ہنی سنگھ نے خود کو ذہنی مریض قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
معروف بھارتی ریپر و گلوکار ہنی سنگھ نے خود کو ذہنی مریض قرار دے دیا۔
اداکارہ و میزبان ریا چکرورتی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ہنی سنگھ نے خود کو ذہنی بیماری کا شکار قرار دیا، انہوں نے بتایا کہ وہ ’بائی پولر ڈس آرڈر‘ کے ایک شدید کیس سے گزر چکے ہیں۔
انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب انہوں نے خود کو مردہ تصور کر لیا تھا اور وہ ذہنی مریض بن چکے تھے۔
پنجابی گلوکار، میوزک پروڈیوسر ہنی سنگھ نے بتایا کہا بائی پولر ڈس آرڈر کے مریضوں کو پہچاننا بہت مشکل ہوتا ہے، یہاں تک کہ ڈاکٹر بھی اس بیماری کو سمجھنے میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں۔
View this post on InstagramA post shared by Rhea Chakraborty (@rhea_chakraborty)
گفتگو کے دوران ہنی سنگھ نے اس وقت کی بات کی جب وہ ذہنی طور پر ایک بڑے مسئلے سے گزر رہے تھے جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ بائی پولر ڈس آرڈر کا شکار ہیں۔
اس دوران ریا چکرابورتی نے ہنی سنگھ کی ڈاکیومینٹری کا ذکر کیا اور بتایا کہ اسے دیکھ کر وہ خوشی اور غم دونوں کے جذبات سے مغلوب ہو گئیں۔ انہوں نے ہنی سنگھ کے اس مشکل وقت سے نکلنے پر ان کا شکریہ ادا کیا، جس پر ہنی نے جواب دیا، ’اکبر دی گریٹ کی الیگزینڈر دی گریٹ سے ملاقات ہو رہی ہے، دو فائٹر آپس میں مل رہے ہیں‘۔
یاد رہے کہ سشانت سنگھ راجپوت کی اچانک خودکشی کی وجہ سے اداکارہ ریا چکرورتی کو بھی ذہنی مسائل اور سماجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہنی سنگھ نے نے خود کو انہوں نے
پڑھیں:
بھارتی اداروں میں بی جے پی کی مداخلت، مذہبی خودمختاری پر حملے جاری
بھارتی اداروں میں بی جے پی کی بے جا مداخلت اور مذہبی خودمختاری پر حملے تیز ہو چکے ہیں۔
بھارت میں سکھوں کے جائز مطالبات کو دبانے کے لیے انہیں ’خالصتانی‘ اور ’ملک دشمن‘ قرار دینا مودی سرکار کا وتیرہ بن چکا ہے، جبکہ 1984 کے مظلوم سکھوں کو انصاف دلانے کے بجائے بی جے پی کی حکومت قاتلوں کو بچانے میں مصروف عمل ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق دہلی کے وزیر منجندر سنگھ سرسا نے 1984 سکھ فسادات کی رپورٹ طلب کرنے کےلیے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ رپورٹ میں سابق وزیراعلیٰ مدھیہ پردیش کمل ناتھ کی گوردوارہ پر موجودگی کا ذکر موجود ہے، جبکہ ہائی کورٹ میں دائر درخواست کے مطابق ہجوم نے کمل ناتھ کی قیادت میں دو سکھوں، اندر جیت سنگھ اور منموہن سنگھ، کو گوردوارہ رکاب گنج صاحب میں زندہ جلا دیا تھا۔
ہائی کورٹ کے 2022 کے حکم پر مرکز کی جانب سے جمع کروائے گئے حلف نامے میں دانستہ طور پر کمل ناتھ کے کردار کو نظرانداز کیا گیا، جو انصاف کے نظام پر بڑا سوال ہے۔ وکیل ایچ ایس پھولکا کے مطابق پولیس ریکارڈ اور اخبارات میں کمل ناتھ کی جائے وقوعہ پر موجودگی کے شواہد موجود ہیں، اس کے باوجود ٹرائل کورٹ نے تمام ملزمان کو اس بنیاد پر بری کردیا کہ وہ جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھے۔
صحافی سنجے سوری کی عینی شاہد رپورٹ اور پولیس ریکارڈز میں شواہد کے باوجود کمل ناتھ کی موجودگی کو نظرانداز کرنا مودی کی قیادت اور جانبدار عدالتی نظام کی نشاندہی کرتا ہے۔ بی جے پی حکومت نے 1984 کے فسادات میں کمل ناتھ کے کردار کو حلف نامے میں چھپا کر انصاف پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔
بی جے پی حکومت سکھ کارکنوں کو دانستہ طور پر ’خالصتانی‘ کہہ کر گرفتاریوں اور میڈیا بلیک آؤٹ کو جواز فراہم کرتی ہے، جبکہ گردوارہ بورڈز کی تشکیل نو سے لے کر دہلی ایس جی پی سی کے استعفوں تک یہ اقدامات منظم حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ محض پی آر اقدامات کے ذریعے مودی سرکار سکھ برادری میں حکمران جماعت کے خلاف اجنبیت کم نہیں کر سکتی، اور 1984 کی سکھ نسل کشی میں ملوث افراد کو تحفظ فراہم کرنا اس حکومت کی اقلیت دشمن پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