ایک انسان کی زندگی بچانے کےلیے کتنی رقم صرف کرنی چاہیے؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
آکسفورڈ کی مشہور A Very Short Introduction والی سیریز مجھے بہت پسند ہے۔ اس سیریز میں اہم موضوعات پر مختصر لیکن جامع کتابیں شائع کی گئی ہیں جن کے مصنفین اپنے شعبے کے ممتاز ماہرین ہوتے ہیں۔ اس سیریز میں ’طبی اخلاقیات‘ پر کتاب ٹونی ہوپ نے لکھی ہے جو آکسفرڈ یونی ورسٹی میں طبی اخلاقیات کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے اس سوال پر بھی بحث کی ہے جو اس کالم کا عنوان ہے۔
انسانی جان کی قیمت کتنی ہے؟کیا ایک انسانی زندگی بچانے کےلیے جتنا خرچہ بھی آئے، برداشت کرنا چاہیے؟ کب یہ سمجھا جائے گا کہ چونکہ بچنے کے امکانات بہت ہی کم ہیں، اس لیے بہت مہنگے آپریشن سے گریز کرنا چاہیے؟
پروفیسر ہوپ توجہ دلاتے ہیں کہ وسائل محدود ہیں اور دنیا میں کسی بھی ریاست کے صحت اور طبی سہولیات کے نظام میں اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ سب لوگوں کو ہر صورت میں بہترین طبی مدد فراہم کرسکیں۔ چنانچہ آپ ایک کام کی طرف وسائل کا رخ کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں کسی اور کام پر خرچہ رک جاتا، یا کم ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں بھی دیگر انسانی جانوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے! اس لیے لازماً ترجیحات کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ اس تعین کےلیے اصول کیا ہو؟ یہ طبی اخلاقیات کا ایک اہم سوال ہے کیونکہ لاکھوں لوگوں کی زندگی، یا زندگی کے معیار، کا انحصار اس سوال کے جواب پر ہے۔
پھر طبی سہولیات میں کچھ کا تعلق زندگی بچانے سے ہے، جیسے فشارِ خون بڑھنے کی وجہ سے دل کا دورہ پڑنے کے امکانات میں اضافہ ہوجاتا ہے، اس لیے فشارِ خون کم کرنے کی سہولت سے دل کے دورے کا امکان کم ہوجاتا ہے، خواہ اسے یکسر ختم نہ کیا جاسکے؛ اسی طرح گردوں کے ڈایالیسس سے زندگی بچانے میں مدد ملتی ہے؛ جبکہ کچھ سہولیات سے زندگی کی مدت بڑھانے میں کوئی مدد نہیں ملتی لیکن ان سے زندگی کے معیار میں بہتری آسکتی ہے، جیسے ہڈیوں کی بیماری کی وجہ سے کولہے کی ہڈی کی تبدیلی۔ ترجیحات کے تعین میں یہ مرحلہ تو نسبتاً آسانی سے طے ہوسکتا ہے کہ ہمیں اخراجات کا رخ زندگی بچانے والی سہولیات کی طرف موڑ دینا چاہیے، لیکن اس سے آگے بات اتنی سادہ نہیں رہتی۔
زیادہ لوگوں کو نسبتاً کم زندگی یا کم لوگوں کو نسبتاً زیادہ زندگی؟پروفیسر ہوپ ایک فرضی صورت پیش کرتے ہیں۔ آپ ایک اسپتال کے سربراہ ہیں؛ اسپتال کا بجٹ محدود ہے؛ آپ اپنے بورڈ کے ارکان کے ساتھ مشورہ کرتے ہیں کہ مختصر رقم کس مد میں خرچ کی جائے؛ وہ آپ کے سامنے 3 امکانات رکھ دیتے ہیں:
