انٹرنیٹ مسائل کے باوجود پاکستان کی آئی ٹی برآمدات میں تاریخی اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
ملک میں جاری انٹرنیٹ مسائل کے باوجود پاکستان کی آئی ٹی برآمدات تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق، دسمبر 2024 میں پاکستانی آئی ٹی مصنوعات کی برآمدات کا حجم 348 ملین ڈالر ریکارڈ کیا گیا جو دسمبر 2023 کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ٹی برآمدات میں اضافہ، نوجوانوں کو کونسے شعبوں میں جانا چاہیے؟
دسمبر 2023 میں ٹیکنالوجی مصنوعات کی برآمد سے ملک کو 303 ملین ڈالر زرمبادلہ حاصل ہوا تھا۔ نومبر کے مقابلے میں دسمبر میں ٹیکنالوجی مصنوعات کی برآمدات میں ماہانہ بنیاد پر 12 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
نومبر میں ٹیکنالوجی مصنوعات کی برآمدات کا حجم 310 ملین ڈالر ریکارڈ کیا گیا جو دسمبر میں بڑھ کر 348 ملین ڈالر ہوگیا۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ٹی برآمدات 20 ارب ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں، وزیراعظم کا سیمینار سے خطاب
ٹیکنالوجی کی برآمدات میں جاری مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں سالانہ بنیاد پر 28 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق، مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں ٹیکنالوجی مصنوعات کی برآمد سے ملک کو 1.
یہ زر مبادلہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 28 فیصد زیادہ ہے، گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں ٹیکنالوجی مصنوعات کی برآمد سے ملک کو 1.456 ارب ڈالر زرمبادلہ حاصل ہوا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آئی ٹی برآمدات اسٹیٹ بینک پاکستان تاریخی اضافہ دسمبر 2024 زرمبادلہ سالانہ ماہانہ ملین ڈالرذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ئی ٹی برا مدات اسٹیٹ بینک پاکستان تاریخی اضافہ زرمبادلہ سالانہ ماہانہ ملین ڈالر ا ئی ٹی برا مدات ریکارڈ کیا گیا کی برآمدات ملین ڈالر مدات میں مالی سال
پڑھیں:
برآمدات اور چکوال کا کلاؤڈ برسٹ
دنیا کی عالمی تجارتی منڈی ایک شوریدہ بازار ہے، جہاں ہر قوم اپنے ہنر، عقل، حکمت، ہاتھوں کی صفائی، دلکشی، رعنائی کو قیمت بنا کر پیش کرتی ہے، کہیں پیکنگ کو تجارتی سفارتکار دیکھ کر عش عش کر اٹھتے ہیں، کہیں کم قیمت سمجھ کر سیانا تاجر دل سے قبول کر لیتا ہے، کوئی ٹیکنالوجی کی بانسری بجا رہا ہے، جس کی دھن پر تاجر کروڑوں کا آرڈر دینے کے لیے تیار نظر آتا ہے اور کوئی زرعی پیداوار کے ڈھول پر ان امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کو رقص کرواتا ہے۔
ان سب کے پیچھے کہیں کچھ پاکستانی تاجر دھول میں اٹے کپڑوں کے ساتھ کسی کے ہاتھ میں چاول کی تھال ہے، کسی نے بکرے کی ران نمائش کے لیے سنبھال رکھی ہے اور کوئی مختلف اقسام کی اشیا جوتے، لیدر گارمنٹ اور چند چیزیں لیے کھڑا ہے۔ ان میں ٹیکسٹائل ملوں کا وہ صنعت کار بھی ہے جس کے ہاتھ میں کچھ سلے کچھ ان سلے کپڑے اور دیگر اشیا موجود ہیں۔
اس تجارتی منڈی میں تاجر، صنعت کار، تجارتی سفارت کار درآمد اور برآمد کا کاروبار کرنے والے آتے ہیں، سامان دیکھتے ہیں اور پھر دوسرے ملکوں کو آرڈر دے دیتے ہیں، کسی کی برآمدات پاکستان سے دگنی کسی کی تگنی اور چوگنی والے بھی ہیں اور 10 گنا والے ویتنام جیسے بھی ہیں۔ جی ہاں ویتنام جنگ زدہ، جہاں امریکا نے 60 اور 70 کی دہائی میں دل کھول کر بمباری کی تھی، اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے لیکن اب ہم بھی تو مشرقی پڑوسی کو تگنی کا ناچ نچا کر فاتح ہو گئے اور تجارتی منڈی میں آنے کا وقت آ گیا ہے۔ امریکی صدر کے اس بیان کو ہم عالمی مارکیٹ میں اپنے حق میں کیش کرانے کا ہنر آزمانا ہوگا، جنھوں نے کہا ہے کہ 5 طیارے مار گرائے گئے اور جنگ بندی ہو گئی تو تجارت بڑھے گی انھوں نے راستہ بنا دیا۔
یہ دنیا ہے یہاں کچھ غنودگی کے عالم میں ہوں گے ان کو باور کرایا جائے پانچ یا 6 طیارے دراصل ہم نے گرائے ہیں اور اب ہم تجارتی منڈی میں فتح کرنے آئے ہیں، لیکن اس سے قبل ہم اپنی برآمدی کیفیت کو دیکھ لیتے ہیں۔ پاکستان کی برآمدات برائے 2024-25 محض 32 ارب ڈالر جس میں 3 ارب 35 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز کے چاول فروخت کیے۔ 16 کروڑ65 لاکھ ڈالرز کے تمباکو بیچ دیے، 49 کروڑ51 لاکھ ڈالرز کا گوشت دنیا کو فروخت کیا ہے، ٹیکسٹائل گروپ کی برآمدات کا حجم رہا 17 ارب 88 کروڑ70 لاکھ ڈالرز۔ اور 4 ارب 23 کروڑ ڈالرز کی دیگر مصنوعات جس میں لیدر گارمنٹس، فٹ ویئر، قالین، گلوز، سرجیکل آئٹمز، کھیلوں کا سامان اور دیگر اشیا شامل ہیں۔
دنیا نے 10 مئی کے بعد پاکستان کو خوب بدلا ہوا سمجھ لیا۔ صدر ٹرمپ یوں ہی بار بار ہماری فتح کے شادیانے نہیں بجا رہے۔ اب ہمیں آگے بڑھ کر تجارتی منڈی میں بھی اپنا لوہا منوانا ہے۔ حکومت اپنی سمجھ کے مطابق کوئی بھی ہدف مقرر کرے کہ 2025-26 کا برآمدی ہدف 35 یا 37 ارب سمجھا جائے، ہم نے اس سے بھی آگے جانا ہے۔
60 سے 70 ارب ڈالر فی الحال۔ یہ سب ممکن ہے، چند دن تیاری کے لیے لیں اور اب گیارہ ماہ باقی ہیں۔ لیکن ذرا ٹھہریے58 ارب ڈالرز کی درآمدات آخر ایسا کیوں، سوائے پٹرولیم مصنوعات کے ہم اپنی زیادہ تر درآمدات ان ملکوں سے منگواتے ہیں جو صنعتی ممالک ہیں، امیر ترین ہیں لیکن اسرائیل جو غزہ میں درندگی سے باز نہیں آ رہا، اس کے زبردست مواقع پیدا ہوں گے اور پاکستان کے معاشی مسائل کا حل یہی ہے کہ برآمدات سے زیادہ درآمدی بل سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
گزشتہ دنوں چکوال میں کلاؤڈ برسٹ کے باعث ایسا معلوم ہوا جیسے آسمان برس پڑا ہو۔ پھر چند ہی لمحوں میں ایسا طوفانی ریلا آیا جس سے ہزاروں درخت اکھڑ گئے، مویشی بہہ گئے، چکوال شہر کا زیادہ تر حصہ ڈوب گیا، 9 پل ٹوٹ گئے، 5 سڑکیں تباہ ہوگئیں، نصف درج ڈیمز ٹوٹ گئے۔ یہ کوئی فطری حادثہ نہیں تھا یہ ایسی ماحولیاتی بغاوت تھی جسے خود عوام نے بلایا تھا۔ ہر طرف تباہی کا منظر تھا ایسے میں کئی نوجوان اور ادھیڑ عمر افراد نے لوگوں کی مدد کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ متعدد رضاکار پانی میں اتر گئے۔
درجنوں افراد کو بروقت نکالا۔ ہر طرح کی امداد گھر گھر پہنچائی، ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ موسمیاتی ریڈار سسٹم لگایا جائے۔ بارش کے پانی کا قدرتی بہاؤ محفوظ کیا جائے، اسی طرح راولپنڈی اور اسلام آباد بھی شدید متاثر ہوئے۔ نالہ لئی تو ہر سال بپھر جاتا ہے جس کا صحیح انتظام کیا جائے۔ اسی طرح پنجاب کے دیگر شہر خصوصاً لاہور شدید بارشوں سے متاثر ہوا۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے حکومت اس سلسلے میں فوری طور پر تمام ممکنہ حل پر عملدرآمد کرے جس میں رضاکاروں کی تربیت بھی نہایت ہی اہم ہے۔