زرداری نے جتنے وسائل کراچی کو دیے، کسی نے نہیں دیے، بلاول
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
کراچی:چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول زرداری شہید ذوالفقار علی بھٹو ایکسپریس وے کے پہلے فیز کی افتتاحی تقریب سے خطاب کررہے ہیں
کراچی ( اسٹاف رپورٹر) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ تین نسلوں سے پی پی اور میرا خاندان اس شہر کی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں، صدر زرداری نے جتنے وسائل کراچی کو دیے، کسی نے نہیں دیے ‘ وفاق کی طرف سے سندھ کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے قیوم آباد تا شاہ فیصل ملیر ایکسپریس وے کے فیز ون کا افتتاح کر تے ہوئے کیا جس کا نام ذوالفقار علی بھٹو ایکسپریس وے رکھا گیا۔افتتاحی تقریب میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، سندھ کابینہ کے اراکین، پی پی پی سندھ کے صدر نثار کھوڑو، قائم علی شاہ سمیت پارٹی کی دیگر سینئر قیادت نے بھی شرکت کی۔ بلاول بھٹو نے شاہراہ بھٹو کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قائد عوام شہید بھٹو نے بھی کراچی کو بڑے بڑے منصوبے دیے، شاہراہ فیصل اسٹیل مل سمیت ودیگر اہم منصوبے بھٹو نے دیے،شہید بینظیر بھٹو نے دو آمرانہ حکومتوں سے جدوجہد کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو نے ہمیشہ کراچی میں امن امان قائم کرنے اور نوجوانوں کو روزگار دینے کی کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ صدر زرداری نے جتنے وسائل کراچی کو دیے اس سے پہلے کسی نے نہیں دیا، مصطفی کمال کے بیانات بھی رکارڈ پر موجود ہیں، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت جو منصوبے دیے وہ کامیاب ہیں۔کراچی کے جو مسائل ہیں ان کے حل کے لیے پرائیویٹ سیکٹر سے مل کر کام کرنا پڑے گا‘اگر کاروباری طبقے کو منافع نہیں ہوگا تو وہ آپکے ساتھ کیوں کام کرے گا؟ شہر کے تمام مسائل کا حل پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت نکالیں گے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ کراچی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، دوسرے ممالک سے بھی لوگ یہاں آبسے ہیں، چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ شہر میں قائم علی شاہ کے دور سے پانی کا بڑا مسئلہ ہے ‘میئر اور وزیر بلدیات سے کہتا ہوں کہ پہلے پانی کے منصوبے پر کام کریں۔قبل ازیں وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے شاہراہ بھٹو کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج چیئرمین پی پی شاہراہ بھٹو کے پہلے فیز کا افتتاح کرنے آئے ہیں، آج سے 30 پہلے شھید بینظیر بھٹو نے کراچی پیکیج دیا تھا اس میں یہ منصوبہ شامل تھا، آج سے پونے 3سال قبل اس منصوبے کا کام شروع ہوا تھا، ایک بڑے بینک کے سی ای او نے مجھے کہا تھا میں سو فیصد فنانس کروں گا، کہیں کہا گیا کہ ہم 1.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: افتتاحی تقریب کراچی کو علی شاہ بھٹو نے کام کر
پڑھیں:
اغوا برائے تاوان
کراچی میں عشروں سے جاری اغوا برائے تاوان، ڈکیتیوں، چوری و اسٹریٹ کرائم، ہر قسم کے جرائم کی سرپرستی کے لیے پولیس بدنام تھی ہی جن میں کہا جاتا تھا کہ باوردی اہلکاروں کے علاوہ ایسے جرائم پیشہ بھی شامل ہوگئے تھے جو پولیس کی جعلی وردی استعمال کرتے تھے۔ کراچی پولیس بے نظیر بھٹو دور میں ماورائے عدالت قتل میں بھی بہت مشہور ہوئی تھی جب 1991 میں کراچی آپریشن کے نام پر سیاسی بنیاد پر پولیس مقابلے ہوئے۔
الزام لگایا جاتا ہے کہ ان پولیس مقابلوں میں حقیقی مجرم برائے نام اور بے گناہ افراد زیادہ تھے ،بعدازاں آپریشن میں شریک اکثر پولیس افسروں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بننا پڑا تھا۔ کراچی کے سیاسی دہشت گردوں اور مختلف کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے بڑے دہشت گرد گرفتار بھی ہوئے تھے جن کے ساتھیوں نے اپنی دہشت گردی سے ایس ایس پی چوہدری اسلم سمیت متعدد پولیس افسروں کو شہید کیا تھا۔ چوہدری اسلم دہشت گردوں کی سرکوبی اور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پولیس مقابلوں میں ملک بھر میں مشہور ہوئے تھے۔
