حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر) ہیو فاونڈیشن اور ڈی ایکس این کے اشتراک سے ایک معلوماتی سیمینار ڈاکٹر غلام مصطفی خانزادہ صدر ہیو فاونڈیشن کی صدارت میں کرائون ہوٹل لطیف آباد حیدرآباد میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر بانی ہیو فاؤنڈیشن محمد نعیم خانزادہ۔ کنٹری منیجر ڈی ایکس این۔ مبین خان نے شرکت کی۔ پروگرام میں ڈی ایکس این کی ٹیم نے صحت کے حوالے سے بات چیت میں کہا کہ روز مرہ کی کیمیکل زدہ اشیا سے انسان پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جڑی بوٹی سے بنی اشیا جو کہ ہمارے لیے مفید ہیں وہ ہمیں استعمال کرنی چاہیے۔ اللہ پاک نے ہزاروں جڑی بوٹی کو بھی پیدا کیا ان میں سے مشروم ایک ہے۔ مش روم سے بننے والی ادویات مختلف بیماریوں کے لیے مفید ہے۔ کینسر سمیت دیگر موذی بیماریوں کا علاج مش روم سے کیا جاتا ہے۔ مزید کہا کہ ڈی ایکس این بے روزگاری ختم کرنے کا ذریعہ بھی بن رہی ہے۔ ان سے آپ ایک اچھا روزگار بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ مزید ہیو فاونڈیشن کے بانی محمد نعیم خانزادہ کی جانب سے ہیو فاونڈیشن کی ایپ کا افتتاح کیا گیا۔ کہا کہ ایپ ایک رابطے کا ذریعہ بنے گی۔ جس میں مختلف فیچر دیئے گئے ہیں۔ ہیو فاونڈیشن کی تمام سروسز ایپ پر موجود ہوںگی۔ اسکالرشپ، قرضہ حسنہ، میرج بیورو،آن لائن کورسز کی معلومات و دیگر چیزیں شامل ہوںگی۔ مزید کہا کہ نوجوان اپنی قسمت آزمائیں اور ہماری ٹیم کا حصہ بنیں۔ ہم سول سروس سمیت دیگر شعبہ جات میں ہر ممکن مدد فراہم کریں گے۔ پروگرام میں سول سروس میں پاس ہونے والے مشفکانور ڈی ایس پی، عامر رائو اسسٹنٹ کمشنر، عرفان خانزادہ انسپکٹر موٹر وہیکل انسپکشن، صولت بانو انسپکٹر کسٹم انسپکٹر،اقرا اقبال سلور مڈل شعبہ بین الاقوامی روابط یونیورسٹی آف سندھ اور حاشر خانزادہ سلور میڈل قائد اعظم ٹرافی اسلام آباد 2024ء کو اعزازی شیلڈ اور اجرک سے نوازا گیا۔ جبکہ اس سے قبل مہمانان گرامی کو بھی شیلڈ اور اجرک کے تحائف دیے گئے۔ پروگرام سے دیگر شہروں سے بھی میمبرز نے شرکت کی۔ سکرنڈ سے راشد شکور،بچھیری سے سر ناصر خانزادہ،نواب شاہ سے ڈاکٹر اکرم خانزادہ،ٹنڈو حیدر سے شمشاد خانزادہ،ٹنڈو جام سے ماسٹر اقبال خانزادہ،ٹنڈوالٰہیار سے نسرین اشتیاق جبکہ کوٹری سے ڈاکٹر شاہد خانزادہ،ڈاکٹر اشفاق اور حیدرآباد سے اخلاق خانزادہ ودیگر شامل تھے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ڈی ایکس کہا کہ

پڑھیں:

پاکستان میں شعبہ صحت کا بحران:ساڑھے 7 لاکھ افراد کیلیے صرف ایک ڈاکٹر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد:پاکستان میں صحتِ عامہ کی صورت حال بدستور تشویش ناک ہے، جہاں ہر 7لاکھ 50 ہزار شہریوں کے لیے محض ایک ڈاکٹر میسر ہے۔

یہ حیران کن انکشاف وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ سالانہ اقتصادی سروے برائے مالی سال 2024-25 میں کیا گیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ صحت پر حکومتی توجہ نہایت محدود اور وسائل غیر تسلی بخش ہیں۔

