پاک-افغان سرحد، دہشت گردی اور ٹرانزٹ ٹریڈ
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ہمیشہ پیچیدگیوں اور الجھنوں کا شکار رہے ہیں۔ ایک طرف مذہبی و ثقافتی رشتے ان کے درمیان قربت پیدا کرتے ہیں تو دوسری طرف سیاسی اختلافات، سرحدی جھڑپیں اور دہشت گردی ان رشتوں کو کمزور کر دیتی ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں طورخم اور چمن کے سرحدی مقامات پر ہونے والی جھڑپوں، سرحدی بندش اورکشیدگی نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ دونوں ملک کس سمت جا رہے ہیں؟
پاک سرحد بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہے لیکن افغانستان کی ہر حکومت نے جان بوجھ کر اسے متنازعہ بنانے کی کوشش کی ہے ، اب طالبان حکومت بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔ افغانستان کی حکومتیں اپنی داخلی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور عالمی ذمے داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے سرحد کو متنازعہ بنا کر بار بار تصادم کو جنم دیتی آرہی ہے۔
پاکستان نے اپنی سلامتی کے پیشِ نظر اس سرحد پر باڑ لگائی تاکہ دہشت گردوں کو سرحد پار کرنے سے روکا جائے اور اسمگلنگ کے راستوں کی نگرانی کی جا سکے مگر طالبان انتظامیہ اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہیں۔ دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنے ، غیرقانونی نقل حرکت روکنے اور اسمگلنگ کا خاتمہ کرنے کے بجائے وہ سرحدی تنازعے کو ہوا دے کر حالات خراب کررہے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان حملوں کی منصوبہ بندی اور تربیت افغانستان میں ہو رہی ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے دہشت گرد افغان سرحدی علاقوں میں موجود ہیں اور حملوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں حاصل کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان نے بارہا کابل حکومت کو سفارتی سطح پر آگاہ کیا ہے کہ اگر افغان سرزمین سے دہشت گردی کا سلسلہ بند نہ ہوا تو دونوں ممالک کے تعلقات مزید متاثر ہوں گے۔
طالبان حکومت ایک طرف تو دنیا سے تقاضا کر رہی ہے کہ اسے سفارتی طور پر تسلیم کیا جائے۔ دوسری طرف پاکستان جیسے قریبی ہمسایہ ملک کی سلامتی کے خدشات کو نظرانداز کر رہی ہے۔ یہ دوہرا رویہ خطے کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ اگر کابل انتظامیہ واقعی ایک ذمے دار ریاست بننا چاہتی ہے تو اسے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف واضح، غیر مبہم اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
پاکستان نے افغانستان کے لیے ہمیشہ تجارتی راہیں کھلی رکھی ہیں۔ کراچی اور گوادر کی بندرگاہیں افغانستان کی معیشت کی شہ رگ ہیں۔ مگر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے پردے میں منشیات ، ہتھیاروں اور دیگر سامان کی اسمگلنگ نے پاکستان کی مقامی صنعت کو ہی شدید نقصان پہنچایا ہے بلکہ یہاں جرائم اور دہشت گردی کو بھی فروغ دیا ہے۔ پاکستان نے جب بھی سرحدی چیکنگ سخت کی یا بعض اشیاء پر پابندی لگائی تو کابل نے اسے ’’تجارتی پابندی‘‘ قرار دے کر جھوٹا پروپگنڈا شروع کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اپنی معاشی بقاء اور صنعتی تحفظ کے لیے ایسا کرنے پر مجبور ہوا۔
