پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے عدالت میں جج سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا عدالتوں پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔

ڈی چوک احتجاج کیس میں عبوری ضمانتیں منظور ہونے کے بعد انسداد دہشتگردی عدالت اسلام آباد کے جج طاہر عبسا سپرا اور بشریٰ بی بی کے درمیان مکالمہ ہوا۔

جج طاہرعباس سپرا نے کہا کہ تھوڑا وقت لگ گیا لیکن قانونی ضابطے پورے کئے۔

جس پر بشریٰ بی بی نے کہا کہ نہیں کوئی بات نہیں ہمارا عدالتوں سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔

جج طاہرعباس سپرا نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہے ہرجگہ سے ٹرسٹ نہیں اٹھا، جسٹس سسٹم جیسا بھی چل رہا ہے اگر ختم ہوگیا تو سوسائٹی ختم ہوجائے گی۔

جج طاہرعباس سپرا نے کہا کہ آپ میرے پاس کچہری میں بھی پیش ہوتی رہی ہیں۔

بشریٰ بی بی نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی اور ہمارے ساتھ جو ہوا اس کے بعد قانون سے یقین ختم ہوگیا، ٹرائل کے دوران میں نے ججز کو بیمار ہوتا دیکھا ہے، ایک جج صاحب کا بلڈ پریشر 200 پر گیا لیکن انہوں نے ہمیں سزا سنانی تھی اور وہ سنائی، ملک میں قانون ہے لیکن انصاف نہیں۔

جج طاہرعباس سپرا نے کہا کہ ہم سب نے مل کر ملک کے لئے ساتھ چلنا ہے۔

جج نے بشریٰ بی بی کو ہدایت کی کہ آپ تمام مقدمات میں شامل تفتیش ہو جائیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: جج طاہرعباس سپرا نے کہا کہ

پڑھیں:

شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …

یہ کہا جا رہا ہے کہ سزاؤں کا موسم شروع ہو گیا ہے۔ نو مئی کے مقدمات میں سزاؤں کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ ایک دن میں دو فیصلوں نے ملک کا سیاسی منظر نامہ ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ملک بھر میں نو مئی کے مقدمات کا ٹرائل جاری ہے۔

سپریم کورٹ جلد فیصلوں کا کہہ چکی ہے۔ اور اب سزائیں شروع ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی بری بھی ہو گئے ہیں۔ ایک طرف سزائیں ہیں دوسری طرف بریت ہے۔ اس لیے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بریت اور سزائیں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ شاہ محمود قریشی کی بریت نے ملک کے سیاسی منظر نامہ پر بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ انھی سوالات کی وجہ سے شاہ محمود قریشی نے اپنی بریت کے بعد ویڈیو پیغام جاری کیا ہے کہ وہ کل بھی بانی تحریک انصاف کے ساتھ تھے، آج بھی بانی تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ انھوں نے سائفر میں بانی کا ساتھ دیا ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ ویڈیو پیغام انھوں نے ان انگنت شکوک و شبہات کے بعد جاری کیا ہے جو ان کی بریت کے بعد پیدا ہوئے۔ ایک عمومی رائے یہی بن رہی ہے کہ ان کی بریت ان کے اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت کا نتیجہ ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ شاہ محمود قریشی کبھی مزاحمت کی سیاست نہیں کرتے۔ ان کا ماضی گواہ ہے کہ انھوں نے اور ان کے خاندان نے ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر مفاہمت کی سیاست ہی کی ہے۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ ہم نے ان کو بانی تحریک انصاف کے ساتھ مزاحمت کی سیاست کرتے دیکھا۔ جس پر سب حیران بھی تھے۔ لوگ سوال کر رہے تھے کہ شاہ محمود قریشی کا خاندان تو مفاہمت کی سیاست کی پہچان رکھتا ہے۔ پھر وہ کیسے اسٹبلشمنٹ کے خلاف چل رہے ہیں۔ لیکن اب رائے یہ ہے کہ وہ واپس مفاہمت کی سیاست کی طرف آگئے ہیں۔

