اڈیالہ تو بہت اہم جگہ ہے: چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کے کیس میں مسکراتے ہوئے ریمارکس
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
پشاور(ڈیلی پاکستان آن لائن)پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے ایک کیس کی سماعت کے دوران مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اڈیالہ جیل تو بہت اہم جگہ ہے۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم نے 13 لاپتا افراد کے کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل انعام یوسفزئی اور ڈپٹی اٹارنی جنرل عبید اللہ انور عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت 3 لاپتا افراد کی رپورٹس عدالت میں پیش کی گئی جب کہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وسیم اللہ کی گرفتاری مردان سینٹرل جیل میں ظاہر کی گئی اور محمد سلیم کی گرفتاری اڈیالہ جیل میں ظاہر کی گئی۔اس پر چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اڈیالہ تو بہت اہم جگہ ہے، یہ شکر کریں کہ گرفتاری تو ظاہر کی گئی۔
190ملین پاؤنڈریفرنس کا فیصلہ، پی ٹی آئی کا ردعمل بھی آ گیا
اس دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ محمد حسین کی رپورٹ آئی ہے وہ اداروں کے پاس نہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ محمد حسین کا خاندان کسی پر ایف آئی آر درج کرناچاہتا ہےتوکروالے۔بعد ازاں عدالت نے10 لاپتا افراد سےمتعلق رپورٹس ایڈووکیٹ جنرل اور اٹارنی جنرل سےطلب کرلی۔
ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
لاہور ہائیکورٹ نے گرفتار ملزم کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے خدشے پر دائر درخواست نمٹا دی
لاہور ہائیکورٹ نے آئی جی پولیس پنجاب کو سی سی ڈی کے مبینہ پولیس مقابلوں کا جائزہ لینے کی ہدایت کرتے ہوئے گرفتار ملزم کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے خدشے پر دائر درخواست نمٹا دی۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے فرحت بی بی کی درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار نے اپنے بیٹے عنصر اسلم کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
عدالتی حکم پر آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور پیش ہوئے اور رپورٹ پیش کی۔
جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ آئی جی صاحب جعلی پولیس مقابلے ہو رہے ہیں، اس کو روکیں، پولیس کی موجودگی میں ملزموں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔
جس پر ڈاکٹر عثمان انور نے کہا کہ درخواستگزار کے دو بیٹے ہیں، ایک پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگیا، دوسرا جیل میں ہے، دوسرے بیٹے کو پولیس مقابلے میں قتل کرنے کا خدشہ بلاجواز ہے۔
جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ آئی جی صاحب یہ بھی درست ہے کہ پولیس بہت کچھ کرتی ہے۔
عدالت نے رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کیا، تاہم تشویش ظاہر کی کہ مبینہ پولیس مقابلوں کے خلاف ایک ایک دن میں 50، 50 درخواستیں آرہی ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ نے ہدایت دی کہ آئی جی پنجاب پولیس افسروں کے ساتھ بیٹھ کر اس کا جائزہ لیں تاکہ آئندہ جعلی پولیس مقابلوں کی شکایات سامنے نہ آئیں۔