WE News:
2025-04-26@01:17:04 GMT

افغان عبوری حکومت کی بڑھتی مشکلات

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

افغان عبوری حکومت کی بڑھتی مشکلات

ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے تھے اور بتایا جانے لگا کہ اب افغانستان ایک پرامن اور پُرسکون ہمسایہ بنا رہے گا۔ ہم نے اس وقت بھی عرض کیا تھا کہ آپ کی خوشی کے دن کم ہی رہتے ہیں کیونکہ جب اشرف غنی اقتدار میں آیا تو پاکستان میں ان کی شرافت کے چرچے تھے، ان سے پہلے کرزئی کو شمالی اتحاد کے مقابلے میں بھرپور سپورٹ دی گئی۔

بہرحال طالبان کی حکومت میں آنے کے بعد یوں لگ رہا تھا کہ جیسے افغان عبوری حکومت کی وزارت خارجہ پاکستان میں واقع ہے۔ وزیراعظم پاکستان و وزیر خارجہ عالمی فورمز پر طالبان حکومت کی حمایت میں ایک طرح سے لابنگ کرتے رہے مگر ہمیشہ کی طرح ہماری پالیسی ڈرامائی انداز میں بدلی اور آج حالت یہ ہے کہ افغانستان میں دوبارا تبدیلی کے لیے رائے عامہ ہموار کی جا رہی ہے جوکہ افسوسناک ہے۔ افسوسناک اس لیے ہے کہ ہمیں کب دوست ملیں گے کہ جن سے ہم مطمئن ہوں؟

اس وقت حالانکہ یوں محسوس ہورہا ہے کہ افغان عبوری حکومت کے ذمہ دار جس طرح کی گورننس دے رہے ہیں ان کے ہوتے ہوئے طالبان حکومت کے خلاف کسی سازش کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ خود اپنے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کرنے سے افغان عبوری حکومت افغانوں کی حمایت سے محروم ہوتی جا رہی ہے اور ایسی صورت میں دنیا کی کوئی بھی حکومت مستحکم نہیں رہ سکتی جن کے پاس عوامی حمایت نہیں بچتی۔

حالانکہ اس حوالے سے 3سالوں سے پر امید ہیں کہ حکومت میں اندرونی طور پر خواتین کی تعلیم کے لیے جو کوششیں ہو رہی ہیں اس کا کوئی نہ کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے گا لیکن محسوس ہو رہا ہے کہ افغان طالبان سربراہ ملا ہیبت اللہ صاحب کو خواتین کی تعلیم گناہ عظیم لگتی ہے۔

گناہ سے یاد آیا کہ امریکی کانگریس مین ٹم برچٹ نے نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ سے درخواست کی ہے کہ وہ ہر ہفتے افغانستان کو دی جانے والی 40میلین ڈالر دینے پر پابندی لگائیں۔ نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اس حوالے سے کہا کہ یہ بات ان کے لیے حیران کن ہے۔ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ طالبان حکومت کو میلین نہیں بیلین ڈالرز دیے گئے ہیں۔

افغان عبوری حکومت کے عہدیدار حمد اللہ فطرت نے امریکی امداد کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے افغانوں کے اربوں ڈالر اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ بائیڈن ایڈمنسٹریشن کا اس بارے میں کہنا ہے کہ وہ یہ امداد افغان عبوری حکومت کے حوالے نہیں کررہی بلکہ غیر سرکاری اداروں کو دے رہی ہے البتہ بائڈن ایڈمنسٹریشن امداد کے حوالے سے مزید تفصیلات جاری نہیں کی جو بعض مبصرین کے خیال میں چیزیں پوشیدہ رکھنے کی کوشش ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس امداد پر افغان عبوری حکومت اثر انداز ہوسکتی ہے۔

اس حوالے سے ہم سنتے ضرور آئے ہیں لیکن کبھی یقین نہیں کیا کیونکہ نہ تو کوئی ثبوت موجود تھا اور دوسری طرف ہم اس غلط فہمی کے بھی شکار تھے کہ افغان عبوری حکومت اس طرح براہِ راست امریکی مدد قبول نہیں کریں گے کیونکہ ایسا کرنے سے طالبان کا مکمل فلسفہ اور بیانیہ بیٹھ جاتا ہے لیکن اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ہم غلط سوچ رہے تھے۔

ہمارے سوچنے سے کیا ہوتا ہے ہم تو یہ بھی عرض کرتے آئے ہیں کہ آج کی جدید دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے طالبان حکومت کو خود میں جدت لانی پڑے گی کیونکہ عوام کو بھوک و افلاس سے بچانے کا صرف یہی طریقہ ہے مگر افغان عبوری حکومت سے یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ اگر امریکا سے اربوں ڈالر لینا غیر شرعی نہیں ہے تو خواتین کی تعلیم غیر شرعی کیسے ہوسکتی ہے؟

بہرحال یہ تو وہ سوالات ہیں جو ہماری خواہشات پر مبنی کہے جا سکتے ہیں کیونکہ ہمارا ماننا ہے کہ افغانستان کا استحکام اس پورے خطے کا استحکام ہے مگر اب جب صدر ٹرمپ اقتدار سنبھالے گا تو شاید ہمارا یہ خواب بس خواب ہی رہ جائے کیونکہ اگر وہ یہ امداد بند کردیتا ہے تو پہلے سے معاشی مشکلات کے شکار افغان مزید مشکلات کے شکار ہو جائیں گے۔

اس وقت ایران اور پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجرین موجود ہیں اور دونوں ممالک کے ارادوں سے لگتا ہے کہ وہ مزید افغان مہاجرین کو اپنے ہاں رکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر یہ لاکھوں مہاجرین افغانستان واپسی کریں گے تو پھر افغان عبوری حکومت کے پاس اس کو سنبھالنے کے لیے کیا آپشنز رہیں گے؟ یہ وہ تلخ سوالات ہیں جن کے جوابات پریشانیوں کے سوا کچھ نہیں ملیں گے۔ پاکستانی حکومت افغان مہاجرین کے حوالے سے لچک دکھاتی آئی ہیں لیکن اس وقت پاکستان اور افغانستان کے تعلقات تاریخ کے انتہائی خراب موڑ پر ہیں۔

ہم جیسے عام لوگ دونوں اطراف کے حالات دیکھ کر بس پریشان ہی رہ سکتے ہیں مگر اتنا ضرور عرض کریں گے کہ اگر ان حالات میں سر جوڑ کر نہ سوچا گیا تو پہلے سے بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
پاکستانی حکمرانوں کو میچورٹی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ افغانستان کے آنے والے حالات پہلے سے زیادہ خطرناک ہوں گے جس کو سنبھالنا ناممکن ہو جائے گا اور دوسری طرف افغان عبوری حکومت کے ذمہ داروں کو آج کی جدید دنیا کے ساتھ ہاتھ ملاکر چلنے کی سوچ اپنانی پڑے گی کیونکہ اس وقت آپ کے پاس حکومت ہے اور آپ لوگوں پر ہی کروڑوں افغانوں کی ذمہ داری آن پڑی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

شہریار محسود

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغان عبوری حکومت کے خواتین کی تعلیم طالبان حکومت پاکستان میں ہے کہ افغان حوالے سے کے لیے

پڑھیں:

پاکستان سے بےدخلی کے بعد ہزارہا افغان طالبات تعلیم سے محروم

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اپریل 2025ء) پاکستان سے غیر ملکی باشندوں کی ملک بدری کی مہم کے دوران ستمبر 2024ء سے لے کر اب تک پانچ لاکھ سے زیادہ افغان باشندوں کو واپس ان کے وطن بھیجا جا چکا ہے۔ ان افغان شہریوں میں تقریباﹰ نصف تعداد خواتین اور مختلف عمر کی لڑکیوں کی تھی۔

اہم بات تاہم یہ ہے کہ انہی افغان باشندوں میں تقریباﹰ 40 ہزار ایسی کم عمر طالبات بھی شامل تھیں، جو پاکستان کے مختلف شہروں میں سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم تھیں، مگر اب ڈی پورٹ کیے جانے کے بعد واپس اپنے وطن میں ان کے لیے طالبان حکومت کی سخت پالیسیوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے باعث پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔

ان ہزارہا افغان لڑکیوں کو ان کی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان سے ملک بدری کے سبب اپنی تعلیم کا سلسلہ ایک ایسے وقت پر روکنا پڑا، جب ان کے امتحانات بھی شروع ہونے والے تھے۔

(جاری ہے)

خاص طور پر یکم اپریل سے شروع کی گئی بے دخلی مہم کے دوران ایسے زیادہ تر افغان شہریوں کو پاکستانی صوبوں پنجاب اور سندھ سےلا کر صوبے خیبر پختونخوا میں طورخم کی پاک افغان سرحدی گزرگاہ کے راستے واپس افغانستان بھیجا گیا۔

پنجاب اور سندھ سے افغان باشندوں کی بے دخلی

پنجاب اور سندھ میں رہائش پذیر افغان مہاجر خاندانوں کی زیادہ تر بچیاں مختلف سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم تھیں۔ صوبے خیبر پختونخوا میں بے دخلی مہم کی سست روی کی وجہ سے تاحال صرف رضاکارانہ طور پر ہی کچھ افغان کنبے واپس گئے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے صوبائی محکمہ تعلیم کے ایک اہلکار کے مطابق پشاور سے واپس افغانستان جانے والی طالبات کی تعداد تقریباﹰ دو فیصد بنتی ہے۔

خیبر پختونخوا میں جہاں ایک طرف افغان بچیاں مختلف سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں، وہیں پر بعض افغان ماہرین نے اپنے تعلیمی ادارے بھی کھول رکھے ہیں۔

عالمی برادری افغان باشندوں کی دوبارہ آبادکاری کے عمل کو تیز رفتار بنائے، اسلام آباد کا مطالبہ

پشاور میں اسی نوعیت کے ایک تعلیمی ادارے کے سربراہ، ڈاکٹر نور افغان سے جب ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا، تو ان کا کہنا تھا، ''خیبر پختونخوا میں 50 فیصد افغان بچیاں نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں۔

لیکن اب چونکہ نیا تعلیمی سیشن شروع ہو رہا ہے، تو ان طالبات کے والدین غیر یقینی صورتحال کے باعث اگلے تعلیمی سال کے لیے ان کے داخلے نہیں کروا رہے، کیونکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ان بچیوں کی تعلیم کے لیے والدین بھاری فیسیں تو ادا کر دیں مگر پھر انہیں مجبوراﹰ پاکستان سے رخصت ہونا پڑ جائے۔‘‘ پاکستان میں ’پچاس فیصد افغان طالبات کے نئے تعلیمی داخلے نہ ہو سکے‘

ڈاکٹر نور افغان کا مزید کہنا تھا کہ بہت سے افغان باشندے اپنے اہل خانہ کے لیے تعلیم اور صحت کی سہولیات کے سبب پاکستان میں رہتے ہیں، وہ سہولیات جو افغانستان میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ڈاکٹر نور افغان، جو خود بھی ایک بڑے تعلیمی ادارے کے سربراہ ہیں، کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ اسکولوں میں داخلہ مہم کے دوران 50 فیصد افغان طالبات کے داخلے نہ ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ ملک بدری کی موجودہ مہم سے افغان طالبات 100 فیصد متاثر ہوئی ہیں۔ ہزارہا لڑکیاں واپس افغانستان جا چکی ہیں، جبکہ جو ابھی تک پاکستان میں ہیں، وہ موجودہ غیر یقینی صورت حال کی بنا پر اپنا تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتیں۔

مزید یہ کہ پاکستان میں مثلاﹰ نجی میڈیکل کالجوں میں زیر تعلیم افغان لڑکیاں اگر اپنی مائیگریشن بھی کرا لیں، تو یہ امکان بہت کم ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔

پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل تیز

ڈاکٹڑ نور افغان کے بقول، '' پاکستانی پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم افغان طالبات بھی شدید متاثر ہوئی ہیں۔

ایسی لڑکیوں کے والدین یا کچھ اہل خانہ زیادہ تر یورپی ممالک یا امریکہ میں رہتے ہیں اور وہیں سے وہ انہیں ان کے تعلیمی اخراجات کے لیے رقوم بھیجتے ہیں۔ ایسے بعض والدین تو بیرون پاکستان سے براہ راست ہی متعلقہ میڈیکل، انجینئرنگ یا آئی ٹی کالجوں میں ان بچیوں کی فیسیں جمع کرا دیتے ہیں۔‘‘ خیبر پختونخوا کے سرکاری تعلیمی اداروں میں افغان مہاجرین کے لیے مخصوص نشستیں

پشاور میں صوبائی حکومت نے تمام سرکاری تعلیمی اداروں کو افغان مہاجرین کے بچوں کو داخلے دینے کی اجازت دی تھی، جس کی وجہ سے اس وقت خیبر پختونخوا کے محکمہ تعلیم کے اعداد و شمارکےمطابق صوبے کے پرائمری اور ہائی اسکولوں میں مجموعی طور پر تین لاکھ افغان طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔

پاکستان: ملک بدری کے لیے افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن

صوبائی حکومت نے صوبے کے تمام کالجوں میں بھی افغان طلبا و طالبات کے لیے دو دو نشستیں مختص کی تھیں۔ محکمہ تعلیم کے اعداد و شمار کےمطابق اس وقت سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں 760 نوجوان افغان شہری بطور طلبہ رجسٹرڈ ہیں۔ وفاقی حکومت نے غیر ملکی باشندوں کو ملک سے روانگی کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن سے قبل ہی پشاور حکومت سے صوبے میں زیر تعلیم غیر ملکی طلبا وطالبات کی مکمل تفصیلات طلب کر لی تھیں۔

خیبر پختونخوا کے تعلیمی محکمے کی پالیسی

پاکستان سے اب تک زیادہ تر افغان باشندوں کو پنجاب اور سندھ سے بے دخل کیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں تاحال حکومتی پالیسی غیر واضح ہے۔ اس پس منظر میں صوبائی محکمہ تعلیم کے ایک اعلیٰ افسرنے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پورے صوبے میں داخلہ مہم جاری ہے۔ لیکن ابھی تک ہمیں صوبے میں رہائش پذیر افغان مہاجرین کے بچوں کو داخلے دینے کے حوالے کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئیں۔

افغان مہاجرین کی واپسی کی مہم کے دوران صرف پشاور سے تقریباﹰ 200 طالبات واپس جا چکی ہیں، تاہم پورے صوبے کی سطح پر یہ ڈیٹا ابھی تک مکمل نہیں۔‘‘ افغان طالبات کی پریشانی میں اضافہ

پاکستان سے افغان شہریوں کی ملک بدری سے خواتین بالخصوص طالبات شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں۔ ان میں زیادہ تر ایسی لڑکیاں ہیں، جو پاکستان ہی میں پیدا ہوئیں اور یہیں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

ایسی طالبات کے میل ملاپ والے سماجی حلقے بھی مقامی ہی ہیں۔

پشاور کے ایک نجی تعلیمی ادارے کی افغان طالبہ مسکا احمدزئی (نام دانستہ طور پر فرضی لکھا جا رہا ہے) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری پیدائش پشاور ہی کی ہے۔ میں یہیں پڑھ رہی ہوں۔ کبھی افغانستان نہیں گئی۔ نہ ہی جانے کا ارادہ تھا یا ہے۔ لیکن اب دکھ اس بات کا ہے کہ مجھے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑ سکتی ہے۔

‘‘

پاکستان سے افغان باشندوں کے انخلا کی ڈیڈ لائن میں توسیع

اس افغان طالبہ نے کہا، ''مجھے اپنے والدین کی مجبوریوں کا بھی اندازہ ہے۔ اسی لیے میں اپنی تعلیم کی قربانی دوں گی۔ اس لیے کہ جو کچھ میں خیبر پختونخوا میں پڑھ رہی ہوں، اس کا سلسلہ افغانستان میں جاری رکھنے کا تو کوئی امکان ہی نہیں۔‘‘

مسکا احمدزئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری ایک بہن میڈیکل کی طالبہ ہے، جو ابھی تھرڈ ایئر میں ہے۔

جب وہ افغانستان جائے گی، تو اپنی ڈگری وہاں بھلا کیسے مکمل کر سکے گی۔ ہم سب کو یہ پریشانی اس وقت سے لگی ہے، جب سے پاکستان نے افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بڑی عجیب اور بے یقینی کی صورت حال ہے اور ہمیں اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ یہ چند ایک کا نہیں بلکہ لاکھوں افغان لڑکیوں اور بچیوں کا مسئلہ ہے۔‘‘ انسانی حقوق کی تنظیموں کا مطالبہ

انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی تنظیموں کے علاوہ اقوام متحدہ نے بھی پاکستانی حکومت سے ملک میں زیر تعلیم افغان طالبات کو ریلیف دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ کہتے ہوئے کہ تعلیم حاصل کرنا ان کا بنیادی حق ہے اور ان طالبات کو ان کے اس حق سے محروم نہ کیا جائے۔

پاکستان میں افغان خواتین کارکنوں کو ملک بدری کا خوف

دوسری جانب افغان حکومت کے بعض حکام نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افغانستان میں ایسے بچیوں کے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے کوئی پالیسی نہیں ہے۔ کابل میں طالبان حکومت کی پالیسی کے مطابق افغانستان میں بچیاں صرف چھٹی کلاس تک ہی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں اور اس سے آگے ان کی تعلیم پر پابندی ہے۔

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • سفر سے پہلے پاسپورٹ کی ایسی 7 غلطیاں جوآپ کے لیے بڑی مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں ،جانیں
  • بچوں کے علاج کیلئے بھارت جانیوالی حیدرآباد کی فیملی مشکلات کا شکار
  • لاہور کی جیلوں میں قیدی شدید مشکلات کا شکار، پنجاب اسمبلی کمیٹی نے نوٹس لے لیا
  • مائنز اینڈ منرلز ایکٹ میں وسائل کسی اور کو دینے کی شق نہیں، وزیر قانون کے پی
  • پاک افغان تعلقات کا نیا دور
  • پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات
  • افغان طالبان کو اب ماسکو میں اپنے سفیر کی تعیناتی کی اجازت
  • سنگجانی جلسہ کیس: اسد قیصر کی عبوری ضمانت میں 21 مئی تک توسیع
  • پاکستان سے بےدخلی کے بعد ہزارہا افغان طالبات تعلیم سے محروم
  • لاہور میں تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی نے شدید گرمی کے بحران کو سنگین بنا دیا