کراچی کی پولیس مکمل سیاسی تو عشروں پہلے ہی ہو گئی تھی جس کے افسران مخصوص سیاسی پارٹیوں سے تعلق میں مشہور تھے۔ کراچی پولیس میں اندرون سندھ سے سیاسی بنیاد پر بڑے پیمانے پر بھرتیاں ہوئی تھیں۔
کراچی کے رہنے والوں کا پولیس میں داخلہ سیاسی بنیاد پر ناممکن تھا البتہ سندھ کے ایک سابق وزیر داخلہ نے اندرون سندھ کے لوگوں کو بڑی تعداد میں کراچی کے ڈومیسائل پر بھرتی کرایا تھا اور اب سندھ اسمبلی کے پی اے سی اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ دیگر صوبوں کے ڈومیسائل پر 19 اہلکاروں کی بھرتی کا انکشاف ہوا تھا مگر انھیں برطرف کرنے کی بجائے صرف شوکاز نوٹس جاری کیے گئے تھے۔ جعلی ڈومیسائل پر دوسرے صوبوں کے بھرتی صرف 19 اہلکاروں کے خلاف اب مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے وہ بھرتیاں1979 سے 2015 کے دوران ہوئی تھیں جو سندھ پولیس کے مختلف دفاتر سے 170405 ملین روپے تنخواہ مسلسل وصول کر رہے ہیںاور کوئی پوچھنے والا نہیں۔
سندھ پولیس میں عشروں سے مختلف ریکارڈ قائم ہوئے ہیں جہاں 1977 میں ایک مڈل پاس افسر ڈی آئی جی لاڑکانہ بھی رہا ہے۔ کراچی پولیس میں بڑی تعداد اندرون سندھ کے لوگوں کی اور کراچی و حیدرآباد جیسے شہری علاقوں کی تعداد برائے نام ہے جس پر ایم کیو ایم سالوں سے شور بھی مچا رہی ہے مگر انھوں نے بھی اپنے دور میں اپنے کارکنوں کو بھرتی کرنے میں کسر نہیں چھوڑی تھی اور پیپلز پارٹی کے بقول ایم کیو ایم نے اپنے دہشت گرد پولیس میں بھر دیے تھے۔
آج سے تیس سال قبل ضلع جنوبی کے ایک تھانے پر میرے آبائی شہر شکارپور کے دوست ایس ایچ او تعینات ہوئے تھے جنھوں نے بتایا تھا کہ کراچی کے بعض ایس ایچ اوز اتنے بااثر ہیں کہ وہ ایس پیز کے تبادلے اپنی مرضی سے کراتے ہیں۔
سندھ میں 2008کے بعد سے سندھ میں حکومت پیپلز پارٹی کی ہے جسے سترہواں سال شروع ہو گیا ہے جس کے دور میں ملیر پولیس کا ایک ایسا کانسٹیبل بھی سامنے آیا ہے جس نے ملیر پولیس کے تین سپاہیوں اور علاقے کے جرائم پیشہ عناصر پر مشتمل گروپ بنا رکھا ہے جو سنگین جرائم کے ساتھ شارٹ کڈنیپنگ کی وارداتیں کراتا آ رہا تھا جو علاقے کے تھانوں کے ایس ایچ اوز اپنی مرضی سے تعینات کراتا تھا جس کے خلاف اندرون سندھ میں بھی مختلف مقدمات درج ہیں مگر کارروائی سے محفوظ رہتا ہے۔
حال ہی میں اس انتہائی بااثر سپاہی کے سیاسی اثر و رسوخ کی یہ حالت ہے کہ اس نے 28 مارچ کو کراچی کے ٹرانسپورٹر سمیت دو تاجروں کو اغوا کیا تھا اور ان سے رہائی کے لیے بڑے افسروں کے نام پر تین کروڑ تاوان مانگا تھا جو انھوں نے دینے سے انکار کیا تو انھیں گھنٹوں گاڑی میں گھمایا اور تشدد کا نشانہ ان کی اپنی مہنگی گاڑی میں بنایا گیا اورگاڑی میں لگے ٹریکر کی تلاش میں گاڑی کی سیٹیں ادھیڑ دی گئیں اور ساڑھے پانچ لاکھ روپے انھیں ضرور مل گئے۔
بااثر ٹرانسپورٹر کے عزیزوں کی پہنچ اور آئی جی پولیس اور اعلیٰ پولیس افسروں کی مداخلت پر رات گئے رہائی ملی تھی جس کے بعد ڈیڑھ ماہ کی سخت کوشش کے بعد ملزم کے خلاف ملیر میں اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کے الزامات میں مقدمہ تو درج ہوا۔ تین پولیس اہلکار معطل بھی ہوئے مقدمہ اے وی وی سی گارڈن منتقل ہونے کے بعد جے آئی ٹی بھی تین پولیس افسروں پر مشتمل بنی مگر ملزمان گرفتار نہیں کیے گئے اور انھوں نے دہشت گردی عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری بھی حاصل کرلی، بااثر پولیس اہلکار نے پہلے ضمانت کرائی جو بعد میں کنفرم بھی ہوگئی۔
درجنوں بے گناہ لوگ مارنے والے پولیس افسران کا سالوں میں کچھ ہوا نہ اب کچھ ہو گا۔ مدعی صلح پر مجبور کرا دیا جائے گا اور بااثر ملزم بھی بچ ہی جائے گا۔ عام لوگوں کے ساتھ سندھ میں جو ہو رہا ہے وہ تو وہی جانتا ہے جب کہ اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ بھی پولیس گردی سے محفوظ نہیں ہیں۔ سندھ پولیس میں اتنا مال، طاقت اور پولیس اثر و رسوخ ہے جب ہی تو ملک بھر سے جعلی ڈومیسائلوں پر کراچی پولیس میں بھرتی ہوا جاتا ہے اور 54 سال بعد حقائق منظر عام پر آتے ہیں۔