Jasarat News:
2025-10-29@00:36:21 GMT

قوم کو سچ بتائیں

اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251029-03-7

 

 

 

مظفر اعجاز

دنیا بھر میں حکمران اپنی قوم کو حقائق سے باخبر نہیں رکھتے، ہمیشہ حقائق کے برخلاف باتیں کرتے ہیں، اور زیادہ تر یہ کام وہ حکمران کرتے ہیں جو جنگوں میں مصروف ہوتے ہیں یا کسی کے لیے جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں اور دنیا میں کسی قوم کو اس کے حکمرانوں نے سب سے زیادہ اندھیرے میں رکھا ہے تو وہ پاکستانی قوم ہے، اسے ابتدا سے حقائق سے دور رکھا گیا۔ پاکستان کے قیام سے لے کر ایوب خان کے مارشل لا تک، اس کے بعد سے آج تک سرکار جو بتاتی ہے وہ کچھ عرصے بعد غلط ثابت ہوتا ہے۔ گزشتہ چالیس برس سے تو پاکستان ایک ایسی جنگ میں الجھا ہوا ہے، جو نہ اس نے چھیڑی ہے نہ وہ ختم کرسکتا ہے پہلے بیس سال سوویت یونین کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں مزاحمت کے ہیں، اس دور میں قوم کو یہ بتایا گیا کہ افغان مجاہدین پاکستان کی جنگ لڑرہے ہیں، جب سوویت یونین افغانستان سے نکل گیا تو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اچھے ہوگئے، لیکن کچھ ہی عرصے میں وہاں حکومت بدل گئی اور دونوں ملکوں میں کشیدگی شروع ہوگئی۔ یہ کشیدگی اس وقت دوسرا رُخ اختیار کرگئی جب پاکستان کی بھرپور مدد سے امریکیوں کو افغانستان میں داخل کیا گیا۔ اس کے بعد سے لا محالہ پاک افغان تعلقات خراب ہی ہونے تھے۔ لیکن بیس برس کی جنگ میں پاکستان کی مختلف فوجی قیادتوں نے طالبان، تحریک طالبان پاکستان، اور دوسرے گروہوں کی حمایت اور مدد کی کہ امریکا کو بھی وہاں سے نکل بھاگنا پڑا، اس کے فوراً بعد پاک افغان تعلقات بہتر ہونے لگے لیکن کسی غیر مرئی قوت نے پاکستان کو اپنے پڑوسی ملک میں سفارت خانہ کھولنے یا افغانستان کی آزاد حکومت کو تسلیم کرنے سے روک دیا۔ یہ وہی آزاد حکومت تھی جس کی قیادت سے مذاکرات کو عنوان ہی ’’امارت اسلامی افغانستان‘‘ اور امریکا کے مابین مذاکرات تھا، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا جس گروہ اور جن لوگوں سے مذاکرات کرکے افغانستان سے نکلا تھا ان کے ساتھ معاہدہ کرکے انہیں سند جواز بخشی تھی ان سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی آزاد ملکوں کو بھی اجازت نہیں دی گئی۔ اور یہیں سے تعلقات میں کشیدگی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔ اس مختصر جائزے کے بعد یہ معلوم کرنا تو مشکل نہیں رہا کہ پاک افغان کشیدگی کا مرکز کابل یا اسلام آباد نہیں کہیں اور ہے، زیادہ قرین حقائق تو واشنگٹن ہی ہے لیکن عالمی سیاست میں ایسے تنازعات میں ایک سے زیادہ کھلاڑی اور کئی مہرے مصروف عمل ہوتے ہیں۔ لہٰذا چین اور بھارت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اور کچھ اشارے بھی ان کو نظر انداز نہ کرنے کو یقینی بنارہے ہیں۔

