UrduPoint:
2025-09-18@12:40:00 GMT

بائیڈن دور میں امریکہ، اتحادیوں کے قدم مضبوط ہوئے، سلیوان

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

بائیڈن دور میں امریکہ، اتحادیوں کے قدم مضبوط ہوئے، سلیوان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 جنوری 2025ء) ڈیموکریٹ صدر جو بائیڈن کے وائٹ ہاؤس پہنچنے کے بعد ان کی قیادت میں امریکہ نے ایک مختلف خارجہ پالیسی اپنائی تھی اور مقصد یہ تھا کہ واشنگٹن اور امریکہ کے اتحادیوں کے باہمی روابط میں اس کھچاؤ اور ٹوٹ پھوٹ کا تدارک کیا جائے، جو بائیڈن کے پیش رو ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار کی پہلی چار سالہ مدت کے دوران ان کی ''سب سے پہلے امریکہ‘‘ کے نعرے کے ساتھ کی جانے والی سیاست کا نتیجہ تھے۔

ٹرمپ ایران کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اس کی جوہری ہتھیار سازی روک سکتے ہیں، انٹونی بلنکن

جب بائیڈن صدر بنے، تو دنیا کو کئی طرح کے بحرانوں کا سامنا تھا۔ مثلاﹰ کورونا وائرس کی ''صدی کی بدترین عالی وبا‘‘ اور کچھ ایسے دیگر واقعات اور فیصلے جو بائیڈن کی صدارت کے لیے امتحان ثابت ہوئے۔

(جاری ہے)

مثال کے طور پر افغانستان سے امریکہ کا جلدی میں مکمل کیا جانے والا بے ہنگم فوجی انخلا، 2022ء میں روس کی طرف سے یوکرین میں فوجی مداخلت جو اب تک جاری روسی یوکرینی جنگ کا باعث بنی، اور پھر اکتوبر 2023ء میں حماس کا اسرائیل میں وہ دہشت گردانہ حملہ، جو غزہ پٹی کی ابھی تک ختم نہ ہونے والی جنگ کی وجہ بنا۔

بائیڈن کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ ان کی پس رو بھی

اب جب کہ جو بائیڈن اپنی چار سالہ مدت صدارت پوری کر کے عنقریب اپنے عہدے اور وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے والے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ صرف ایک ہی مدت کے لیے امریکہ کے صدر رہے، لیکن اس عرصے نے عالمی منظر نامے پر امریکہ کی حیثیت اور واشنگٹن کے اتحادیوں کی نظر میں امریکہ کی ساکھ کی بحالی اور اس کے قابل اعتماد ہونے پر دیرپا اثرات مرتب کیے۔

صدر بائیڈن نے اپنے بیٹے ہنٹر کے مجرمانہ الزامات معاف کر دیے

یہی پیغام صدر جو بائیڈن کی اس تقریر کا مرکزی نقطہ بھی ہو گا، جو وہ واشنگٹن کے مقامی وقت کے مطابق آج پیر 13 جنوری کی سہ پہر امریکی خارجہ پالیسی اور اپنی سیاسی میراث کے موضوع پر کرنے والے ہیں۔

سیاسی طور پر جو بائیڈن کے لیے اہم بات یہ بھی ہے کہ ان کے پیش رو صدر ٹرمپ ان کے پس رو صدر بھی ہوں گے اور وہ دوبارہ اپنی وہی سیاست کریں گے، جس کے ڈیموکریٹس کے مطابق منفی اثرات کا ازالہ کرنے کی بائیڈن انتظامیہ نے چار سال تک کوشش کی۔

ٹرمپ کی جیت کے بعد بائیڈن کا اقتدار کی 'پرامن' منتقلی کا وعدہ

جو بائیڈن کے امریکی خارجہ پالیسی میں کامیابیوں سے متعلق دعوؤں پر ایک مختلف سایہ بھی چھایا ہوا ہے۔ وہ یہ کہ امریکہ میں رائے عامہ زیادہ تر ٹرمپ ہی کے حق میں ہے اور اسی لیے وہ گزشتہ نومبر میں ہونے والا صدارتی الیکشن جیتنے میں کامیاب بھی ہو گئے تھے۔ مزید یہ کہ اب امریکی سیاست اور دنیا کو ایک بار پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ اور دنیا کے بارے میں زیادہ تحفظ پسندانہ یا پروٹیکشنسٹ رویوں کا سامنا کرنا ہو گا۔

بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر سلیوان کا موقف

بائیڈن دور میں اب تک وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے پر فائز رہنے والے جیک سلیوان نے اس حوالے سے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''حقیقی سوال یہ ہے کہ آیا دنیا کو اب واقعی یقین ہے کہ قومی مضبوطی کو پیش نظر رکھتے ہوئے امریکہ آج بھی ایک عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن ہے، جس پر کسی کو کوئی شبہ نہیں؟‘‘

امریکی صدر کا انتخاب کیسے کیا جاتا ہے؟

جیک سلیوان کے الفاظ میں، ''چار سال پہلے جب ہم نے اقتدار سنبھالا، تو شاید بہت سے لوگوں کی رائے یہ تھی کہ یہ ہیوی ویٹ چیمپئن چین تھا۔

لیکن آج تو کوئی بھی ایسا نہ کہہ رہا ہے اور نہ سوچ رہا ہے۔‘‘

بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کئی طرح کے زیر و بم سے عبارت گزشتہ چار برسوں میں صدر جو بائیڈن کی قیادت میں امریکہ نے دنیا کو اور واشنگٹن کے اتحادیوں کو اس مضبوط اور مستحکم ہاتھ کی پیشکش کی، جس نے گزشتہ نقصانات کا ازالہ کیا اور آج امریکہ اور اس کے اتحادی دونوں ہی عالمی منظر نامے پر مضبوط اور جمے ہوئے قدموں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

امریکی سیاست کبھی بھی 'قتل کا میدان' نہیں بننا چاہیے، بائیڈن

روسی یوکرینی جنگ اور غزہ پٹی میں جاری اسرائیل اور حماس کی جنگ کے خاتمے اور سیاسی اقتصادی حوالے سے امریکہ کو دوبارہ عالمی منظر نامے پر مرکز ہی میں رکھنے کی کوشش کے حوالے سے دوبارہ صدر بن کر ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کے بعد کس طرح کے عملی اقدامات کرتے ہیں، یہ حقیقت بھی تقریباﹰ ایک ہفتے بعد واضح ہونا شروع ہو جائے گی۔

م م / ر ب (اے پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جو بائیڈن کے ڈونلڈ ٹرمپ میں امریکہ دنیا کو کے ساتھ

پڑھیں:

امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران

امریکہ کی مداخلت پسندانہ و فریبکارانہ پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ انتہاء پسند امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے بلند و بالا تصورات پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں جبکہ کوئی بھی سمجھدار و محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کبھی یقین نہیں کرتا کہ جو ایران کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کیخلاف گھناؤنے جرائم کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہو! اسلام ٹائمز۔ ایرانی وزارت خارجہ نے ملک میں بڑھتی امریکی مداخلت کے خلاف جاری ہونے والے اپنے مذمتی بیان میں انسانی حقوق کی تذلیل کے حوالے سے امریکہ کے طویل سیاہ ریکارڈ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات کے بارے تبصرہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے اپنے بیان میں تہران نے تاکید کی کہ ایرانی وزارت خارجہ، (16) ستمبر 2022ء کے "ہنگاموں" کی برسی کے بہانے جاری ہونے والے منافقت، فریبکاری اور بے حیائی پر مبنی امریکی بیان کو ایران کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی جارحانہ و مجرمانہ مداخلت کی واضح مثال گردانتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ 

ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ کوئی بھی سمجھدار اور محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کسی صورت یقین نہیں کر سکتا کہ جس کی پوری سیاہ تاریخ؛ ایرانی اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کے خلاف؛ 19 اگست 1953 کی شرمناک بغاوت سے لے کر 1980 تا 1988 تک جاری رہنے والی صدام حسین کی جانب نسے مسلط کردہ جنگ.. و ایرانی سپوتوں کے خلاف کیمیکل ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال اور 1988 میں ایرانی مسافر بردار طیارے کو مار گرانے سے لے کر ایرانی عوام کے خلاف ظالمانہ پابندیاں عائد کرنے اور ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے میں غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ ملی بھگت.. نیز گذشتہ جون میں انجام پانے والے مجرمانہ حملوں کے دوران ایرانی سائنسدانوں، اعلی فوجی افسروں، نہتی ایرانی خواتین اور کمسن ایرانی بچوں کے قتل عام تک.. کے گھناؤنے جرائم سے بھری پڑی ہو!!

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غیور ایرانی قوم، اپنے خلاف امریکہ کے کھلے جرائم اور سرعام مداخلتوں کو کبھی نہ بھولیں گے، ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ امریکہ؛ نسل کشی کی مرتکب ہونے والی اُس غاصب صیہونی رژیم کا سب سے بڑا حامی ہونے کے ناطے کہ جس نے صرف 2 سال سے بھی کم عرصے میں 65 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہریوں کو قتل عام کا نشانہ بنایا ہے کہ جن میں زیادہ تر خواتین و بچے شامل ہیں، اور ایک ایسی انتہاء پسند حکومت ہونے کے ناطے کہ جس کی نسل پرستی و نسلی امتیاز، حکمرانی و سیاسی ثقافت سے متعلق اس کی پوری تاریخ کا "اصلی جزو" رہے ہیں؛ انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات پر ذرہ برابر تبصرہ کرنے کا حق نہیں رکھتا!

تہران نے اپنے بیان میں مزید تاکید کی کہ ایران کے باخبر و با بصیرت عوام؛ انسانی حقوق پر مبنی امریکی سیاستدانوں کے بے بنیاد دعووں کو دنیا بھر کے کونے کونے بالخصوص مغربی ایشیائی خطے میں فریبکاری پر مبنی ان کے مجرمانہ اقدامات کی روشنی میں پرکھیں گے اور ملک عزیز کے خلاف جاری امریکی حکمراں ادارے کے وحشیانہ جرائم و غیر قانونی مداخلتوں کو کبھی فراموش یا معاف نہیں کریں گے!!

متعلقہ مضامین

  • حکومت صحت کے نظام کو مضبوط بنانے کے لئے پرعزم ہے،سید مصطفی کمال
  • اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھا، خواجہ آصف
  • وینزویلا پر دوسرا امریکی حملہ ،3دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
  • ٹک ٹاک بارے معاہدہ طے، عوام دوبارہ موقع دے امریکا کو مضبوط بنائیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکہ کی ایماء پر غزہ شہر پر اسرائیل کے زمینی حملے کا آغاز
  • امریکہ ہر جگہ مسلمانوں کے قتل عام کی سرپرستی کر رہا ہے، حافظ نعیم
  • امریکی انخلا ایک دھوکہ
  • دوحہ پر حملے سے 50 منٹ پہلے صدر ٹرمپ کو خبر تھی، امریکی میڈیا کا دھماکہ خیز انکشاف
  • وینزویلا میں امریکی فضائی حملے میں تین دہشت گرد ہلاک، صدر ٹرمپ