ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی صاحب کا ایک ٹی وی ٹاک شو یاد آ رہا ہے‘ جس میں انہوں نے ایک بڑی دلچسپ اور مزیدار بات کی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ ایف بی آر کے90 فیصد افسر گھر چلے جائیں‘ یہ ادارہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں ان افسروں کو گھر بیٹھے ان کی پوری تنخواہیں بھی دینے کو تیار ہوں‘ بس یہ اپنی سیٹوں پر نہ رہیں اور اپنے اختیارات استعمال نہ کریں تو ایف بی آر کا بگڑا ہوا آوا ٹھیک ہو سکتا ہے۔ہماری افسر شاہی کا طرز عمل یہ ہے کہ گیارہ بجے دفتر آتے ہیں، قہوہ پیش کیا جاتا ہے، اس دوران ڈرائیور کھانا لینے گھر چلا جاتاہے،صاحب اپنے عملے سے دریافت کرتے ہیں کہ کس سائل کو کتنا پریشان کیا؟ کتنا مال پانی جمع کیا ؟ پانچ بجتے ہی صاحب واک اور گپ شپ کے لئے کلب جا پہنچتے ہیں۔ایف بی آر کے افسروں کے بارے میں کوئی اور نہیں ان کا سابق سربراہ بتا رہا ہے۔شبر زیدی صاحب نے کتنی خوبصورتی کے ساتھ یہ بات بتا دی کہ اس ادارے میں معاملات کو ٹھیک کرنے کے ذمہ دار ہی دراصل حالات کو خراب کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ یہ واقعہ تو چند سال پہلے بڑا مشہور ہوا تھا کہ ایف بی آر کے لوگوں نے حصے کی تقسیم پر ایک دوسرے پر گن تان لی تھیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ محض ایف بی آر تک محدود نہیں بلکہ ہر ادارے کی یہی مثال اور ہر محکمے میں یہی صورت حال ہے کہ یہ لوگ ایک سرکاری بیج لگا کے بھتہ اکٹھا کر رہے ہیں۔ ایک قانونی بھتہ جس کے خلاف نہ پرچا درج کرایا جا سکتا ہے اور نہ کچھ اور ہی کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ پیسہ حکومتی کھاتوں میں نہیں جاتا ان کے ذاتی کھاتوں میں چلا جاتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں کرپشن کا ناسور کتنا گہرا ہے‘ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔
میرے ایک دوست شیخ محمد آصف پانچ وقت کے نمازی اور پرہیز گار انسان ہیں۔ ٹھیک ٹھاک بزنس مین اور بڑے سرمایہ کار ہیں۔ جو بھی کماتے ہیں اس پر پورا ٹیکس پوری ایمان داری سے ادا کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے انہیں ایل ڈی اے سے ایک نقشہ منظور کرانے کی ضرورت پیش آ گئی۔ انہوں نے جو نقشہ جمع کرایا تھا اس پر متعلقہ حکام سے ریٹ سیٹ نہیں ہو رہا تھا۔ جس افسر نے نقشہ پاس کرنا تھا‘ زیادہ پیسے مانگ رہا تھا‘ جبکہ میرا دوست کہہ رہا تھا کہ جتنے پیسے تم مانگ رہے ہو اتنے نہیں دے سکتا‘ میں صرف اتنے دے سکتا ہوں۔ جب ریٹ طے نہ ہو سکا تو وہ میرا دوست کام کرائے بغیر واپس چلا آیا۔ بعد ازاں اس نے نیچے سے لے کر اوپر تک اپنی ہر کوشش کر لی کہ نقشہ پاس ہو جائے لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ میرا دوست جس اعلیٰ سے بھی بات کرتا‘ وہ آگے پوچھتا تو پتا چلتا کہ فائل گم ہو چکی ہے۔ کرتے کرتے ڈیڑھ دو سال کا عرصہ گزر گیا۔ میرا دوست ایل ڈی اے کے دفتر کے چکر لگا لگا کر تھک گیا‘ اس کی جوتیاں گھس گئیں‘ لیکن نقشہ پاس نہ کرا سکا۔ پھر اسے پتا چلا کہ ایل ڈی اے کا وائس چیئرمین اس کے ایک عزیز کا دوست ہے۔اس نے تھک ہار کر اپنے اس عزیز سے بات کی۔ ان صاحب نے اپنے دوست وائس چیئرمین سے کہا۔ پھر ایک دن میرا دوست اس وائس چیئرمین کے پاس گیا تو انہوں نے میرے اس دوست کی موجودگی میں ایل ڈی کے اس اہلکار کو بلا لیا جو مسلسل یہ کہہ رہا تھا کہ فائل گم ہو چکی ہے اور اس سے کہا کہ یہ صاحب میرے دوست کے عزیز ہیں۔ انہوں نے فائل تمہارے ہینڈ اوور کی تھی۔ مجھے وہ فائل ہر حال میں آج چاہیے۔ وہ اہلکار گیا اور فائل لے کر حاضر ہو گیا۔ پتا چلا کہ جس جگہ اس نے اپنی میز اور کرسی رکھی ہوئی تھی‘ جن پر بیٹھ کر وہ کام کرتا تھا‘ وہاں ایک قالین بچھا ہوا ہے اور یہ فائل اس نے قالین کے نیچے دبا رکھی تھی‘ ملتی کہاں سے؟ خیر میرے اس دوست کا مسئلہ تو حل ہو گیا لیکن اس نے قسم کھا لی کہ اس ملک میں نہیں رہنا۔ وہ کمینہ کلرک ہڈی کھانے کا عادی تھا‘ چنانچہ اس نے فائل جان بوجھ کر چھپائی ہوئی تھی۔ اس نے اپنی ہڈی کی خاطر اور نہ جانے کتنے لوگوں کی فائلیں قالین کے نیچے دبا کر رکھی ہوئی تھیں۔ یہ تو حال ہے ہمارے ملک کا۔ ایسے میں کیسی ترقی اور کہاں کی ترقی؟
