Express News:
2025-10-26@22:11:32 GMT

پاک-افغان سرحد، دہشت گردی اور ٹرانزٹ ٹریڈ

اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ہمیشہ پیچیدگیوں اور الجھنوں کا شکار رہے ہیں۔ ایک طرف مذہبی و ثقافتی رشتے ان کے درمیان قربت پیدا کرتے ہیں تو دوسری طرف سیاسی اختلافات، سرحدی جھڑپیں اور دہشت گردی ان رشتوں کو کمزور کر دیتی ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں طورخم اور چمن کے سرحدی مقامات پر ہونے والی جھڑپوں، سرحدی بندش اورکشیدگی نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ دونوں ملک کس سمت جا رہے ہیں؟

پاک سرحد بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہے لیکن افغانستان کی ہر حکومت نے جان بوجھ کر اسے متنازعہ بنانے کی کوشش کی ہے ، اب طالبان حکومت بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔ افغانستان کی حکومتیں اپنی داخلی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور عالمی ذمے داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے سرحد کو متنازعہ بنا کر بار بار تصادم کو جنم دیتی آرہی ہے۔

پاکستان نے اپنی سلامتی کے پیشِ نظر اس سرحد پر باڑ لگائی تاکہ دہشت گردوں کو سرحد پار کرنے سے روکا جائے اور اسمگلنگ کے راستوں کی نگرانی کی جا سکے مگر طالبان انتظامیہ اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہیں۔ دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنے ، غیرقانونی نقل حرکت روکنے اور اسمگلنگ کا خاتمہ کرنے کے بجائے وہ سرحدی تنازعے کو ہوا دے کر حالات خراب کررہے ہیں۔

حالیہ مہینوں میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان حملوں کی منصوبہ بندی اور تربیت افغانستان میں ہو رہی ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے دہشت گرد افغان سرحدی علاقوں میں موجود ہیں اور حملوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں حاصل کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان نے بارہا کابل حکومت کو سفارتی سطح پر آگاہ کیا ہے کہ اگر افغان سرزمین سے دہشت گردی کا سلسلہ بند نہ ہوا تو دونوں ممالک کے تعلقات مزید متاثر ہوں گے۔

طالبان حکومت ایک طرف تو دنیا سے تقاضا کر رہی ہے کہ اسے سفارتی طور پر تسلیم کیا جائے۔ دوسری طرف پاکستان جیسے قریبی ہمسایہ ملک کی سلامتی کے خدشات کو نظرانداز کر رہی ہے۔ یہ دوہرا رویہ خطے کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ اگر کابل انتظامیہ واقعی ایک ذمے دار ریاست بننا چاہتی ہے تو اسے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف واضح، غیر مبہم اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔

پاکستان نے افغانستان کے لیے ہمیشہ تجارتی راہیں کھلی رکھی ہیں۔ کراچی اور گوادر کی بندرگاہیں افغانستان کی معیشت کی شہ رگ ہیں۔ مگر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے پردے میں منشیات ، ہتھیاروں اور دیگر سامان کی اسمگلنگ نے پاکستان کی مقامی صنعت کو ہی شدید نقصان پہنچایا ہے بلکہ یہاں جرائم اور دہشت گردی کو بھی فروغ دیا ہے۔ پاکستان نے جب بھی سرحدی چیکنگ سخت کی یا بعض اشیاء پر پابندی لگائی تو کابل نے اسے ’’تجارتی پابندی‘‘ قرار دے کر جھوٹا پروپگنڈا شروع کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اپنی معاشی بقاء اور صنعتی تحفظ کے لیے ایسا کرنے پر مجبور ہوا۔

پاکستان کے لیے سب سے بڑی ترجیح اپنی داخلی سلامتی ہے۔ جب دہشت گرد گروہ افغان سرزمین سے حملے کریں گے تو پاکستان کے لیے تجارتی یا سفارتی نرمی برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ یہ درست ہے کہ دونوں ممالک کی معیشتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، لیکن دہشت گردی کے بادل اس رشتے کو غیرمتوازن بنا رہے ہیں۔ افغانستان کے استحکام کے بغیر پاکستان کا امن مکمل نہیں ہو سکتا لیکن افغانستان حکومت کا رویہ پاکستان کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔

اسلام آباد کی پالیسی اب زیادہ واضح اور اصولی ہوتی جا رہی ہے۔ افغانستان سے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خاتمے کے لیے پاکستان نے دوٹوک موقف اپنانا ہے۔ ٹرانزٹ ٹریڈ کے نئے معاہدے میں جدید نگرانی، GPS ٹریکنگ اور کسٹم چیکنگ کے نظام کو لازمی بنانا ہے۔دہشت گردی کے عمل کو روکنے کے لیے افغان حکومت کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ بڑھانے کی شرط بھی شامل ہے۔

پاکستان اور افغانستان جغرافیائی اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا نہیں رہ سکتے۔ اگر افغانستان دہشت گرد گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنا رہے گا تو پاکستان کو اپنے قومی مفاد میں سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔ بارڈر کی بندش اور تجارتی رکاوٹیں وقتی طور پر تکلیف دہ ضرور ہیں لیکن قومی سلامتی کسی بھی طور پر اقتصادی اور تجارتی معاملات سے افضل نہیں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ افغان قیادت ماضی کی غلطیوں سے سیکھے اور باہمی احترام، سیکیورٹی تعاون اور شفاف تجارت کی بنیاد پر آگے بڑھے ورنہ یہ بارڈر صرف سرحد نہیں، ایک مستقل خلیج اور تنازعات کا باعث رہے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان نے رہے ہیں کے لیے رہی ہے

