UrduPoint:
2025-07-26@06:57:30 GMT

بائیڈن دور میں امریکہ، اتحادیوں کے قدم مضبوط ہوئے، سلیوان

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

بائیڈن دور میں امریکہ، اتحادیوں کے قدم مضبوط ہوئے، سلیوان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 جنوری 2025ء) ڈیموکریٹ صدر جو بائیڈن کے وائٹ ہاؤس پہنچنے کے بعد ان کی قیادت میں امریکہ نے ایک مختلف خارجہ پالیسی اپنائی تھی اور مقصد یہ تھا کہ واشنگٹن اور امریکہ کے اتحادیوں کے باہمی روابط میں اس کھچاؤ اور ٹوٹ پھوٹ کا تدارک کیا جائے، جو بائیڈن کے پیش رو ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار کی پہلی چار سالہ مدت کے دوران ان کی ''سب سے پہلے امریکہ‘‘ کے نعرے کے ساتھ کی جانے والی سیاست کا نتیجہ تھے۔

ٹرمپ ایران کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اس کی جوہری ہتھیار سازی روک سکتے ہیں، انٹونی بلنکن

جب بائیڈن صدر بنے، تو دنیا کو کئی طرح کے بحرانوں کا سامنا تھا۔ مثلاﹰ کورونا وائرس کی ''صدی کی بدترین عالی وبا‘‘ اور کچھ ایسے دیگر واقعات اور فیصلے جو بائیڈن کی صدارت کے لیے امتحان ثابت ہوئے۔

(جاری ہے)

مثال کے طور پر افغانستان سے امریکہ کا جلدی میں مکمل کیا جانے والا بے ہنگم فوجی انخلا، 2022ء میں روس کی طرف سے یوکرین میں فوجی مداخلت جو اب تک جاری روسی یوکرینی جنگ کا باعث بنی، اور پھر اکتوبر 2023ء میں حماس کا اسرائیل میں وہ دہشت گردانہ حملہ، جو غزہ پٹی کی ابھی تک ختم نہ ہونے والی جنگ کی وجہ بنا۔

بائیڈن کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ ان کی پس رو بھی

اب جب کہ جو بائیڈن اپنی چار سالہ مدت صدارت پوری کر کے عنقریب اپنے عہدے اور وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے والے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ صرف ایک ہی مدت کے لیے امریکہ کے صدر رہے، لیکن اس عرصے نے عالمی منظر نامے پر امریکہ کی حیثیت اور واشنگٹن کے اتحادیوں کی نظر میں امریکہ کی ساکھ کی بحالی اور اس کے قابل اعتماد ہونے پر دیرپا اثرات مرتب کیے۔

صدر بائیڈن نے اپنے بیٹے ہنٹر کے مجرمانہ الزامات معاف کر دیے

یہی پیغام صدر جو بائیڈن کی اس تقریر کا مرکزی نقطہ بھی ہو گا، جو وہ واشنگٹن کے مقامی وقت کے مطابق آج پیر 13 جنوری کی سہ پہر امریکی خارجہ پالیسی اور اپنی سیاسی میراث کے موضوع پر کرنے والے ہیں۔

سیاسی طور پر جو بائیڈن کے لیے اہم بات یہ بھی ہے کہ ان کے پیش رو صدر ٹرمپ ان کے پس رو صدر بھی ہوں گے اور وہ دوبارہ اپنی وہی سیاست کریں گے، جس کے ڈیموکریٹس کے مطابق منفی اثرات کا ازالہ کرنے کی بائیڈن انتظامیہ نے چار سال تک کوشش کی۔

ٹرمپ کی جیت کے بعد بائیڈن کا اقتدار کی 'پرامن' منتقلی کا وعدہ

جو بائیڈن کے امریکی خارجہ پالیسی میں کامیابیوں سے متعلق دعوؤں پر ایک مختلف سایہ بھی چھایا ہوا ہے۔ وہ یہ کہ امریکہ میں رائے عامہ زیادہ تر ٹرمپ ہی کے حق میں ہے اور اسی لیے وہ گزشتہ نومبر میں ہونے والا صدارتی الیکشن جیتنے میں کامیاب بھی ہو گئے تھے۔ مزید یہ کہ اب امریکی سیاست اور دنیا کو ایک بار پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ اور دنیا کے بارے میں زیادہ تحفظ پسندانہ یا پروٹیکشنسٹ رویوں کا سامنا کرنا ہو گا۔

بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر سلیوان کا موقف

بائیڈن دور میں اب تک وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے پر فائز رہنے والے جیک سلیوان نے اس حوالے سے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''حقیقی سوال یہ ہے کہ آیا دنیا کو اب واقعی یقین ہے کہ قومی مضبوطی کو پیش نظر رکھتے ہوئے امریکہ آج بھی ایک عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن ہے، جس پر کسی کو کوئی شبہ نہیں؟‘‘

امریکی صدر کا انتخاب کیسے کیا جاتا ہے؟

جیک سلیوان کے الفاظ میں، ''چار سال پہلے جب ہم نے اقتدار سنبھالا، تو شاید بہت سے لوگوں کی رائے یہ تھی کہ یہ ہیوی ویٹ چیمپئن چین تھا۔

لیکن آج تو کوئی بھی ایسا نہ کہہ رہا ہے اور نہ سوچ رہا ہے۔‘‘

بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کئی طرح کے زیر و بم سے عبارت گزشتہ چار برسوں میں صدر جو بائیڈن کی قیادت میں امریکہ نے دنیا کو اور واشنگٹن کے اتحادیوں کو اس مضبوط اور مستحکم ہاتھ کی پیشکش کی، جس نے گزشتہ نقصانات کا ازالہ کیا اور آج امریکہ اور اس کے اتحادی دونوں ہی عالمی منظر نامے پر مضبوط اور جمے ہوئے قدموں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

امریکی سیاست کبھی بھی 'قتل کا میدان' نہیں بننا چاہیے، بائیڈن

روسی یوکرینی جنگ اور غزہ پٹی میں جاری اسرائیل اور حماس کی جنگ کے خاتمے اور سیاسی اقتصادی حوالے سے امریکہ کو دوبارہ عالمی منظر نامے پر مرکز ہی میں رکھنے کی کوشش کے حوالے سے دوبارہ صدر بن کر ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کے بعد کس طرح کے عملی اقدامات کرتے ہیں، یہ حقیقت بھی تقریباﹰ ایک ہفتے بعد واضح ہونا شروع ہو جائے گی۔

م م / ر ب (اے پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جو بائیڈن کے ڈونلڈ ٹرمپ میں امریکہ دنیا کو کے ساتھ

پڑھیں:

یونیسکو رکنیت ترک کرنے کا امریکی فیصلہ کثیرالفریقیت سے متضاد، آزولے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے نے امریکہ کی جانب سے ادارے کی رکنیت چھوڑنے کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے کثیرالطرفہ نظام کے بنیادی اصولوں سے متضاد قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے صدر کی جانب سے لیے گئے اس فیصلے سے ملک میں ادارے کے بہت سے شراکت داروں کو نقصان ہو گا جن میں عالمی ثقافتی ورثے میں شمولیت کے خواہش مند علاقوں کے لوگ، تخلیقی شہروں کا درجہ اور یونیورسٹیوں کی چیئر شامل ہیں۔

Tweet URL

ڈائریکٹر جنرل نے اس فیصلے کو افسوسناک اور متوقع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ادارہ نجی و تعلیمی شعبوں اور غیرمنفعی اداروں میں اپنے امریکی شراکت داروں کے تعاون سے کام جاری رکھے گا اور اس معاملے پر امریکہ کی حکومت اور کانگریس کے ساتھ سیاسی بات چیت کرے گا۔

(جاری ہے)

خود انحصاری اور غیرمعمولی کام

آدرے آزولے کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں ادارہ اپنے ہاں کئی بڑی اور بنیادی نوعیت کی اصلاحات لایا ہے اور اس نے مالی وسائل کے حصول کے ذرائع کو متنوع بھی بنایا ہے۔ 2018 سے جاری ادارے کی کوششوں کی بدولت امریکہ کے مہیا کردہ مالی وسائل پر انحصار میں کمی آئی جو اس وقت یونیسکو کے مجموعی بجٹ کا 8 فیصد ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے بعض اداروں کا 40 فیصد بجٹ امریکہ مہیا کرتا رہا ہے۔