پاکستان کے لیے سب سے بڑی ترجیح اپنی داخلی سلامتی ہے۔ جب دہشت گرد گروہ افغان سرزمین سے حملے کریں گے تو پاکستان کے لیے تجارتی یا سفارتی نرمی برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ یہ درست ہے کہ دونوں ممالک کی معیشتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، لیکن دہشت گردی کے بادل اس رشتے کو غیرمتوازن بنا رہے ہیں۔ افغانستان کے استحکام کے بغیر پاکستان کا امن مکمل نہیں ہو سکتا لیکن افغانستان حکومت کا رویہ پاکستان کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔
اسلام آباد کی پالیسی اب زیادہ واضح اور اصولی ہوتی جا رہی ہے۔ افغانستان سے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خاتمے کے لیے پاکستان نے دوٹوک موقف اپنانا ہے۔ ٹرانزٹ ٹریڈ کے نئے معاہدے میں جدید نگرانی، GPS ٹریکنگ اور کسٹم چیکنگ کے نظام کو لازمی بنانا ہے۔دہشت گردی کے عمل کو روکنے کے لیے افغان حکومت کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ بڑھانے کی شرط بھی شامل ہے۔
پاکستان اور افغانستان جغرافیائی اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا نہیں رہ سکتے۔ اگر افغانستان دہشت گرد گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنا رہے گا تو پاکستان کو اپنے قومی مفاد میں سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔ بارڈر کی بندش اور تجارتی رکاوٹیں وقتی طور پر تکلیف دہ ضرور ہیں لیکن قومی سلامتی کسی بھی طور پر اقتصادی اور تجارتی معاملات سے افضل نہیں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ افغان قیادت ماضی کی غلطیوں سے سیکھے اور باہمی احترام، سیکیورٹی تعاون اور شفاف تجارت کی بنیاد پر آگے بڑھے ورنہ یہ بارڈر صرف سرحد نہیں، ایک مستقل خلیج اور تنازعات کا باعث رہے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان نے رہے ہیں کے لیے رہی ہے
پڑھیں:
افغانستان: عالمی دہشت گردوں کا ہیڈ کوارٹر
یہ کہنا شائد غلط نہیں ہوگا کہ اگر افغان طالبان کو پاکستان کی اعانت حاصل نہ ہوتی تو طالبان کبھی افغانستان پر قبضہ نہیں کر سکتے تھے ۔
افغان طالبان دوسری بار افغانستان کے اقتدار پر قابض ہُوئے ہیں اور یہ قبضہ دونوں بار ہی پاکستان کی مدد اور توسط سے ہُوا ہے۔ افغانستان میں شروع ہُوئے نام نہاد جہادِ افغانستان میں جب پاکستان کی ایک غیر نمایندہ اور شخصی حکومت نے جی جان سے پاکستان کو جھونک دیا تھا اور افغان مہاجرین کو اپنے کندھوں پر سوار کر لیاتھا، تب بھی پاکستان میں اُٹھنے والی چند دانشمند آوازیں خبردار کررہی تھیں کہ یہ جہاد نہیں، فساد ہے ۔
مگر یہ آوازیں طاقتوروں اور فیصلہ سازوں کی طاقت کے سامنے دَب کررہ گئیں۔ نام نہاد جہادِ افغانستان میں پاکستان کے جملہ وسائل جھونکنے والے ہمارے سابقہ سویلین اور غیر سویلین حکمرانوں کے سامنے یقیناً کچھ ذاتی اور ملکی مفاد بھی ہوں گے ۔ اِسی لیے تو بعض عاقبت نااندیشوں نے افغانستان کو پاکستان کے لیے تزویراتی گہرائی (Strategic Depth) بھی قرار دیا تھا۔
اِس نام نہاد ’’ تزویراتی گہرائی‘‘ کے موہوم سے حصول کے لیے پاکستان کے فیصلہ سازوں اور طاقتوروں کی ایما پر افغانستان کے جنگجو گروہوں کے کئی قائدین کو برسہا برس تک پاکستان میں خاندانوں سمیت تحفظ فراہم کیا ۔ اُنہیں متنوع اور مسلسل امداد فراہم کی جاتی رہی ۔یہاں تک کہ آج کی ساری (پاکستان دشمن) افغان طالبان قیادت پاکستان کی مفت روٹیاں کھا کر اور پاکستان کے مدارس سے مفت تعلیم حاصل کرکے جوان ہُوئی ۔
برسوں کی ریاضت اور برسوں پر مشتمل اربوں ڈالر کی اِس سرمایہ کاری کا نتیجہ مگر صفر نکلا ہے: ارضِ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے مطلقاً خونریز! احسان فراموش اور محسن کش افغان طالبان پر کی گئی پاکستان کی گذشتہ 40برسوں کی محنت کھوکھاتے میں چلی گئی : بالکل اکارت !!یہاں تک کہ آج پاکستان کے وزیر دفاع ، خواجہ محمد آصف ، کو اقرار اور اعتراف کرنا پڑرہا ہے کہ ’’افغان طالبان کو سمجھنے میں ہم سے غلطی ہُوئی ہے ۔‘‘ اور یہ مبینہ غلطی اب پاکستان، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور پاکستانی قوم کے گلے پڑ چکی ہے ۔
کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب احسان فراموش افغان طالبان کے زیر سرپرستی ٹی ٹی پی اور ٹی ٹی اے کے خونخوار دہشت گردافغانستان سے نظریاتی و اسلحی ہتھیاروں سے لَیس ہو کر سر زمینِ پاکستان اور اہلِ پاکستان پر حملہ آور نہیں ہوتے ۔ ہماری مغربی سرحدوں پر افغان طالبان کے حملوں میں آئے روز ہمارے معصوم شہری اور ہماری افواج کے شیر دل جوان اور افسر شہید ہو رہے ہیں۔
شہادتوں کا شمار اور حساب کسی گنتی میں نہیں رہا۔ دہشت گرد افغان طالبان کے ہاتھوں ہمارے سیکڑوں لوگ شہید ہو چکے ہیں۔ہمارا ہر شہری استفسار کررہا ہے : پاکستانی کب تک نام نہاد جہادِ افغانستان کی قیمت ادا کرتے رہیں گے؟ ہمارے باخبرDGISPRکی نقاب کشا پریس کانفرنسیں جہاں ہمارے شہدا کی ہوشربا تعداد بتا رہی ہیں ، وہیں یہ انکشافات بھی سامنے لائے جارہے ہیں کہ پاکستان دشمن ٹی ٹی پی اور ٹی ٹی اے کے ہزاروں دہشت گرد بھی جہنم واصل کیے جا چکے ہیں اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔
لالچی ، احسان فراموش اور محسن کش افغان طالبان نے اب پاکستان کے ازلی دشمن ، بھارت، سے بھی یارانہ گانٹھ لیا ہے ۔ اِسی یارانے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ مئی میں پاکستان سے عبرتناک جنگی شکست کھانے کے بعد بھارت نے افغان طالبان کو ، نومبر2025 میں، پاکستان کے خلاف بھی باقاعدہ ششکارا۔ پاکستان نے مگر اِس محاذ پر بھی افغان طالبان کو خاک چٹوا دی ۔ اور اگر قطر فوری طور پر بیچ بچاؤ نہ کرواتا تو شائد اب تک افغان طالبان کی کمر توڑی جا چکی ہوتی۔ واقعہ یہ ہے کہ افغان طالبان اور طالبان کے افغانستان کی دہشت گردیاںچہار سُو پھیل چکی ہیں۔ افغان طالبان کا کوئی بھی ہمسایہ ملک طالبان کی شر انگیزیوں اور شراروں سے محفوظ اور مامون نہیں ہے ۔
پاکستان کے ساتھ ساتھ ایران ، تاجکستان ، چین اور امریکا تک افغان طالبان کے مہلک شرارے پہنچ رہے ہیں۔ ہر ملک اور ہر عالمی ادارہ شدت سے محسوس کررہا ہے کہ افغان طالبان کا وجود عالمی امن اور عالمی معیشت کے لیے بھیانک شکل اختیار کر چکا ہے ۔ کہنا پڑے گا کہ افغان طالبان کے زیر تسلط افغانستان در حقیقت ایک کوڑھ بن چکا ہے ۔ شائد اِسی لیے امریکا کے ممتاز ترین تھنک ٹینک اور تحقیقاتی ادارے ’’یوریشیا ریویو‘‘(Eurasia Review) نے یکم دسمبر 2025 کو ایک خصوصی رپورٹ شائع کی ہے۔
اِس رپورٹ کا عنوان ہے:Afghanistan,s Alarming Resurgence As A Global Terror Hub Under Taliban Rule۔ یہ رپورٹ چشم کشا ہی نہیں، بلکہ عالمی فیصلہ سازوں کے لیے انتباہ بھی ہے کہ اگر افغان طالبان اور ان کے زیر نگرانی پنپنے والے دہشت گردوں اور خوارج کی ناک میں نکیل نہ ڈالی گئی تو عالمی دہشت گردوں کا ہیڈ کوارٹر بننے والا افغان طالبان کا افغانستان دُنیا کو جلا ڈالے گا۔رپورٹ میں کھلے الفاظ کے ساتھ آج کے افغانستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گرد سرگرمیوں اور دہشت گردوں کو دنیا بھر کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا گیا ہے۔
