ایک انسان کی زندگی بچانے کےلیے کتنی رقم صرف کرنی چاہیے؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
آکسفورڈ کی مشہور A Very Short Introduction والی سیریز مجھے بہت پسند ہے۔ اس سیریز میں اہم موضوعات پر مختصر لیکن جامع کتابیں شائع کی گئی ہیں جن کے مصنفین اپنے شعبے کے ممتاز ماہرین ہوتے ہیں۔ اس سیریز میں ’طبی اخلاقیات‘ پر کتاب ٹونی ہوپ نے لکھی ہے جو آکسفرڈ یونی ورسٹی میں طبی اخلاقیات کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے اس سوال پر بھی بحث کی ہے جو اس کالم کا عنوان ہے۔
انسانی جان کی قیمت کتنی ہے؟کیا ایک انسانی زندگی بچانے کےلیے جتنا خرچہ بھی آئے، برداشت کرنا چاہیے؟ کب یہ سمجھا جائے گا کہ چونکہ بچنے کے امکانات بہت ہی کم ہیں، اس لیے بہت مہنگے آپریشن سے گریز کرنا چاہیے؟
پروفیسر ہوپ توجہ دلاتے ہیں کہ وسائل محدود ہیں اور دنیا میں کسی بھی ریاست کے صحت اور طبی سہولیات کے نظام میں اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ سب لوگوں کو ہر صورت میں بہترین طبی مدد فراہم کرسکیں۔ چنانچہ آپ ایک کام کی طرف وسائل کا رخ کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں کسی اور کام پر خرچہ رک جاتا، یا کم ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں بھی دیگر انسانی جانوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے! اس لیے لازماً ترجیحات کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ اس تعین کےلیے اصول کیا ہو؟ یہ طبی اخلاقیات کا ایک اہم سوال ہے کیونکہ لاکھوں لوگوں کی زندگی، یا زندگی کے معیار، کا انحصار اس سوال کے جواب پر ہے۔
پھر طبی سہولیات میں کچھ کا تعلق زندگی بچانے سے ہے، جیسے فشارِ خون بڑھنے کی وجہ سے دل کا دورہ پڑنے کے امکانات میں اضافہ ہوجاتا ہے، اس لیے فشارِ خون کم کرنے کی سہولت سے دل کے دورے کا امکان کم ہوجاتا ہے، خواہ اسے یکسر ختم نہ کیا جاسکے؛ اسی طرح گردوں کے ڈایالیسس سے زندگی بچانے میں مدد ملتی ہے؛ جبکہ کچھ سہولیات سے زندگی کی مدت بڑھانے میں کوئی مدد نہیں ملتی لیکن ان سے زندگی کے معیار میں بہتری آسکتی ہے، جیسے ہڈیوں کی بیماری کی وجہ سے کولہے کی ہڈی کی تبدیلی۔ ترجیحات کے تعین میں یہ مرحلہ تو نسبتاً آسانی سے طے ہوسکتا ہے کہ ہمیں اخراجات کا رخ زندگی بچانے والی سہولیات کی طرف موڑ دینا چاہیے، لیکن اس سے آگے بات اتنی سادہ نہیں رہتی۔
زیادہ لوگوں کو نسبتاً کم زندگی یا کم لوگوں کو نسبتاً زیادہ زندگی؟پروفیسر ہوپ ایک فرضی صورت پیش کرتے ہیں۔ آپ ایک اسپتال کے سربراہ ہیں؛ اسپتال کا بجٹ محدود ہے؛ آپ اپنے بورڈ کے ارکان کے ساتھ مشورہ کرتے ہیں کہ مختصر رقم کس مد میں خرچ کی جائے؛ وہ آپ کے سامنے 3 امکانات رکھ دیتے ہیں:
کینسر کی ایک خاص دوا خرید لی جائے، تو کینسر کے مریضوں کی زندگی کی امید میں تھوڑا اضافہ ہوسکتا ہے؛ ایک نئی دوا لی جائے، تو کولیسٹرول کے مریضوں میں دل کا دورہ پڑنے کے امکانات کم ہوسکتے ہیں؛ اور ایک خاص طرح کی سرجری کے آلات خریدے جائیں، تو دماغ کی مشکل سرجری میں مدد مل سکے گی۔ آپ ان میں کسی امکان کو کس بنا پر ترجیح دیں گے؟ایک عام جواب یہ ہوتا ہے کہ چونکہ سب کی زندگیاں برابر کی قیمت رکھتی ہیں، اس لیے وسائل ان تینوں میں برابر خرچ ہونے چاہییں۔ تاہم وسائل کی ایسی تقسیم میں بعض پیچیدگیاں بھی ہوسکتی ہیں۔ مثلاً اگر معاملہ یوں ہو کہ:
پہلی صورت میں فائدہ 10 افراد کو ہو اور مجموعی طور پر زندگی کے 35 سال بچائے جاسکتے ہوں؛ دوسری صورت میں فائدہ 15 افراد کو ہو اور مجموعی طور پر زندگی کے 30 سال بچائے جاسکتے ہوں؛ اور تیسری صورت میں فائدہ 2 افراد ہو اور مجموعی طور پر زندگی کے 16 سال بچائے جاسکتے ہوں؛اگر ان تینوں امکانات پر یکساں خرچہ اٹھتا ہو اور حالات ایسے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک پر ہی رقم خرچ کرسکتے ہیں، تو:
پہلی صورت میں آپ نے بظاہر 10 افراد کو فائدہ دیا لیکن ان میں سے ہر ایک کو اوسطاً ساڑھے 3 سال ملے؛ دوسری صورت میں آپ نے بظاہر 15 افراد کو فائدہ دیا لیکن ان میں سے ہر ایک کو اوسطاً 2 سال ملے؛اور تیسری صورت میں بظاہر 2 افراد کو فائدہ دیا لیکن ان میں سے ہر ایک کو اوسطاً 8 سال ملے۔تو آپ افراد کی تعداد کو دیکھیں گے یا زندگی کے سالوں کو دیکھیں گے؟ بہ الفاظِ دیگر، زیادہ لوگوں کو نسبتاً کم زندگی ملنا بہتر ہے یا کم لوگوں کو نسبتاً زیادہ زندگی ملنا؟
تحفظ کا اصولتحفظ کا اصول کہتا ہے کہ اگر سامنے محض اعداد و شمار نہ ہوں بلکہ معاملہ کسی متعین شخص کو بچانے کا ہو تو لوگ نسبتاً زیادہ خرچ کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں ۔ اس کی وضاحت کےلیے پروفیسر ہوپ 2 فرضی صورتیں ذکر کرتے ہیں:
ایک صورت یہ ہے کہ ایک نسبتاً سستی دوا کے ذریعے ایک قلیل تعداد میں لوگوں کی جان بچائی جاسکتی ہے لیکن اس میں وقت تھوڑا زیادہ لگے گا۔ مثلاً 2000 افراد کو یہ دوا نہ دی جائے تو 100 افراد مریں گے اور اگر یہ دوا دی جائے تو 3 سالوں میں یہ تعداد 98 تک لائی جاسکے گی۔ جیسے اسٹاٹنز نامی دوا کولیسٹرول کم کرنے میں مدد کرتی ہے جس سے کئی لوگوں میں دل کا دورہ پڑنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ نسبتاً مہنگی دوا/علاج کے ذریعے بعض شدید بیماریوں میں مبتلا افراد کی زندگی بچانے کے امکانات میں اضافہ کیا جاسکے گا اور یہ اثر نسبتاً جلدی معلوم ہوسکے گا۔ مثلاً گردوں کے مرض میں مبتلا افراد کو ڈایالیسس کی سہولت فراہم کی جائے تو ان کی زندگی بچ سکے گی، خواہ بچائے گئے فی سال کی قیمت بہت زیادہ ہو۔
برطانیہ میں حکومت گردوں کے علاج پر جتنا خرچہ کرتی ہے اس سے بچائے جانے والے فی سال کی قیمت 50 ہزار پاؤنڈ بنتی ہے جبکہ کولیسٹرول کے اضافے کے درمیانے درجے میں مبتلا مریضوں کےلیے اسٹاٹنز کے ذریعے اوسطاً 10 ہزار پاؤنڈ سے ایک سال خریدا جاسکتا ہے۔ گویا اگر حکومت اپنے وسائل کا رخ گردوں کے مسئلے کے بجاے کولیسٹرول والے مسئلے کی طرف کردے تو وہ مریضوں کی زندگی میں تقریباً 5 گنا زیادہ سال بچا سکے گی!
یہ بھی پڑھیں: کیا غیر منصفانہ قانون کی پابندی لازم ہے؟
تاہم اس کے باوجود دنیا بھر میں بالعموم دوسری صورت کو ہی ترجیح دی جاتی ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایسے مریض معلوم و متعین ہوتے ہیں جو ڈایالیسس سے فیض یاب ہوتے ہیں اور یوں آپ کو اپنی پالیسی کے اثرات سامنے نظر آتے ہیں جبکہ پہلی صورت میں آپ کےلیے محض اعداد وشمار ہوتے ہیں اور وہ بھی نسبتاً طویل مدت میں نظر آتے ہیں۔
تحفظ کےاصول کی بنیاد پر ہی حکومت مصیبت میں گھرے کسی متعین شخص، جیسے کان میں پھنسے مزدور، پر اس سے کہیں زیادہ خرچ کرتی ہے جتنا وہ عام حالات میں اوسطاً کسی شخص پر کرتی ہے۔
تو پھر تحفظ کا اصول کیوں؟کئی لوگ غلط ڈرائیونگ کرتے ہیں جس کی وجہ سے ٹریفک حادثات میں بہت زیادہ اموات ہوتی ہیں لیکن پھر بھی دیگر لوگ یہ خطرات مول لیتے ہوئے سڑک پر گاڑی لے آتے ہیں۔ ہاں، خطرہ نسبتاً زیادہ ہو، تو لوگ شاید گھروں میں رہنے کو ہی ترجیح دیں۔ (جیسے اسلام آباد کے مکینوں کو آئے روز جلسے جلوسوں اور دھرنوں کی وجہ سے یہ حساب کتاب لگانا پڑتا ہے کہ باہر جایا جائے یا گھر میں ہی رہا جائے۔) پھر اگر آپ کے کسی دوست نے کسی جگہ نوکری کےلیے درخواست دینی ہے لیکن آخری دن وہ بیمار پڑگیا جس کی وجہ سے وہ خود درخواست دینے کے لیے جا نہیں سکتا، تو آپ اس کی مدد کے لیے نکل پڑتے ہیں کیونکہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے دوست کو اس نوکری کی اشد ضرورت ہے۔ کیا مصیبت میں گھرے کسی مخصوص شخص کی مدد پر بہت زیادہ خرچہ اس بنا پر جائز نہیں ہوجاتا؟ شاید ہم میں سے بہت سے افراد اس کا جواب ہاں میں دینا چاہیں گے لیکن پروفیسر ہوپ پھر وسائل کی تقسیم کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور کسی کان میں پھنسے ہوئے مزدور کی مثال دیتے ہیں۔
کسی کان میں کوئی مزدور پھنس گیا ہے جسے بڑے پیمانے پر امدادی کارروائی کے بغیر بچانا ممکن نہیں ہے۔ امدادی ٹیم میں افراد زیادہ ہوں، تو کسی متعین فرد کی موت کا امکان تو کم ہوگا، لیکن اس ٹیم میں مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا امکان بڑھ جائے گا۔ کیا ایسی صورت میں ایک شخص کو بچانے کےلیے امدادی ٹیم بھیجنی چاہیے؟ خواہ امدادی ٹیم رضاکاروں پر مشتمل ہو اور خرچہ بھی وہ خود اٹھائیں، تب بھی اخلاقی سوال اٹھیں گے لیکن اگر ٹیم سرکاری اہلکاروں پر مشتمل ہو اور خرچہ بھی ٹیکس ادا کرنے والوں کی رقم سے ہو، تب یہ سوالات زیادہ اہم ہوجاتے ہیں۔
اس کالم میں پروفیسر ہوپ کا تجزیہ پیش کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی عقیدے، اخلاق اور شریعت کی رو سے ہمارے لیے مطلوب طرزِ عمل کیا ہے؟ ہمیں اپنے علم الکلام، علم الاخلاق، اصول فقہ اور دیگر دینی علوم سے اس سلسلے میں کیا رہنمائی ملتی ہے؟ کیا ہماری جامعات ان سوالات پر بحث کےلیے تیار ہیں؟
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انسانی جان کی قیمت تحفظ کا اصول طبی اخلاقیات لوگوں کو نسبتا طبی اخلاقیات تحفظ کا اصول زندگی بچانے کے امکانات کی وجہ سے بچانے کے کرتے ہیں ہوتے ہیں گردوں کے کی زندگی افراد کو زندگی کے ہیں اور کی قیمت کرتی ہے لیکن ان کے لیے کی طرف ہیں کہ ہو اور اس لیے
پڑھیں:
اگر قاسم اورسلمان نے برطانوی شہری بن کر پاکستان آنا ہے توایسی صورت میں برطانوی حکومت نے انہیں مظاہروں اورہجوم سےدور رہنے کی ہدایت کی ہے، عثمان شامی
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)تجزیہ کار عثمان شامی نے کہا ہے کہ اگر قاسم اورسلمان نے برطانوی شہری بن کر پاکستان آنا ہے توایسی صورت میں برطانوی حکومت ان کو مشورہ دے رہی ہے کہ وہ مظاہروں اورہجوم سےدور رہیں۔
دنیا نیوز کے پروگرام 'تھنک ٹینک، میں گفتگوکرتے ہوئے انہوں نےکہا کہ علیمہ خان کی شدید خواہش ہے کہ قاسم اور سلمان پاکستان آئیں ، ان کا خیال ہے کہ اس سے پارٹی پر خاندان کا کنٹرول بڑھ جائے گا لیکن ابھی ان کی بات سنی نہیں جا رہی ،انہوں نے مشعال یوسفزئی کی سینیٹر شپ کےمعاملے پر ناراضی کا اظہار بھی کیا ہے، عمران خان باپ ہونے کی حیثیت سے اپنے بچوں کو مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتے۔ عثمان شامی نے بتا یا کہ رواں سال سات مارچ کو امریکی حکومت نے پاکستان میں سفر کےحوالے سے اپنے شہریوں کو ٹریول ایڈوائزری جاری کی تھی، اس میں کہا گیا تھا کہ امریکی شہریوں کوخبردار کیاجاتاہے کہ بغیر اجازت کے پاکستان میں کسی احتجاج میں حصہ لینا مقامی قانون کے خلاف ہےاوراس سے گرفتاری ہوسکتی ہے، سوشل میڈیاپر پاکستانی حکومت اورفوج کےخلاف تنقید مواد پوسٹ کرنے سے بھی گرفتاری کا خطرہ ہے، ایسی صورت میں امریکی سفارتخارنہ گرفتار امریکی شہریوں کو رہا کرانے میں محدود صلاحیت رکھتے ہیں ، خاص طور پر دہری شہریت والے شہریوں کو۔ان کا کہنا تھا کہ یکم اگست کو برطانوی حکومت نے بھی اپنی ٹریو ل ایڈوائزری اپ ڈیٹ کی ہےجس میں کہا گیا ہےکہ برطانوی شہری تمام سیاسی مظاہروں، بڑے ہجوم اور پبلک ایونٹس سےدوررہیں، اگر آپ کسی ایسی جگہ پر پھنس جائیں تو کوئی محفوظ راستہ اختیارکریں۔ اگر قاسم اورسلمان نے برطانوی شہری بن کر پاکستان آنا ہے توایسی صورت میں برطانوی حکومت ان کو مشورہ دے رہی ہے کہ وہ مظاہروں اورہجوم سےدور رہیں۔
وکیل کیلئے ضروری ہے کہ خواہ کتنا ہی سینئر ہو جائے، وکالت کرتے کرتے بوڑھا ہو جائے اپنے سائلوں سے اہم نکات پر تبادلہ ئخیالات کرتے رہنا چاہیے
انہوں نے وضاحت کی کہ قانونی طور پر ٹریول ایڈوائزری کامطلب یہ ہےکہ برطانوی حکومت اپنے شہریوں کوکہہ رہی ہےکہ اگرآپ کسی مسئلے میں پھنس گئے تو آپ کوبچانے کی ہماری صلاحیت محدود ہے۔ عثمان شامی کا کہنا تھا کہ عمران خان کے بیٹوں نے ایک انٹرویو میں ان کی قید کا جونقشہ کھینچا ہے وہ عمران خان کے حقیقی حالات سے بد تر ہے، عمران خان کے بیٹوں کو جان بوجھ کر یہ باتیں بتائی جارہی ہیں تاکہ انہیں پاکستان بلانے کےلیے آثار پیدا کیے جائیں۔انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کےبیٹوں نے انٹر ویو میں عدالت پر بھی تنقید کی لیکن دلچسپ بات ہے کہ موجودہ نظام میں فوج اور عدالت جو ایک پیج پر نظر آتے ہیں اس کے آرکیٹکٹ اور بینیفیشری عمران خان خود ہیں، اس وقت فیض حمید اورثاقب نثار نے جب اپوزیشن کومفلوج کیاہواتھاتو وہ اچھےنظرآتے تھے۔ موجودہ حالات کودیکھتےہوئے عمران خان کو بھی سسٹم کے اندررہ کر جدو جہد کرنی چاہیے ، ان کے لیے کوئی راستہ نکل آئے گاجیسے پی ڈی ایم کے لیے نکلا تھا۔
ہمارے سیاستدان تیار بیٹھے ہوتے ہیں پنگا لینے کو۔ بناء سو چے بنا سمجھے،مجھے بلا بھیجا،سلام دعا کے بعد وہ کہنے لگے”باؤ! میں ٹنگاں توڑن چے دیر نہیں کردا“
مزید :