کینسر کی ایک خاص دوا خرید لی جائے، تو کینسر کے مریضوں کی زندگی کی امید میں تھوڑا اضافہ ہوسکتا ہے؛ ایک نئی دوا لی جائے، تو کولیسٹرول کے مریضوں میں دل کا دورہ پڑنے کے امکانات کم ہوسکتے ہیں؛ اور ایک خاص طرح کی سرجری کے آلات خریدے جائیں، تو دماغ کی مشکل سرجری میں مدد مل سکے گی۔ آپ ان میں کسی امکان کو کس بنا پر ترجیح دیں گے؟ایک عام جواب یہ ہوتا ہے کہ چونکہ سب کی زندگیاں برابر کی قیمت رکھتی ہیں، اس لیے وسائل ان تینوں میں برابر خرچ ہونے چاہییں۔ تاہم وسائل کی ایسی تقسیم میں بعض پیچیدگیاں بھی ہوسکتی ہیں۔ مثلاً اگر معاملہ یوں ہو کہ:
پہلی صورت میں فائدہ 10 افراد کو ہو اور مجموعی طور پر زندگی کے 35 سال بچائے جاسکتے ہوں؛ دوسری صورت میں فائدہ 15 افراد کو ہو اور مجموعی طور پر زندگی کے 30 سال بچائے جاسکتے ہوں؛ اور تیسری صورت میں فائدہ 2 افراد ہو اور مجموعی طور پر زندگی کے 16 سال بچائے جاسکتے ہوں؛اگر ان تینوں امکانات پر یکساں خرچہ اٹھتا ہو اور حالات ایسے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک پر ہی رقم خرچ کرسکتے ہیں، تو:
پہلی صورت میں آپ نے بظاہر 10 افراد کو فائدہ دیا لیکن ان میں سے ہر ایک کو اوسطاً ساڑھے 3 سال ملے؛ دوسری صورت میں آپ نے بظاہر 15 افراد کو فائدہ دیا لیکن ان میں سے ہر ایک کو اوسطاً 2 سال ملے؛اور تیسری صورت میں بظاہر 2 افراد کو فائدہ دیا لیکن ان میں سے ہر ایک کو اوسطاً 8 سال ملے۔تو آپ افراد کی تعداد کو دیکھیں گے یا زندگی کے سالوں کو دیکھیں گے؟ بہ الفاظِ دیگر، زیادہ لوگوں کو نسبتاً کم زندگی ملنا بہتر ہے یا کم لوگوں کو نسبتاً زیادہ زندگی ملنا؟
تحفظ کا اصولتحفظ کا اصول کہتا ہے کہ اگر سامنے محض اعداد و شمار نہ ہوں بلکہ معاملہ کسی متعین شخص کو بچانے کا ہو تو لوگ نسبتاً زیادہ خرچ کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں ۔ اس کی وضاحت کےلیے پروفیسر ہوپ 2 فرضی صورتیں ذکر کرتے ہیں:
ایک صورت یہ ہے کہ ایک نسبتاً سستی دوا کے ذریعے ایک قلیل تعداد میں لوگوں کی جان بچائی جاسکتی ہے لیکن اس میں وقت تھوڑا زیادہ لگے گا۔ مثلاً 2000 افراد کو یہ دوا نہ دی جائے تو 100 افراد مریں گے اور اگر یہ دوا دی جائے تو 3 سالوں میں یہ تعداد 98 تک لائی جاسکے گی۔ جیسے اسٹاٹنز نامی دوا کولیسٹرول کم کرنے میں مدد کرتی ہے جس سے کئی لوگوں میں دل کا دورہ پڑنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ نسبتاً مہنگی دوا/علاج کے ذریعے بعض شدید بیماریوں میں مبتلا افراد کی زندگی بچانے کے امکانات میں اضافہ کیا جاسکے گا اور یہ اثر نسبتاً جلدی معلوم ہوسکے گا۔ مثلاً گردوں کے مرض میں مبتلا افراد کو ڈایالیسس کی سہولت فراہم کی جائے تو ان کی زندگی بچ سکے گی، خواہ بچائے گئے فی سال کی قیمت بہت زیادہ ہو۔
برطانیہ میں حکومت گردوں کے علاج پر جتنا خرچہ کرتی ہے اس سے بچائے جانے والے فی سال کی قیمت 50 ہزار پاؤنڈ بنتی ہے جبکہ کولیسٹرول کے اضافے کے درمیانے درجے میں مبتلا مریضوں کےلیے اسٹاٹنز کے ذریعے اوسطاً 10 ہزار پاؤنڈ سے ایک سال خریدا جاسکتا ہے۔ گویا اگر حکومت اپنے وسائل کا رخ گردوں کے مسئلے کے بجاے کولیسٹرول والے مسئلے کی طرف کردے تو وہ مریضوں کی زندگی میں تقریباً 5 گنا زیادہ سال بچا سکے گی!
یہ بھی پڑھیں: کیا غیر منصفانہ قانون کی پابندی لازم ہے؟
تاہم اس کے باوجود دنیا بھر میں بالعموم دوسری صورت کو ہی ترجیح دی جاتی ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایسے مریض معلوم و متعین ہوتے ہیں جو ڈایالیسس سے فیض یاب ہوتے ہیں اور یوں آپ کو اپنی پالیسی کے اثرات سامنے نظر آتے ہیں جبکہ پہلی صورت میں آپ کےلیے محض اعداد وشمار ہوتے ہیں اور وہ بھی نسبتاً طویل مدت میں نظر آتے ہیں۔
تحفظ کےاصول کی بنیاد پر ہی حکومت مصیبت میں گھرے کسی متعین شخص، جیسے کان میں پھنسے مزدور، پر اس سے کہیں زیادہ خرچ کرتی ہے جتنا وہ عام حالات میں اوسطاً کسی شخص پر کرتی ہے۔
تو پھر تحفظ کا اصول کیوں؟کئی لوگ غلط ڈرائیونگ کرتے ہیں جس کی وجہ سے ٹریفک حادثات میں بہت زیادہ اموات ہوتی ہیں لیکن پھر بھی دیگر لوگ یہ خطرات مول لیتے ہوئے سڑک پر گاڑی لے آتے ہیں۔ ہاں، خطرہ نسبتاً زیادہ ہو، تو لوگ شاید گھروں میں رہنے کو ہی ترجیح دیں۔ (جیسے اسلام آباد کے مکینوں کو آئے روز جلسے جلوسوں اور دھرنوں کی وجہ سے یہ حساب کتاب لگانا پڑتا ہے کہ باہر جایا جائے یا گھر میں ہی رہا جائے۔) پھر اگر آپ کے کسی دوست نے کسی جگہ نوکری کےلیے درخواست دینی ہے لیکن آخری دن وہ بیمار پڑگیا جس کی وجہ سے وہ خود درخواست دینے کے لیے جا نہیں سکتا، تو آپ اس کی مدد کے لیے نکل پڑتے ہیں کیونکہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے دوست کو اس نوکری کی اشد ضرورت ہے۔ کیا مصیبت میں گھرے کسی مخصوص شخص کی مدد پر بہت زیادہ خرچہ اس بنا پر جائز نہیں ہوجاتا؟ شاید ہم میں سے بہت سے افراد اس کا جواب ہاں میں دینا چاہیں گے لیکن پروفیسر ہوپ پھر وسائل کی تقسیم کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور کسی کان میں پھنسے ہوئے مزدور کی مثال دیتے ہیں۔
کسی کان میں کوئی مزدور پھنس گیا ہے جسے بڑے پیمانے پر امدادی کارروائی کے بغیر بچانا ممکن نہیں ہے۔ امدادی ٹیم میں افراد زیادہ ہوں، تو کسی متعین فرد کی موت کا امکان تو کم ہوگا، لیکن اس ٹیم میں مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا امکان بڑھ جائے گا۔ کیا ایسی صورت میں ایک شخص کو بچانے کےلیے امدادی ٹیم بھیجنی چاہیے؟ خواہ امدادی ٹیم رضاکاروں پر مشتمل ہو اور خرچہ بھی وہ خود اٹھائیں، تب بھی اخلاقی سوال اٹھیں گے لیکن اگر ٹیم سرکاری اہلکاروں پر مشتمل ہو اور خرچہ بھی ٹیکس ادا کرنے والوں کی رقم سے ہو، تب یہ سوالات زیادہ اہم ہوجاتے ہیں۔
اس کالم میں پروفیسر ہوپ کا تجزیہ پیش کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی عقیدے، اخلاق اور شریعت کی رو سے ہمارے لیے مطلوب طرزِ عمل کیا ہے؟ ہمیں اپنے علم الکلام، علم الاخلاق، اصول فقہ اور دیگر دینی علوم سے اس سلسلے میں کیا رہنمائی ملتی ہے؟ کیا ہماری جامعات ان سوالات پر بحث کےلیے تیار ہیں؟
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انسانی جان کی قیمت تحفظ کا اصول طبی اخلاقیات لوگوں کو نسبتا طبی اخلاقیات تحفظ کا اصول زندگی بچانے کے امکانات کی وجہ سے بچانے کے کرتے ہیں ہوتے ہیں گردوں کے کی زندگی افراد کو زندگی کے ہیں اور کی قیمت کرتی ہے لیکن ان کے لیے کی طرف ہیں کہ ہو اور اس لیے
پڑھیں:
چند کروڑ بچانے کی خاطر 5 ادبی و علمی اداروں کے خاتمے کا منصوبہ
وفاقی حکومت اخراجات میں کمی اور انتظامی سادگی کے نام پر مختلف وفاقی اداروں کو ختم یا ضم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ رائٹ سائزنگ کے عنوان سے جاری اس مہم کا دائرہ اب ان اداروں تک جا پہنچا ہے جو علمی، ادبی اور فکری سرمائے کے امین ہیں۔
ذرائع کے مطابق، وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کمیٹی نے حکومت سے سفارش کی ہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان، اردو سائنس بورڈ، اردو لغت بورڈ اور اقبال اکادمی کو ادارہ فروغ قومی زبان میں ضم کر دیا جائے اور ادارہ فروغ قومی زبان کو کسی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے ماتحت کر دیا جائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو انہیں ختم کردیا جائے۔
یہ تجویز نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ پاکستان کی تہذیبی، ادبی اور فکری بنیادوں پر ایک کاری ضرب ہے۔ ان اداروں کو قائم ہوئے کئی دہائیاں گزر چکی ہیں اور ہر ادارہ اپنے دائرۂ کار میں پاکستان کا واحد اور نمائندہ ادارہ ہے۔ ان کے انضمام یا خاتمے سے وہ تمام فکری، ادبی، اور ثقافتی بنیادیں متزلزل ہو جائیں گی جن پر پاکستان کی زبانوں، نظریات، اور علمی شناخت کی عمارت کھڑی ہے۔
ان اداروں میں ہر ایک اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے، جو دہائیوں سے پاکستانی زبانوں، ادب، تحقیق اور قومی تشخص کے فروغ کے لیے کام کر رہا ہے۔ ان کے وجود کا مطلب صرف چند عمارتیں یا سرکاری تنخواہوں کا بوجھ نہیں، بلکہ یہ پاکستان کی فکری شناخت کے ستون ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے، جو نواز شریف کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں ہیں، رواں ماہ 13 جون 2025 کو سینیٹ اجلاس میں ببانگ دہل ان تجاویز کی سخت مخالفت کی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم دنیا کو اپنا سافٹ امیج دکھانے کے بجائے بطور دہشتگرد متعارف کروانا چاہتے ہیں؟
ان کا یہ سوال دراصل حکومتی ترجیحات پر واضح سوالیہ نشان ہے۔ عرفان صدیقی خود چوں کہ شاعر ادیب ہیں اور ان اداروں کی نگران وزارت کے، مشیر رہ چکے ہیں اس لیے انہیں، ان اداروں کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے۔ یہاں ان کی تقریر کا وہ حصہ ہو بہو نقل کیا جا رہا ہے۔