’’یوریشیا ریویو‘‘ رپورٹ کے مطابق:’’طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان تیزی سے بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں اور ہلاکت خیز گروہوں کی محفوظ پناہ گاہ بنتا جا رہا ہے۔ افغان طالبان کے افغانستان میں پھلنے پھولنے والے بھاری اور ناقابلِ تردید شواہد عالمی سیکیورٹی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔افغانستان میں داعش خراسان، القاعدہ، مشرقی ترکستان کے عسکریت پسندوں سمیت وسطی ایشیائی دہشت گرد گروہ سرگرم ہیں۔ یہ سب دہشت گرد گروہ بھرتی، فنڈنگ، پروپیگنڈا اور سرحد پار حملوں کی پُر خطر منصوبہ بندیوں میں ملوث ہیں۔ چند دن قبل تاجکستان میں پانچ چینی انجینئرز پر ہونے والا ڈرون حملہ اس بڑھتے ہوئے سرحد پار(افغانستان) خطرے کی تازہ ترین اور واضح مثال ہے۔امریکی شہر واشنگٹن ڈی سی میں دو نیشنل گارڈز پر قاتلانہ حملے میں بھی ایک افغان باشندے کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جس کے مبینہ طور پر دہشت گرد نیٹ ورکس سے روابط تھے۔‘‘
یوریشیا ریویو نے زور دیتے ہُوئے لکھا ہے :’’ افغان طالبان کے افغانستان سے تیار دہشت گردی جو پہلے صرف پاکستان کو نشانہ بناتی تھی، اب پوری دنیا کی جانب بڑھ اور پھیل رہی ہے۔اقوامِ متحدہ اور عالمی ایجنسیاں بھی افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کے دوبارہ سر اُٹھانے اور روز بروز مضبوطی پر مسلسل خبردار کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر:ڈنمارک کی نمایندہ کے مطابق تقریباً 6 ہزار ٹی ٹی پی دہشت گرد آج کے افغانستان میں موجود ہیں جنھیں طالبان رجیم کی مکمل مدد حاصل ہے۔افغانستان میں افغان طالبان کے کارن آج افغانستان میں مختلف النوع بین الاقوامی دہشت گردوں کی مجموعی تعداد 13 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
مگر طالبان حکومت نہ تو دہشت گردوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور نہ ہی نیت۔‘‘یوریشیا ریویو نے خبردار کرتے ہُوئے یہ بھی لکھا ہے:’’آج طالبان کا افغانستان عالمی شدت پسند گروہوں اور دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ، بھرتی مرکز اور لانچنگ پَیڈ بن چکا ہے۔ اگر عالمی اور علاقائی قوتوں نے فوری اور واضح حکمت ِعملی نہ اپنائی تو نہ صرف پاکستان، وسطی ایشیائی ممالک اور علاقائی ریاستیں، بلکہ امریکا، یورپ اور خلیجی ممالک بھی افغان طالبان کی دہشت گردی کی نئی لہر سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔پاکستان کئی برسوں سے افغان سرزمین سے اُٹھنے والی دہشتگردی کا سب سے بڑا ہدف بنتا آیا ہے اور اس حوالے سے متعدد بار ناقابلِ تردید شواہد عالمی برادری کے سامنے پیش کر چکا ہے‘‘۔
پاکستان کی جانب سے افغان طالبان اور طالبان کے افغانستان میں دہشت گردیوں کے متعدد اور ناقابلِ تردید شواہد عالمی برادری کے سامنے اور عالمی فورموں میں پیش کیے جانے کے باوجود افغان طالبان کے خلاف کوئی موثر اور متحدہ کارروائی بروئے کار نہیں لائی جا رہی ۔ اور اب نیویارک کے معروف تھنک ٹینک ’’یوریشیا ریویو‘‘ نے مذکورہ بالا رپورٹ شائع کی ہے ۔
عالمی برادری کی آنکھیں اب ہی کھل جانی چاہئیں ۔اور اگر اب بھی افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کی بدمعاشیوں کے خلاف دُنیا کی آنکھیں نہ کھلیں تو شدید خدشات ہیں کہ کوئی دوسرا نائن الیون پھر نہ ہو جائے ۔پہلا ہلاکت خیز نائن الیون بھی تو مُلّا عمر کے پہلے طالبان دَور میں ہُوا تھا۔’’یوریشیا ریویو‘‘ نے3دسمبر2025 کی دوسری اشاعت میں بھی واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ افغان طالبان اپنے نظریاتی تعصبات ، انتظامی نااہلیوں اورباطنی گروہی تضادات و تصادموں کے باعث مکمل طور پر مفلوج ہو چکی ہے ۔