اب اسے اس تناظر میں دیکھتے ہیں کہ قوم کو بتایا گیا کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغان مہاجرین کی پہلی آمد کے ساتھ منشیات اور کلاشنکوف کلچر آیا، پھر جنرل مشرف کے دور میں بتایا گیا کہ افغانستان سے دہشت گردی آئی، طالبان دہشت گردی کرتے ہیں، پھر کہا گیا کہ طالبان تو ٹھیک ہیں ٹی ٹی پی والے دہشت گردی کرتے ہیں، اسی دوران گڈ طالبان بیڈ طالبان کی اصطلاحات سامنے آئیں، لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ طالبان کس نے بنائے، ٹی ٹی پی کس نے بنائی، گڈ طالبان بیڈ طالبان کس نے وضع کیے، پنجابی طالبان اور طالبان جنوبی ایشیا تک ایجاد ہوگئے۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے دو حوالے کافی ہیں، ایک برطانوی صحافی ایوون ریڈلی، جب وہ پاکستان آئیں تو ان سے سوال کیا گیا کہ طالبان تو دہشت گرد ہیں اور آپ ان کی تعریف کرتی ہیں تو ریڈلی نے کہا کہ میرا طالبان کے ساتھ جو تجربہ تھا میں اس کی روشنی میں اپنی رائے دینے کا حق رکھتی ہوں، لیکن جب دنیا میں کوئی برانڈ مشہور ہوجائے تو اس نام سے بہت سی چیزیں مارکیٹ میں آجاتی ہیں، تو میں اصل (اوریجنل) کی بات کررہی ہوں اور آپ اس کی نقل میں بننے والی چیز کی۔ اسی طرح دوسرا حوالہ سابق امریکی سفارت کار کا سی این این کو جواب تھا کہ امریکا دنیا میں ہر جگہ جنگ جیتی ہے لیکن افغانستان میں کیوں ہار رہا ہے تو اس نے جواب دیا تھا، ’’ایک لفظ‘‘ میرا جواب بس ایک لفظ ہے اور وہ ہے ’’پاکستان‘‘ ہماری شکست کی ایک ہی وجہ ہے وہ پاکستان ہے، پھر اس کو امریکی جنرل کے اس الزام سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ’’ہمارا خیال ہے کہ دونوں جانب سے پاکستان ہی کھیل رہا ہے، تو بھائی ایسے کھیلوں میں اور اس طرح کھیلنے کے بارے ہی میں کہا گیا ہے کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ ایسے خطرناک کھیلوں میں کسی بھی جانب تباہی ہوسکتی ہے، اس لیے ساری ذمے داری طالبان، افغانستان اور بھارت پر نہیں ڈالی جاسکتی، کچھ اپنی جانب بھی نظر کرم کرلیں۔ اس تناظر میں پاکستانی وزیر اعظم اور وزیر دفاع کے بیانات سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ 2018ء میں دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کر دیا تھا لیکن بلوچستان سمیت دیگر علاقوں میں دہشت گردی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے‘ سیکورٹی ادارے ہر روز امن کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ وزیر اعظم یہ بتاسکتے ہیں کہ 2018 میں جس دہشت گردی کو ’’مکمل‘‘ طور پر ختم کردیا گیا تھا وہ بلوچستان سمیت دیگر علاقوں میں کیوں سر اٹھا رہی ہے، جس کے ذمے سیکورٹی ہے اس نے کہاں غفلت برتی ہے، اور حکومت غلطی کا تعین کیے بغیر آگے کیسے بڑھ سکتی ہے۔ اگر ایک بار پھر یہ جملہ کوئی اور نہ دہرائے کہ ’’دہشت گردی تو ختم کردی تھی وہ پھر سر اٹھا رہی ہے‘‘۔ حالانکہ سر تو سب سے پہلے کچلا جاتا ہے، پھر یہ کچلا ہوا سر کیسے اٹھ رہا ہے، کچلنے والوں سے کچھ نہیں پوچھا؟؟ اس راز سے کوئی پردہ اٹھائے تو غدار قرار پاتا ہے اس لیے حکومت کی ذمے داری ہے کہ عوام کو حقائق بتائے۔

شاید اسی لیے وزیر اعظم بلوچستان ورکشاپ سے خطاب کر رہے تھے، اور بلوچوں اور صوبے کی تعریفیں کیں اور کہا کہ ’’اللہ نے بلوچستان کو بے شمار قدرتی وسائل سے نوازا ہے لیکن افسوس کہ بلوچستان کی دولت اب بھی زمین کے اندر دفن ہے‘‘۔ یہاں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس مدفون دولت کا کیا سودا کیا جارہا ہے اور کن شرائط پر کیا جارہا ہے۔ سچ بتائیں گے تو قوم ساتھ دے گی ورنہ دوسری قوتیں در آئیں گی۔ اسی طرح انہوں نے کہا کہ گزشتہ دہائیوں میں بلوچستان کو نظر انداز کرنا خود احتسابی کا لمحہ ہے، پھر انہیں یاد آیا کہ کچھ کرنا بھی تو چاہیے، چنانچہ دل کشادہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ دور دراز آبادیوں تک بجلی اور سڑکوں کی فراہمی بڑا مسئلہ ہے، مضبوط سڑکوں کے نیٹ ورک کے بغیر تعلیم و صنعت کی ترقی ممکن نہیں، یہاں پھر سوال ہونا چاہیے کہ یہ سڑکوں کا نیٹ ورک کیوں نہیں بنا جو تعلیم و صنعت کو فروغ دیتا ہے، یادش بخیر پیپلز پارٹی کی وزیر اعظم بے نظیر نے بھی تو بلوچستان پر خصوصی مہربانی کی تھی، ملک بننے کے ساٹھ سال بعد ’’آغاز حقوق بلوچستان پیکیج‘‘ شروع کیا تھا، یہ کون بتائے گا کہ اس پیکیج میں کیا تھا، بلوچستان کے عوام کو کیا ملا اور ساٹھ سال تک حقوق کا آغاز بھی نہ کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔ اسی قسم کی باتیں وزیر دفاع صاحب فرما رہے ہیں، خواجہ آصف نے کہا ہے کہ افغان بھارتی پراکسی کے طور پر کام کر رہے ہیں‘ معاملات طے نہیں پاتے تو ہماری کھلی جنگ ہے۔