’’میرے علم میں آیا ہے کہ ہمارے جو علمی ادبی ثقافتی ادارے ہیں جن سے ہمارا گہرا تعلق ہے، یہ بیشتر ادارے ذوالفقار علی بھٹو شہید کے دور میں قائم ہوئے۔ جن میں اکادمی ادبیات پاکستان، ادارہ فروغ قومی زبان، اردو سائنس بورڈ، اقبال اکادمی اور اردو ڈکشنری بورڈ اور اس طرح کے دیگر ادارے ہیں، ان کو بند کیا جارہا ہے۔ ان کو مرج کرکے یونیورسٹیوں کے سپرد کر دیا جا رہا ہے وہ یونیورسٹیاں جو پہلے سے مفلوق الحالی کا شکار ہیں اور اپنے ملازمین کو تنخواہیں نہیں دے سکتیں، ان اداروں کے ساتھ یہ کام نہ کریں۔ ان اداروں کی اصلاح کرنی ہے، ان کو نیا مینڈیٹ دینا ہے، ان کا دائرہ کار تبدیل کرنا ہے، اصلاحات کرنی ہے تو اس پر کمیٹی بنائیں اور اصلاحات ضرور کریں لیکن ان غریب اداروں کو معصوم اداروں کو جو ہماری پہچان ہیں، ادبی علمی ادارے ہیں ثقافتی ادارے ہیں اور ان کا بیرونی ممالک کے ساتھ بڑا گہرا رابطہ رہتا ہے۔ ہماری پہچان بنتی ہے کیا ہماری پہچان ٹیررزم رہنی چاہیے؟ کیا ہماری پہچان وہ غربت اور مہنگائی رہنی چاہیے۔ یہ علمی ادبی ادارے ہماری شناخت اور پہچان ہیں، ان کا تحفظ ہماری حکومت کو کرنا چاہیے۔ ان کے مینڈیٹ میں کوئی تبدیلی کرنی ہے توبے شک کریں لیکن یہ ادارے قائم رہنے چاہئیں‘‘۔
مجھے 2017 کا وہ دن یاد آرہا ہے جب میں اکادمی کے دعوت پر اسلام آباد میں منعقدہ بین الاقوامی ادبی کانفرنس میں شریک ہوا تھا۔ اس کانفرنس کا افتتاح اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کیا تھا۔انہوں نے ملک بھر سے آئے ہوئے اہل قلم سے کہا تھا۔’پاکستان کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے کے لیے ضرب عضب کے ساتھ ساتھ ضرب قلم کی بھی ضرور ت ہے‘۔
انہوں نے شاعروں اور ادبیوں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کئی بڑے اقدامات اٹھائے تھے، جن میں 50 کروڑ روپے کے انڈومنٹ فنڈ کا بھی اعلان کیا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس وقت کی وزارت نے یہ کہہ کر فنڈ اپنے ماتحت کرلیا تھا کہ اس پر دوسرے اداروں کا بھی حق ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس فنڈ کا کیا بنا؟
ان میں سے بیشتر ادارے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے ذہن رسا کی پیداوار ہیں اور اکادمی ادبیات پاکستان کے صدر دفتر اسلام آباد میں انہی کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے لیکن حیرانی اس بات کی ہے کہ پیپلز پارٹی جو موجودہ حکومت کی سب سے اہم اتحادی ہے اور حکومت اسی کے سہارے کھڑی ہے، اس اقدام پر خاموش ہے۔ ابھی تک پیپلز پارٹی کے کسی بھی عہدیدار کی طرف سے اس تجویز کی مخالفت سامنے نہیں آئی۔
