لاڑکانہ: سبحان اللہ چوک پر غلط پارکنگ کے باعث ٹریفک جام کا منظر
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
لاڑکانہ: سبحان اللہ چوک پر غلط پارکنگ کے باعث ٹریفک جام کا منظر.
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
اگر ہم چاہیں تو!
یہ بات حق و سچ ہے کہ ہم یقیناً امریکہ سمیت دنیا بھر سے ملنے والی امداد کے بغیر جی نہیں سکتے ہیں اگر ہم اور حکمران چاہیں تو یہ یقیناً ممکن ہے کہ ہم ان امداد کےبغیر جی بھی سکتے ہیں اور ترقی بھی کرسکتے ہیں۔ اس سوال کا پہلا مختصر ترین جواب تو یہ ہے۔ اگر ہم اصل حقائق پر نظر ڈالیں تو حقیقت کھل کر ہم سب کے سامنے آجائے گئی۔ سب سے پہلے تو اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا اور اس پر کامل ایمان بھی لانا کی ضرورت ہے کہ پاکستان ایک خالص اسلامی مملکت ہے یہ اٹھانوے فیصد مسلمان آبادی والا ملک ہے جسے خالص اسلام اور اللہ کے نام پر قائم کیا گیا تھا اور ہمارا نعرہ بھی یہی تھا اور اب بھی ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہٰ اللہ، کوئی نہیں ہمارا معبود سوائے اللہ کے۔ کتنی حیرت کا مقام ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اور پاکستانی، واحد اور احد اللہ کے ماننے والے ہوکر اپنے پروردگار سے مانگنے، اس کے آگے دستِ سوال دراز کرنے کے بجائے امریکہ سمیت دنیا بھر سے مانگتے ہوئے نظر آرہے ہوتے ہیں۔
جیسا کہ ہم سب کے علم میں یہ بات واضح ہی کہ امریکہ معیشت و اقتصادیات پر یہودی تاجروں کا قبضہ ہے اور وہ اپنی تجارت اپنے اصولوں، انداز و طریقوں سے ہی کرنے کے عادی رہے ہیں، ان کی تو نسل در نسل بے ایمان ہے۔ قرآن ان کی بد معاملگی اور بے ایمانی پر گواہ ہے، وہ اپنی تجارت کو سود در سود پر چمکانے کے عادی ہیں اور ہمیشہ سے رہے ہیں۔ بے ایمانی اور کرپشن ان کا وتیرہ اورکاروباری اصول رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کی معیشت اور اقتصادیات پر اپنے ان ہی اصولوں کے تحت حملہ کرکے قابض ہو بیٹھے ہیں اور اس میں ہم اس طرح جکڑ کر رہ گئے ہیں کہ چاہ کر بھی ہم اس سے جان نہیں چھڑا سکیں گے بلکہ اس کے کئی نقصانات بھی عوام اور ملک کو اٹھانے بھی پڑ رہے ہیں اور وطن عزیز کے حکمران اور سیاست دان فائدہ اٹھاتے ہوئے نظر آرہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی یہ لوگ یہ بات بھول بیٹھتے ہیں کہ اس واحد اور احد رب کی ’’لاٹھی‘‘ بے آواز پڑتی ہیں اور جب وہ رحیم احد رب ’’رسی کھینچتا‘‘ ہے تو انسان کتنے خسارے میں تب جاکر پتا چل جاتا ہے۔
آئی ایم ایف ہو یا عالمی بنک، یہ عالمی سطح کے بنک ہیں جو افراد سے نہیں ممالک سے ڈیل کرتے ہیں اور ممالک کو اس کے حکمران چلاتے ہیں وہی دست سوال دراز کرتے ہیں اور ان تمام ممالک کو جو قرضوں کے ضرورت مند ہوتے ہیں۔ انہیں یہ دونوں عالمی ادارے اپنی شرائط سے باندھے رکھنے کے لیے اپنی من مانی شرائط پر ہی قرضے فراہم کرتے ہیں اور اپنی شرائط منوانے کے لیے قرض خواہ ممالک کے سربراہان اور متعلقہ افراد کو وہ مطلوبہ رقوم کا تقریباً چالیس فیصد تک کک بیک یا کمیشن کے بطور ادا کرکے ان کے منہ کو خون لگا دیتے ہیں کہ یہی ان کا سنہری اور تجارتی اصول ہے۔ باقی ماندہ ساٹھ فیصد میں سے پندرہ سے بیس فیصد خود ان اداروں کے ان افراد کی کمیشن ہوتی ہے جو ان ممالک کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ باقی پینتالیس فیصد تک بچ رہ جانے والی رقم وہ بھی کئی قسطوں میں سخت ترین شرائط سے بندھی ہوتی ملتی رہتی ہے۔ اگر انہیں منظور ہوتا ہے ورنہ تو درمیان میں مزید کوئی شرائط لاگو ہوسکتی ہیں۔ جبکہ مقروض ملک کو نا صرف پوری سو فیصد رقم ادا کرنا ہوتی ہے، ساتھ ہی ساتھ اس کا سود در سود بھی ادا کرنا ہوتا ہے اور یوں کوئی بھی مقروض ملک ان کے شکنجے میں ایسا جکڑتا ہے کہ بے بس قید پرندے کی مانند لیکن کسی اسلامی ملک اور خصوصاً پاکستان کے ساتھ ان عالمی اداروں کا خصوصی معاملہ ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کریلا بھی ہے اور نیم چڑھا بھی… کیونکہ پاکستان اوّل تو مسلمان ملک ہے اور ساتھ ہی اس نے اپنے طور اپنی قوت اور ارادے کو بروئے کار لاتے ہوئے جوہری قوت بھی حاصل کرلی ہے جو تمام غیر مسلم دنیا کی آنکھوں میں نا صرف کھٹک رہی ہے بلکہ ان کے حلق میں ہڈی بن کر اٹک بھی گئی ہے کیونکہ انہیں شدید خطرہ پاکستان اور پاکستانی قوم سے لاحق رہتا ہے کہ کہیں یہ کسی اور معاملے میں اپنے قدموں پر کھڑا نہ ہو جائے اور کہیں عالمی قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا اہل نہ ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اس کے تمام حواری اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ پاکستان کسی بھی طرح ان کے چُنگل سے نہ نکل پائے۔
اگر آج ایک فیصلہ کرلیں کہ ہم اپنے رب سے رجوع کریں گے، صرف اسی کے آگے ہاتھ پھیلائیں گے تو یہ تمام سازشیں عناصر اپنی موت آپ مر جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے پاکستانی قوم پر بڑا احسان اور فضل کیا ہوا ہے کہ اہلِ وطن کو ایسی سر زمین عطا فرمائی ہے جو ہر قسم کی نعمتوں سے مالا مال ہے ۔ یہ ہماری نا اہلی ہے کہ ہم اللہ کی ان نعمتوں کو ٹھکرا رہے ہیں۔ اگر ہم آج فیصلہ کرلیں کہ ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے تو دنیا کی کون سی طاقت ہوگی جو ہمارا راستہ روک سکے گی؟اس کے علاوہ اللہ نے ہمیں پانی اور زرخیز زمین جو سونا اگلتی ہے، عطا فرمائی ہے۔ ہمارے چار سُو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہی نعمتیں ہیں، اگر ہم ان ملنے والی نعمتوں سے خود فائدہ اٹھانا چاہیں تو کون ہےجو ہمیں روک پائے لیکن افسوس صد افسوس ہم نے تو خود کو یہودی تاجروں کے یہاں گروی رکھوا دیا ہے۔