افغانوں پر احسان رکھتے ہوئے کہا کہ 3 افغان نسلیں یہاں جوان ہوئیں اب ان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ دہشت گردی کو سپورٹ کریں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار پانچ روز سے سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا، ہر دوسرے دن دہشت گردی کے واقعے میں ہمارے جوان اور شہری شہید ہوتے ہیں، شہدا کی وجہ سے ہماری سرحدیں محفوظ ہیں، ہماری فورسز سرحد پر دہشت گردوں کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔ بھارت کے خلاف ہماری فوج نے حال ہی میں دلیرانہ جنگ لڑی۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ میں پاک افغان معاہدے میں معاملات طے نہیں پاتے تو ہماری افغانستان کے ساتھ کھلی جنگ ہے۔ 40 سال ہم نے افغانوں کی مہمان نوازی کی، اب بھی 40 لاکھ کے قریب افغان شہری یہاں موجود ہیں۔ قبائلی علاقوں میں بہادر لوگ رہتے ہیں جو ملکی سرحدوں کی حفاظت کررہے ہیں۔

خواجہ صاحب بتائیں کہ ہر کچھ برس بعد دہشت گردی کیوں ہونے لگتی ہے جس کو آپ یا کوئی حکمران جڑ سے اکھاڑ چکا ہوتا ہے، دہشت گردوں کی کمر توڑی جاچکی ہوتی ہے، اس کے باوجود ٹوٹی کمر والے دہشت گرد، جڑ سے اکھاڑی جانے والی دہشت گردی، یہ سب زندہ ہوجاتے ہیں اور سارا قصور دوسروں کا ہوتا ہے، اگر یہ سب ہو بھی رہا ہے تو اپنی غلطیوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، اپنے ملک میں لوگوں کو جوڑ کر رکھنا تو حکومت کی ذمہ داری ہے، بیرونی ہاتھ تو اندرونی ہاتھ کے بغیر کام نہیں کرسکتا، اندرونی ہاتھ کو خود سنبھالیں بیرونی ہاتھ خود غیر موثر ہوجائے گا۔ غیرملکی ہاتھ، اور دشمن کی سازش کہہ کر جان چھڑانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ مسائل حل کرنے ہیں تو قوم کو سچ بتائیں۔

 

مظفر اعجاز.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: علاقوں میں پاک افغان نے کہا کہ کرتے ہیں ہوتے ہیں ہوتا ہے کے ساتھ ہیں اور رہے ہیں قوم کو رہا ہے گیا کہ

پڑھیں:

پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات ناکام ہوگئے، طالبان حکومت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں دھکیلنا چاہتی ہے، عطاء تارڑ

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) وزیر اطلاعات ونشریات عطا تارڑ نے استنبول میں ہونے والے پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کردیا۔

انہوں نے اس حوالے سے جاری اپنے تفصیلی بیان میں کہا کہ استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات اکتوبر 2025 میں منعقد ہوئے۔ جن کا واحد ایجنڈا افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنا تھا۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان نے افغان طالبان سے بھارتی حمایت یافتہ تنظیمیں  فتنہ الخوارج (TTP) اور فتنہ الہند (BLA)  کی سرحد پار دہشت گردی پر بارہا احتجاج کیا اور اس موضوع پر واضح موقف اختیار کیا گیا۔  پاکستان نے افغان طالبان حکومت سے دوحہ معاہدے کے تحریری وعدوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا۔

وزیر اعظم آزاد کشمیر نے رخصتی سے قبل، 15043اساتذہ کو 82کروڑ کا فائدہ پہنچا دیا 

عطا تارڑ کے مطابق افغان طالبان کی جانب سے پاکستان مخالف دہشت گردوں کی مسلسل حمایت پر پاکستان کی کوششیں بے سود رہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان طالبان نے مذاکرات کے دوران الزام تراشی، ٹال مٹول اور حیلے بہانوں کا سہارا لیا اور مذاکرات کسی قابلِ عمل نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ وزیر اطلاعات نے واضح کیا کہ افغان وفد نے مذاکرات کے بنیادی مدعے سے انحراف کیا اور ذمہ داری قبول کرنے سے گریز کیا۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ طالبان حکومت افغان عوام کی نمائندہ نہیں اور اپنی بقا کے لیے جنگی معیشت پر انحصار کرتی ہے، اور وہ افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں دھکیلنا چاہتی ہے۔ عطا تارڑ نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے عوام کے امن و خوشحالی کے لیے قربانیاں پیش کیں، مگر افغان فریق نے پاکستان کے نقصانات سے بے نیازی دکھائی۔

چیئرمین  جوائنٹ  چیفس جنرل ساحر  شمشاد مرزا  کی بنگلہ دیش کے  آرمی  چیف سے ملاقات

عطا تارڑ نے کہا کہ پاکستان نے مذاکرات کے دوران دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اور ناقابلِ تردید شواہد پیش کیے، اور افغان طالبان اور میزبان ممالک نے ان شواہد کو تسلیم کیا مگر کوئی یقین دہانی یا عملی اقدام سامنے نہ آیا۔ ان کے بقول افغان طالبان نے شواہد کے اعتراف کے باوجود کسی واضح ضمانت یا بندوبست کی پیشکش نہیں کی۔

وزیر اطلاعات نے بتایا کہ چار برسوں کی جانی و مالی قربانیوں کے بعد پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔  قطر اور ترکیہ کی درخواست پر پاکستان نے امن کے لیے ایک اور موقع دیا اور پاکستان قطر، ترکیہ اور دیگر دوست ممالک کا ان کی مخلصانہ کوششوں پر شکر گزار ہے۔ دوحہ اور استنبول میں مذاکرات کا واحد ایجنڈا دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکنا تھا، اور اسی نقطۂ نظر پر پاکستان مذاکرات میں شریک رہا۔ تاہم مذاکرات کے بعد بھی افغان طالبان کی جانب سے پاکستان مخالف دہشت گردوں کی مسلسل حمایت برقرار رہی۔

برادر ملکوں کی طرح  اختلافات کو  مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے، محسن نقوی کی افغان نائب وزیر داخلہ سےگفتگو

وزیر اطلاعات نے اعلان کیا کہ پاکستان کے عوام کی سلامتی قومی ترجیح ہے اور حکومت دہشت گردی کے خلاف ہر ممکن اقدام کرتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان دہشت گردوں، ان کے ٹھکانوں اور سہولت کاروں کو نیست و نابود کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔

عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ پاکستان قطر اور ترکیہ کا شکر گزار ہے جنہوں نے مذاکرات کی میزبانی اور مخلصانہ کوششیں کیں، مگر افغان فریق کی عملداری نہ ہونے کی وجہ سے مذاکرات سے کوئی قابلِ عمل نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکا۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات ناکام ہوگئے، طالبان حکومت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں دھکیلنا چاہتی ہے، عطاء تارڑ
  • مذاکرات میں پاکستان کا واضح پیغام: افغان طالبان دہشت گردی کی سرپرستی بند کریں
  • افغانستان داراندازی کی کوشش ناکام 25خوراج ہلاک 5جوان شہید : دہشتگردوں کی سر پر ستی نامنظور 
  • دہشت گردی کا خاتمہ ناگزیر
  • دہشت گردوں کی سر پرستی نامنظور ہے؛ پاکستان نے افغانستان پر واضح کردیا
  • پاک-افغان سرحد، دہشت گردی اور ٹرانزٹ ٹریڈ
  • دراندازی واقعات افغان حکومت کے دہشت گردی سے متعلق ارادوں پر سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہیں،آئی ایس پی آر
  • بھارت کو پاکستان کیخلاف افغان طالبان رجیم کی حمایت مہنگی پڑ گئی
  • پاکستان نے افغان سرزمین سے دہشتگردی کے خاتمہ کا جامع پلان افغانستان کے حوالے کر دیا