حکومت ایک طرف اخراجات میں کمی اور انتظامی سادگی کے بہانے ادبی و علمی اداروں کو ضم یا ختم کرنے پہ تلی ہے، دوسری جانب اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں 500 فیصد سے زائد حیران کن اور ہوشربا اضافہ کردیا گیا ہے۔ امسال وفاقی وزرا اور اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں بھی کئی گنا اضافہ کیا جا چکا ہے۔ اس اضافے کا اطلاق ’کفایت شعاری‘ کے تناظر میں یکم جنوری 2025 سے ہوگا۔ ایسے تضادات دیکھ کر عام آدمی کی بے بسی اور مایوسی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ حکومتی ’سادگی‘ کی محض ایک مثال ہے۔ ’سادگی‘ کی ایسی ایسی داستانیں زبان زدعام ہیں کہ ’اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا؟‘۔
واضح رہے کہ ان میں سے ہر ادارے کا بجٹ چند کروڑ روپے ہے اور سارے اداروں کا بجٹ ساٹھ ستر کروڑ روپے بھی نہیں بنتا اور یہ ادارے اتنے کم بجٹ میں وہ کام کر رہے ہیں، جو اربوں کا سالانہ بجٹ لینے والے بھی نہیں کر پاتے۔ مثلاً اکادمی ادبیات پاکستان نے کئی عالمی اداروں کے ساتھ باہمی یادداشتوں پر دستخط کر رکھے ہیں اور ان ممالک کے ادبی اداروں سے اکادمی مسلسل رابطے میں ہے۔ جن میں رائٹرز ایسوسی ایشن آف چائنا، دی نیشنل ایڈمنسٹریشن آف پریس اینڈ پبلی کیشن آف دی پیپل ریپبلک آف چائنا، یونین آف بلغارین رائٹرز ایسوسی ایشن، بلغاریہ، نیشنل اکیڈمی آف سائنسز بیلاروس، نیپال اکیڈمی، اومان ایسوی ایشن آف رائٹرز اینڈ لٹریچر اور استنبول یونیورسٹی آف ایسٹرن لینگوئیجز اینڈ لٹریچر، ترکیہ جیسے ادارے شامل ہیں۔
پاکستان، چائنا سائوتھ ایشیا لٹریچر فورم کا بھی رکن ہے اور اکادمی ادبیات پاکستان اس کی نمائندگی کرتی ہے۔ اکادمی ان ممالک کا ادب اردو میں شائع کرتی ہے اور پاکستان کے ادب کو ان ممالک کی زبان میں ترجمہ کرواتی ہے۔ چین کے ساتھ تو اکادمی 100 کتابوں کے تراجم پر بھی معاہدہ کرچکی ہے۔ ان اداروں کے انضمام یا اختتام کی صورت میں ان معاہدوں کا کیا بنے گا؟ یہ وہ سوال ہے جس کے بارے میں تجویز کنندگان نے سوچا ہی نہیں یا شاید وہ ان چیزوں سے لاعلم ہیں۔
حکومت اخراجات میں کمی اور انتظامی سادگی کے نام پر جن اداروں کو ختم یا ضم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
اکادمی ادبیات پاکستاناکادمی ادبیات پاکستان کا قیام 1976میں عمل میں لایا گیا۔ اہلِ قلم کی فلاح و بہبود اور پاکستانی زبانوں کی ترویج و اشاعت کے لیے ایک فعال قومی ادارہ ہے۔ یہ ادارہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قائم ہوا۔ اس کے ذیلی دفاتر کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ اور ملتان میں قائم ہیں۔