اسی طرح کا ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے کہ میرے ایک دوست کو اسی ایل ڈی اے میں کوئی کام تھا جس کے لیے انہوں نے عرصے سے فائل جمع کرا رکھی تھی۔ ایل ڈی اے کے وائس چیئرمین صاحب اس کے دوست تھے۔ ان کی طرف سے سفارش کی جاتی تو یہ سننے میں آتا کہ فائل ہو رہی ہے‘ چل رہی ہے‘ آ رہی ہے‘ اس میں یہ کمی ہے‘ یہ نقص ہے۔ جب کافی عرصہ گزر گیا تو ایک روز کسی نے اسے یعنی میرے دوست کو مشورہ دیا کہ کیوں تم بار بار وائس چیئرمین کے پاس چلے جاتے ہو اور اسے پریشان کرتے ہو‘ کام پھر بھی نہیں ہوتا۔ ایک لاکھ روپے اْسے یعنی کلرک یا اہلکار کو دو‘ تمارا کام دنوں میں ہو جائے گا۔ واقعی جب اس نے ایسا کیا یعنی ایک لاکھ روپیہ دیا تو میرے دوست کی فائل دنوں میں تیار بھی ہو گئی‘ مل بھی گئی اور اس فائل کے تحت کام شروع بھی ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر ادارے اور ہر محکمے میں اسی طرح کے پینڈورا باکس کھلے ہوئے ہیں۔ دس سال پہلے کی بات ہے‘ میں کسی کے ساتھ سندر تھانے گیا۔ ہم کسی کام کے سلسلے میں تھانے میں بیٹھے ہوئے تھے اور اے ایس آئی کے ساتھ ہماری پیسوں کے حوالے سے بات ہو رہی تھی۔ اسی دوران اینٹی کرپشن والوں نے اچانک چھاپہ مارا۔ میں پریشان ہو گیا تو اے ایس آئی نے کہا کہ آپ نہ ڈریں‘ مجھے پیسے پکڑائیں‘ یہ مسئلہ بھی سیٹل ہو جائے گا‘ یہ روٹین میٹر ہے۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بندہ اپنی شکایت لے کر کس کے پاس جائے؟ پہلے تو چلو اگر کوئی اہلکار بات نہیں مان رہا تو بندہ ایس ایچ او کے پاس چلا جاتا ہے‘ ایس ایچ او اگر نہیں مانتا تھا تو ڈی ایس پی کے پاس جا سکتے تھے‘ ڈی ایس پی نہیں مانتا تھا تو ایس پی کے پاس جاتا تھا اور اگر وہ بھی نہ مانے تو اوپر جایا جا سکتا تھا‘ لیکن اب آپ کسی کے پاس نہیں جا سکتے کیونکہ نیچے سے اوپر تک سب ایک جیسا معاملہ ہے۔ پورا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: وائس چیئرمین ایف بی ا ر کے انہوں نے جا سکتا سکتا ہے رہا تھا کے ساتھ ہو جائے کے پاس تھا کہ ہو گیا رہا ہے
پڑھیں:
صدر اور وزیراعظم سمیت اہم شخصیات نے نماز عید کہاں ادا کی؟
اسلام آباد (نیوزڈیسک) ملک بھر میں عیدالاضحیٰ مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے، صدر مملکت آصف زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف سمیت اہم سیاسی شخصیات نے نماز عید کہاں کہاں ادا کی؟
صدر مملکت آصف علی زرداری نے ایوان صدر اسلام آباد میں عید کی نماز ادا کی اور سب سے گلے مل کر عید کی مبارکباد دی، گورنر فیصل کریم کنڈی اور راجہ پرویز اشرف نے بھی صدر مملکت کے ہمراہ نماز عید ادا کی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں نماز عید ادا کی، حمزہ شہباز اور دیگر پارٹی رہنما بھی شریک ہوئے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے ڈیرہ اسماعیل خان میں نماز عید ادا کی، جبکہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے عید کی نماز آبائی گاؤں عبدالخیل میں ادا کی اور تمام عالم اسلام کو عید کی مبارک دی۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے سیالکوٹ کینٹ میں نمازِ عید ادا کی، چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے ملتان میں عید کی نماز پڑھی۔