یہ درست ہے کہ نو مئی کو شاہ محمود قریشی کراچی میں تھے۔ وہ کسی احتجاج میں شریک نہیں تھے۔ شائد نو مئی کے احتجاج کی تیاری کے لیے جو اجلاس ہوئے وہ ان میں بھی شریک نہیں تھے۔ بانی جانتے تھے کہ وہ اسٹبلشمنٹ پر اس طرح حملے کے حق میں نہیں ہوں گے، اس لیے وہ شامل نہیں تھے۔ لیکن یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ اس سے پہلے بھی شاہ محمود قریشی کو گرفتار کیا گیا تھا پھر وہ رہا ہو گئے تھے۔

اس وقت بھی یہی بات سامنے آئی تھی کہ ان کی رہائی سیاسی طور پر مشروط تھی۔ وہ رہائی کے بعد بانی تحریک انصاف کو ملے تھے لیکن ان کی ملاقات کامیاب نہیں رہی تھی۔ اس کی خبریں بھی منظر عام پر آئی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب شاہ محمود قریشی کو کوئی فیصلہ کرنا تھا ۔ لیکن انھوں نے نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے وہ دوبارہ گرفتار ہوئے۔ اور اب انھوں نے لمبی جیل بھی کاٹی ہے اور ٹرائل کا بھی سامنا کیا ہے۔ لیکن اب ان کی بریت ہو گئی ہے۔ جس کے بعد ان کی مفاہمت کی مفاہمت کی دوبارہ خبریں سامنے آئی ہیں۔ جس کی وجہ سے شاہ محمود قریشی نے وضاحتی بیان جاری کیا ہے۔

شاہ محمود قریشی کی اس بریت سے پہلے 26ویں آئینی ترمیم کے موقع پر بھی شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی جو رکن قومی اسمبلی بھی ہیں، ان کے اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان ڈیل کی خبریں بھی سامنے آئی تھیں۔ تحریک انصاف نے یہ الزام لگایا تھا کہ ان کو جہاں چھپنے کے لیے کہا گیا تھا وہ وہاں نہیں تھے بلکہ وہاں سے غائب تھے۔

غائب ہونے کا مطلب ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے پاس چلے گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ زین قریشی نے 26ویں آئینی ترمیم میں حکومت کو ووٹ نہیں دیا۔ لیکن وہ شک کے دائرے میں تھے۔ ایک رائے یہ ہے کہ ان کے ووٹ کی ضرورت نہیں پڑی، اس لیے ان کا ووٹ استعمال نہیں کیا گیا۔ لیکن ان کا ووٹ حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے پاس تھا۔ وہ ووٹ دینے پر راضی تھے۔

زین قریشی اس سے انکار کرتے ہیں۔ لیکن انھیں تحریک انصاف کی طرف سے شو کاز جاری کیا گیا، انھیں ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ انھوں نے شوکاز کا جواب دیا جس کے بعد اس پر مزید کارروائی نہیں کی گئی۔ لیکن تب سے زین قریشی خاموش ہیں۔ پہلے وہ باقاعدگی سے ٹاک شوز میں آتے تھے لیکن اب وہ غائب ہیں۔

ان کا غا ئب ہونا بھی سوالات پیدا کر رہا ہے۔ وہ خاموش ہیں یہ بھی معنی خیز ہے۔ اس لیے لوگ یہ بات کر رہے ہیں کہ بات پہلے طے ہو گئی تھی۔ بہر حال سوال اب شاہ محمود قریشی کیا کریں گے۔ میری رائے میں وہ تحریک انصاف میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف بننے کی کوشش کریں گے۔ وہ مفاہمت کو آگے لے کر چلیں گے، انھوں نے جیل سے بھی مفاہمت کے لیے خط لکھے ہیں۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ وہ تحریک انصاف کی مفاہمت کی آواز بن جائیں۔ وہ مفاہمت اور ڈائیلاگ کی بات کریں۔ لیکن کیا بانی انھیں یہ کرنے دیں گے ۔ شائد انھیں نکالنا بھی مشکل ہو جائے ۔ لیکن مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے انھیں پارٹی سے نکالنا مشکل ہو جائے گا۔ ایسے ہی انھیں رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔

وہ مفاہمت کا گروپ بنا سکتے ہیں، وہ لوگ جو تحریک انصاف میں واپس آنا چاہتے ہیں وہ ان کو ساتھ ملا سکتے ہیں۔ تحریک انصاف میں مفاہمت کے لیے لوگوں کو اکٹھا کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی بھی مفاہمت کے نام پر ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ وہ تحریک انصاف میں مفاہمت کا ایک دھڑا بنا لیں۔ وہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ڈائیلاگ اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنے کی بات کریں۔

جو بات چیت سے بند دروازے کھولنے کی بات کریں۔ یہ سب کہیں گے یہی کہ ہم کپتان کے وفادار ہیں۔ لیکن مزاحمت بند ہونی چاہیے۔ گالم گلوچ بند ہونی چاہیے۔ چوہدری پرویز الہیٰ بھی گھر میں ہیں۔ وہ بھی باہر آسکتے ہیں ایسے اور بھی لوگ ہیں۔ شاہ محمود قریشی کو بانی سے ملنے کی سہولت بھی مل سکتی ہے۔ وہ ایک بار نہیں بار بار مل سکتے ہیں۔ جیل سے مل کر وہ اپنا پیغام دے سکتے ہیں۔

یہ سب بانی کو قبول نہیں ہوگا۔ یہی سب سے بڑا سوال ہے۔ پھر شاہ محمود قریشی کو فیصلہ کرنا ہوگا۔وہ فیصلہ کیا ہوگا، ان کے پاس کوئی گھر نہیں۔ ان کا حال بھی فواد چوہدری کا ہے، کوئی سیاسی جماعت لینے کو تیار نہیں۔ لیکن اگر میں ملتان کی سیاست کو سامنے رکھوں تو وہ ن لیگ میں آسکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی میں ان کے لیے جگہ نہیں۔ لیکن ابھی وہ تحریک انصاف میں رہ کر کام کریں گے ، پھر آگے چل کر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بند دروازے کھل سکتے ہیں۔

یہ ایک مشکل کھیل ہے۔ لیکن آگے چل کر کچھ ایسا نظر آرہا ہے۔ اب یہ بانی پر منحصر ہے کہ وہ انھیں کب تک برداشت کرتا ہے۔ جب تک بانی برداشت کرے گا وہ بانی کے ساتھ ہی ہوں گے۔ لیکن کھیل اپنا کھیلیں گے۔ اس بار وہ کوئی غلطی نہیں کریں گے۔ انھیں سمجھ آگئی ہے، وہ کافی سمجھدار ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • عدالتوں سے حکم امتناع ایوان بالا کی کارروائی میں مداخلت ہے، سینیٹ اجلاس میں بحث
  • پی ٹی آئی کے سزا یافتہ رہنماؤں کو اعلیٰ عدالتوں سے ریلیف ملے گا، اسد عمر
  • شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …
  • چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائیں گے، پی ٹی آئی سینیٹر مرزا آفریدی
  • چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیں گے، مرزا آفریدی
  • اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں نوجوانوں کیساتھ مکالمہ
  • ہ صوبے میں کسی آپریشن کی اجازت نہیں دی جائے گی، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور
  • جس دن نمبرز پورے ہو گئے، خیبرپختونخوا میں تحریک عدم اعتماد لائیں گے، گورنرفیصل کریم کنڈی
  • اخلاقیات پر مصنوعی ذہانت کے ساتھ ایک مکالمہ
  • عوام کا عدالتوں سے اعتماد اٹھ گیا: پی ٹی آئی کا 9 مئی کے ملزمان کو سزاؤں پر ردعمل