190 ملین پاؤنڈ کیس میں عمران خان کے خلاف فیصلے کی اصل نوعیت
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
جو بات شاہزیب خانزادہ اور دیگر لوگوں کے تجزیوں میں نہیں بتائی جاتی، وہ یہ ہے کہ یہ کیس اصل میں ’القادر ٹرسٹ‘ کیس نہیں، بلکہ بحریہ ٹاؤن کے خلاف کیس کا تسلسل ہے اور اسی کیس سے نکلا ہوا معاملہ ہے۔
معاملے کی اصل نوعیت یہ ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے ملیر کراچی سمیت دیگر کئی علاقوں میں بہت ساری زمینیں انتہائی کم قیمت پر لی حاصل کر لیں تو معاملہ سپریم کورٹ جا پہنچا، پھر ایک سمجھوتے کے نتیجے میں بحریہ ٹاؤن مخصوص شرائط پر ایک مخصوص رقم قسطوں میں ادا کرنے پر راضی ہوا۔
قسطوں کی یہ ادائیگی سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں ہوتی تھی اور اس معاملے کی نگرانی کے لیے ایک مستقل بینچ بھی بنایا گیا تھا۔ بعد ازاں قسطوں کی ادائیگی میں تاخیر کی جانے لگی تو اس معاملے کو پھر روک دیا گیا۔
اس دوران ملک ریاض اور ان کے خاندان کی کچھ رقم برطانیہ میں’جرائم کے بارے میں تحقیقاتی قومی ایجنسی‘ (کرائم ایجنسی) نے پکڑ لی اور پھر وہاں بیھ سمجھوتے کے تحت یہ طے پایا کہ یہ رقم پاکستان کو منتقل کی جائے گی۔
اس مرحلے پر عمران خان بھی اس معاملے میں شامل ہوگئے اور انہوں نے مرزا شہزاد اکبر کے مشورے پر کابینہ سے ایک سَر بَمُہر لفافے میں موجود معاہدے کی منظوری لی جس کے بعد یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کیا گیا تاکہ اسے بحریہ ٹاؤن کے ذمے واجب الادا رقم کے طور پر شمار کیا جائے۔
اس کے کچھ عرصے بعد ملک ریاض نے ’القادر یونیورسٹی‘ کے لیے زمین دی اور یوں اس معاملے نے ایک اور موڑ لے لیا۔ اب عمران خان، ان کی اہلیہ اور ان کے دیگر ساتھیوں کے متعلق تو مقدمہ چلایا گیا اور فیصلہ بھی سنا دیا گیا۔ اس فیصلے پر تفصیلی تبصرہ تو میں لکھ رہا ہوں، لیکن سوال یہ ہے کہ، ملیر وغیرہ کے متعلق بحریہ ٹاؤن کے ذمے واجب الادا رقوم کا معاملہ کہاں تک پہنچا؟
سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن سے رقم وصولی کا سمجھوتا کیوں مانا اور یہ کیوں مانا کہ وہ رقم سپریم کورٹ میں جمع کرائی جائے؟ پھر جب اس رقم کی ادائیگی کا سلسلہ روک دیا گیا، تو سپریم کورٹ نے اس معاملے کو ایسے ہی کیوں چھوڑ دیا؟ سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن اور ملک ریاض کی جانب سے جمع کرائی جانے والی رقوم کا کیا بنا؟
برطانیہ سے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آنے والی رقم پر سپریم کورٹ نے کیا کیا اور اسے کیا کرنا چاہیے تھا؟، اس پورے معاملے میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور بعض دیگر ججوں، بالخصوص ’تنفیذی بینچ(Implementation bench) ‘کے ججوں نے اس معاملے میں کیا کردار ادا کیا؟
اب بحریہ ٹاؤن، ملک ریاض اور اس معاملے کے دیگر کرداروں کی کیا پوزیشن ہے اور ان کے متعلق قانونی کارروائی کہاں تک پہنچی ہے؟
کل سے جاری شور شرابے میں یہ سوالات کیوں اٹھائے نہیں جارہے اور ان پر بحث کیوں نہیں ہورہی؟ ان سوالات پر بحث کے بغیر اس معاملے کی صحیح نوعیت سمجھی ہی نہیں جاسکتی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اکاؤنٹ القادر ٹرسٹ القادر یونیورسٹی بحریہ ٹاؤن برطانیہ تحقیقات چیف جسٹس سپریم کورٹ کرائم ایجنسی کراچی ملک ریاض ملک ریاض احمد ملیر ملین پاؤنڈز وی نیوز سپریم کورٹ بحریہ ٹاؤن اس معاملے ملک ریاض اور ان اور اس
پڑھیں:
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی مدت میں 30 نومبر تک توسیع کردی گئی
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی مدت میں 30 نومبر تک توسیع کردی۔
سپریم کورٹ میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اہم اجلاس چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں اہم عدالتی فیصلوں اور انتظامی امور پر غور کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی مدت میں 30 نومبر تک توسیع کردی جائے گی۔ واضح رہے کہ یہ بینچ اہم آئینی مقدمات کی سماعت کے لیے تشکیل دیا گیا تھا، اور اس کی مدت میں توسیع کا فیصلہ موجودہ عدالتی ضروریات کے پیش نظر کیا گیا۔
جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں دیگر سینئر جج صاحبان اور متعلقہ حکام نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کے دوران مستقبل کے عدالتی شیڈول، ججز کی تقرریوں اور عدالتی اصلاحات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
عدالتی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئینی بینچ کی مدت میں توسیع سے عدالت عظمیٰ کو زیر التوا آئینی مقدمات کو مؤثر طریقے سے نمٹانے میں مدد ملے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئنینی بینچ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان سپریم کورٹ آف پاکستان