حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے جنگ بندی معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہیں، جماعت اسلامی ہند
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
جماعت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ عرب سر زمین سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلاء کا فیصلہ جلد کیا جانا چاہیئے تاکہ ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام اور اس میں فلسطینی عوام کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے حماس اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔ میڈیا کو جاری کے گئے بیان میں جماعت اسلامی ہند کے امیر نے کہا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ خطے میں جاری تشدد اور خوں ریزی کو روکنے میں اہم کردار ادا کرے گا اور غزہ کے عوام کے لئے راحت کا سبب بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے عوام نے تاریخ کی سب سے تباہ کن نسل کشی کا سامنا کیا ہے، جنگ بندی کے بعد عالمی برادری کو تباہ شدہ غزہ کی بازآبادکاری اور تعمیر نو کے لئے فوری اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ عرب سر زمین سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلاء کا فیصلہ جلد کیا جانا چاہیئے تاکہ ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام اور اس میں فلسطینی عوام کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔
سید سعادت اللہ حسینی نے فلسطینی عوام کی بے مثال قربانی، ہمت اور قوت مزاحمت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ بندی اسرائیل کے 15 مہینوں کے جارحانہ حملے کے بعد عمل میں آئی ہے، اس حملے میں 48000 سے زیادہ افراد کی جان جا چکی ہے۔ ان میں عام شہری، بچے، خواتین ڈاکٹر، امدادی کارکنان، صحافی اور غیر مسلح مزاحمتی عوام شامل ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی حملہ نام نہاد مہذب اقوام پر ایک بدنما داغ ہے۔ غزہ کی نسل کشی انسانی ضمیر پر ایک کانٹے کی طرح ہمیشہ چبھتی رہے گی۔ سید سعادت اللہ حسینی نے مزید کہا کہ جنگ بندی کا نفاذ اتوار سے ہونے والا ہے لیکن اسرائیل لگاتار غزہ پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے، حالیہ حملے میں 21 بچوں، 25 عورتوں سمیت 87 افراد شہید ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو سمجھنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جارحانہ توسیع پسندی عالمی قوانین اور انسانی اصولوں کی سنگین خلاف ورزی ہے، جو عالمی امن و استحکام کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔
جماعت اسلامی ہند مطالبہ کرتی ہے کہ عالمی برادری بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی پامالی کے لئے اسرائیل کو جواب دہ ٹھہرائے اور اس کی فوجی اور سیاسی قیادت کو انصاف کے کٹگھرے میں کھڑا کیا جائے۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر نے واضح کیا کہ موجودہ جنگ بندی کو آخری حل کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیئے بلکہ خطے میں پائیدار امن کے لئے اسرائیل کے ظلم و نا انصافی اور غیر قانونی قبضے کے خاتمے کی سنجیدہ کوششیں کی جانی چاہیئے۔ جماعت اسلامی ہند ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے اپنے دیرانہ موقف کا اعادہ کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کو صرف فلسطینیوں کے ساتھ انصاف اور ان کی اپنے وطن واپسی، مسجد الاقصیٰ اور القدس کی مکمل بازیابی سے ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عالمی برادری سے فلسطینیوں کے بنیادی مسائل کو حل کرنے، خطے کے عوام کے درمیان بقائے باہم، تحفظ، استحکام اور روشن مستقبل کے لئے کار گر قدم اٹھانے کی اپیل کرتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے انہوں نے کہا کہ عالمی برادری اسرائیل کے کے درمیان عوام کے اور اس کے لئے
