اعجاز چودھری کے پروڈکشن آرڈرز پر عمل نہ ہونا پارلیمنٹ کی توہین ہے: شبلی فراز
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
اسلام آباد( ڈیلی پاکستان آن لائن )سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ اعجاز چودھری کے پروڈکشن آرڈرز پر عمل نہ ہونا پارلیمنٹ کی توہین ہے۔
نجی ٹی وی دنیا نیوز کے مطابق اپوزیشن لیڈرشبلی فراز کا سینیٹ ایڈوائزری کمیٹی کے بعد میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہنا تھا کہ اعجاز چودھری سینیٹ کے ممبر ہیں،سینیٹرشبلی فراز نے کہا کہ ڈیڑھ سال میں کئی بار پروڈکشن آرڈر کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کے پروڈکشن آرڈرز پر عملدر آمد نہ ہونا پارلیمنٹ کی توہین ہے، ہمیں پروڈکشن آرڈر پر عملدرآمد نہ ہونے کا خدشہ تھا، پنجاب حکومت نے پروڈکشن آرڈر سنجیدہ نہیں لیا، پنجاب حکومت فسطائیت میں اپنا ریکارڈ بنا چکی ہے۔
سینیٹرشبلی فراز کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے ایوان کے پروڈکشن آرڈر کو اہمیت نہیں دی، پنجاب حکومت کے انکار سے ایوان بالا کا استحقاق مجروح ہوا، بات ہمدردی کی نہیں بات ایکشن کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چیئرمین سینیٹ کے احکامات کی تکمیل نہ ہونا اہم مسئلہ ہے، چیئرمین سینیٹ اپوزیشن نہیں پورے ایوان کے چیئرمین ہیں، پروڈکشن آرڈر پر عملدرآمد نہ ہونے پرمعاملہ استحقاق کمیٹی میں جائے گا۔
عمران خان اور بشریٰ بی بی کیخلاف توشہ خانہ ٹو کیس، مزید دو گواہان کی شہادتیں قلمبند
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: کے پروڈکشن آرڈر پنجاب حکومت نہ ہونا
پڑھیں:
سینیٹ کمیٹیوں میں توانائی بحران، تعمیراتی بدانتظامی اور مالی بے ضابطگیوں پر کڑی تنقید
اسلام آباد:سینیٹ کی مختلف قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں توانائی، تعمیراتی منصوبوں، زمینوں کے تنازعات اور بدانتظامی پر شدید تحفظات اور سوالات اٹھائے گئے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس چیئرمین سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت ہوا، جس میں آئی پی پیز، گردشی قرض، لوڈشیڈنگ اور توانائی کے شعبے میں بے ضابطگیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ارکان نے وفاقی وزیر توانائی کی اجلاس میں عدم موجودگی کو غیر سنجیدگی قرار دیتے ہوئے شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
دوسری جانب چیئرمین کمیٹی ناصر محمود کی زیر صدارت اجلاس میں سی ڈی اے حکام نے بتایا کہ اگر فنڈز فراہم نہ کیے گئے تو اسلام آباد ماڈل جیل کی تعمیر رک سکتی ہے۔ حکام کے مطابق تاخیر اور مالی وسائل کی کمی کے باعث لاگت میں نمایاں اضافہ متوقع ہے۔
اجلاس میں پاک پی ڈبلیو ڈی کی مری میں زمین کے کیس سے متعلق بتایا گیا کہ وزارت ہاؤسنگ نے قانونی جنگ جیت لی ہے۔ اجلاس کے دوران 617 اسامیوں کی قبل از وقت بھرتیوں کا معاملہ بھی سامنے آیا، جس پر فنانس ڈویژن نے خبردار کیا کہ اس اقدام سے قومی خزانے پر اربوں روپے کا بوجھ پڑ سکتا ہے۔
علاوہ ازیں مری میں پی ڈبلیو ڈی کی سرکاری زمین پر 40 سال سے قابض ایک سابق چوکیدار کا معاملہ بھی زیر غور آیا، جس پر ارکان کمیٹی نے حیرت اور برہمی کا اظہار کیا۔
ایک اور اجلاس میں چیئرمین جنید اکبر کی زیر صدارت سی ڈی اے حکام کو جناح اسکوائر انٹرچینج کے ایک حصے کے بیٹھ جانے پر طلب کیا گیا۔ اجلاس میں استفسار کیا گیا کہ اگر منصوبے کی مدت 120 دن تھی تو اسے 60 دنوں میں کیوں مکمل کیا گیا؟ چیئرمین پی اے سی نے تعمیر کے صرف تین ماہ بعد ہی انڈرپاس کے بیٹھنے پر شدید تعجب کا اظہار کیا اور تعمیراتی معیار پر سوالات اٹھائے۔
اجلاس کے دوران یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین اور ممبران نے ضوابط کے خلاف جا کر 5 کروڑ 60 لاکھ روپے کے الاؤنسز حاصل کیے۔ ارکان نے معاملے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