اس وقت ادارہ مالیاتی اعتبار سے کہیں بہتر طور پر محفوظ ہے اور اسے رکن ممالک کی بڑی تعداد سمیت بہت سے نجی اداروں اور افراد کا مالی تعاون بھی میسر ہے جبکہ 2018 کے بعد اسے دیے جانے والے عطیات دو گنا بڑھ چکے ہیں۔ علاوہ ازیں، اس موقع پر ادارہ اپنے عملے کی تعداد میں کمی بھی نہیں کر رہا۔

2017 میں بھی صدر ٹرمپ کی جانب سے یونیسکو کی رکنیت چھوڑنے کا فیصلہ آنے کے بعد ادارے نے ہر جگہ فروغ امن کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کیا اور اپنی ذمہ داریوں کی اہمیت ثابت کی۔

ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ اُس دوران ادارے نے عراقی شہر موصل کے قدیم حصے کی تعمیرنو کرائی جو ادارے کی تاریخ کا سب سے بڑا کام تھا۔ علاوہ ازیں مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات پر پہلا اور واحد عالمی معاہدہ بھی منظور کرایا گیا اور یوکرین، لبنان اور یمن سمیت جنگ سے متاثرہ تمام ممالک میں ثقافتی ورثے کی حفاظت اور تعلیم کے لیے پروگرام شروع کیے۔

یہی نہیں بلکہ، یونیسکو نے حیاتیاتی تنوع اور قدرتی ورثے کی حفاظت اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بھی اپنے اقدامات میں اضافہ کیا۔امریکی دعووں کی تردید

ان کا کہنا ہےکہ امریکہ نے یونیسکو کی رکنیت چھوڑنے کی جو وجوہات پیش کی ہیں وہ سات سال پہلے بیان کردہ وجوہات سے مماثل ہیں جبکہ حالات میں بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہے، سیاسی تناؤ کم ہو گیا ہے اور آج یہ ادارہ ٹھوس اور عملی کثیرالطرفہ طریقہ ہائے کار پر اتفاق رائے کا ایک غیرمعمولی فورم بن چکا ہے۔

امریکہ کی جانب سے رکنیت چھوڑنے کے موقع پر کیے گئے دعوے ہولوکاسٹ سے متعلق دی جانے والی تعلیم اور یہود مخالفت کو روکنے کے لیے یونیسکو کی کوششوں کی حقیقت سے بھی متضاد ہیں۔

یونیسکو اقوام متحدہ کا واحد ادارہ ہے جو ان موضوعات اور مسائل پر کام کرتا ہے اور واشنگٹن ڈی سی میں واقع امریکہ کے ہولوکاسٹ میموریل میوزیم، عالمی یہودی کانگریس بشمول اس کے امریکی شعبے اور امریکی یہودی کمیٹی (اے جے سی) جیسے اداروں نے بھی اس کام کو سراہا ہے۔

علاوہ ازیں، یونیسکو نے 85 ممالک کو ہولوکاسٹ اور نسل کشی کے بارے میں طلبہ کو آگاہی دینے اور اس سے انکار اور نفرت کے اظہار کو روکنے کے لیے درکار ذرائع اور اساتذہ کی تربیت کا اہتمام بھی کیا ہے۔

آدرے آزولے نے کہا ہے کہ وسائل کی کمی کے باوجود یونیسکو اپنا کام جاری رکھے گا اور اس کا مقصد دنیا کے تمام ممالک کا اپنے ہاں خیرمقدم کرنا ہے جن میں امریکہ بھی شامل ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈار کا دورہ امریکہ
  • ہمارے بغیردنیا کی معیشت بیٹھ جائے گی، امریکی صدرکا دعوی
  • دنیا  امریکہ کی اداروں اور معاہدوں سے’’ دستبرداری‘‘کی عادی ہو گئی ہے، سی جی ٹی این کا سروے
  • اسحٰق ڈار واشنگٹن پہنچ گئے، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے آج اہم ملاقات طے
  • انسداد دہشتگردی میں پاکستان کے کلیدی کردار کی دنیا معترف
  • امریکہ کو اب فینٹانل کا سیاسی تماشہ بند کرنا چاہیے ، چینی میڈیا
  • سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا سکردو میں "حسین سب کا" کانفرنس سے خطاب
  • یونیسکو رکنیت ترک کرنے کا امریکی فیصلہ کثیرالفریقیت سے متضاد، آزولے
  • سید یوسف رضا گیلانی سے نیپال کی سفیر ریتا دھیتال کی ملاقات،دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ
  • امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے تعلق ختم کر لیا