پڑھیں:
امریکا اور اسرائیل نے جنگ بندی مذاکرات سے ٹیمیں واپس بلائیں، حماس نے مؤقف کو ناقابل فہم قرار دیا
امریکا اور اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرات سے اپنی اپنی مذاکراتی ٹیمیں واپس بلا لی ہیں۔
یہ فیصلہ حماس کی جانب سے پیش کیے گئے تازہ مؤقف کے بعد کیا گیا ہے، جسے امریکا نے ’جنگ بندی کی طرف سنجیدگی کی کمی‘ قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیل کی 60 روزہ جنگ بندی تجویز پر حماس کا جواب سامنے آگیا
امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے جمعرات کے روز ایک بیان میں کہا کہ وہ قطر میں جاری جنگ بندی مذاکرات کو قبل از وقت ختم کر رہے ہیں، کیونکہ حماس کی حالیہ تجاویز سے واضح ہوتا ہے کہ گروپ امن کے قیام میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
اس بیان کے کچھ دیر بعد اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر نے بھی تصدیق کی کہ اسرائیل نے بھی قطر سے اپنی مذاکراتی ٹیم واپس بلا لی ہے۔
حماس نے امریکی مؤقف پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ سنجیدہ اور نتیجہ خیز مذاکرات کی حمایت جاری رکھے گی۔
تنظیم کے بیان میں کہا گیا ہے ہم اس عمل میں رکاوٹیں دور کرنے اور مستقل جنگ بندی کے حصول کے لیے بات چیت جاری رکھنے کے خواہاں ہیں۔
تازہ تجاویز کیا تھیں؟جمعرات کو حماس نے قطر، مصر اور امریکا کی ثالثی سے پیش کی گئی جنگ بندی کی نئی تجویز کا جواب دیا تھا۔ اسرائیلی حکومت نے تصدیق کی کہ انہیں جواب موصول ہوا ہے اور اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے، تاہم تجاویز کی تفصیلات عام نہیں کی گئیں۔
یہ بھی پڑھیں:غزہ میں جنگ کی وجہ سے شدید ماحولیاتی تباہی، جنگ کے مضر اثرات نسلوں تک پھیلنے کا خدشہ
الجزیرہ کے مطابق مجوزہ معاہدے میں 60 روزہ جنگ بندی، حماس کی جانب سے 10 زندہ یرغمالیوں اور 18 کی باقیات کی رہائی، اور اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہیں۔ اس دوران امدادی سامان میں اضافہ اور مستقل جنگ بندی پر بات چیت کا بھی امکان ہے۔
تنازع کا مرکزی نقطہتازہ تعطل کی بنیادی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ فریقین مستقبل کے منظرنامے پر متفق نہیں ہو سکے۔ اسرائیل مسلسل کہتا آیا ہے کہ وہ غزہ میں حماس کی مکمل شکست تک فوجی کارروائیاں جاری رکھے گا، جبکہ مبصرین اسے غیر حقیقی اور ناقابلِ عمل قرار دے چکے ہیں۔
اقوام متحدہ اور بین الاقوامی امدادی ادارے خبردار کر چکے ہیں کہ غزہ شدید قحط کی لپیٹ میں ہے۔
اسرائیلی محاصرے اور امداد پر پابندیوں کے باعث اب تک کم از کم 115 افراد غذائی قلت سے جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر اموات حالیہ ہفتوں میں ہوئیں۔
امریکا کی وضاحتوٹکوف، جن کا پس منظر کاروباری ہے اور سفارت کاری کا کوئی باضابطہ تجربہ نہیں، نے کہا کہ ثالثوں نے بھرپور کوشش کی، لیکن حماس نہ متحد نظر آئی، نہ ہی نیک نیتی سے پیش آئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکا اب متبادل راستے تلاش کرے گا تاکہ یرغمالیوں کو رہا کرایا جا سکے اور غزہ میں استحکام لایا جا سکے۔
عالمی ردعملاسرائیل کے غزہ پر حملے میں 7 اکتوبر 2023 سے اب تک 59,587 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اسرائیل یہ جنگ حماس کے ایک حملے کے ردعمل میں جاری رکھے ہوئے ہے، جس میں 1,139 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:
اس ہفتے ایک سو سے زائد بین الاقوامی امدادی اداروں نے اسرائیل پر عالمی قوانین کی خلاف ورزی” اور ’منظم قحط پھیلانے‘ کا الزام عائد کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں