WE News:
2025-11-03@18:27:40 GMT

افغان عبوری حکومت کی بڑھتی مشکلات

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

افغان عبوری حکومت کی بڑھتی مشکلات

ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے تھے اور بتایا جانے لگا کہ اب افغانستان ایک پرامن اور پُرسکون ہمسایہ بنا رہے گا۔ ہم نے اس وقت بھی عرض کیا تھا کہ آپ کی خوشی کے دن کم ہی رہتے ہیں کیونکہ جب اشرف غنی اقتدار میں آیا تو پاکستان میں ان کی شرافت کے چرچے تھے، ان سے پہلے کرزئی کو شمالی اتحاد کے مقابلے میں بھرپور سپورٹ دی گئی۔

بہرحال طالبان کی حکومت میں آنے کے بعد یوں لگ رہا تھا کہ جیسے افغان عبوری حکومت کی وزارت خارجہ پاکستان میں واقع ہے۔ وزیراعظم پاکستان و وزیر خارجہ عالمی فورمز پر طالبان حکومت کی حمایت میں ایک طرح سے لابنگ کرتے رہے مگر ہمیشہ کی طرح ہماری پالیسی ڈرامائی انداز میں بدلی اور آج حالت یہ ہے کہ افغانستان میں دوبارا تبدیلی کے لیے رائے عامہ ہموار کی جا رہی ہے جوکہ افسوسناک ہے۔ افسوسناک اس لیے ہے کہ ہمیں کب دوست ملیں گے کہ جن سے ہم مطمئن ہوں؟

اس وقت حالانکہ یوں محسوس ہورہا ہے کہ افغان عبوری حکومت کے ذمہ دار جس طرح کی گورننس دے رہے ہیں ان کے ہوتے ہوئے طالبان حکومت کے خلاف کسی سازش کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ خود اپنے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کرنے سے افغان عبوری حکومت افغانوں کی حمایت سے محروم ہوتی جا رہی ہے اور ایسی صورت میں دنیا کی کوئی بھی حکومت مستحکم نہیں رہ سکتی جن کے پاس عوامی حمایت نہیں بچتی۔

حالانکہ اس حوالے سے 3سالوں سے پر امید ہیں کہ حکومت میں اندرونی طور پر خواتین کی تعلیم کے لیے جو کوششیں ہو رہی ہیں اس کا کوئی نہ کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے گا لیکن محسوس ہو رہا ہے کہ افغان طالبان سربراہ ملا ہیبت اللہ صاحب کو خواتین کی تعلیم گناہ عظیم لگتی ہے۔

گناہ سے یاد آیا کہ امریکی کانگریس مین ٹم برچٹ نے نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ سے درخواست کی ہے کہ وہ ہر ہفتے افغانستان کو دی جانے والی 40میلین ڈالر دینے پر پابندی لگائیں۔ نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اس حوالے سے کہا کہ یہ بات ان کے لیے حیران کن ہے۔ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ طالبان حکومت کو میلین نہیں بیلین ڈالرز دیے گئے ہیں۔

افغان عبوری حکومت کے عہدیدار حمد اللہ فطرت نے امریکی امداد کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے افغانوں کے اربوں ڈالر اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ بائیڈن ایڈمنسٹریشن کا اس بارے میں کہنا ہے کہ وہ یہ امداد افغان عبوری حکومت کے حوالے نہیں کررہی بلکہ غیر سرکاری اداروں کو دے رہی ہے البتہ بائڈن ایڈمنسٹریشن امداد کے حوالے سے مزید تفصیلات جاری نہیں کی جو بعض مبصرین کے خیال میں چیزیں پوشیدہ رکھنے کی کوشش ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس امداد پر افغان عبوری حکومت اثر انداز ہوسکتی ہے۔

اس حوالے سے ہم سنتے ضرور آئے ہیں لیکن کبھی یقین نہیں کیا کیونکہ نہ تو کوئی ثبوت موجود تھا اور دوسری طرف ہم اس غلط فہمی کے بھی شکار تھے کہ افغان عبوری حکومت اس طرح براہِ راست امریکی مدد قبول نہیں کریں گے کیونکہ ایسا کرنے سے طالبان کا مکمل فلسفہ اور بیانیہ بیٹھ جاتا ہے لیکن اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ہم غلط سوچ رہے تھے۔

ہمارے سوچنے سے کیا ہوتا ہے ہم تو یہ بھی عرض کرتے آئے ہیں کہ آج کی جدید دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے طالبان حکومت کو خود میں جدت لانی پڑے گی کیونکہ عوام کو بھوک و افلاس سے بچانے کا صرف یہی طریقہ ہے مگر افغان عبوری حکومت سے یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ اگر امریکا سے اربوں ڈالر لینا غیر شرعی نہیں ہے تو خواتین کی تعلیم غیر شرعی کیسے ہوسکتی ہے؟

بہرحال یہ تو وہ سوالات ہیں جو ہماری خواہشات پر مبنی کہے جا سکتے ہیں کیونکہ ہمارا ماننا ہے کہ افغانستان کا استحکام اس پورے خطے کا استحکام ہے مگر اب جب صدر ٹرمپ اقتدار سنبھالے گا تو شاید ہمارا یہ خواب بس خواب ہی رہ جائے کیونکہ اگر وہ یہ امداد بند کردیتا ہے تو پہلے سے معاشی مشکلات کے شکار افغان مزید مشکلات کے شکار ہو جائیں گے۔

اس وقت ایران اور پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجرین موجود ہیں اور دونوں ممالک کے ارادوں سے لگتا ہے کہ وہ مزید افغان مہاجرین کو اپنے ہاں رکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر یہ لاکھوں مہاجرین افغانستان واپسی کریں گے تو پھر افغان عبوری حکومت کے پاس اس کو سنبھالنے کے لیے کیا آپشنز رہیں گے؟ یہ وہ تلخ سوالات ہیں جن کے جوابات پریشانیوں کے سوا کچھ نہیں ملیں گے۔ پاکستانی حکومت افغان مہاجرین کے حوالے سے لچک دکھاتی آئی ہیں لیکن اس وقت پاکستان اور افغانستان کے تعلقات تاریخ کے انتہائی خراب موڑ پر ہیں۔

ہم جیسے عام لوگ دونوں اطراف کے حالات دیکھ کر بس پریشان ہی رہ سکتے ہیں مگر اتنا ضرور عرض کریں گے کہ اگر ان حالات میں سر جوڑ کر نہ سوچا گیا تو پہلے سے بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
پاکستانی حکمرانوں کو میچورٹی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ افغانستان کے آنے والے حالات پہلے سے زیادہ خطرناک ہوں گے جس کو سنبھالنا ناممکن ہو جائے گا اور دوسری طرف افغان عبوری حکومت کے ذمہ داروں کو آج کی جدید دنیا کے ساتھ ہاتھ ملاکر چلنے کی سوچ اپنانی پڑے گی کیونکہ اس وقت آپ کے پاس حکومت ہے اور آپ لوگوں پر ہی کروڑوں افغانوں کی ذمہ داری آن پڑی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

شہریار محسود

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغان عبوری حکومت کے خواتین کی تعلیم طالبان حکومت پاکستان میں ہے کہ افغان حوالے سے کے لیے

پڑھیں:

افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، ذبیح اللہ مجاہد

قابل (ویب ڈیسک )پاکستان کو یقین دلایا کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، ذبیح اللہ مجاہد
افغانستان کی طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں۔

افغان خبر رساں ادارے طلوع نیوز کو انٹریو میں ترجمان طالبان نے اس عمل کو افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ جس طرح پاکستان یہ مطالبہ کرتا ہے کہ افغان سرزمین اس کے خلاف استعمال نہ ہو، اسی طرح ہم نے بھی استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں پاکستان سے کہا ہے کہ وہ اپنی زمین اور فضائی حدود افغانستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔

ترجمان طالبان نے بتایا ’’یہ درست ہے کہ امریکی ڈرون افغانستان کی فضاؤں میں داخل ہو رہے ہیں اور یہ ڈرونز پاکستانی فضائی حدود سے گزر کر آتے ہیں۔ یہ ناقابلِ قبول ہے۔

انھوں نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا کہ کچھ عناصر جو ماضی میں افغانستان کے مخالف رہے یا بگرام پر قابض ہونے کے خواہاں تھے اب خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ترجمان طالبان نے کہا کہ یہ قوتیں براہِ راست سامنے نہیں آتیں بلکہ دوسروں کے ذریعے اشتعال انگیزی اور دباؤ ڈالتی ہیں۔ ہم کسی بھی سازش کے مقابلے میں مضبوطی سے کھڑے ہیں اور خطے میں کسی غلط عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

استنبول مذاکرات سے متعلق انھوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ دوحہ اور استنبول کی ملاقاتوں میں پاکستان کا مؤقف یہی رہا کہ ٹی ٹی پی کو قابو کیا جائے جو پاکستان میں داخل ہوکر کارروائیاں کر رہے ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد کے بلوچ نے طالبان وفد نے پاکستانی وفد کو یقین دلایا کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جاتی اور پاکستان کے اندر کے معاملات پاکستان کو خود دیکھنا ہوں گے۔

خیال رہے کہ آج ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں افغانستان میں ڈرون حملوں کے حوالے سے سوال پر کہا کہ ہمارا امریکا سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔

انھوں نے امریکی ڈرونز کے پاکستان سے افغان فضائی حدود میں جانے کے الزام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم نے خود اب تک کوئی باضابطہ شکایت بھی نہیں کی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سیکورٹی فورسزکی شمالی وزیرستان میں کاروائیاں: بھارتی اسپانسرڈ3 خوارج ہلاک
  • سیکورٹی فورسزکی شمالی وزیرستان میں کاروائیاں : بھارتی اسپانسرڈ3 خوارج ہلاک
  • افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، ذبیح اللہ مجاہد
  • بہت ہوگیا، اب افغان طالبان کی تجاویز نہیں حل چاہیے، جو ہم خود نکال لیں گے: ڈی جی آئی ایس پی آر
  • بنگلہ دیش: عبوری حکومت کا سیاسی اختلافات پر اظہارِ تشویش، اتفاق نہ ہونے کی صورت میں خود فیصلے کرنے کا عندیہ
  • پاک افغان مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے
  • پاکستان سرحد پار دہشتگردی کیخلاف فیصلہ کن اقدامات جاری رکھے گا: وزیر دفاع خواجہ آصف
  • طالبان کی غیر نمائندہ حکومت اندرونی دھڑے بندی کا شکار ہے، خواجہ آصف
  • افغان حکومت بھارتی حمایت یافتہ دہشتگردی کی سرپرست ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • پاک افغان تعلقات اورمذاکرات کا پتلی تماشہ