اکادمی نے 600 سے زائد کتابیں شائع کی ہیں، جن میں اردو اور پاکستانی زبانوں کے ادب کے تراجم، تحقیقی مضامین، یادداشتیں، سوانح، اور تخلیقی ادب شامل ہیں۔ یہ ادارہ ہر سال 20 ادبی ایوارڈز اور ایک ’کمال فن ایوارڈ‘ دیتا ہے جو کسی ادیب کی عمر بھر کی خدمات کا اعتراف ہوتا ہے۔ اس ادارے کے زیر اہتمام شائع ہونے والے ادبی جرائد، ادبیات، ادبیات اطفال اور پاکستانی لٹریچر(انگریزی) سب سے اہم ادبی جرائد سمجھے جاتے ہیں۔
اکادمی ہر ماہ ایک ہزار سے زائد مستحق اہل قلم کو وظیفے دیتی ہے اور دیگر ادبی اداروں کو مالی معاونت فراہم کرتی ہے، اور ملک بھر میں ادبی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے آئے روز کانفرنسیں، مشاعرے، اور سیمینار منعقد کرتی ہے۔ اس ادارے نے پاکستان کے سوفٹ امیج کو دنیا بھر میں ابھارا۔
ادارۂ فروغِ قومی زباناردو کو بطور دفتری زبان رائج کرنے کے لیے 1979 میں قائم یہ ادارہ آئین کے آرٹیکل 251 کے مطابق اردو کے فروغ اور نفاذ کی کوششوں میں پیش پیش ہے۔ ادارہ 700 سے زائد کتب شائع کرچکا ہے، جن میں دفتری اصطلاحات، سوانح عمریاں، تدریسی مواد اور تربیتی کتابیں شامل ہیں۔
ادارہ قومی انگریزی-اردو لغت کی ایپ بھی تیار کر چکا ہے، جس سے طلبہ، محققین اور عام افراد استفادہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اردو خطاطی، سرکاری نوٹنگ ڈرافٹنگ، اور قانونی اصطلاحات جیسے شعبوں میں بھی ادارہ نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس کے تربیتی کورسز اور ورکشاپس سرکاری ملازمین کے لیے اردو زبان میں کام کی استعداد بڑھانے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔
اس ادارے نے پاکستان کو دفتری زبان بنانے کے لیے تمام کام بہت پہلے مکمل کر دیا تھا لیکن بعض مقتدر حلقوں کی مخالفت کی وجہ سے اردو دفتری زبان نہیں بن پائی۔ادارے کا دعویٰ ہے کہ اگر آج بھی حکومت سنجیدہ ہو تو چند ماہ میں اردو بطور دفتری زبان نافذ ہو سکتی ہے۔
اردو سائنس بورڈاردو سائنس بورڈ 1962 میں قائم ہوا۔ ادارے نے سائنسی علوم کو اردو میں منتقل کرکے ایک انقلابی قدم اٹھایا۔ سائنسی اور سماجی موضوعات پر 700 سے زائد کتب کی اشاعت، سہ ماہی اردو سائنس میگزین، اردو سائنس انسائیکلوپیڈیا، اور سائنسی اصطلاحات کی تیاری اس کی نمایاں خدمات میں شامل ہیں۔
یہ ادارہ نہ صرف سائنسی مواد کو اردو میں منتقل کرتا ہے بلکہ اسے عام فہم انداز میں پیش کرتا ہے تاکہ عوام میں سائنسی شعور بیدار ہو۔ اسکولوں اور کالجوں میں اردو میڈیم سائنسی تعلیم کے لیے یہ ادارہ بنیادی ماخذ ہے۔ اس کے ادارہ جاتی تعاون نے قومی نصاب میں اردو سائنس کے مواد کو شامل کرنے کی راہ ہموار کی ہے۔
اقبال اکادمی پاکستانڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے فکری ورثے کو محفوظ کرنے اور اس کی ترویج کے لیے صد سالہ تقریبات کے سال 1977 میں قائم اس ادارے نے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک بھی فکری سطح پر اثرات مرتب کیے ہیں۔ اکادمی نے اقبال کی شاعری، خطبات، خطوط اور فلسفے پر مبنی درجنوں تحقیقی کتب شائع کی ہیں۔
ادارے نے عالمی سطح پر اقبال کانفرنسیں، سیمینارز اور ویب نارز منعقد کیے، مختلف یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں سے مفاہمتی یادداشتوں کے ذریعے تعاون حاصل کیا اور فکرِ اقبال کو نصاب کا حصہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ادارہ نئی نسل کو اقبال کے افکار سے روشناس کرانے کے لیے اسکول و کالج سطح کے لیکچرز اور پروگرامز بھی منعقد کرتا ہے۔
اردو لغت بورڈاردو لغت بورڈ کا قیام اردو زبان کی آکسفورڈ طرز پر لغت تیار کرنے کے لیے 1958 میں عمل میں آیا۔ اس ادارے نے 22 جلدوں پر مشتمل ’اردو لغت (تاریخی اصول پر)‘ شائع کی، جو قریباً 2 لاکھ 20 ہزار الفاظ پر مشتمل ہے۔ یہ اردو زبان کا سب سے وسیع لغوی خزانہ ہے۔
ادارے نے لغت کا ڈیجیٹل ورژن اور موبائل ایپ بھی متعارف کروائی ہے جس میں تلفظ کی سہولت بھی شامل ہے۔ یہ ایپ نہ صرف محققین بلکہ طلبہ، صحافیوں، ادیبوں، اور عام صارفین کے لیے ایک نعمت ہے۔
ان اداروں کا انتظامی انضمام نہ صرف عملی طور پر مشکل ہے بلکہ قانونی پیچیدگیوں کا بھی باعث بنے گا۔ کچھ ادارے خود مختار حیثیت رکھتے ہیں اور کچھ اٹیچڈ ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ ان کے ملازمین کا سروس اسٹرکچر، مراعات اور پینشن اسکیمز بھی مختلف ہیں۔ اگر انضمام ہوا تو ممکنہ طور پر عدالتوں میں چیلنج ہوگا، جیسا کہ اردو سائنس بورڈ اور اردو لغت بورڈ کا سابقہ انضمام آج تک عدالتی تنازع کا شکار ہے۔
اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں اکادمی ادبیات ہر حوالے سے ایک بڑا ادارہ ہے، جس کا سربراہ گریڈ 22 کا افسر ہوتا ہے یعنی وفاقی سیکرییڑی کے برابر۔ اس کو ایک ایسے ادارے میں جس کا سٹیٹس اس سے چھوٹا ہے، کس قانون کے تحت ضم کی جا سکتا ہے؟ واضح رہے کہ ادارہ فروغ قومی زبان کا پرانا نام مقتدرہ قومی زبان تھا اور یہ ایک بڑا ادارہ تھا لیکن اس کا اسٹیٹس کم کرکے اسے ایک اٹیچ ڈیپارنمنٹ میں پہلے ہی تبدیل کیا جا چکا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ’اصلی مقتدرہ‘ نے سوچا ہوگا کہ یہ کون ہے جو ہمارا نام استعمال کر رہا ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ تمام ادارے جن حکومتوں کے وژن کا حصہ تھے، آج انہی کی اتحادی حکومت ان اداروں کے وجود کے درپے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر قوموں کا وقار ان کے ادبی، لسانی، سائنسی، اور فکری اداروں سے ہوتا ہے تو کیا ہم اپنے وقار کو خود ہی مٹا رہے ہیں؟ کیا ہم بجٹ کی سادگی کے نام پر اپنے قومی ورثے سے دستبردار ہو رہے ہیں؟ یہ وقت ہے سنجیدہ قومی مکالمے کا، بصورت دیگر ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں