پاکستان میں پولیو کیسز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ، محکمہ صحت نے خبردارکر دیا
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
ویب ڈیسک: قومی ادارہ صحت اسلام آباد نے پاکستان میں پولیو کیسز کی تعداد میں مسلسل اضافہ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سال 2024 کے دوران 73 پولیو کیسز منظر عام پر آئے۔
رپورٹ کے مطابق قومی ادارہ صحت اسلام آباد کے حکام نے پولیو کیسز کی تصدیق کرتے ہوئے تفصیلات جاری کر دیں ہیں جس کے مطابق پاکستان میں سال 2024 کے 73 پولیو کیسز سامنے آئے، سال 2024 کے دوران ٹھٹہ کے علاقے سے پولیو کے پہلے کیس کی اطلاع ملی۔حکام کا کہنا ہے کہ پولیو کیس سیمپلز 10 دسمبر کو لئے گئے، لہٰذا یہ 2024 کے کیسز میں شمار ہو گا۔
طلبہ کے روشن مستقبل کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھایا جائے گا، مریم نواز
حکام نے یہ بھی کہاہے کہ ملک میں رواں سال کی پہلی پولیو مہم کا انعقاد فروری کے پہلے ہفتے میں کیا جائے گا، والدین اپنے 5 سال تک کی عمر کے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے ضرور پلوائیں۔
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: پولیو کیسز
پڑھیں:
ایران کے شہر زاہدان میں مسلح افراد کا عدالتی کمپاؤنڈ پر حملہ، متعدد ہلاکتوں کا خدشہ
شمال مشرقی ایران کے شہر زاہدان میں مسلح افراد کے عدالتی کمپاؤنڈ پر اچانک حملے میں کئی افراد زخمی ہوگئے جبکہ ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ حملہ ایک منظم کارروائی کے تحت کیا گیا جس میں مسلح افراد نے عدالت کی عمارت کو نشانہ بنایا۔ ہلاک شدگان اور زخمیوں کی صحیح تعداد تاحال سامنے نہیں آسکی، لیکن حکام نے تصدیق کی ہے کہ نقصان شدید ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق حملہ آور ججز کے کمروں میں گھس کر فائرنگ کرتے رہے۔
ادھر ملک کے مغربی حصے میں بھی ایک اور پرتشدد واقعہ پیش آیا۔ صوبہ مغربی آذربائیجان کے شہر سردشت کے نواحی گاؤں اغلان میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے ایک اڈے پر حملہ کیا گیا، جس میں ایک اہلکار شہید اور دوسرا زخمی ہو گیا۔ ’مہر نیوز‘ کے مطابق یہ حملہ ایک دہشت گرد گروہ کی جانب سے کیا گیا، جو گاؤں میں قائم فوجی اڈے کو نشانہ بنا رہا تھا۔
پاسدارانِ انقلاب کے مغربی آذربائیجان شہدا بیس کے ترجمان کرنل شاکر نے بتایا کہ حملہ آوروں نے اندھا دھند فائرنگ کی، تاہم حملے کی مکمل تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں۔ حکام نے اس امکان کو مسترد نہیں کیا کہ اس واقعے میں کرد علیحدگی پسند گروہ ملوث ہو سکتا ہے، جو ماضی میں بھی خطے میں ایسی کارروائیوں میں شامل رہا ہے۔
ان دونوں حملوں نے ایران میں سلامتی کی صورتحال پر ایک بار پھر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ زاہدان اور سردشت میں ہونے والی ان پرتشدد کارروائیوں کی تحقیقات جاری ہیں اور مقامی حکام ابھی تک ان کے پیچھے کارفرما عناصر کی نشاندہی کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ عوامی سطح پر بھی ان حملوں کے بعد تشویش اور بے یقینی کی کیفیت پائی جاتی ہے، جبکہ حکومت پر سیکیورٹی مزید سخت کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