سروے رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں صحت کے شعبے پر رواں مالی سال کے دوران مجموعی طور پر 925 ارب روپے خرچ کیے گئے، جو جی ڈی پی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتے۔ ماہرین صحت کے مطابق یہ شرح نہ صرف عالمی معیار سے بہت کم ہے بلکہ ملک کی بڑھتی آبادی، موسمیاتی اثرات اور وبائی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اخراجات انتہائی ناکافی قرار دیے جا رہے ہیں۔

پاکستان کی 24 کروڑ سے زائد آبادی کے مقابلے میں صرف 3 لاکھ 19 ہزار رجسٹرڈ ڈاکٹرز دستیاب ہیں۔ اگرچہ گزشتہ ایک سال میں ڈاکٹروں کی تعداد میں 20 ہزار سے زائد کا اضافہ ہوا، مگر یہ اضافہ بھی آبادی کے تناسب سے نہایت کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق دانتوں کے امراض کے لیے مختص ماہرین یعنی ڈینٹسٹ کی مجموعی تعداد 39 ہزار 88 ہے، جو ملک کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔

دیگر طبی عملے کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ نرسز کی کل تعداد ایک لاکھ 38 ہزار، دائیوں کی تعداد 46 ہزار 801 اور لیڈی ہیلتھ ورکرز صرف 29 ہزار ہیں۔ دیہی علاقوں خاص طور پر سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں بھی اس عملے کی شدید قلت محسوس کی جا رہی ہے، جس کے باعث زچگی، بچوں کی پیدائش اور عام بیماریوں کا بروقت علاج مشکل ہو چکا ہے۔

طبی انفرا اسٹرکچر کے حوالے سے بھی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔ ملک میں اسپتالوں کی تعداد صرف 1696 ہے جب کہ بنیادی ہیلتھ یونٹس 5434 بتائے گئے ہیں۔ دور دراز علاقوں میں ان سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث لاکھوں افراد کو علاج کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے، جہاں نہ صرف اخراجات زیادہ ہیں بلکہ رسائی بھی ایک مسئلہ ہے۔

ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں بچوں کی شرح اموات اب بھی بلند سطح پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر 1000 بچوں میں سے 50 شیرخوار سالانہ طور پر جان کی بازی ہار جاتے ہیں، جو عالمی سطح پر انتہائی تشویش ناک شرح سمجھی جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں خوراک کی کمی، ناقص ویکسینیشن نظام اور بروقت طبی امداد کی عدم دستیابی شامل ہیں۔

اگرچہ رپورٹ میں اوسط عمر میں بہتری کا عندیہ دیا گیا ہے ، جو اب 67 سال 6 ماہ تک پہنچ چکی ہے ، لیکن ماہرین صحت کے مطابق یہ بہتری صرف شہری علاقوں تک محدود ہے، جب کہ دیہی علاقوں میں صورت حال اب بھی بدتر ہے۔ صحت کے شعبے میں پائیدار اصلاحات، فنڈز کا شفاف استعمال اور طبی عملے کی بھرتی جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔

اقتصادی سروے کے ان اعداد و شمار نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں صحت کا شعبہ مسلسل نظراندازکیا جا رہا ہے۔ اگر حکومت اور پالیسی سازوں نے سنجیدہ اور بروقت اقدامات نہ کیے تو ملک کو مستقبل میں مزید بڑے صحت کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مہنگائی تھمی نہیں، اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے عوام سال بھر پریشان رہے
  • ایک سال کے دوران بیشتر اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں کمی نہ ہو سکی
  • پاکستان میں شعبہ صحت کا بحران:ساڑھے 7 لاکھ افراد کیلیے صرف ایک ڈاکٹر
  • حکومتی پالیسیوں کے زراعت کے شعبہ پر بھیانک اثرات
  • مہنگائی تھمی نہیں؛ اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے عوام سال بھر پریشان رہے
  • شاہد آفریدی نے سوشل میڈیا پربھارت مخالف بیان کی تردید کردی
  • اسپیس ایکس نے فلوریڈا سے سرئیس ایکس ایم کا نیا سیٹلائٹ لانچ کر دیا
  • عید پر گوشت کا استعمال اور صحت کا خیال کیسے رکھا جائے؟
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟
  • عید کیلئے فول پروف سکیورٹی انتظامات کا حکم، مریم نواز کا کھانے پینے کی اشیا کے نرخوں میں کمی پر اظہار اطمینان