدف حکومت کا حجم اور اس کی طرف سے عائد کردہ ٹیکس اور عوامی زندگی میں بڑھتی مداخلت تھی۔ حکومت کی جانب سے امریکی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے والی کارپوریشنوں اور ان کو چلانے والے بلینرز کی عوام کے دیے ہوئے ٹیکسوں سے بیل آؤٹ سے دونوں اطراف پر یہ واضح ہوچلا تھا کہ حکومت اور کارپوریشنز ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں اور دونوں کے درمیان ایک ریولونگ ڈور موجود ہے۔ امریکا اس وقت انقلاب کے دہانے پر نظر آرہا تھا۔ مگر سرمایہ دار کی مکر کی چالوں سے انتہائے سادگی سے مزدور مات کھا گیا اور امریکا کی سیاست کو پھر مصنوعی طور پر بائیں اور دائیں بازو کی سیاست میں تقسیم کرکے رکھا گیا جبکہ حقیقی تقسیم اوپر اور نیچے کی تھی۔
صہیونی سرمایہ داروں کی طرف سے اس وقت پھر اس تقسیم پر پردہ ڈالنے کے لیے ظہران ممدانی کے خلاف اسلاموفوبیا پر مبنی ایک مہم چلائی جارہی ہے جس کی شدت اتنی ہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس الیکشن کے نتائج کچھ بھی ہوں مگر ایک مرد درویش کا قول ذہن میں گونجتا ہے کہ: ’’ایک وقت آئے گا کہ کمینوزم کو ماسکو میں پناہ نہ ملے گی اور سرمایہ دارانہ جمہوریت خود واشنگٹن اور نیویارک میں لرزہ براندام ہوگی‘‘۔