پڑھیں:

افغانستان سے دراندازی کی کوشش ناکام، 25 دہشت گرد ہلاک‘5 جوان شہید

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

راولپنڈی /ہنگو /استنبول (مانیٹرنگ ڈیسک) سیکورٹی فورسز نے افغانستان سے پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوامیں فتنہ الخوارج کی ایک بار پھر دراندازی کی کوشش ناکام بنادی، اس دوران سیکورٹی فورسز کی مؤثر کارروائی میں 4 خودکش بمبار سمیت 25 دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 24 اور 25 اکتوبر 2025ء کو سیکورٹی فورسز نے پاک افغان سرحد کے قریب فتنہ الخوارج کے 2 بڑے گروہوں کی پاکستان میں دراندازی کی کوشش ناکام بنادی۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کے علاقے گھکی اور شمالی وزیرستان کے علاقے اسپین وام میں ٹولیوں کی صورت میں دہشت گرد پاکستان میں دراندازی کی کوشش کر رہے تھے۔ سیکورٹی فورسز نے فتنہ الخوارج کے دونوں گروہوں کے خلاف موثر انداز میں کارروائی کرتے ہوئے نہ صرف ان کو روکا بلکہ دہشت گردوں کو ہلاک بھی کردیا۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ سیکورٹی فورسز کے آپریشن کے نتیجے میں شمالی وزیرستان کے علاقے اسپین وام میں بھارتی پراکسی ’فِتنہ الخوارج‘ سے تعلق رکھنے والے 15 دہشت گرد ہلاک ہوگئے جن میں 4 خود کش حملہ آور بھی شامل تھے۔اسی طرح، کرم ضلع کے گھکی علاقے میں دراندازی کرنے والے مزید 10 خوارج کو بھی ہلاک کیا گیا، مارے گئے دہشت گردوں سے بڑی مقدار میں اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکہ خیز مواد بھی برآمد ہوا۔آئی ایس پی آر کے مطابق شدید فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے 5 بہادر سپوتوں نے جامِ شہادت نوش کیا، شہید ہونے والوں میں35 سالہ حوالدار منظور حسین، 23 سالہ سپاہی نعمان الیاس کیانی، 24 سالہ سپاہی محمد عادل، 25 سالہ سپاہی شاہ جہان، 25 سالہ سپاہی علی اصغر شامل ہیں۔صدر، وزیراعظم، وزیرداخلہ نے فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں کی دراندازی ناکام بنانے پر سیکورٹی فورسز کو خراج تحسین اور ملکی دفاع میں جاں قربان کرنے والے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا۔ خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو میں تھانہ دوآبہ پولیس کی کامیاب کارروائی میں ایک دہشت گرد ہلاک ہو گیا۔ ذرائع کے مطابق تھانہ دوابہ پولیس کو اطلاع ملی کہ شرپسند عناصر دلن روڈ پر غیر قانونی ناکہ بندی قائم کیے ہوئے ہیں، جس پر البرق کمانڈوز نے فوری آپریشن شروع کردیا۔ آپریشن کے دوران دہشت گردوں نے پولیس پر فائرنگ کی، جوابی کارروائی کے دوران ایک دہشت گرد ہلاک جب کے دیگر زخمی حالت میں فرار ہو گئے۔پولیس کا کہنا تھا کہ ہلاک دہشت گرد کے قبضے سے کلاشنکوف، ہینڈ گرنیڈ اور بارودی مواد برآمد ہوا جب کہ ہلاک دہشت گرد کی لاش مقامی اسپتال منتقل کر دی۔ علاوہ ازیںاستنبول میں پاکستان نے مذاکرات کے دوسرے دور میں افغان سرزمین سے دہشت گردی کے خاتمہ کا جامع پلان افغانستان کے حوالے کر دیا۔ پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں مکمل ہوگیا۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق پاکستان نے واضح کیا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردوں کی سر پرستی منظور نہیں ہے۔سیکورٹی ذرائع کے مطابق پاکستانی وفد نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے ہوں گے۔ سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے برعکس طالبان کے دلائل غیرمنطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر ہیں ‘نظر آرہا ہے کہ افغان طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں، یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق مذاکرات میں مزید پیش رفت افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔

مانیٹرنگ ڈیسک گلزار

متعلقہ مضامین

  • افغانستان سے دراندازی کی کوشش ناکام، 25 دہشت گرد ہلاک‘5 جوان شہید
  • دہشت گردی کا خاتمہ ناگزیر
  • دراندازی واقعات افغان حکومت کے دہشت گردی سے متعلق ارادوں پر سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہیں،آئی ایس پی آر
  • دراندازی کے واقعات افغان حکومت کے ارادوں پر سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہیں، پاک فوج
  • پاک افغان سرحد پر دراندازی کی 2 بڑی کوششیں ناکام، 25 دہشتگرد ہلاک
  • پاکستان اور افغان طالبان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں آج ہو گا، سرحدی گزرگاہیں بدستور بند
  • ٹرانزٹ کھیپوں کی تقریبا 495گاڑیاں طورخم اور چمن پر سرحد پار کرنے کی منتظر ہیں، ایف بی آر
  • افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سیکیورٹی صورتحال کے جائزے تک بند رہے گی، پاکستانیوں کی جانیں تجارتی سامان سے زیادہ قیمتی ہیں،دفترِ خارجہ
  • پاکستان کا بیان: افغان سرحدی راہداریاں بند، شہری حفاظت کو ترجیح دی جا رہی ہے