سربراہ عوامی مسلم لیگ اور سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں نماز عید ادا کی، جہاں ضلع کا نماز عید کا سب سے بڑا اجتماع منعقد ہوا، کمشنر راولپنڈی عامر خٹک نے بھی لیاقت باغ میں نماز عید پڑھی۔
چودھری برادران نے نماز عید الاضحیٰ گجرات میں ادا کی، صوبائی وزیر صنعت و تجارت چودھری شافع حسین نے جامع مسجد عیدگاہ میں نماز ادا کی، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الہٰی نے نماز جامع مسجد خاتم النبین میں ادا کی، نماز عید کے بعد پارٹی کارکنوں ساتھیوں سے عید ملی اور ملاقاتیں کیں۔
اس موقع پر چودھری پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ افواج پاکستان نے جس دلیری سے حالیہ جنگ میں مقابلہ کیا خراج تحسین پیش کرتے ہیں، ایئر فورس کے جوان خراج تحسین کے مستحق ہیں جن کی حکمت عملی سے کامیابی ملی، قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح کشمیر، فلسطین کیساتھ کھڑی ہے۔
وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق رانا تنویر حسین نے نارنگ منڈی میں اپنے آبائی گاؤں ننگل کس والہ میں نماز عید ادا کی اور قوم کو نئے اور مضبوط پاکستان کی پہلی عید مبارک پیش کی۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر تنویر حسین کا کہنا تھا کہ بھارت کی طرف سے مسلط کی گئی جنگ نے دنیا کا نقشہ بدل ڈالا، چار پانچ گھنٹے کی جنگ نے بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا، افواج پاکستان نے وطن کا شاندار دفاع کرکے مضبوط اور کامیاب پاکستان کی بنیاد رکھ دی۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے گڑھی خدا بخش میں عیدالاضحیٰ کی نماز ادا کی، نماز کی ادائیگی کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ پارٹی رہنماؤں اور کارکنان سے عید ملے، وزیر اعلیٰ سندھ کے ہمراہ پارٹی رہنماؤں نے بھی گڑھی خدا بخش میں عید کی نماز ادا کی۔
قائم مقام گورنر سندھ اویس شاہ اور رہنما پیپلز پارٹی خورشید شاہ نے شاہ ہاؤس سکھر میں نماز عید ادا کی۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی پی رہنما خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ مسلم امہ کو حج اور عید الاضحیٰ کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، اللہ سے دعا ہے وطن عزیز پاکستان کو سرسبز وشاداب رکھے، ہم ملک کر اپنے وطن کی حفاظت کریں ہم سب ایک ہیں۔
سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خاں نے اپنے آبائی گاؤں کھائی ہٹھاڑ قصورمیں عید الاضحیٰ کی نماز ادا کی۔
انہوں نے عیدالاضحیٰ کے موقع پر عالم اسلام اور پوری پاکستانی قوم کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ عیدالاضحیٰ ایثار، قربانی اور بھائی چارے کا درس دیتی ہے، عید کے موقع پر ہمیں ان افراد کا بھی خیال رکھنا ہے جو قربانی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
ملک احمد خان کا کہنا تھا کہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی قربانیوں کو یاد رکھنا ہماری دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر کے ملکی استحکام کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔
گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے اٹک میں عید الاضحٰی کی نماز ادا کی اور کہا کہ پوری قوم اور امت مسلمہ کو عیدالاضحی کی خوشیاں مبارک ہوں،عیدالاضحی اپنے اندر ایثار کا جذبہ پیدا کرنے کا نام ہے،سنت ابراہیمی ہمیں اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا درس دیتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے ارد گرد غریب، نادار اور مستحق افراد کا خاص خیال رکھیں اور انہیں عید کی خوشیوں میں شامل کریں، دعا ہے کہ ملک میں امن، استحکام اور خوشحالی آئے۔
Post Views: 2