افغان عبوری حکومت کی بڑھتی مشکلات
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے تھے اور بتایا جانے لگا کہ اب افغانستان ایک پرامن اور پُرسکون ہمسایہ بنا رہے گا۔ ہم نے اس وقت بھی عرض کیا تھا کہ آپ کی خوشی کے دن کم ہی رہتے ہیں کیونکہ جب اشرف غنی اقتدار میں آیا تو پاکستان میں ان کی شرافت کے چرچے تھے، ان سے پہلے کرزئی کو شمالی اتحاد کے مقابلے میں بھرپور سپورٹ دی گئی۔
بہرحال طالبان کی حکومت میں آنے کے بعد یوں لگ رہا تھا کہ جیسے افغان عبوری حکومت کی وزارت خارجہ پاکستان میں واقع ہے۔ وزیراعظم پاکستان و وزیر خارجہ عالمی فورمز پر طالبان حکومت کی حمایت میں ایک طرح سے لابنگ کرتے رہے مگر ہمیشہ کی طرح ہماری پالیسی ڈرامائی انداز میں بدلی اور آج حالت یہ ہے کہ افغانستان میں دوبارا تبدیلی کے لیے رائے عامہ ہموار کی جا رہی ہے جوکہ افسوسناک ہے۔ افسوسناک اس لیے ہے کہ ہمیں کب دوست ملیں گے کہ جن سے ہم مطمئن ہوں؟
اس وقت حالانکہ یوں محسوس ہورہا ہے کہ افغان عبوری حکومت کے ذمہ دار جس طرح کی گورننس دے رہے ہیں ان کے ہوتے ہوئے طالبان حکومت کے خلاف کسی سازش کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ خود اپنے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کرنے سے افغان عبوری حکومت افغانوں کی حمایت سے محروم ہوتی جا رہی ہے اور ایسی صورت میں دنیا کی کوئی بھی حکومت مستحکم نہیں رہ سکتی جن کے پاس عوامی حمایت نہیں بچتی۔
حالانکہ اس حوالے سے 3سالوں سے پر امید ہیں کہ حکومت میں اندرونی طور پر خواتین کی تعلیم کے لیے جو کوششیں ہو رہی ہیں اس کا کوئی نہ کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے گا لیکن محسوس ہو رہا ہے کہ افغان طالبان سربراہ ملا ہیبت اللہ صاحب کو خواتین کی تعلیم گناہ عظیم لگتی ہے۔
گناہ سے یاد آیا کہ امریکی کانگریس مین ٹم برچٹ نے نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ سے درخواست کی ہے کہ وہ ہر ہفتے افغانستان کو دی جانے والی 40میلین ڈالر دینے پر پابندی لگائیں۔ نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اس حوالے سے کہا کہ یہ بات ان کے لیے حیران کن ہے۔ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ طالبان حکومت کو میلین نہیں بیلین ڈالرز دیے گئے ہیں۔
افغان عبوری حکومت کے عہدیدار حمد اللہ فطرت نے امریکی امداد کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے افغانوں کے اربوں ڈالر اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ بائیڈن ایڈمنسٹریشن کا اس بارے میں کہنا ہے کہ وہ یہ امداد افغان عبوری حکومت کے حوالے نہیں کررہی بلکہ غیر سرکاری اداروں کو دے رہی ہے البتہ بائڈن ایڈمنسٹریشن امداد کے حوالے سے مزید تفصیلات جاری نہیں کی جو بعض مبصرین کے خیال میں چیزیں پوشیدہ رکھنے کی کوشش ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس امداد پر افغان عبوری حکومت اثر انداز ہوسکتی ہے۔
اس حوالے سے ہم سنتے ضرور آئے ہیں لیکن کبھی یقین نہیں کیا کیونکہ نہ تو کوئی ثبوت موجود تھا اور دوسری طرف ہم اس غلط فہمی کے بھی شکار تھے کہ افغان عبوری حکومت اس طرح براہِ راست امریکی مدد قبول نہیں کریں گے کیونکہ ایسا کرنے سے طالبان کا مکمل فلسفہ اور بیانیہ بیٹھ جاتا ہے لیکن اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ہم غلط سوچ رہے تھے۔
ہمارے سوچنے سے کیا ہوتا ہے ہم تو یہ بھی عرض کرتے آئے ہیں کہ آج کی جدید دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے طالبان حکومت کو خود میں جدت لانی پڑے گی کیونکہ عوام کو بھوک و افلاس سے بچانے کا صرف یہی طریقہ ہے مگر افغان عبوری حکومت سے یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ اگر امریکا سے اربوں ڈالر لینا غیر شرعی نہیں ہے تو خواتین کی تعلیم غیر شرعی کیسے ہوسکتی ہے؟
بہرحال یہ تو وہ سوالات ہیں جو ہماری خواہشات پر مبنی کہے جا سکتے ہیں کیونکہ ہمارا ماننا ہے کہ افغانستان کا استحکام اس پورے خطے کا استحکام ہے مگر اب جب صدر ٹرمپ اقتدار سنبھالے گا تو شاید ہمارا یہ خواب بس خواب ہی رہ جائے کیونکہ اگر وہ یہ امداد بند کردیتا ہے تو پہلے سے معاشی مشکلات کے شکار افغان مزید مشکلات کے شکار ہو جائیں گے۔
اس وقت ایران اور پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجرین موجود ہیں اور دونوں ممالک کے ارادوں سے لگتا ہے کہ وہ مزید افغان مہاجرین کو اپنے ہاں رکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر یہ لاکھوں مہاجرین افغانستان واپسی کریں گے تو پھر افغان عبوری حکومت کے پاس اس کو سنبھالنے کے لیے کیا آپشنز رہیں گے؟ یہ وہ تلخ سوالات ہیں جن کے جوابات پریشانیوں کے سوا کچھ نہیں ملیں گے۔ پاکستانی حکومت افغان مہاجرین کے حوالے سے لچک دکھاتی آئی ہیں لیکن اس وقت پاکستان اور افغانستان کے تعلقات تاریخ کے انتہائی خراب موڑ پر ہیں۔
ہم جیسے عام لوگ دونوں اطراف کے حالات دیکھ کر بس پریشان ہی رہ سکتے ہیں مگر اتنا ضرور عرض کریں گے کہ اگر ان حالات میں سر جوڑ کر نہ سوچا گیا تو پہلے سے بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
پاکستانی حکمرانوں کو میچورٹی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ افغانستان کے آنے والے حالات پہلے سے زیادہ خطرناک ہوں گے جس کو سنبھالنا ناممکن ہو جائے گا اور دوسری طرف افغان عبوری حکومت کے ذمہ داروں کو آج کی جدید دنیا کے ساتھ ہاتھ ملاکر چلنے کی سوچ اپنانی پڑے گی کیونکہ اس وقت آپ کے پاس حکومت ہے اور آپ لوگوں پر ہی کروڑوں افغانوں کی ذمہ داری آن پڑی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان عبوری حکومت کے خواتین کی تعلیم طالبان حکومت پاکستان میں ہے کہ افغان حوالے سے کے لیے
پڑھیں:
غربت اور پابندیوں کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی مقبولیت میں اضافہ
کابل(انٹرنیشنل ڈیسک)طالبان دور کی سختیوں اور شدید معاشی بحران کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں، جہاں خواتین اور مرد اپنی ظاہری خوبصورتی نکھارنے کے لیے بوٹوکس، فلرز اور ہیئر ٹرانسپلانٹ جیسی سہولیات حاصل کر رہے ہیں۔
نجی اخبار میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق کابل کے کاسمیٹک سرجری کلینکس مخملی صوفوں کے ساتھ اس طرح سجے ہیں کہ یہ طالبان دور کی سختیوں سے بالکل مختلف دکھائی دیتے ہیں، جہاں بوٹوکس، لپ فلر اور بالوں کے ٹرانسپلانٹ عام ہو چکے ہیں۔
طالبان کی سخت حکمرانی، قدامت پسندی اور غربت کے باوجود کابل میں جنگ کے خاتمے کے بعد تقریباً 20 کلینکس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔
غیر ملکی ڈاکٹر خاص طور پر ترکی سے کابل آ کر افغان ڈاکٹروں کو تربیت دیتے ہیں، جب کہ افغان ڈاکٹر استنبول میں انٹرن شپ کرتے ہیں اور کلینکس کے آلات ایشیا اور یورپ سے منگوائے جاتے ہیں۔
ویٹنگ رومز میں زیادہ تر خوشحال لوگ آتے ہیں، جن میں بال جھڑنے والے مرد بھی شامل ہوتے ہیں، لیکن زیادہ تعداد خواتین کی ہوتی ہے جو اکثر میک اپ کیے ہوئے اور سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوتی ہیں، بعض اوقات مکمل برقع میں بھی۔
25 سالہ سلسلہ حمیدی نے دوسرا فیس لفٹ کرانے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ افغانستان میں عورت ہونے کے دباؤ نے ان کی جلد خراب کر دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چاہے دوسرے ہمیں نہ دیکھ سکیں، لیکن ہم خود کو دیکھتے ہیں، آئینے میں خوبصورت لگنا ہمیں حوصلہ دیتا ہے، یہ کہہ کر وہ سرجری کے لیے گئیں تاکہ چہرے کا اوپری حصہ، جو ڈھلکنے لگا تھا، دوبارہ درست کیا جا سکے۔
میڈیکل اسکول سے فارغ التحصیل سلسلہ کا کہنا تھا کہ افغان خواتین پر زیادہ دباؤ کی وجہ سے ان کی جلد متاثر ہو جاتی ہے۔
طالبان حکومت کی پابندیوں کے باعث خواتین کی ملازمت پر سخت روک ہے، وہ مرد سرپرست کے بغیر لمبا سفر نہیں کر سکتیں، گھر سے باہر بلند آواز میں بات نہیں کر سکتیں اور ان پر یونیورسٹی، پارک اور جم جانے کی بھی پابندی ہے۔
سیلونز پر پابندی، مگر بوٹوکس پر نہیں
جہاں کاسمیٹک سرجری عروج پر ہے، وہیں خواتین کے بیوٹی سیلونز اور پارلرز پر مکمل پابندی ہے۔
23 سال کی عمر میں چہرے کے نچلے حصے کی سرجری کرانے والی سلسلہ کا کہنا ہے کہ اگر بیوٹی سیلونز کھلے ہوتے تو ہماری جلد اس حالت میں نہ پہنچتی اور سرجری کی ضرورت نہ پڑتی۔
طالبان حکام جو عموماً جسمانی ساخت میں تبدیلی کی اجازت نہیں دیتے، کاسمیٹک سرجری سے متعلق بار بار کیے گئے سوالات پر خاموش رہے۔
اس شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق یہ اس لیے جائز ہے کیونکہ اسے طب کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
کلینک کے عملے کے مطابق حکومت ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتی، لیکن اخلاقی پولیس یہ دیکھتی ہے کہ صنفی علیحدگی برقرار رہے، یعنی مرد مریض کے ساتھ مرد نرس اور خاتون مریضہ کے ساتھ خاتون نرس ہو۔
کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ طالبان کے اپنے ارکان بھی ان کلینکس کے گاہک ہیں۔
نگین ایشیا کلینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد زدران کا کہنا ہے کہ یہاں بال یا داڑھی نہ ہونا کمزوری کی نشانی سمجھا جاتا ہے، یہ کلینک جدید چینی آلات سے مکمل طور پر لیس ہے۔
یوروایشیا کلینک کے ڈائریکٹر بلال خان کے مطابق طالبان کے مردوں کو کم از کم ایک مُٹھی لمبی داڑھی رکھنے کے حکم کے بعد ہیئر ٹرانسپلانٹ کا رجحان بڑھ گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ شادی سے پہلے بال لگوانے کے لیے قرض بھی لے لیتے ہیں۔
چار منزلہ ولا کو کلینک میں تبدیل کرنے والے ماہر امراض جلد عبدالنصیم صدیقی کا کہنا ہے کہ یہاں وہی طریقے استعمال ہوتے ہیں جو بیرون ملک رائج ہیں اور ان میں کوئی خطرہ نہیں، ان کے کلینک میں بوٹوکس کی قیمت 43 سے 87 ڈالر اور بال لگوانے کی لاگت 260 سے 509 ڈالر ہے۔
انسٹاگرام کا اثر
یہ رقم اکثر افغانوں کے لیے بہت زیادہ ہے، جن میں سے تقریباً نصف غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، لیکن یہ ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے جو بیرون ملک رہتے ہیں۔
لندن میں مقیم افغان ریسٹورنٹ کے مالک محمد شعیب یارزادہ نے برطانیہ میں ہزاروں پاؤنڈ کے اخراجات سے بچنے کے لیے 14 سال بعد افغانستان کے اپنے پہلے دورے میں سر پر بال لگوانے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ جب وہ کلینک میں داخل ہوتے ہیں تو لگتا ہے جیسے یورپ میں ہوں۔
نئے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے کلینکس سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر اور دعوے شیئر کرتے ہیں، جیسے چمکتی جلد، بھرے ہونٹ اور گھنے بال۔
نگین ایشیا کلینک کے شریک ڈائریکٹر 29 سالہ لکی خان کے مطابق افغانستان بھی مغربی ممالک کی طرح سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے اثر سے محفوظ نہیں رہا، ان کے کلینک میں روزانہ درجنوں نئے مریض آتے ہیں۔
روسی نژاد افغان ڈاکٹر لکی خان کا کہنا ہے کہ کئی مریضوں کو اصل میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن وہ انسٹاگرام پر دیکھے گئے ٹرینڈز کی وجہ سے سرجری کروانا چاہتے ہیں، ان کا اپنا چہرہ جھریوں سے پاک ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اگرچہ ایک کروڑ افغان بھوک سے دوچار ہیں اور ہر تین میں سے ایک کو بنیادی طبی سہولتیں میسر نہیں، لیکن کچھ لوگ کھانے کے بجائے اپنی خوبصورتی پر پیسہ خرچ کرنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔
Post Views: 3