دفتر خارجہ نے مراکش کشتی حادثہ میں جانے والے پاکستانیوں کی فہرست جاری کردی
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
دفتر خارجہ نے مراکش کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والے پاکستانی شہریوں کی فہرست جاری کردی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کے ایک جاری بیان کے مطابق، الداخلہ کے قریب کشتی حادثے میں بچ جانے والوں میں 21 پاکستانی شامل ہیں، مصدقہ اطلاعات کے مطابق میری ٹائم کے ریسکیو آپریشن میں 21 پاکستانیوں کو بچایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: مراکش کشتی حادثہ: اسحاق ڈار کی حکام کو متاثرین کی فوری اور مؤثر معاونت کی ہدایت
بیان میں کہا گیا کہ رباط میں پاکستانی سفارتخانے کے ذریعے متاثرہ افراد کو فوری رسپانس دیا گیا ہے، پاکستانی سفارتخانے نے ابتدائی ضروریات تمام متاثرین کو مہیا کردی ہیں۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے متاثرہ پاکستانی شہریوں کو کھانا، پانی، دوائیں اور کپڑے فراہم کردیے گئے ہیں جبکہ میڈیکل ٹیمیں بھی ریلیف آپریشن میں شامل ہیں۔۔
انہوں نے بتایا کہ آپریشن کی مزید نگرانی کے لیے پاکستانی سفارتخانہ اور حکومت پاکستان مراکش حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں، تمام تر صورت حال کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کشتی حادثہ: تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطحی ٹیم مراکش روانہ
دفتر خارجہ کے مطابق، مراکس کشتی حادثے میں بچ جانے والے پاکستانیوں میں مدثر حسین، وسیم خالد، محمد خالق، عبدالغفار، گل شامیر، تنویر احمد، محمد عباس کاظمی، غلام مصطفیٰ، عمران اقبال، شعیب ظفر، علی حسن، محمد آصف اور بلاول اقبال شامل ہیں۔ بچ جانے والے پاکستانیوں میں سید بدر محی الدین، سید مہتاب الحسن، عزیر بشارت، مجاہد علی، عامر علی، محمد عمر فاروقی، ارسلان اور عرفان احمد بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ چند روز قبل مغربی افریقہ سے کشتی کے ذریعے غیرقانونی طور پر اسپین پہنچنے کی کوشش کرنے والے کم از کم 50 تارکین وطن ہلاک ہو گئے تھے جن میں 44 افراد کا تعلق پاکستان سے تھا۔
یہ بھی پڑھیں: یونان کشتی حادثات: 65 ایف آئی اے افسران بلیک لسٹ، انسانی اسمگلرز کے خلاف کارروائی کا حکم
اس کشتی میں 66 پاکستانیوں سمیت 86 افراد شامل تھے جن میں سے 36 افراد کو بچالیا گیا۔ بعد میں سامنے آنے والی تفصیلات میں بتایا گیا تھا کہ ان تارکین وطن کو انسانی اسمگلرز نے مزید رقم کا مطالبہ کرتے ہوئے مبینہ طور پر تشدد کرکے قتل کیا تھا۔
گزشتہ روز وزیراعظم کی ہدایت پر کشتی حادثہ کی تحقیقات کے لیے ایک تحقیقاتی ٹیم مراکش روانہ ہوئی تھی۔ اس ٹیم میں ایف آئی اے، وزارت داخلہ، وزارت خارجہ اور انٹیلجنس بیورو کی طرف سے ایک ایک افسرشامل ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بچ جانے والے پاکستانی دفتر خارجہ فہرست جاری کشتی حادثہ مراکش.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بچ جانے والے پاکستانی دفتر خارجہ فہرست جاری کشتی حادثہ مراکش بچ جانے والے پاکستانی دفتر خارجہ کشتی حادثہ شامل ہیں کے لیے
پڑھیں:
امریکا:بھارت منشیات کی پیدا وار والےممالک میں شامل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو منشیات کی اسمگلنگ اور غیر قانونی منشیات کی پیداوار میں ملوث 23 ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ اس فہرست میں بھارت کے علاوہ پاکستان، افغانستان، چین، کولمبیا، بولیویا اور وینزویلا جیسے ممالک شامل ہیں۔ کانگریس (امریکی پارلیمنٹ) میں پیش کیے گئے صدارتی فیصلہ میں ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے 23 ممالک کی نشاندہی کی ہے جو منشیات کی غیر قانونی پیداوار اور اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان ممالک میں افغانستان، بہاماس، گوئٹے مالا، ہیٹی، بیلیز، بھارت، جمیکا، لاو ¿س، بولیویا، میانمار، چین، کولمبیا، کوسٹاریکا، ڈومینیکن ریپبلک، ایکواڈور، ایل سلواڈور، ہونڈوراس، میکسیکو، نکاراگوا، پاکستان، پاناما، پیرو اور وینزویلا شامل ہیں۔وائٹ ہاو ¿س نے کہا کہ ٹرمپ نے کانگریس کو ان بڑے ممالک کی فہرست پیش کی جو امریکا میں غیر قانونی منشیات کی سپلائی اور اسمگلنگ کرتے ہیں۔یہ بات افغانستان سمیت پانچ ممالک کے بارے میں کہی گئی۔صدارتی فیصلہ میں جن 23 ممالک کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان میں سے پانچ (افغانستان، بولیویا، میانمار، کولمبیا اور وینزویلا) اپنی کوششوں کو مکمل طور پر نافذ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ان سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے انسداد منشیات آپریشنز کو بہتر بنائیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق یہ ممالک غیر قانونی ادویات اور ان کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کی تیاری اور اسمگلنگ کے ذریعے امریکا اور اس کے عوام کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے واضح کیا کہ فہرست میں کسی ملک کی موجودگی لازمی طور پر اس ملک کی حکومت کی انسداد منشیات کی کوششوں یا امریکہ کے ساتھ اس کے تعاون کی سطح کی عکاسی نہیں کرتی۔